وسائل کی منصفانہ تقسیم
پاکستان کی معیشت کا المیہ یہ ہے کہ معاشی ترقی کی شرح کے حصول کے باوجود غربت میں تیزی سے کمی نہ لائی جاسکی۔
جوں جوں عید کے دن قریب آ رہے تھے بچوں میں عید کی تیاری خصوصاً کپڑوں سے متعلق گفتگو زور شور سے جاری رہتی۔ ہر کوئی اپنے کپڑوں کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔
روزانہ شہزادوں سے بھی کپڑوں سے متعلق استفسار ہوتا تھا کہ آخر وہ کس قسم کے کپڑے سلوا رہے ہیں، لیکن انھوں نے تو اپنے ہونٹ ہی سی رکھے تھے۔ اداس چہروں کے ساتھ گھر لوٹتے۔ بالآخر خاتون اول سے یہ مرجھائے چہرے ان پر پھیلی اداسی دیکھی نہ گئی۔ انھوں نے امیرالمومنین سے کہا کہ '' بچے نئے کپڑوں کا مطالبہ کر رہے ہیں'' جواب سن کر مایوسی ہوئی کہ اتنی کم تنخواہ میں نئے کپڑے نہیں بنوا سکتے۔
بالآخر ایک تجویز سامنے رکھی کہ کیوں نہ بیت المال کے امین سے ایک ماہ کی تنخواہ بطور ایڈوانس لے لی جائے۔ بیت المال کے وزیر خزانہ کو لکھ بھیجا کہ ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی ادا کردی جائے۔ خزانہ بھرا پڑا تھا لیکن وہ صرف غریبوں کے لیے وقف تھا۔ بیت المال کے امین ''مزاحم'' تھے۔ انھوں نے اس حکم کی مزاحمت میں جو جواب لکھ بھیجا وہ رہتی دنیا تک یادگار بن کر رہ گیا۔ امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز لکھ کر دے دیں کہ وہ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے۔
جواب پا کر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے چہرے پر نہ غصہ آیا نہ ہی اپنی سبکی محسوس کی۔ بلکہ اطمینان کا سانس لیا اور اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ انھوں نے ایک ایماندار اور اہل شخص کو اس منصب پر نافذ کیا ہے۔
اسلامی تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کا دور حکومت ڈھائی برس سے زیادہ کا نہ تھا اور آخری وقت میں زکوٰۃ ادا کرنے والے بہت تھے لیکن زکوٰۃ وصول کرنے والا کوئی نہ ملتا تھا ، کیونکہ حکومتی وسائل کا رخ غریبوں کی فلاح و بہبود کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ سرکاری خزانے سے غریب ، مسکین ، مستحقین ، مفلس و نادار لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔
پوری مملکت اسلامیہ جو کہ تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی جس میں یورپ،ایشیا اور افریقہ کا وسیع علاقہ شامل تھا۔ وہاں کے حکام ، عمال ، سرکاری اہلکار ، ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے غبن کیا ہو۔ جب ایسے حالات ہوں گے تو پھر کسی بھی معاشی اصول کو اپنانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی قسم کی سختی، رول ریگولیشن، قواعد و ضوابط وغیرہ وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں پھر سے تبدیلیاں کی ہیں۔ ان میں نئے وزیر خزانہ کا تقرر بھی شامل ہے۔ جو یقینی طور پر پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینے میں مصروف عمل ہیں ، لیکن ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں کہ قرض دینے والے عالمی اداروں کے احکامات سے روگردانی بھی نہیں کی جاسکتی۔ ایک ایسے دور میں جب کورونا کی تیسری لہر بے قابو ہوئے چلی جا رہی ہے پاکستانی حکام بار بار آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر ایس او پیز پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہوا تو لاک ڈاؤن پر بھی غور کرنا ہوگا، لیکن اس سے کاروبار شدید متاثر ہوگا۔
پہلے ہی بے روزگاری اپنی انتہا پر ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکرنے والوں کی تعداد میں مزید کروڑ افراد شامل ہو جائیں گے۔ حکومت نے '' احساس، کوئی بھوکا نہ سوئے، فنڈ'' قائم کردیا ہے۔ جب کہ حکام کا یہ کہنا ہے کہ تخفیف غربت اور سماجی تحفظ ڈویژن میں مضبوط گورننس کا نظام تشکیل دے رہے ہیں۔
یقینی طور پر اس طرح بہت زیادہ اصلاح احوال کی ضرورت ہے۔ پچھلے سال اس قسم کی خبریں شایع ہوتی رہی ہیں کہ کورونا وبا کے لاک ڈاؤن کے دوران 12 ہزارکی رقم تقسیم کرتے ہوئے کہیں رشوت طلب کی جا رہی تھی اور کہیں کچھ رقم منہا کرنے کے بعد امداد فراہم کی جا رہی تھی۔ اس دوران بے روزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوتا رہا۔ تعداد لاکھوں افراد سے بڑھتے ہوئے اب بے روزگاروں کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔ پہلے ہر ماہ ہزاروں افراد جو ڈگریاں لے کر برسر روزگار ہونے کی خواہش لے کر روزگار کی تلاش میں پھرتے تھے اب ان کی تعداد ہزاروں سے ماہانہ لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔
حکومت کے لیے تخفیف غربت یا مہنگائی میں کمی لانا اب بڑے مسائل ہیں لیکن ان سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل ترین مسئلہ بے روزگاری کا بنتا چلا جا رہا ہے۔ جس کے لیے نئے وزیر خزانہ کو نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ معیشت کو جمود سے نکال کر معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنا ہوگا۔
محدود وسائل کی تقسیم اس طرح عمل میں لانا ہوگی کہ ان شعبوں کی طرف اخراجات کا رخ موڑا جائے جس سے طلب میں اضافہ ہو، اس کے ساتھ پیداوار میں اضافہ ہو، یعنی طلب و رسد دونوں کا توازن بھی ضروری ہے۔
پاکستان کی معیشت کا المیہ یہ ہے کہ معاشی ترقی کی شرح کے حصول کے باوجود غربت میں تیزی سے کمی نہ لائی جاسکی۔ کیونکہ وسائل کی تقسیم کے ساتھ جو بھی قانون سازی ہوئی اس سے امیر طبقہ زیادہ مستفید ہوکر رہتا۔ جب کہ وہ لوگ جن کی آمدن کم ہوتی وہ مہنگائی کے باعث مزید مشکلات کا شکار ہوکر رہ جاتے۔ اس طرح غریب افراد کم آمدن والے افراد کی قوت خرید سکڑ جانے کے باعث وہ شدید مالی مسائل کا شکار ہوجاتے۔ کچھ اس قسم کا حال پنشن یافتہ افراد کا بھی ہے۔