چوہدری اسلم کا قتلتفتیشی حکام تا حال ناکام صرف تجزیے اور قیاس آرائیاں
واقعے کو4 روزگرزگئے،تفتیش کی ایک سمت تعین ہوسکی نہ یہ معمہ حل کیا گیا کہ زیراستعمال بم پروف گاڑی کیوں واپس لی گئی؟
ایس پی چوہدری اسلم خان پرخود کش حملے کے واقعے کو4 روز گرز جانے کے باوجود تفتیشی ادارے کسی ایک سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے تفتیشی اداروں کے افسران صرف کی زبانی جمع خرچ اور ٹامک ٹوئیوں میں مصروف ہیں جس کے باعث ہر روز تفتیش کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے ۔
جبکہ ہر تفتیشی ٹیم کے افسران اپنے الگ الگ تجزیے پیش کر رہے ہیں جس کے باعث مقدمے کی تفتیش ٹھوس شواہد کے بجائے صرف قیاس آرائیوں تک محدود ہوگئی ہے تفتیشی ادارے اب تک یہ معمہ بھی حل نہیں کر سکے کہ شہید چوہدری اسلم کے زیراستعمال بم پروف گاڑی کس کی ملکیت تھی اور تازہ دھمکیوں کے باوجود چوہدری اسلم سے بم پروف گاڑی کیوں کر واپس لی گئی اور وہ کیا خدشات تھے جس کی بنا پر چوہدری اسلم کو اپنی رہائش گاہ تبدیل کرنے کا خیال آیا اور دوران سفر اس کا اظہار انھوں نے اپنی اہلیہ سے بھی کیا ، پیر کو بھی ایک مرتبہ پھر ایس پی چوہدری اسلم خان پر خود کش حملے کی تفتیش کو ایک نئے رخ کے جانب موڑ دیاگیا کہ اوربتایا گیا کہ ایس ایس پی چوہدری اسلم پر خود کش حملہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کی جانب سے بارود سے بھری 2گاڑیاں تیارکی گئی تھیں تاہم حملے میں دوسری گاڑی کے استعمال کیے جانے کے شواہد نہیں ملے،تفتیشی ذرائع کے مطابق واقعے کے ایک عینی شاہد نے انھیں بتایا کہ دھماکے سے کچھ دیرقبل اس نے لیاری ایکسپریس وے کی چڑھائی پر2 گاڑیاں جاتے ہوئے دیکھی تھیں، سندھ پولیس کے سینئر افسر ایس پی نیاز کھوسو نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ دہشت گردوں نے چوہدری اسلم پر خود کش حملہ کرنے کے لیے بارود سے بھری 2 گاڑیاں تیار کی تھیں انھوں نے بتایا کہ چوہدری اسلم کی گاڑی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہے۔
جبکہ پولیس کوچوہدری اسلم کے موبائل فون ملنے کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں مل سکے انھوں نے بتایا کہ مبینہ خود کش بمبارکے والد اور بھائی کے ڈی این اے رپورٹ آئندہ 10سے 12روز میں موصول ہو جائے گی، ذرائع کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس طرح کے شواہد موجود ہیں کہ دہشت گردوں اپنے اہم ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے 2 گاڑیاں استعمال کر چکے ہیں۔
تفتیشی ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ پولیس کو جائے وقوع سے تباہ شدہ حالت میںایکسے 2 موبائل فون ملے ہیں تاہم ان موبائل فون سے کسی قسم کی کوئی مدد ملنا ممکن نہیں انھوں نے بتایا کہ چوہدری اسلم کے موبائل فون سے کال ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اسے تفتیش کا حصہ بنایا جا سکے انھوں نے بتایا کہ پولیس نے حراست میں لیے ہوئے لیاری ایکسپریس وے کی ٹول ٹیکس چوکی کے شفٹ انچارج سمیت 4 ملازمین کو ذاتی مچلکے پر رہاکردیا ہے تاہم انہیں ہدایات کی گئی ہے کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر انھیں طلب کیا جاسکتا ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ چوہدری اسلم پر خود کش بم حملے میں زد میں آنے والی ٹیکسی کے ڈرائیور دلاور خان تاحال پولیس کی حراست میں ہے جس سے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تفتیش کررہی ہے جبکہ ٹیکسی میں سوار زخمی شخص حضرت بلال جوکہ اسپتال میں زیر علاج ہے اس پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے انھوں نے بتایا کہ حضرت بلال ٹریلر کا ڈرائیور ہے اور جس روز چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کیا گیا اس روز حضرت بلال کا ٹریلر ہائی وے کاٹھور کے قریب خراب ہو گیا تھا جس کے بعد حضرت بلال نے اپنا ٹریلر کاٹھور پر ہی چھوڑ دیا تھا اور وہ ٹیکسی میں سوار ہوکر ماڑی پور جا رہا تھا کہ لیاری ایکسپریس پر خود کش حملے کی زد میں آگیا ۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق پولیس نے ضلع ویسٹ کے علاقے منگھوپیر ، سلطان آباد ، اورنگی ٹاؤن ، پیرآباد اور کوچی کیمپ سمیت متعدد علاقوں میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نصف درجن سے زائد افراد کو بھی حراست میں لیا ہے جس کے قبضے سے مختلف اقسام کی سمز ملی ہیں اور ان افراد سے مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
جبکہ ہر تفتیشی ٹیم کے افسران اپنے الگ الگ تجزیے پیش کر رہے ہیں جس کے باعث مقدمے کی تفتیش ٹھوس شواہد کے بجائے صرف قیاس آرائیوں تک محدود ہوگئی ہے تفتیشی ادارے اب تک یہ معمہ بھی حل نہیں کر سکے کہ شہید چوہدری اسلم کے زیراستعمال بم پروف گاڑی کس کی ملکیت تھی اور تازہ دھمکیوں کے باوجود چوہدری اسلم سے بم پروف گاڑی کیوں کر واپس لی گئی اور وہ کیا خدشات تھے جس کی بنا پر چوہدری اسلم کو اپنی رہائش گاہ تبدیل کرنے کا خیال آیا اور دوران سفر اس کا اظہار انھوں نے اپنی اہلیہ سے بھی کیا ، پیر کو بھی ایک مرتبہ پھر ایس پی چوہدری اسلم خان پر خود کش حملے کی تفتیش کو ایک نئے رخ کے جانب موڑ دیاگیا کہ اوربتایا گیا کہ ایس ایس پی چوہدری اسلم پر خود کش حملہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کی جانب سے بارود سے بھری 2گاڑیاں تیارکی گئی تھیں تاہم حملے میں دوسری گاڑی کے استعمال کیے جانے کے شواہد نہیں ملے،تفتیشی ذرائع کے مطابق واقعے کے ایک عینی شاہد نے انھیں بتایا کہ دھماکے سے کچھ دیرقبل اس نے لیاری ایکسپریس وے کی چڑھائی پر2 گاڑیاں جاتے ہوئے دیکھی تھیں، سندھ پولیس کے سینئر افسر ایس پی نیاز کھوسو نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ دہشت گردوں نے چوہدری اسلم پر خود کش حملہ کرنے کے لیے بارود سے بھری 2 گاڑیاں تیار کی تھیں انھوں نے بتایا کہ چوہدری اسلم کی گاڑی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہے۔
جبکہ پولیس کوچوہدری اسلم کے موبائل فون ملنے کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں مل سکے انھوں نے بتایا کہ مبینہ خود کش بمبارکے والد اور بھائی کے ڈی این اے رپورٹ آئندہ 10سے 12روز میں موصول ہو جائے گی، ذرائع کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس طرح کے شواہد موجود ہیں کہ دہشت گردوں اپنے اہم ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے 2 گاڑیاں استعمال کر چکے ہیں۔
تفتیشی ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ پولیس کو جائے وقوع سے تباہ شدہ حالت میںایکسے 2 موبائل فون ملے ہیں تاہم ان موبائل فون سے کسی قسم کی کوئی مدد ملنا ممکن نہیں انھوں نے بتایا کہ چوہدری اسلم کے موبائل فون سے کال ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اسے تفتیش کا حصہ بنایا جا سکے انھوں نے بتایا کہ پولیس نے حراست میں لیے ہوئے لیاری ایکسپریس وے کی ٹول ٹیکس چوکی کے شفٹ انچارج سمیت 4 ملازمین کو ذاتی مچلکے پر رہاکردیا ہے تاہم انہیں ہدایات کی گئی ہے کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر انھیں طلب کیا جاسکتا ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ چوہدری اسلم پر خود کش بم حملے میں زد میں آنے والی ٹیکسی کے ڈرائیور دلاور خان تاحال پولیس کی حراست میں ہے جس سے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تفتیش کررہی ہے جبکہ ٹیکسی میں سوار زخمی شخص حضرت بلال جوکہ اسپتال میں زیر علاج ہے اس پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے انھوں نے بتایا کہ حضرت بلال ٹریلر کا ڈرائیور ہے اور جس روز چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کیا گیا اس روز حضرت بلال کا ٹریلر ہائی وے کاٹھور کے قریب خراب ہو گیا تھا جس کے بعد حضرت بلال نے اپنا ٹریلر کاٹھور پر ہی چھوڑ دیا تھا اور وہ ٹیکسی میں سوار ہوکر ماڑی پور جا رہا تھا کہ لیاری ایکسپریس پر خود کش حملے کی زد میں آگیا ۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق پولیس نے ضلع ویسٹ کے علاقے منگھوپیر ، سلطان آباد ، اورنگی ٹاؤن ، پیرآباد اور کوچی کیمپ سمیت متعدد علاقوں میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نصف درجن سے زائد افراد کو بھی حراست میں لیا ہے جس کے قبضے سے مختلف اقسام کی سمز ملی ہیں اور ان افراد سے مختلف زاویوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔