مصر کا قائتبائی قلعہ
تاریخ کی ایک عظیم یادگار۔
(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو۔ عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ۔ مصر)
اسکندریہ یا الیگزینڈریا ایک تاریخی شہر ہے، جسے ۳۳۲ قبل مسیح میں سکندراعظم نے تعمیر کیا تھا۔ یہ قاہرہ کے بعد مصر کا دوسرا دارالحکومت ہے۔ یہ صرف ساحل سمندر کی سیاحت پر ہی انحصار نہیں کرتا ہے، بلکہ اس میں خوش گوار سیاحت کے تمام عناصر موجود ہیں جو موسم سرما اور گرمیوں کے لیے موزوں ہیں۔ اسکندریہ میں آثارقدیمہ کی ایک بڑی تاریخ موجود ہے۔
وہ علاقے اور عجائب گھر جو عرب اور غیرملکی سیاحوں کی منزل ہے اور یہاں آنے والوں کی منزل مقصود بھی۔ اس کے علاوہ ملکی سیاح بھی یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں اور خوب صورت ماحول اور اس کے مخصوص موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قائتبائی قلعہ کو بحیرہ روم کے کنارے اسکندریہ کی ایک اہم اور قدیم ترین تاریخی آثار میں ایک خوب صورت جنگی قلعوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے ہی مصر کی تاریخ میں سب سے اہم دفاعی قلعوں میں خاص مقام رکھتا ہے اور اب یہ ایک ایسی تاریخی نشانی بن گئی ہے جس کو اسکندریہ میں سیاحت کے دوران نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ قلعہ اسکندریہ کے مغرب میں واقع ہے، اور بحیرہ روم کے ساحل پر ۵۰۰ سے زیادہ سال قبل فاروس جزیرے کے مشرقی کنارے پر اسکندریہ کے قدیم مینار (لائٹ ہاؤس) کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا، جو دنیا کے قدیم سات عجائبات میں سے ایک تھا اور جو سلطان ناصر محمد بن قلاوون کے دور میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد گرگیا، اس کے تمام حصے ۷۷۷ھ، ۱۳۷۵ء میں تباہ کردیے گئے۔ تاریخی ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر نہ صرف مینار کی ایک ہی جگہ میں ہوئی تھی، بلکہ اس مینار کے قدیم پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جو ناپید ہوچکا ہے۔
مملوک ریاست کے آخر میں ۸۸۲ ھ و ۱۴۷۷ء میں جب سلطان الاشرف ابوالنصر قائتبائی نے اسکندریہ کے شہر کا دورہ کیا اور جب وہ پرانے مینار کے مقام پر گیا تو اس نے ایک عظیم قلعے کی تعمیر کا حکم دیا، جس کو بعد میں قلعہ قائتبائی کہا جانے لگا۔ انہوں نے اس قلعے کی تعمیر ۸۸۲ ھ میں شروع کی اور اس کا اختتام ۸۸۴ ھ میں ہوا۔ اس کی تعمیر دو سال کے اندر مکمل ہوئی اور جو فوجی استعمال کے لیے تیار تھا۔ چوںکہ یہ قلعہ مملوک دور سے ملحق ہے اسی لیے یہ ایک اسلامی یادگار بھی ہے۔
اس قلعے کی تعمیر کی وجہ، اسکندریہ شہر کو مستحکم کرنا اور اسے بیرونی جارحیت سے بچانا تھا۔ سلطان قائتبائی نے اسکندریہ کا بہت خیال رکھا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غیرملکی جنگی کارروائیوں کو پسپا کرنے اور اسکندریہ کو کسی بھی غداری سے بچانے کے مقصد قائم کیا تھا۔ خاص طور پر سلطنت عثمانیہ سے، جس نے اس وقت اس کی سمت کو تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔ اس نے یورپ سے مشرق تک فتح حاصل کی۔
مصر کے سلطانوں اور حکم رانوں نے ہر دور میں اس قلعے کی دیکھ بھال کی ہے۔ مملوک دور میں، مملوک سلطان قنصوہ الغوری نے اس قلعے کا بہت خیال خیال رکھا۔ اس کی تجدید کی اور اس کی چوکی کو بڑھایا، اس کی حدود کی طاقت میں اضافہ کیا اور اسے اسلحے اور سازوسامان سے فراہم کیا۔ اس طرح اس کی اہمیت میں کافی اضافہ ہوا۔جب عثمانیوں نے مصر پر فتح حاصل کی تو انہوں نے اس قلعے کو اپنی حفاظت کے لیے ایک جگہ کے طور پر استعمال کیا اور قلعے کے تحفظ کا خیال رکھا اور اس کے دفاع کے لیے پیادہ، شور ویروں، توپ خانوں اور مختلف گیریژنوں کے گروہ بنائے اور پھر انہوں نے شمالی ساحل پر مصر کے دروازے کا دفاع کرنے کے لیے بھی اس قلعے کا استعمال کیا تھا۔
جب سلطنت عثمانیہ کم زور ہوئی تو قلعے میں تحفظ کا نظام بھی کم زور ہوگیا۔ قلعہ نے اپنے فوجی دستے (گیریژن) کی کم زوری کی وجہ سے اپنی حکمت عملی اور دفاعی اہمیت سے محروم ہونا شروع کردیا اور پھر فرانسیسی فوج نے نپولین بوناپارٹ کی زیرقیادت مصر کے جنگ کے دوران اس پر قبضہ کرنے میں کام یابی حاصل کی، اور ۱۷۹۸ء میں اسکندریہ شہر، کے ساتھ انہوں نے بقیہ مصر پر بھی قبضہ کر لیا۔ جب محمد علی پاشا نے مصر کی حکومت سنبھالی اور اس نے مصر کو، خاص طور پر اس کے شمالی ساحل کو مضبوط کرنے کا کام کیا، تو اس نے قلعے کی دیواروں کی تجدید کی اور دیواروں کو مضبوط بنایا، اپنی عمارتوں کی تجدید کی گئی اور ساحلی توپیں نصب کی گئیں۔
جب احمد عرابی کا انقلاب ۱۸۸۲ء میں واقع ہوا، جس کے نتیجے میں ۱۱ جولائی ۱۸۸۲ء کو اسکندریہ شہر پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس کے بعد مصر پر انگریزوں کا قبضہ ہوا، اس وقت قائتبائی قلعے کو تباہ برباد کردیا گیا، اور ایک عرصے تک قلعہ اسی حالت میں باقی رہا۔ یہاں تک کہ عرب نوادرات کے تحفظ کی کمیٹی نے ۱۹۰۴ء میں اس کی تزئین وآرائش کرنے کے منصوبے پر یہاں بہت سا مرمت کا کام کیا۔
قائتبائی ایک ممتاز حیثیت رکھنے والا قلعہ ہے، جو تینوں اطراف سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔ لوگ قلعے کی خوب صورتی سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ سمندری کنارہ اس کی خوب صورتی میں چار چاند لگاتا ہے۔ یہ قلعہ ایک حیرت انگیز اور شان دار نظارے کا حامل ہے۔
اس کی چھت سے اسکندریہ کا حیرت انگیز منظر دکھائی دیتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے شہر سمندر کو گلے لگارہا ہو۔ گویا یہ ایک خوب صورت مصوری ہے جو ماہر مصوروں کی فن کاری ہے۔ جو بھی شخص قائتبائی قلعے میں داخل ہوتا ہے اسے پہلی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک تاریخ کے روبرو ہے۔ اس کی حیران کرتی راہ داری، اس میں تعمیر کیے گئے کمرے، اس کے تہہ خانے اور یہاں تک کہ چھوٹی کھڑکیاں جن کے ذریعے فوجی دشمنوں پر تیر پھینکتے تھے، یہ سب آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ آپ خود تاریخ کے حصار میں ہیں۔ ہم اس اسٹریٹجک قلعے میں تعمیر کا فن دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا فن تعمیر ہے جس سے قلعے کا وقار اور طاقت ظاہر ہوتی ہے۔
یہ قلعہ ۱۷,۵۵۰ مربع میٹر کے وسیع رقبے پر بنایا گیا تھا۔ قلعے کی دیواریں اندرونی اور بیرونی دیواروں میں منقسم ہیں، اندرونی حصے میں سپاہیوں اور اسلحے کی بیرکیں شامل ہیں، اور چاروں طرف کی بیرونی دیوار میں دفاعی ٹاورز شامل ہیں۔ اس کے چاروں طرف کی بیرونی دیواریں اور اس کی فوجی قوت جب ہم دیکھتے ہیں تو اندازہ لگائیں گے کہ یہ دیواریں کسی بھی بیرونی حملے کے خلاف واقعی ایک زبردست اور مضبوط پناہ ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی ہیں جن میں داخل ہونا مشکل ہے۔ پہلی دیوار قلعے کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
اس دیوار سے کمرے ملحق ہیں۔ دو ٹاورز کی شکل قلعے کا ایک مرکزی دروازہ ہے اور اس میں دو دیواریں شامل ہیں، جو دفاعی زون کی نمائندگی کرتی ہیں۔ قلعہ مربع شکل میں بنا ہوا ہے۔ اس کی لمبائی ۳۰ میٹر اور اونچائی ۱۷ میٹر ہے۔ یہ ٹھوس چونے اور پتھر سے بنایا گیا ہے اور یہ تین مربع منزل پر مشتمل ہے۔ اس میں سے ہر ایک سے چار کونوں پر، ایک سرکلر ٹاور مین ٹاور کی چھت سے ابھرتا ہے، اور بالا سے نمایاں بالکونیوں پر ختم ہوتا ہے اور اس میں تیر چلانے کے لیے جگہ بھی ہے۔ قلعے کی پہلی منزل پر ایک مسجد ہے جو اسکندریہ میں قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔
پہلی منزل میں بھی ایک خوب صورت صحن اور وسیع راہ داری ہے، جس سے فوجیوں کو قلعے پر کسی بھی حملے کی صورت میں آسانی سے گزرنے کی اجازت ملتی ہے۔ دوسری منزل میں بہت سے کمرے، کشادہ ہال اور راہ داری شامل ہیں۔ قلعے کی تیسری منزل میں ایک بڑا کمرہ (سلطان قائتبائی کی نشست) بھی شامل ہے، جہاں وہ بیٹھ کر اسکندریہ سے گزرنے والے جہازوں کو دیکھتا تھا۔ اس منزل میں گندم کی روٹی تیار کرنے کے لیے ایک تندور کے علاوہ قلعے میں مقیم فوجیوں کے لیے اناج پیسنے کے لیے ایک چکی بھی موجود ہے۔
قلعے کے رہائشیوں کے استعمال کے لیے تازہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑا حوض ہے۔ فوجی جیل قیدیوں کو رکھنے کے لیے قلعے کے زیرزمین جیل واقع ہے۔ اندر سے قلعے کی سب سے اہم خصوصیت فوجیوں کی راہ داریوں کا عظیم انجینئرنگ ڈیزائن ہے۔ یہاں قلعے کے ساتھ ہی سمندری حیات کا ایک میوزیم بھی ہے، جہاں آپ اس کی راہ داریوں میں مچھلیاں اور ایک حقیقی ڈائنوسار کا پنجر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کرائے کی کشتی لے کر ماہی گیری بھی کی جاسکتی ہے۔
چوںکہ یہ قلعہ اسکندریہ کے ایک انتہائی اہم آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک ہے، اسی لیے قلعے کو دیکھنے ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ خاص طور سے جمعرات اور جمعہ کے روز مصری لوگ قلعہ دیکھنے آتے ہیں۔ قائتبائی قلعے کے سامنے والا مربع نما ایک انتہائی مشہور چوک ہے، جس میں تفریح کا سامان دست یاب ہے۔ یہاں بچوں کے کھیل، گھوڑوں کی سواریوں، اور سائیکلوں کے ساتھ ایسے بازار قلعے کی واک وے پر پھیلے ہیں جہاں مختلف اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔
سیاح بھی بڑے شوق سے یہاں چیزیں خریدتے ہیں جو بحیرۂ روم کی دلہن اسکندریہ کی یادگار سمجھی جاتی ہیں۔ قلعہ کے آس پاس غیرملکی سیاح اور مصری لوگ یہاں فروخت ہونے والے روایتی لباس اور دیگر اشیاء خریدتے ہیں یا روایتی لباس پہن کر تصویر کھنچواتے ہیں۔ قلعے کے پاس کھانے پینے کی اشیاء بھی دست یاب ہیں، جہاں بیٹھ کر لوگ کھانے پینے کے ساتھ سمندر اور قلعے کے نظارے سے لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔
اسکندریہ یا الیگزینڈریا ایک تاریخی شہر ہے، جسے ۳۳۲ قبل مسیح میں سکندراعظم نے تعمیر کیا تھا۔ یہ قاہرہ کے بعد مصر کا دوسرا دارالحکومت ہے۔ یہ صرف ساحل سمندر کی سیاحت پر ہی انحصار نہیں کرتا ہے، بلکہ اس میں خوش گوار سیاحت کے تمام عناصر موجود ہیں جو موسم سرما اور گرمیوں کے لیے موزوں ہیں۔ اسکندریہ میں آثارقدیمہ کی ایک بڑی تاریخ موجود ہے۔
وہ علاقے اور عجائب گھر جو عرب اور غیرملکی سیاحوں کی منزل ہے اور یہاں آنے والوں کی منزل مقصود بھی۔ اس کے علاوہ ملکی سیاح بھی یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں اور خوب صورت ماحول اور اس کے مخصوص موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قائتبائی قلعہ کو بحیرہ روم کے کنارے اسکندریہ کی ایک اہم اور قدیم ترین تاریخی آثار میں ایک خوب صورت جنگی قلعوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے ہی مصر کی تاریخ میں سب سے اہم دفاعی قلعوں میں خاص مقام رکھتا ہے اور اب یہ ایک ایسی تاریخی نشانی بن گئی ہے جس کو اسکندریہ میں سیاحت کے دوران نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ قلعہ اسکندریہ کے مغرب میں واقع ہے، اور بحیرہ روم کے ساحل پر ۵۰۰ سے زیادہ سال قبل فاروس جزیرے کے مشرقی کنارے پر اسکندریہ کے قدیم مینار (لائٹ ہاؤس) کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا، جو دنیا کے قدیم سات عجائبات میں سے ایک تھا اور جو سلطان ناصر محمد بن قلاوون کے دور میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد گرگیا، اس کے تمام حصے ۷۷۷ھ، ۱۳۷۵ء میں تباہ کردیے گئے۔ تاریخی ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر نہ صرف مینار کی ایک ہی جگہ میں ہوئی تھی، بلکہ اس مینار کے قدیم پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جو ناپید ہوچکا ہے۔
مملوک ریاست کے آخر میں ۸۸۲ ھ و ۱۴۷۷ء میں جب سلطان الاشرف ابوالنصر قائتبائی نے اسکندریہ کے شہر کا دورہ کیا اور جب وہ پرانے مینار کے مقام پر گیا تو اس نے ایک عظیم قلعے کی تعمیر کا حکم دیا، جس کو بعد میں قلعہ قائتبائی کہا جانے لگا۔ انہوں نے اس قلعے کی تعمیر ۸۸۲ ھ میں شروع کی اور اس کا اختتام ۸۸۴ ھ میں ہوا۔ اس کی تعمیر دو سال کے اندر مکمل ہوئی اور جو فوجی استعمال کے لیے تیار تھا۔ چوںکہ یہ قلعہ مملوک دور سے ملحق ہے اسی لیے یہ ایک اسلامی یادگار بھی ہے۔
اس قلعے کی تعمیر کی وجہ، اسکندریہ شہر کو مستحکم کرنا اور اسے بیرونی جارحیت سے بچانا تھا۔ سلطان قائتبائی نے اسکندریہ کا بہت خیال رکھا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غیرملکی جنگی کارروائیوں کو پسپا کرنے اور اسکندریہ کو کسی بھی غداری سے بچانے کے مقصد قائم کیا تھا۔ خاص طور پر سلطنت عثمانیہ سے، جس نے اس وقت اس کی سمت کو تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔ اس نے یورپ سے مشرق تک فتح حاصل کی۔
مصر کے سلطانوں اور حکم رانوں نے ہر دور میں اس قلعے کی دیکھ بھال کی ہے۔ مملوک دور میں، مملوک سلطان قنصوہ الغوری نے اس قلعے کا بہت خیال خیال رکھا۔ اس کی تجدید کی اور اس کی چوکی کو بڑھایا، اس کی حدود کی طاقت میں اضافہ کیا اور اسے اسلحے اور سازوسامان سے فراہم کیا۔ اس طرح اس کی اہمیت میں کافی اضافہ ہوا۔جب عثمانیوں نے مصر پر فتح حاصل کی تو انہوں نے اس قلعے کو اپنی حفاظت کے لیے ایک جگہ کے طور پر استعمال کیا اور قلعے کے تحفظ کا خیال رکھا اور اس کے دفاع کے لیے پیادہ، شور ویروں، توپ خانوں اور مختلف گیریژنوں کے گروہ بنائے اور پھر انہوں نے شمالی ساحل پر مصر کے دروازے کا دفاع کرنے کے لیے بھی اس قلعے کا استعمال کیا تھا۔
جب سلطنت عثمانیہ کم زور ہوئی تو قلعے میں تحفظ کا نظام بھی کم زور ہوگیا۔ قلعہ نے اپنے فوجی دستے (گیریژن) کی کم زوری کی وجہ سے اپنی حکمت عملی اور دفاعی اہمیت سے محروم ہونا شروع کردیا اور پھر فرانسیسی فوج نے نپولین بوناپارٹ کی زیرقیادت مصر کے جنگ کے دوران اس پر قبضہ کرنے میں کام یابی حاصل کی، اور ۱۷۹۸ء میں اسکندریہ شہر، کے ساتھ انہوں نے بقیہ مصر پر بھی قبضہ کر لیا۔ جب محمد علی پاشا نے مصر کی حکومت سنبھالی اور اس نے مصر کو، خاص طور پر اس کے شمالی ساحل کو مضبوط کرنے کا کام کیا، تو اس نے قلعے کی دیواروں کی تجدید کی اور دیواروں کو مضبوط بنایا، اپنی عمارتوں کی تجدید کی گئی اور ساحلی توپیں نصب کی گئیں۔
جب احمد عرابی کا انقلاب ۱۸۸۲ء میں واقع ہوا، جس کے نتیجے میں ۱۱ جولائی ۱۸۸۲ء کو اسکندریہ شہر پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس کے بعد مصر پر انگریزوں کا قبضہ ہوا، اس وقت قائتبائی قلعے کو تباہ برباد کردیا گیا، اور ایک عرصے تک قلعہ اسی حالت میں باقی رہا۔ یہاں تک کہ عرب نوادرات کے تحفظ کی کمیٹی نے ۱۹۰۴ء میں اس کی تزئین وآرائش کرنے کے منصوبے پر یہاں بہت سا مرمت کا کام کیا۔
قائتبائی ایک ممتاز حیثیت رکھنے والا قلعہ ہے، جو تینوں اطراف سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔ لوگ قلعے کی خوب صورتی سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ سمندری کنارہ اس کی خوب صورتی میں چار چاند لگاتا ہے۔ یہ قلعہ ایک حیرت انگیز اور شان دار نظارے کا حامل ہے۔
اس کی چھت سے اسکندریہ کا حیرت انگیز منظر دکھائی دیتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے شہر سمندر کو گلے لگارہا ہو۔ گویا یہ ایک خوب صورت مصوری ہے جو ماہر مصوروں کی فن کاری ہے۔ جو بھی شخص قائتبائی قلعے میں داخل ہوتا ہے اسے پہلی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک تاریخ کے روبرو ہے۔ اس کی حیران کرتی راہ داری، اس میں تعمیر کیے گئے کمرے، اس کے تہہ خانے اور یہاں تک کہ چھوٹی کھڑکیاں جن کے ذریعے فوجی دشمنوں پر تیر پھینکتے تھے، یہ سب آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ آپ خود تاریخ کے حصار میں ہیں۔ ہم اس اسٹریٹجک قلعے میں تعمیر کا فن دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا فن تعمیر ہے جس سے قلعے کا وقار اور طاقت ظاہر ہوتی ہے۔
یہ قلعہ ۱۷,۵۵۰ مربع میٹر کے وسیع رقبے پر بنایا گیا تھا۔ قلعے کی دیواریں اندرونی اور بیرونی دیواروں میں منقسم ہیں، اندرونی حصے میں سپاہیوں اور اسلحے کی بیرکیں شامل ہیں، اور چاروں طرف کی بیرونی دیوار میں دفاعی ٹاورز شامل ہیں۔ اس کے چاروں طرف کی بیرونی دیواریں اور اس کی فوجی قوت جب ہم دیکھتے ہیں تو اندازہ لگائیں گے کہ یہ دیواریں کسی بھی بیرونی حملے کے خلاف واقعی ایک زبردست اور مضبوط پناہ ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی ہیں جن میں داخل ہونا مشکل ہے۔ پہلی دیوار قلعے کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
اس دیوار سے کمرے ملحق ہیں۔ دو ٹاورز کی شکل قلعے کا ایک مرکزی دروازہ ہے اور اس میں دو دیواریں شامل ہیں، جو دفاعی زون کی نمائندگی کرتی ہیں۔ قلعہ مربع شکل میں بنا ہوا ہے۔ اس کی لمبائی ۳۰ میٹر اور اونچائی ۱۷ میٹر ہے۔ یہ ٹھوس چونے اور پتھر سے بنایا گیا ہے اور یہ تین مربع منزل پر مشتمل ہے۔ اس میں سے ہر ایک سے چار کونوں پر، ایک سرکلر ٹاور مین ٹاور کی چھت سے ابھرتا ہے، اور بالا سے نمایاں بالکونیوں پر ختم ہوتا ہے اور اس میں تیر چلانے کے لیے جگہ بھی ہے۔ قلعے کی پہلی منزل پر ایک مسجد ہے جو اسکندریہ میں قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔
پہلی منزل میں بھی ایک خوب صورت صحن اور وسیع راہ داری ہے، جس سے فوجیوں کو قلعے پر کسی بھی حملے کی صورت میں آسانی سے گزرنے کی اجازت ملتی ہے۔ دوسری منزل میں بہت سے کمرے، کشادہ ہال اور راہ داری شامل ہیں۔ قلعے کی تیسری منزل میں ایک بڑا کمرہ (سلطان قائتبائی کی نشست) بھی شامل ہے، جہاں وہ بیٹھ کر اسکندریہ سے گزرنے والے جہازوں کو دیکھتا تھا۔ اس منزل میں گندم کی روٹی تیار کرنے کے لیے ایک تندور کے علاوہ قلعے میں مقیم فوجیوں کے لیے اناج پیسنے کے لیے ایک چکی بھی موجود ہے۔
قلعے کے رہائشیوں کے استعمال کے لیے تازہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑا حوض ہے۔ فوجی جیل قیدیوں کو رکھنے کے لیے قلعے کے زیرزمین جیل واقع ہے۔ اندر سے قلعے کی سب سے اہم خصوصیت فوجیوں کی راہ داریوں کا عظیم انجینئرنگ ڈیزائن ہے۔ یہاں قلعے کے ساتھ ہی سمندری حیات کا ایک میوزیم بھی ہے، جہاں آپ اس کی راہ داریوں میں مچھلیاں اور ایک حقیقی ڈائنوسار کا پنجر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کرائے کی کشتی لے کر ماہی گیری بھی کی جاسکتی ہے۔
چوںکہ یہ قلعہ اسکندریہ کے ایک انتہائی اہم آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک ہے، اسی لیے قلعے کو دیکھنے ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ خاص طور سے جمعرات اور جمعہ کے روز مصری لوگ قلعہ دیکھنے آتے ہیں۔ قائتبائی قلعے کے سامنے والا مربع نما ایک انتہائی مشہور چوک ہے، جس میں تفریح کا سامان دست یاب ہے۔ یہاں بچوں کے کھیل، گھوڑوں کی سواریوں، اور سائیکلوں کے ساتھ ایسے بازار قلعے کی واک وے پر پھیلے ہیں جہاں مختلف اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔
سیاح بھی بڑے شوق سے یہاں چیزیں خریدتے ہیں جو بحیرۂ روم کی دلہن اسکندریہ کی یادگار سمجھی جاتی ہیں۔ قلعہ کے آس پاس غیرملکی سیاح اور مصری لوگ یہاں فروخت ہونے والے روایتی لباس اور دیگر اشیاء خریدتے ہیں یا روایتی لباس پہن کر تصویر کھنچواتے ہیں۔ قلعے کے پاس کھانے پینے کی اشیاء بھی دست یاب ہیں، جہاں بیٹھ کر لوگ کھانے پینے کے ساتھ سمندر اور قلعے کے نظارے سے لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔