بلدیاتی الیکشن سے متعلق فیصلہ سیاسی حکومتوں کی خواہش پوری ہو گئی
عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والے نمائندوں نے ہمیشہ بلدیاتی نظام کے نفاذ سے نہ صرف گریزکیا بلکہ اس کے خلاف سازشیں کیں۔
بلدیاتی انتخابات کے التوا کے بارے میں الیکشن کمیشن کی درخواست کی سپریم کورٹ کی جانب سے منظوری کے بعد ملک میں عدلیہ کے ادارے کے مقام کے بارے میں نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔
عدلیہ کا فیصلہ الیکشن سے فرار حاصل کرنے کی خواہشمند حکومتوں کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی ذاتی حیثیت میں فعالیت کے قطع نظر عدلیہ کا ادارہ نہ صرف ماورائے آئین طاقت کے حامل اداروں سے اپنے احکام تسلیم کرانے میں ناکام رہا ہے بلکہ سویلین حکمرانوں اوربیورو کریسی نے بھی انتہائی چالاکی و چابکدستی سے ادارے کی بالادستی کی قبا اتار کے رکھ دی ہے۔ بلدیاتی انتخابات بھی عام انتخابات کی طرح آئینی تقاضا ہیں لیکن سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنیوالی مقامی حکومتوں کی اہمیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا، حیرت انگیز طور پر جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جنرل پرویز مشرف نے اس آئینی تقاضے کے نفاذ کے لئے خصوصی دلچسپی لی ،تاہم عام انتخابات میں عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونیوالے نمائندوں نے ہمیشہ اس نظام کے نفاذ سے گریزکیا بلکہ عملی طور پر اس کیخلاف سازشیں کیں۔جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذاتی دلچسپی کے باعث نہ صرف بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کاانعقاد عمل میں آیا اور سندھ و پنجاب کے صوبوں کوبھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا پڑا۔
جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرنے کے قابل ہوسکا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتوں سے اپنے اختیارات تسلیم نہیں کراسکا بلکہ صوبوں میں بیٹھی بیورو کریسی کے ہاتھوں کھیلتا رہا جوعدالت میں تاریخ دینے کے بعد انتخابات سے متعلق حلقہ بندیوں میں تبدیلیوں ، انتخابی فہرستوں ،نئے اضلاع کی تشکیل جیسے امور چھیڑ کر ان تاریخوں پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو متنازع بنادیتیں ، فریقین عدالتوں کا رخ کرتے ، حکومت اور الیکشن کمیشن عدالتوں سے کھیلتے ہوئے ایک طرف عوامی دباؤ سے نجات پالیتے دوسری جانب عدلیہ کی نیک نامی کو بھی داؤ پر لگادیتے۔
اس صورتحال کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت سندھ اور الیکشن کمیشن کے درمیان بیلٹ پیپرز، حلقہ بندیوں اور دیگر وجوہ کی بنیاد پر انتخابات کی تاریخ میں التوا کے عمل میں شریک ایک انتہائی ذمے دار ذریعے نے ایکسپریس کو بتایا کہ حکومت سندھ نے جو موقف الیکشن کمیشن کے روبرو اختیار کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے ایک دن کی مہلت دینے سے بھی انکار کردیا تھا لیکن اب الیکشن کمیشن نے ہمارے ہی دلائل کی بنیاد پر سپریم کورٹ سے نئی تاریخ کی اجازت حاصل کرلی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا رویہ ناقابل فہم ہے ، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما امین الحق نے اس بارے میں ایکسپریس کے استفسار پرجواب دیا کہ وہ عدالتی فیصلوں پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ،ہم ہر انتخاب کی طرح بلدیاتی انتخابات بھی وقت کی پابندی کے ساتھ مقررہ وقت پر ہونے چاہیں جن کی وجہ سے عوام کو ان کی دہلیز پرسہولیات دستیاب ہوتی ہیں ، اگر انتخابات میں ناگزیر وجوہات کی بناء پر کچھ دنوں کے لیے تاخیر ہوتی ہے تو بھی شہری علاقوں کے نمائندوں سمیت اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے ،حلقہ بندیوں کا عمل شفاف اور غیر متعصبانہ بنیادوں پر کیا۔
عدلیہ کا فیصلہ الیکشن سے فرار حاصل کرنے کی خواہشمند حکومتوں کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی ذاتی حیثیت میں فعالیت کے قطع نظر عدلیہ کا ادارہ نہ صرف ماورائے آئین طاقت کے حامل اداروں سے اپنے احکام تسلیم کرانے میں ناکام رہا ہے بلکہ سویلین حکمرانوں اوربیورو کریسی نے بھی انتہائی چالاکی و چابکدستی سے ادارے کی بالادستی کی قبا اتار کے رکھ دی ہے۔ بلدیاتی انتخابات بھی عام انتخابات کی طرح آئینی تقاضا ہیں لیکن سیاستدانوں نے ہمیشہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنیوالی مقامی حکومتوں کی اہمیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا، حیرت انگیز طور پر جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جنرل پرویز مشرف نے اس آئینی تقاضے کے نفاذ کے لئے خصوصی دلچسپی لی ،تاہم عام انتخابات میں عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونیوالے نمائندوں نے ہمیشہ اس نظام کے نفاذ سے گریزکیا بلکہ عملی طور پر اس کیخلاف سازشیں کیں۔جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذاتی دلچسپی کے باعث نہ صرف بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کاانعقاد عمل میں آیا اور سندھ و پنجاب کے صوبوں کوبھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا پڑا۔
جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرنے کے قابل ہوسکا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتوں سے اپنے اختیارات تسلیم نہیں کراسکا بلکہ صوبوں میں بیٹھی بیورو کریسی کے ہاتھوں کھیلتا رہا جوعدالت میں تاریخ دینے کے بعد انتخابات سے متعلق حلقہ بندیوں میں تبدیلیوں ، انتخابی فہرستوں ،نئے اضلاع کی تشکیل جیسے امور چھیڑ کر ان تاریخوں پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو متنازع بنادیتیں ، فریقین عدالتوں کا رخ کرتے ، حکومت اور الیکشن کمیشن عدالتوں سے کھیلتے ہوئے ایک طرف عوامی دباؤ سے نجات پالیتے دوسری جانب عدلیہ کی نیک نامی کو بھی داؤ پر لگادیتے۔
اس صورتحال کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت سندھ اور الیکشن کمیشن کے درمیان بیلٹ پیپرز، حلقہ بندیوں اور دیگر وجوہ کی بنیاد پر انتخابات کی تاریخ میں التوا کے عمل میں شریک ایک انتہائی ذمے دار ذریعے نے ایکسپریس کو بتایا کہ حکومت سندھ نے جو موقف الیکشن کمیشن کے روبرو اختیار کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے ایک دن کی مہلت دینے سے بھی انکار کردیا تھا لیکن اب الیکشن کمیشن نے ہمارے ہی دلائل کی بنیاد پر سپریم کورٹ سے نئی تاریخ کی اجازت حاصل کرلی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا رویہ ناقابل فہم ہے ، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما امین الحق نے اس بارے میں ایکسپریس کے استفسار پرجواب دیا کہ وہ عدالتی فیصلوں پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ،ہم ہر انتخاب کی طرح بلدیاتی انتخابات بھی وقت کی پابندی کے ساتھ مقررہ وقت پر ہونے چاہیں جن کی وجہ سے عوام کو ان کی دہلیز پرسہولیات دستیاب ہوتی ہیں ، اگر انتخابات میں ناگزیر وجوہات کی بناء پر کچھ دنوں کے لیے تاخیر ہوتی ہے تو بھی شہری علاقوں کے نمائندوں سمیت اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے ،حلقہ بندیوں کا عمل شفاف اور غیر متعصبانہ بنیادوں پر کیا۔