سزائے موتحکومت سندھ کاوفاق کورائے دینے سے انکار
پریشان وفاقی حکومت نے8ہزارقیدیوں کی سزائے موت پرعمل کیلیے صوبوں سے رائے مانگ لی
وفاقی حکومت سزائے موت کے 8ہزار قیدیوں کی سزاؤں پر عمل درآمدکے سلسلے میںتذبذب کا شکارہے اس لیے حتمی فیصلے کے لیے خودذمے داری لینے کے بجائے دیگرکو بھی شریک کرناچاہتی ہے۔
عدالتی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ سزاؤں پر عمل درآمدنہ ہونے کے باعث دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سزائے موت ختم کرنے یاعمل درآمدکے لیے وفاقی حکومت نے صوبوں سے رائے طلب کرلی ہے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت نے وفاق کوآگاہ کردیا ہے کہ یہ خالصتاً وفاقی معاملہ ہے اس لیے وفاق خوداس بارے میں فیصلہ کرے۔ ذرائع کے مطابق ملک بھرمیں 450جبکہ سندھ کی جیلوں میں قتل اوردہشت گردی کی دیگروارداتوں میں ملوث 180قیدی پھانسی کے منتظرہیں جن میں ایم کیوایم کے صولت مرزا، کالعدم تنظیم کے عطااللہ، اعظم اوربہرام خان سمیت کالعدم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجرم بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے حکومت نے 2008میں سزائے موت پرعمل درآمدروک دیاتھا اوراس حوالے سے سابق صدرزرداری حکم امتناع جار ی کرتے رہے ہیں جس کی مدت جون2013 میں ختم ہوگئی تھی۔
بعدازاں 2013کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی مسلم لیگ(ن) سزائے موت کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بناسکی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی وملکی تنظیمیں سزائے موت ختم کرنے کامطالبہ کررہی ہیں۔ ذرائع نے ایکسپریس کوبتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے سزائے موت سے متعلق قانون میں ترمیم کے لیے تمام صوبوں سے رائے طلب کی ہے۔ اس حوالے سے سندھ حکومت نے مستعفی ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹرخالد جاویدکو جواب تیارکرنے کی ہدایت کی تھی۔ سندھ حکومت نے اپنی رائے سے وفاق کوآگاہ کردیاہے کہ یہ وفاقی معاملہ ہے اس لیے صوبائی حکومت کااس سلسلے میں کوئی کردارنہیں۔ صوبے کووفاقی معاملات میں مداخلت سے گریزکرنا چاہیے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھرکی جیلوں میں سزائے موت پانے والے 8 ہزارسے زائدقیدی موجودہیں جن میں 450ایسے ہیں جن کی ہرسطح پراپیل مستردکی جاچکی ہے اوروہ پھانسی گھاٹ پرموت کے منتظرہیں۔ سندھ میں سزائے موت کے منتظر 180قیدی پھانسی گھاٹ میں ہیں جن کی سزاؤں پر عمل درآمدروک دیاگیا ہے۔ ان قیدیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اورکالعدم تنظیموں کے ارکان شامل ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ کے صولت مرزا، عطااللہ، بہرام خان سمیت کالعدم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجرم بھی شامل ہیں۔ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ملزمان عطااللہ اوراعظم کوجولائی 2004میں سزائے موت سنائی تھی۔
بعدازاں سندھ ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ کی جانب سے اپیلیں مسترد ہونے پر صدرمملکت نے بھی رحم کی اپیل مسترد کردی تھی۔ ملزمان نے سولجربازار کے علاقے میں 2جون 2001کو ڈاکٹرعلی رضاپیرانی کوکلینک سے نکلتے ہوئے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیاتھا جبکہ بہرام خان نے 15اپریل 2003کو اپنے ساتھی سب انسپکٹر پیربخش کے ہمراہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس زوار حسین جعفری کی عدالت میں محمداشرف راجپوت ایڈووکیٹ کوفائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 25جون 2003کو بہرام خان کوسزائے موت اور پیربخش کو عمرقید کی سزاسنائی تھی۔
عدالتی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ سزاؤں پر عمل درآمدنہ ہونے کے باعث دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سزائے موت ختم کرنے یاعمل درآمدکے لیے وفاقی حکومت نے صوبوں سے رائے طلب کرلی ہے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت نے وفاق کوآگاہ کردیا ہے کہ یہ خالصتاً وفاقی معاملہ ہے اس لیے وفاق خوداس بارے میں فیصلہ کرے۔ ذرائع کے مطابق ملک بھرمیں 450جبکہ سندھ کی جیلوں میں قتل اوردہشت گردی کی دیگروارداتوں میں ملوث 180قیدی پھانسی کے منتظرہیں جن میں ایم کیوایم کے صولت مرزا، کالعدم تنظیم کے عطااللہ، اعظم اوربہرام خان سمیت کالعدم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجرم بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے حکومت نے 2008میں سزائے موت پرعمل درآمدروک دیاتھا اوراس حوالے سے سابق صدرزرداری حکم امتناع جار ی کرتے رہے ہیں جس کی مدت جون2013 میں ختم ہوگئی تھی۔
بعدازاں 2013کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی مسلم لیگ(ن) سزائے موت کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بناسکی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی وملکی تنظیمیں سزائے موت ختم کرنے کامطالبہ کررہی ہیں۔ ذرائع نے ایکسپریس کوبتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے سزائے موت سے متعلق قانون میں ترمیم کے لیے تمام صوبوں سے رائے طلب کی ہے۔ اس حوالے سے سندھ حکومت نے مستعفی ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹرخالد جاویدکو جواب تیارکرنے کی ہدایت کی تھی۔ سندھ حکومت نے اپنی رائے سے وفاق کوآگاہ کردیاہے کہ یہ وفاقی معاملہ ہے اس لیے صوبائی حکومت کااس سلسلے میں کوئی کردارنہیں۔ صوبے کووفاقی معاملات میں مداخلت سے گریزکرنا چاہیے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک بھرکی جیلوں میں سزائے موت پانے والے 8 ہزارسے زائدقیدی موجودہیں جن میں 450ایسے ہیں جن کی ہرسطح پراپیل مستردکی جاچکی ہے اوروہ پھانسی گھاٹ پرموت کے منتظرہیں۔ سندھ میں سزائے موت کے منتظر 180قیدی پھانسی گھاٹ میں ہیں جن کی سزاؤں پر عمل درآمدروک دیاگیا ہے۔ ان قیدیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اورکالعدم تنظیموں کے ارکان شامل ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ کے صولت مرزا، عطااللہ، بہرام خان سمیت کالعدم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجرم بھی شامل ہیں۔ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ملزمان عطااللہ اوراعظم کوجولائی 2004میں سزائے موت سنائی تھی۔
بعدازاں سندھ ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ کی جانب سے اپیلیں مسترد ہونے پر صدرمملکت نے بھی رحم کی اپیل مسترد کردی تھی۔ ملزمان نے سولجربازار کے علاقے میں 2جون 2001کو ڈاکٹرعلی رضاپیرانی کوکلینک سے نکلتے ہوئے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیاتھا جبکہ بہرام خان نے 15اپریل 2003کو اپنے ساتھی سب انسپکٹر پیربخش کے ہمراہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس زوار حسین جعفری کی عدالت میں محمداشرف راجپوت ایڈووکیٹ کوفائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر 25جون 2003کو بہرام خان کوسزائے موت اور پیربخش کو عمرقید کی سزاسنائی تھی۔