پنجاب میں کتوں کومارنے کی بجائے نس بندی پروگرام شروع
پنجاب میں ساڑھے چارلاکھ آوارہ کتوں کی ویکسی نیشن کے بعد تولیدی صلاحیت ختم کی جائے گی
آوارہ کتوں کو مارنے کی بجائے ان کی تولیدی صلاحیت ختم کرنے اور انہیں باؤلے پن سے بچانے کے لئے ورکنگ پلان پرعمل درآمد شروع ہوگیا ہے، پنجاب کے تمام اضلاع میں میٹروپولیٹین کارپوریشن، لائیو اسٹاک اور جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی اوز نے تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ این جی اوز ہرضلع میں ایک ہزار نراورمادہ کتوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے میں اپنا کردار اداکریں گی۔
اینیمل رائٹس ایڈوکیسی گروپ (اے آراے جی ) کی ممبرعنیزہ خان نے سمن آباد میں واقع اپنے گھر کو ہی آوارہ کتوں اور بلیوں کے شیلٹرہوم میں تبدیل کررکھا ہے ۔ ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے عنیزہ خان نے بتایا کہ پنجاب میں آوارہ کتوں کی درست تعداد سے متعلق کوئی اعداد و شمار میسر نہیں ہیں تاہم پنجاب لائیو اسٹاک کی طرف سے فراہم کئے گئے غیرمستند اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے 4 لاکھ کتوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے پنجاب حکومت کی طرف سے متعلقہ اداروں کو 18 لاکھ روپے فنڈز دیئے جائیں گے۔ پنجاب کے ہر ضلع میں ایک ہزار نر اور مادہ کتوں کی ویکسی نیشن اور تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے کا کام کریں گے۔
عنیزہ خان کہتی ہیں کتوں کو غیرطبعی موت مارنے یعنی انہیں زہر دینے کا طریقہ عالمی ادارہ صحت سے منظورشدہ نہیں ہے۔ امریکا اوریورپ حتی کہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کتوں کی کلنگ پرپابندی عائد ہے۔ کتوں کو زہر دے کر مارنے کے بہت سے نقصانات ہیں، یہ ہمارے ایکو سسٹم کے لئے نقصان دہ ہے۔ کتوں کی لاشیں کئی کئی روز تک زمین پر پڑی رہتی ہیں جس سے فضا اور مٹی دونوں آلودہ ہوتے ہیں، اسی طرح ایسے جانور اور کیڑے مکوڑے جو کتوں کی خوراک بنتے ہیں ان کی تعداد بڑھنا شروع ہوجائے گی، سب سے بڑھ کر یہ کہ کتے گندگی صاف کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس فیصلے کے بڑی سوسائٹیوں میں ازخود کتامارمہم شروع نہیں کی جاسکے گی اورایسا کرنا قانوناً جرم ہوگا۔
سوسائٹی برائے انسداد بے رحمی حیوانات کے اعزازی سیکرٹری اور یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینمل سائنسز کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مسعود ربانی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا قانون میں کتوں کو زہر دینے یا گولی مارنے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے، اسی وجہ سے اب ہم نے کتوں کو غیرطبعی موت دینے کی بجائے ان کی تولیدی صلاحیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں فوکل پرسن مقررکردیئے گئے ہیں ، میٹرو پولیٹین کارپوریشن کاعملہ اپنے ضلع سے کتوں کوریسکیو کرکے ان کا اندراج کرے گا اس کے بعد اسے لائیو اسٹاک ویٹرنری سینٹر کے حوالے کردیا جائے گا، جہاں نر کتوں کی نس بندی کی جائے گی جب کہ مادہ کتوں کا آپریشن کرکے انہیں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کیا جائے گا۔ اس سے قبل انہیں ربیز یعنی باؤلے پن کے خاتمے کی ویکسین لگائی جائے گی۔ آپریشن کے بعد ان نر اور مادہ کتوں کو ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیاجائے گا کیونکہ اب ان کے کاٹنے سے ربیز کا خطرہ نہیں ہوگا اور ان کی آبادی بھی کنٹرول کی جاسکے گی۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود ربانی کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق پاکستان کو ربیز سے پاک کرنے کے حوالے سے بھی یہ اہم اقدام ہوگا۔ جن کتوں کو ویکسی نیشن اور آپریشن کے بعد دوبارہ چھوڑا جائے گا ان کومخصوص ٹیگ لگایا جائے گا، اسی طرح میٹروپولٹین کارپوریشن کے عملے کی ٹریننگ بھی یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز میں شروع کردی گئی ہے، ٹریننگ کے دوران آوارہ کتوں کو پکڑنے کی مہارت دی جارہی ہے۔
اینیمل رائٹس ایڈوکیسی گروپ (اے آراے جی ) کی ممبرعنیزہ خان نے سمن آباد میں واقع اپنے گھر کو ہی آوارہ کتوں اور بلیوں کے شیلٹرہوم میں تبدیل کررکھا ہے ۔ ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے عنیزہ خان نے بتایا کہ پنجاب میں آوارہ کتوں کی درست تعداد سے متعلق کوئی اعداد و شمار میسر نہیں ہیں تاہم پنجاب لائیو اسٹاک کی طرف سے فراہم کئے گئے غیرمستند اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے 4 لاکھ کتوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے پنجاب حکومت کی طرف سے متعلقہ اداروں کو 18 لاکھ روپے فنڈز دیئے جائیں گے۔ پنجاب کے ہر ضلع میں ایک ہزار نر اور مادہ کتوں کی ویکسی نیشن اور تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے کا کام کریں گے۔
عنیزہ خان کہتی ہیں کتوں کو غیرطبعی موت مارنے یعنی انہیں زہر دینے کا طریقہ عالمی ادارہ صحت سے منظورشدہ نہیں ہے۔ امریکا اوریورپ حتی کہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کتوں کی کلنگ پرپابندی عائد ہے۔ کتوں کو زہر دے کر مارنے کے بہت سے نقصانات ہیں، یہ ہمارے ایکو سسٹم کے لئے نقصان دہ ہے۔ کتوں کی لاشیں کئی کئی روز تک زمین پر پڑی رہتی ہیں جس سے فضا اور مٹی دونوں آلودہ ہوتے ہیں، اسی طرح ایسے جانور اور کیڑے مکوڑے جو کتوں کی خوراک بنتے ہیں ان کی تعداد بڑھنا شروع ہوجائے گی، سب سے بڑھ کر یہ کہ کتے گندگی صاف کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس فیصلے کے بڑی سوسائٹیوں میں ازخود کتامارمہم شروع نہیں کی جاسکے گی اورایسا کرنا قانوناً جرم ہوگا۔
سوسائٹی برائے انسداد بے رحمی حیوانات کے اعزازی سیکرٹری اور یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینمل سائنسز کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مسعود ربانی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا قانون میں کتوں کو زہر دینے یا گولی مارنے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے، اسی وجہ سے اب ہم نے کتوں کو غیرطبعی موت دینے کی بجائے ان کی تولیدی صلاحیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں فوکل پرسن مقررکردیئے گئے ہیں ، میٹرو پولیٹین کارپوریشن کاعملہ اپنے ضلع سے کتوں کوریسکیو کرکے ان کا اندراج کرے گا اس کے بعد اسے لائیو اسٹاک ویٹرنری سینٹر کے حوالے کردیا جائے گا، جہاں نر کتوں کی نس بندی کی جائے گی جب کہ مادہ کتوں کا آپریشن کرکے انہیں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کیا جائے گا۔ اس سے قبل انہیں ربیز یعنی باؤلے پن کے خاتمے کی ویکسین لگائی جائے گی۔ آپریشن کے بعد ان نر اور مادہ کتوں کو ان کے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیاجائے گا کیونکہ اب ان کے کاٹنے سے ربیز کا خطرہ نہیں ہوگا اور ان کی آبادی بھی کنٹرول کی جاسکے گی۔
پروفیسر ڈاکٹر مسعود ربانی کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق پاکستان کو ربیز سے پاک کرنے کے حوالے سے بھی یہ اہم اقدام ہوگا۔ جن کتوں کو ویکسی نیشن اور آپریشن کے بعد دوبارہ چھوڑا جائے گا ان کومخصوص ٹیگ لگایا جائے گا، اسی طرح میٹروپولٹین کارپوریشن کے عملے کی ٹریننگ بھی یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز میں شروع کردی گئی ہے، ٹریننگ کے دوران آوارہ کتوں کو پکڑنے کی مہارت دی جارہی ہے۔