’’جو‘‘ صحت و توانائی کا خزانہ
ایک تحقیق کے مطابق سحری میں جو کے آٹے سے بنی روٹی کھانے سے روزہ دار دن بھر بھوک اور پیاس سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
پہلی آیات کے نزول کے وقت غار حرا میں نبی کریمﷺ کے ہمراہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ اگر کسی تیسری چیز کو سعادت ملی کہ اسے نبی کریمﷺ کی قربت میسر رہے تو وہ جو یعنی Barley کی غذا تھی جو ستو کی شکل میں غارِحرا میں موجود تھی۔
آج مقام فکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اس پسندیدہ غذا کو ہم فراموش کیے بیٹھے ہیں، اور اس غذا سے ہم اتنے فوائد حاصل نہیں کر پارہے جتنے اس میں پنہاں ہیں۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ 100کے قریب بیماریوں کا علاج جو کی غذا میں پنہاں ہے جب کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جو کی غذا سے بندے کے اندر جو غلاظتیں، کثافتیں اور نجاستیں ہیں وہ ایسے دور ہوتی ہیں جیسے منہ دھوئیں تو گرد دور ہوجاتی ہے۔
خاندان نبوت ﷺ میں اگر کسی فرد کو صحت کا معاملہ درپیش ہوتا تو اسے خصوصی طور پر جو کی غذا کی ہدایت کی جاتی۔ لوگوں کو اگر نبی کریمﷺ سے منسلک کسی خوراک کا علم ہو جاتا تو وہ اس کو پانے کی تگ و دو میں لگ جاتے اور فوری تناول کرتے۔
وضو کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ لوگ آپ ﷺ کے وضو سے زمین پر گرنے والے چھینٹوں کے حصول میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے، فائدے اور نقصان کو وہ لوگ پس پشت ڈال دیتے تھے بلکہ نبی کریم ﷺ کی حرکات و سکنات ، قیلولے کا انداز، کاروبار، معاملات ِ زندگی پر ان کا ایمان اس حد تک مضبوط تھا کہ جو کچھ بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا بس وہی حرف آخر ہوتا، مگر آج مقام افسوس ہے کہ ہم رسول اکرمؐؐ کے حکم کے مطابق 3 سانسوں میں پانی پینا تو درکنار بیٹھ کر پانی پینا بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔
کسی دعوت پر چلے جائیں، کھڑے ہو کر صرف اس لیے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں کہ گوشت کی اگلی پلیٹ بھی تو پیٹ میں اتارنی ہے اور اگر بیٹھ کر کھانا کھایا تو کہیں پرات سے گوشت ہی ختم نہ ہو جائے۔ ماہ رمضان میں بھی ہمارا یہی حال ہے کہ کسی کی افطاری پر جانا ہو تو کھانے پر ایسے حملہ آور ہوتے کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔ گھر میں بھی یہی حال ہے کہ سحری کے وقت آخری اذان کی آواز تک پیٹ بھرنے میں لگے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی چیز رہ نہ جائے ۔۔ سارا دن بھی تو گزارنا ہے ۔۔حیرت ہے کہ اپنے پیٹ کو بھی ہم اپنا پیٹ سمجھ نہیں سکے۔
ہم بسیار خوری سے پیٹ کے تمام جملہ امراض لاحق کر بیٹھتے ہیں پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان کے ایک مہینے کے روزے، انسانی بدن کی سارا سال ٹیوننگ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، گورے اس چیز کو مان چکے ہیں بلکہ جاپان کا ایک سائنس داں تو صرف اس بات پر نوبل ایوارڈ لے اڑا کہ سال بھر میں 25/30 دن کے لیے سارا دن بھوکے رہ جائیں تو انسان بدن کے اندر آٹو فیگی خلیے(Autophagy cells) وہ کام کر جاتے ہیں جو انسان کو کینسر جیسے مہلک مرض سے بچا لیتے ہیں، گوروں کی تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کسی کو اگر ذیابیطس (شوگر)، فشارِ قلب (بلڈ پریشر)، تناؤ (ٹینشن) یا کولیسٹرول جیسے امراض لاحق ہوں تو وہ ابھی کوئی بھی دوا نہ لے بلکہ گندم کے آٹے سے بنی صرف روٹی چھوڑ دے۔
اس کی آدھی بیماری ختم ہوجائے گی، یعنی بغیر دوا کھائے ابھی اس نے صرف غذا بدلی ہے تو آدھا مرض ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ مریض گندم کے آٹے کی بجائے کون سی روٹی کھائے ۔۔۔۔ یورپی ممالک کی تحقیق کے مطابق انہوں نے 2 طرح کے آٹے سے بنی روٹی کھانے کی سفارش کی ہے، ایک مکئی کا آٹا اور دوسرا جو کے آٹے سے بنی روٹی ۔۔لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ مجھے تو نسبت سے غرض ہے، اس لیے جو کے آٹے سے بنی روٹی ہی پسند کروں گا۔
ایک تحقیق کے مطابق سحری کے وقت جو کے آٹے سے بنی صرف ڈیڑھ سے دو روٹیاں کھانے سے روزہ دار سار ا دن بھوک سے ماوریٰ ہو جاتا ہے، تشنگی کا احساس بھی نہیں رہتا، اور اگر میں بحیثیت زرعی سائنس داں، غور کروں تو جو کی غذا میں 3 طرح کے عناصر بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں ایک فائبرز(Fibers) ، دوسرا بیٹا گلوکان(Betaglucan) اور تیسرا سارے کے سارے ضروری امائنو ایسڈز(Essensial Amino Acids) پائے جاتے ہیں، یہ ساے عناصر صرف اور صرف جو کی غذا میں پائے جاتے ہیں، کسی اور غذا میں ایسا نہیں ہوتا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو دل کے مرض میں مبتلا تھے، ایک بار نبی کریم ﷺ سے عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ کل میں غزوہ میں شامل نہیں ہوسکتا، جب وجہ دریافت کی تو عرض کرنے لگے کہ میرے دل کا مسئلہ ہے یہ ذرا اوپر نیچے ہوجاتا ہے۔
جس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سعد ۔۔ ۔ اچھا جاؤ اور جو کا دلیہ کھا کر آؤ، کل ہم غزوہ پر جائیں گے، آپؓ نے دلیہ کھایا ، اور جب کل ہوئی تو غزوہ میں اس جری اور بہادری سے لڑے کہ دل کا معاملہ دل کا معاملہ ہی نہیں لگ رہا تھا، اب میرا یہاں پر یقین نہیں بلکہ ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ چٹکی بھر مٹی بھی کھلاتے تو آپؓ کو صحت یاب ہو جانا تھا، مگر آپ ﷺ نے جو کا دلیہ ہی کیوں منتخب فرمایا یہاں پر اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جو کی غذا دل کے تمام جملہ عوارض کے لیے بھی بہترین ٹانک ہے۔
رات کے پچھلے پہر جب نبی کریمﷺ طویل قیام کے ساتھ نماز ادا فرماتے تو تھکاوٹ محسوس فرماتے، چناںچہ ایک بار جبریل امین علیہ السلام سے فرمانے لگے کہ اے جبریل ۔۔ ۔ لمبے قیام سے پاؤں تھک جاتے ہیں، نقاہت محسوس ہونے لگتی ہے جبریل امینؑ عرض کرنے لگے یارسول اللہ ﷺ آپ تلبینہ نوش فرمائیں تھکاوٹ جاتی رہے گی اور تلبینہ، جو کا دلیہ، دودھ ، شہد اور کھجور کے مرکب سے تیار کیا جاتا ہے۔ جو کی غذا میں دودھ کے مقابلے میں 10گنا زیادہ کیلشیم ہوتا ہے، پالک سے زیادہ فولاد ہے، یہ حُسن کو نکھارتی ہے، وزن کنٹرول کرتی ہے، بچوں، بوڑھوں اور ہر عمر کے لوگوں میں خون کی کمی کو پورا کرتی ہے اور طلباء کا حافظہ بڑھانے میں جو کی غذا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لیکن یہ محققین کے لیے مقام فکر ہے کہ پاکستان کے تحقیقی اداروں میں، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زیرِانتظام تحقیقاتی ادارہ برائے گندم، فیصل آباد جو کی نئی نئی اقسام بنانے اور تیار کرنے میں اگرچہ پیش پیش ہے مگر پاکستان کے زرعی تحقیقاتی ادارہ جات جو کی تحقیق اور اس کی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن اس شدومد سے نہیں کرپا رہے جس کی یہ غذا متقاضی ہے۔
اس سلسلے میں جو کی روٹی، جو کا دلیہ، پرل بارلے، آبِ جو اور ستو، جو کی غذا کی عام مصنوعات ہیں، پرل بارلے موتیوں جیسے جو کے دانے ہوتے ہیں جو قدرتی طور پر بغیر چھلکوں کے ہوتے ہیں یا اس پر چمٹے چھلکے اتار دیے جاتے ہیں، ان سے آپ جو کا پانی یا آب ِ جو بہ آسانی بنا سکتے ہیں، یعنی ایک کپ پرل بارلے اور 15کپ پانی کے ساتھ ایک دیگچی میں نیم آنچ پر گرم ہونے کے لیے رکھ دیں، کوئی آدھ گھنٹے کے بعد جب دودھیا پانی کا 1/3حصہ رہ جائے تو اس دودھیا پانی کو اس کے باقی ماندہ حصے سے الگ کر لیں، اب یہ دودھیا پانی مقوی ترین قدرتی شربت ثابت ہوگا، اسے ٹھنڈا پییں یا گرم ہی پی لیں ، اس وقت یہ کسی کیمیکل یا فریگرینس (خوشبو) ڈالے بغیر دنیا کا بہترین پانی آب ِ جو کی صورت تیار ہے جو صحت اور بدن کے اندرونی افعال کی معیاری کارکردگی کا بہترین ٹانک مانا گیا ہے۔
پاکستان کے ایک معروف ادیب کہنے لگے کہ ڈاکٹر اعجاز تبسم ۔۔اس بار تو ماہ صیام موسم برسات میں آرہا ہے اور موسم برسات میں ستو پینا منع ہے، لہٰذا افطاری کے لیے ستو ٹھیک رہے گا، جس پر عرض کیا کہ ماہ صیام تو موسموں سے ماوریٰ مہینہ ہے، اس کے لیے گرمی، سردی، خزاں، بہار اور موسم برسات کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ نبی کریمﷺ ستو سے ترجیحاً افطاری فرماتے، لہذا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ماہ صیام کس موسم میں وارد ہوتا ہے، بس ایک سنت کی ادائیگی ہے ، جس میں نہ کبھی فائدہ دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی نقصان کا سوچا ہے ، اب رہا مسئلہ ماہ صیام کے موسم برسات میں آنے کا، تو سن لیجیے کہ موسم برسات ہو یا چاہے دو روز سے موسلا دھار بارش ہو رہی ہو، افطاری کے وقت، روزہ دار کا اندرونی جسم گرم ہو گا یا سرد ہوگا، یعنی روزے کے عالم میں سارا دن نہ کچھ کھا پی کر روزہ دار کے جسم کا اندرونی حصہ گرم ہوگا جس کا واضح ثبوت یہ ہوگا کہ افطاری سے کچھ لمحے قبل روزہ دار کا پیشاب پیلا ہوگا جو اس بات کی نشانی و علامت ہے کہ بدن کے اندر گرمی موجود ہے۔
لہٰذا اس سمے بدن کا اندروں۔۔ شریانوں، وریدوں، آنتوں اور بے شمار نالیوں کے حجم میں پانی کی عدم موجودگی میں گرم ہوچکا ہوتا ہے، اب چاہیے تو یہ کہ روزہ ایسی اشیاء سے افطار کیا جائے، جس سے ان انتڑیوں کو سکون و طمانیت اور فرحت بخش ماحول ملے، سارے دن کے بھوکی ان قدرے سوکھی انتڑیوں کے افعال پھر سے معیاری ہونے لگیں، مگر ہم کیا کرتے ہیں کہ گرم گرم پکوڑوں، سموسوں اور چپس سے ان کو پھر سے گرم ماحول فراہم کردیتے ہیں جس سے ان انتڑیوں میں ایک تناؤ سا پیدا ہو جاتا ہے ، اور پھر اوپر سے ٹھنڈے اور غیرمعیاری مشروب ان انتڑیوں کو مزید سکیڑنے میں اہم کردار ادا کر جاتے ہیں لیکن اگر یہاں پر نبی کریمﷺ کا پسندیدہ مشروب ستو سے روزہ افطار کر لیا جائے تو ایک تو افطاری کے وقت سنت کی ادائیگی میں سرشاری محسوس ہو گی اور دوسرا انتڑیوں، شریانوں اور وریدوں کے افعال کو تعمیری تحریک ملے گی۔ واضح رہے کہ برف والے ستو کی نسبت نیم ٹھنڈے ستو کی افادیت زیادہ دیکھی گئی ہے۔
قارئین کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہو گی کہ جو کے پودوں کے تنے ۔۔گنا، مکئی ، چاول اور گندم کی نسبت اتنے نازک اور اندر سے اتنے کھوکھلے ہوتے ہیں کہ یہ ذرا سی آندھی بھی برداشت نہیں کرپاتے اور فوراً گر جاتے ہیں لیکن قدرت نے پودوں میں خصوصیت رکھی ہے کہ یہ ہر طرح کی زمین کے ساتھ ناکارہ، بنجر زمین پر بھی بہ آسانی کاشت ہو جاتے ہیں یوں پاکستان کا 66 ملین ایکڑ کا وہ رقبہ جو ناکارہ پڑا ہے۔ اسے قابل کاشت بناکر نہ صرف زمین کی زرخیزی بحال کی جاسکتی ہے بلکہ خوراک کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
آپ نے یہ بات محسوس کی ہو گی کہ مانسہرہ سوات یا پہاڑی علاقوں میں کبھی بھی خوراک کا بحران نہ دیکھا گیا جب کہ سندھ، پنجاب وغیرہ میں گندم ختم ہونے کی شکایت عام سننے کو ملتی ہے ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں گندم کے آٹے کا متبادل مکئی کا آٹا وافر مقدار میں موجود رہتا ہے، اگر گندم کا آٹا ناپید بھی ہوگیا تو مکئی کے آٹے کی روٹیاں بنا کر کام چلالیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے نبی کریمﷺ کی پسندیدہ غذا جو کے آٹے سے بنی روٹی کو ترجیح دی جائے، اگر ایسا ممکن ہو گیا تو پاکستان کے کھیت کھلیان جو کی کاشت سے غلہ کے ڈھیر اگلنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیوں کہ جو کی فصل میں نہ صرف ہر طرح کی زمین پر اگنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود رہتی ہے بلکہ کم سے کم مداخل میں بھی اچھی خاصی پیداوار دے جاتی ہے۔
لیہ کے معروف کاشت کار عبدالعزیز ملک کا کہنا ہے کہ ہم جو کی فصل اس لیے کاشت نہیں کرتے کہ اس کی پیداوار کم نکلتی ہے جس سے کاشت کار کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ پیداوار کے سلسلے میں کاشت کاروں کے تحفظات بجا ہیں مگر جو کی فصل کی پیداواری ٹیکنالوجی پر مکمل روح کے مطابق عمل کرلیا جائے تو اس کے پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں جو کی اوسط پیداوار19من فی ایکڑ ہے وجہ صرف یہ ہے کہ کاشت کار جو کی اقسام کے چناؤ میں جلدبازی کرجاتا ہے۔
موسم ربیع میں کسان کا جب جی چاہے جو کی فصل کاشت کرلیتا ہے، پانی لگانے میں دیر کر دیتا ہے اور جب چاہے کاٹ لیتا ہے۔ یہ تو ہیں پیداوار میں کمی کے انسانی عوامل، جب کہ قدرتی عوامل میں یہ بات سرفہرست ہے کہ یہ فصل، گندم کی نسبت جلد پک کر تیار ہوجاتی ہے، اپنے نازک اور کھوکھلے تنے کی وجہ سے یہ جلد گر بھی جاتی ہے اور دوسرا اس کے خوشوں میں دانہ پکڑنے کے گرفت، گندم کے سٹوں کی نسبت بہت کم ہوتی ہے جس سے جو کے خوشوں میں موجود دانے پکنے کے فوری بعد جلد ہی گرنے شروع ہوجاتے ہیں اور پیداوار ضائع ہوجاتی ہے۔
لہذا اچھی پیداوار کے لیے کٹائی کا فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، حالیہ برس ہی لیہ کے عبدالعزیز کاشت کار جو کی فصل کے سلسلے میں اس ناچیز سے براہ راست ہدایات لیتے رہے۔ انہوں نے جو کی نئی اقسام بھی لیں اور بعد ازاں مکمل پیداوار ٹیکنالوجی پر عمل بھی کیا، ابھی پچھلے ہی دنوں انہوں نے فون کر کے بتایا کہا کہ الحمدللہ تحقیقاتی ادارہ برائے گندم، فیصل آباد طرف سے جاری کردہ اور وضع کردہ سفارشات اور پیداواری ٹیکنالوجی سے میری اس برس جو کی پیداوار32 من فی ایکڑ نکلی ہے۔ ان جیسے دوسرے کاشت کاروں کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے، اگر آپ مزید کوشش کریں تو جو کی فصل کی پیداوار 50 من کو بھی کراس کر سکتی ہے۔
آج مقام فکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اس پسندیدہ غذا کو ہم فراموش کیے بیٹھے ہیں، اور اس غذا سے ہم اتنے فوائد حاصل نہیں کر پارہے جتنے اس میں پنہاں ہیں۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ 100کے قریب بیماریوں کا علاج جو کی غذا میں پنہاں ہے جب کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جو کی غذا سے بندے کے اندر جو غلاظتیں، کثافتیں اور نجاستیں ہیں وہ ایسے دور ہوتی ہیں جیسے منہ دھوئیں تو گرد دور ہوجاتی ہے۔
خاندان نبوت ﷺ میں اگر کسی فرد کو صحت کا معاملہ درپیش ہوتا تو اسے خصوصی طور پر جو کی غذا کی ہدایت کی جاتی۔ لوگوں کو اگر نبی کریمﷺ سے منسلک کسی خوراک کا علم ہو جاتا تو وہ اس کو پانے کی تگ و دو میں لگ جاتے اور فوری تناول کرتے۔
وضو کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ لوگ آپ ﷺ کے وضو سے زمین پر گرنے والے چھینٹوں کے حصول میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے، فائدے اور نقصان کو وہ لوگ پس پشت ڈال دیتے تھے بلکہ نبی کریم ﷺ کی حرکات و سکنات ، قیلولے کا انداز، کاروبار، معاملات ِ زندگی پر ان کا ایمان اس حد تک مضبوط تھا کہ جو کچھ بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا بس وہی حرف آخر ہوتا، مگر آج مقام افسوس ہے کہ ہم رسول اکرمؐؐ کے حکم کے مطابق 3 سانسوں میں پانی پینا تو درکنار بیٹھ کر پانی پینا بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔
کسی دعوت پر چلے جائیں، کھڑے ہو کر صرف اس لیے کھانے کو ترجیح دیتے ہیں کہ گوشت کی اگلی پلیٹ بھی تو پیٹ میں اتارنی ہے اور اگر بیٹھ کر کھانا کھایا تو کہیں پرات سے گوشت ہی ختم نہ ہو جائے۔ ماہ رمضان میں بھی ہمارا یہی حال ہے کہ کسی کی افطاری پر جانا ہو تو کھانے پر ایسے حملہ آور ہوتے کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔ گھر میں بھی یہی حال ہے کہ سحری کے وقت آخری اذان کی آواز تک پیٹ بھرنے میں لگے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی چیز رہ نہ جائے ۔۔ سارا دن بھی تو گزارنا ہے ۔۔حیرت ہے کہ اپنے پیٹ کو بھی ہم اپنا پیٹ سمجھ نہیں سکے۔
ہم بسیار خوری سے پیٹ کے تمام جملہ امراض لاحق کر بیٹھتے ہیں پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان کے ایک مہینے کے روزے، انسانی بدن کی سارا سال ٹیوننگ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، گورے اس چیز کو مان چکے ہیں بلکہ جاپان کا ایک سائنس داں تو صرف اس بات پر نوبل ایوارڈ لے اڑا کہ سال بھر میں 25/30 دن کے لیے سارا دن بھوکے رہ جائیں تو انسان بدن کے اندر آٹو فیگی خلیے(Autophagy cells) وہ کام کر جاتے ہیں جو انسان کو کینسر جیسے مہلک مرض سے بچا لیتے ہیں، گوروں کی تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کسی کو اگر ذیابیطس (شوگر)، فشارِ قلب (بلڈ پریشر)، تناؤ (ٹینشن) یا کولیسٹرول جیسے امراض لاحق ہوں تو وہ ابھی کوئی بھی دوا نہ لے بلکہ گندم کے آٹے سے بنی صرف روٹی چھوڑ دے۔
اس کی آدھی بیماری ختم ہوجائے گی، یعنی بغیر دوا کھائے ابھی اس نے صرف غذا بدلی ہے تو آدھا مرض ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ مریض گندم کے آٹے کی بجائے کون سی روٹی کھائے ۔۔۔۔ یورپی ممالک کی تحقیق کے مطابق انہوں نے 2 طرح کے آٹے سے بنی روٹی کھانے کی سفارش کی ہے، ایک مکئی کا آٹا اور دوسرا جو کے آٹے سے بنی روٹی ۔۔لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ مجھے تو نسبت سے غرض ہے، اس لیے جو کے آٹے سے بنی روٹی ہی پسند کروں گا۔
ایک تحقیق کے مطابق سحری کے وقت جو کے آٹے سے بنی صرف ڈیڑھ سے دو روٹیاں کھانے سے روزہ دار سار ا دن بھوک سے ماوریٰ ہو جاتا ہے، تشنگی کا احساس بھی نہیں رہتا، اور اگر میں بحیثیت زرعی سائنس داں، غور کروں تو جو کی غذا میں 3 طرح کے عناصر بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں ایک فائبرز(Fibers) ، دوسرا بیٹا گلوکان(Betaglucan) اور تیسرا سارے کے سارے ضروری امائنو ایسڈز(Essensial Amino Acids) پائے جاتے ہیں، یہ ساے عناصر صرف اور صرف جو کی غذا میں پائے جاتے ہیں، کسی اور غذا میں ایسا نہیں ہوتا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو دل کے مرض میں مبتلا تھے، ایک بار نبی کریم ﷺ سے عرض کرنے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ کل میں غزوہ میں شامل نہیں ہوسکتا، جب وجہ دریافت کی تو عرض کرنے لگے کہ میرے دل کا مسئلہ ہے یہ ذرا اوپر نیچے ہوجاتا ہے۔
جس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سعد ۔۔ ۔ اچھا جاؤ اور جو کا دلیہ کھا کر آؤ، کل ہم غزوہ پر جائیں گے، آپؓ نے دلیہ کھایا ، اور جب کل ہوئی تو غزوہ میں اس جری اور بہادری سے لڑے کہ دل کا معاملہ دل کا معاملہ ہی نہیں لگ رہا تھا، اب میرا یہاں پر یقین نہیں بلکہ ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ چٹکی بھر مٹی بھی کھلاتے تو آپؓ کو صحت یاب ہو جانا تھا، مگر آپ ﷺ نے جو کا دلیہ ہی کیوں منتخب فرمایا یہاں پر اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جو کی غذا دل کے تمام جملہ عوارض کے لیے بھی بہترین ٹانک ہے۔
رات کے پچھلے پہر جب نبی کریمﷺ طویل قیام کے ساتھ نماز ادا فرماتے تو تھکاوٹ محسوس فرماتے، چناںچہ ایک بار جبریل امین علیہ السلام سے فرمانے لگے کہ اے جبریل ۔۔ ۔ لمبے قیام سے پاؤں تھک جاتے ہیں، نقاہت محسوس ہونے لگتی ہے جبریل امینؑ عرض کرنے لگے یارسول اللہ ﷺ آپ تلبینہ نوش فرمائیں تھکاوٹ جاتی رہے گی اور تلبینہ، جو کا دلیہ، دودھ ، شہد اور کھجور کے مرکب سے تیار کیا جاتا ہے۔ جو کی غذا میں دودھ کے مقابلے میں 10گنا زیادہ کیلشیم ہوتا ہے، پالک سے زیادہ فولاد ہے، یہ حُسن کو نکھارتی ہے، وزن کنٹرول کرتی ہے، بچوں، بوڑھوں اور ہر عمر کے لوگوں میں خون کی کمی کو پورا کرتی ہے اور طلباء کا حافظہ بڑھانے میں جو کی غذا اہم کردار ادا کرتی ہے۔
لیکن یہ محققین کے لیے مقام فکر ہے کہ پاکستان کے تحقیقی اداروں میں، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زیرِانتظام تحقیقاتی ادارہ برائے گندم، فیصل آباد جو کی نئی نئی اقسام بنانے اور تیار کرنے میں اگرچہ پیش پیش ہے مگر پاکستان کے زرعی تحقیقاتی ادارہ جات جو کی تحقیق اور اس کی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن اس شدومد سے نہیں کرپا رہے جس کی یہ غذا متقاضی ہے۔
اس سلسلے میں جو کی روٹی، جو کا دلیہ، پرل بارلے، آبِ جو اور ستو، جو کی غذا کی عام مصنوعات ہیں، پرل بارلے موتیوں جیسے جو کے دانے ہوتے ہیں جو قدرتی طور پر بغیر چھلکوں کے ہوتے ہیں یا اس پر چمٹے چھلکے اتار دیے جاتے ہیں، ان سے آپ جو کا پانی یا آب ِ جو بہ آسانی بنا سکتے ہیں، یعنی ایک کپ پرل بارلے اور 15کپ پانی کے ساتھ ایک دیگچی میں نیم آنچ پر گرم ہونے کے لیے رکھ دیں، کوئی آدھ گھنٹے کے بعد جب دودھیا پانی کا 1/3حصہ رہ جائے تو اس دودھیا پانی کو اس کے باقی ماندہ حصے سے الگ کر لیں، اب یہ دودھیا پانی مقوی ترین قدرتی شربت ثابت ہوگا، اسے ٹھنڈا پییں یا گرم ہی پی لیں ، اس وقت یہ کسی کیمیکل یا فریگرینس (خوشبو) ڈالے بغیر دنیا کا بہترین پانی آب ِ جو کی صورت تیار ہے جو صحت اور بدن کے اندرونی افعال کی معیاری کارکردگی کا بہترین ٹانک مانا گیا ہے۔
پاکستان کے ایک معروف ادیب کہنے لگے کہ ڈاکٹر اعجاز تبسم ۔۔اس بار تو ماہ صیام موسم برسات میں آرہا ہے اور موسم برسات میں ستو پینا منع ہے، لہٰذا افطاری کے لیے ستو ٹھیک رہے گا، جس پر عرض کیا کہ ماہ صیام تو موسموں سے ماوریٰ مہینہ ہے، اس کے لیے گرمی، سردی، خزاں، بہار اور موسم برسات کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ نبی کریمﷺ ستو سے ترجیحاً افطاری فرماتے، لہذا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ماہ صیام کس موسم میں وارد ہوتا ہے، بس ایک سنت کی ادائیگی ہے ، جس میں نہ کبھی فائدہ دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی نقصان کا سوچا ہے ، اب رہا مسئلہ ماہ صیام کے موسم برسات میں آنے کا، تو سن لیجیے کہ موسم برسات ہو یا چاہے دو روز سے موسلا دھار بارش ہو رہی ہو، افطاری کے وقت، روزہ دار کا اندرونی جسم گرم ہو گا یا سرد ہوگا، یعنی روزے کے عالم میں سارا دن نہ کچھ کھا پی کر روزہ دار کے جسم کا اندرونی حصہ گرم ہوگا جس کا واضح ثبوت یہ ہوگا کہ افطاری سے کچھ لمحے قبل روزہ دار کا پیشاب پیلا ہوگا جو اس بات کی نشانی و علامت ہے کہ بدن کے اندر گرمی موجود ہے۔
لہٰذا اس سمے بدن کا اندروں۔۔ شریانوں، وریدوں، آنتوں اور بے شمار نالیوں کے حجم میں پانی کی عدم موجودگی میں گرم ہوچکا ہوتا ہے، اب چاہیے تو یہ کہ روزہ ایسی اشیاء سے افطار کیا جائے، جس سے ان انتڑیوں کو سکون و طمانیت اور فرحت بخش ماحول ملے، سارے دن کے بھوکی ان قدرے سوکھی انتڑیوں کے افعال پھر سے معیاری ہونے لگیں، مگر ہم کیا کرتے ہیں کہ گرم گرم پکوڑوں، سموسوں اور چپس سے ان کو پھر سے گرم ماحول فراہم کردیتے ہیں جس سے ان انتڑیوں میں ایک تناؤ سا پیدا ہو جاتا ہے ، اور پھر اوپر سے ٹھنڈے اور غیرمعیاری مشروب ان انتڑیوں کو مزید سکیڑنے میں اہم کردار ادا کر جاتے ہیں لیکن اگر یہاں پر نبی کریمﷺ کا پسندیدہ مشروب ستو سے روزہ افطار کر لیا جائے تو ایک تو افطاری کے وقت سنت کی ادائیگی میں سرشاری محسوس ہو گی اور دوسرا انتڑیوں، شریانوں اور وریدوں کے افعال کو تعمیری تحریک ملے گی۔ واضح رہے کہ برف والے ستو کی نسبت نیم ٹھنڈے ستو کی افادیت زیادہ دیکھی گئی ہے۔
قارئین کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہو گی کہ جو کے پودوں کے تنے ۔۔گنا، مکئی ، چاول اور گندم کی نسبت اتنے نازک اور اندر سے اتنے کھوکھلے ہوتے ہیں کہ یہ ذرا سی آندھی بھی برداشت نہیں کرپاتے اور فوراً گر جاتے ہیں لیکن قدرت نے پودوں میں خصوصیت رکھی ہے کہ یہ ہر طرح کی زمین کے ساتھ ناکارہ، بنجر زمین پر بھی بہ آسانی کاشت ہو جاتے ہیں یوں پاکستان کا 66 ملین ایکڑ کا وہ رقبہ جو ناکارہ پڑا ہے۔ اسے قابل کاشت بناکر نہ صرف زمین کی زرخیزی بحال کی جاسکتی ہے بلکہ خوراک کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
آپ نے یہ بات محسوس کی ہو گی کہ مانسہرہ سوات یا پہاڑی علاقوں میں کبھی بھی خوراک کا بحران نہ دیکھا گیا جب کہ سندھ، پنجاب وغیرہ میں گندم ختم ہونے کی شکایت عام سننے کو ملتی ہے ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں گندم کے آٹے کا متبادل مکئی کا آٹا وافر مقدار میں موجود رہتا ہے، اگر گندم کا آٹا ناپید بھی ہوگیا تو مکئی کے آٹے کی روٹیاں بنا کر کام چلالیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے نبی کریمﷺ کی پسندیدہ غذا جو کے آٹے سے بنی روٹی کو ترجیح دی جائے، اگر ایسا ممکن ہو گیا تو پاکستان کے کھیت کھلیان جو کی کاشت سے غلہ کے ڈھیر اگلنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیوں کہ جو کی فصل میں نہ صرف ہر طرح کی زمین پر اگنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود رہتی ہے بلکہ کم سے کم مداخل میں بھی اچھی خاصی پیداوار دے جاتی ہے۔
لیہ کے معروف کاشت کار عبدالعزیز ملک کا کہنا ہے کہ ہم جو کی فصل اس لیے کاشت نہیں کرتے کہ اس کی پیداوار کم نکلتی ہے جس سے کاشت کار کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ پیداوار کے سلسلے میں کاشت کاروں کے تحفظات بجا ہیں مگر جو کی فصل کی پیداواری ٹیکنالوجی پر مکمل روح کے مطابق عمل کرلیا جائے تو اس کے پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں جو کی اوسط پیداوار19من فی ایکڑ ہے وجہ صرف یہ ہے کہ کاشت کار جو کی اقسام کے چناؤ میں جلدبازی کرجاتا ہے۔
موسم ربیع میں کسان کا جب جی چاہے جو کی فصل کاشت کرلیتا ہے، پانی لگانے میں دیر کر دیتا ہے اور جب چاہے کاٹ لیتا ہے۔ یہ تو ہیں پیداوار میں کمی کے انسانی عوامل، جب کہ قدرتی عوامل میں یہ بات سرفہرست ہے کہ یہ فصل، گندم کی نسبت جلد پک کر تیار ہوجاتی ہے، اپنے نازک اور کھوکھلے تنے کی وجہ سے یہ جلد گر بھی جاتی ہے اور دوسرا اس کے خوشوں میں دانہ پکڑنے کے گرفت، گندم کے سٹوں کی نسبت بہت کم ہوتی ہے جس سے جو کے خوشوں میں موجود دانے پکنے کے فوری بعد جلد ہی گرنے شروع ہوجاتے ہیں اور پیداوار ضائع ہوجاتی ہے۔
لہذا اچھی پیداوار کے لیے کٹائی کا فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، حالیہ برس ہی لیہ کے عبدالعزیز کاشت کار جو کی فصل کے سلسلے میں اس ناچیز سے براہ راست ہدایات لیتے رہے۔ انہوں نے جو کی نئی اقسام بھی لیں اور بعد ازاں مکمل پیداوار ٹیکنالوجی پر عمل بھی کیا، ابھی پچھلے ہی دنوں انہوں نے فون کر کے بتایا کہا کہ الحمدللہ تحقیقاتی ادارہ برائے گندم، فیصل آباد طرف سے جاری کردہ اور وضع کردہ سفارشات اور پیداواری ٹیکنالوجی سے میری اس برس جو کی پیداوار32 من فی ایکڑ نکلی ہے۔ ان جیسے دوسرے کاشت کاروں کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے، اگر آپ مزید کوشش کریں تو جو کی فصل کی پیداوار 50 من کو بھی کراس کر سکتی ہے۔