سیاست احتساب اور الزامات

بشیر میمن کے الزامات کی آزادانہ تفتیش کروائی جائے تاکہ الزامات کی سیاست سے پھیلنے والے ابہامات کا خاتمہ ہوسکے


سالار سلیمان April 30, 2021
بشیر میمن کے الزامات انتہائی خوفناک ہیں۔ ان کی مکمل انکوائری کروائی جائے۔ (فوٹو: فائل)

ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے حکومت وقت پر انتہائی سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کردیے ہیں۔ یہ الزامات انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں فیصلہ آنے کے بعد ایک نجی چینل کے شو میں کہے ہیں۔

بشیر میمن نے جو الزامات لگائے ہیں اس کے چیدہ نکات یہ رہے کہ وزیراعظم چاہتے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایف آئی اے کسی طرح سے کیس کرے۔ اُن کے مطابق وزیراعظم سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ جو کہتا ہے وہاں وہ ہوتا ہے اور تم یہاں آئین اور قانون کی بات کررہے ہو۔ ان کے مطابق وزیراعظم اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، سلمان شہباز اور کیپٹن صفدر کے خلاف بھی سخت ایکشن چاہتے تھے۔ ان کے مطابق وہ اپوزیشن اور صحافیوں کے بھی پرزے کسے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔

بشیر میمن کے الزامات انتہائی خوفناک ہیں۔ میری درخواست ہے کہ ان کی مکمل انکوائری کروائی جائے۔ اب ہم ان الزامات کی گہرائی دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت کے مائنڈ سیٹ کو دیکھتے ہیں اور یہاں ہم فرض کرلیتے ہیں کہ بشیر میمن کے الزامات سچ ہیں۔ اگر ان کے الزامات کو سچ مان لیا جائے تو سب سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم کا مرکز تو پھر وزیراعظم ہاؤس ہوا، اس مہم کے نگران وزیراعظم ہوئے اور اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اداروں کو استعمال کیا ہے اور ان پر دباؤ ڈالا۔

مثال کے طور پر بشیر میمن نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وزیراعظم نے مجھ سے کہا، میں نے نیب سے کہا اور نیب نے اگلے ہی دن شہباز شریف کو گرفتار کرلیا، اس کو وفاداری کہتے ہیں۔ اب اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم کی توجہ امور مملکت کے بجائے اپوزیشن کی جانب ہے جس کو وہ دشمن سمجھتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حد تک تھا تو سپریم کورٹ نے اس باب کو بند کردیا ہے اور ان کے خلاف تمام تر الزامات اور ریفرنسز جھوٹ ہی ثابت ہوئے ہیں، تاہم اگلے ذرائع سے اڑتی ہوئی یہ رپورٹ موجود ہے کہ جسٹس صاحب کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے سے روکنے کےلیے کچھ اور بھی کیا جائے گا۔ اب اگر معاملہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو رگیدنے کا ہے تو پھر تصویر بہتر نظر آتی ہے۔ اپوزیشن کے خلاف اس دور حکومت میں بے شمار کیس بنائے گئے ہیں۔ یہ ایک کیس سے نکلتے ہیں تو ان کو دوسرے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ یہ جب تک وہاں سے نکلتے ہیں تو ان کےلیے نیا پھندہ تیار ہوتا ہے اور یہ بے چارے مجبوری میں اس کو چوم کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں۔

حکومتی حلقوں کے مطابق چونکہ بشیر میمن کو ریٹائر کیا گیا تھا، اس لیے یہ اپنا غصہ نکال رہے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں بشیر میمن نے صرف بیانات دیے ہیں یعنی کہ الزامات عائد کئے ہیں۔ یہ الزامات اب ریکارڈ کا حصہ ہیں اور ایک غیر جانبدار انکوائری دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر سکتی ہے۔ اگر بشیر میمن کے بیانات کا بھی اس کے ساتھ تجزیہ کریں تو پھر بات سمجھ میں آتی ہے لیکن وہ بیشتر لمحات میں ٹو دی پوائنٹ ہی رہے ہیں۔

اب اگر ہم صورتحال کا بغور جائزہ لیں اور نمبرز کو ملانا شروع کریں تو ہمیں بشیر میمن کے الزامات میں سچائی نظر آتی ہے۔ جیسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس ہوا، اس میں جس طرح سے حکومت کی رسوائی ہوئی اور پھر کیسے اپوزیشن کو ایک کے بعد دوسرے کیس میں سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔ بظاہر بشیر میمن کے الزامات درست نظر آتے ہیں اور اگر یہ درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میں احتساب نہیں ہورہا بلکہ محض ناکردہ گناہوں کا انتقام لیا جارہا ہے۔

یہ ایک انتہائی خطرناک مائنڈ سیٹ ہے جو ملک کو آگ اور خون کی طرف بھی دھکیلے گا اور ملک میں اندھیرے بھی لمبے ہوجائیں گے۔ یہ مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ جو بھی حکومت کے خلاف کھڑا ہوگا اب وہ بھلے کوئی سیاستدان ہو، صحافی ہو، جج یا وکیل ہو یا پھر کوئی بیوروکریٹ ہو تو اس کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا، اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ میری متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ بشیر میمن کے الزامات کی آزادانہ تفتیش کروائی جائے کیونکہ اگر ملک میں جاری ایسی سرگرمیوں کا مرکز وزیراعظم ہاؤس ہے اور اس کی نگرانی وزیراعظم خود کر رہے ہیں تو یہ بات خوفناک ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں