انتخابی اصلاحات کی ضرورت

ایک پیش رفت الیکٹرانک ووٹنگ میں متوقع ہے، یہ برقیاتی شفافیت کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔


Editorial May 02, 2021
ایک پیش رفت الیکٹرانک ووٹنگ میں متوقع ہے، یہ برقیاتی شفافیت کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کی انتخابی اصلاحات کی تجاویز پر غور کرے جب کہ معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے اپوزیشن سے مل کر انتخابی اصلاحات کے خواہاں ہیں۔

تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر جمہوریت کی مضبوطی کے لیے انتخابی اصلاحات کرنی چاہئیں لیکن اس کی قیمت این آر او نہیں ہونی چاہیے، اگر یہ ساتھ نہیں دیں گے تو پھر بھی انتخابی اصلاحات کریں گے، قوم انتخابات میں چور بازاری اور دھاندلی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا بیان خوش آیند ہے اور ساتھ ہی وقت کے تقاضوں کا مظہر بھی، کیونکہ جمہوریت استوار ہی عوام کے ووٹوں کے نتیجہ پر ہوتی ہے، اور عوام کے ووٹوں کی روح پورے سسٹم کی رگوں میں دوڑتی ہے، کسی جمہوری ریاست کے ادارے ایک مربوط مشین کی طرح کام کرتے ہیں، جمہوری نظام کی اصل شروعات ہی ایک شفاف انتخابی نظام کی مرہون منت ہوتی ہے، لیکن اصل المیہ بھی انتخابی عمل، اس کی شفافیت، ترکیب عناصر، ووٹنگ اور ووٹر کے حق رائے دہی کے انتظامات اور پولنگ کے قوانین و ضوابط اور شیڈول کی کڑی نگرانی سے جڑے عوام کے حق رائے دہی سے حکومتی اور ریاستی کمٹمنٹ کی ایک اہم ادارے کے اختیار و بالادستی کا ہے۔

دنیا بھر کی جمہوریتوں کا اصول ہے کہ انھوں نے اپنے الیکشن کمیشن کو ہمہ جہتی بنیاد پر مکمل طور پر با اختیار رکھا ہے، اس لیے اس کے سب سے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد امریکی انتخابی نظام کی مضبوط بنیاد پر عوام، سول سوسائٹی جب کہ امریکی قوم کے ضمیر سے ملتے ہیں، ہمارا ملک بھی انتخابات کے عمل سے گزرا، اسی کے نتیجہ میں ایک نئی حکومت اقتدار میں آئی ہے اور تبدیلی کے ایک نظریے پر انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہی ہے، پی ٹی آئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کی ناگزیریت پر اول دن سے زور دے رہی ہے مگر بد قسمتی سے ملکی تاریخ میں جتنے اہم پالیسی اقدامات اور فیصلے ہوئے، ان پر عمل کرنے میں جس سنجیدہ اور آئینی سوچ کی ضرورت تھی، اس سے گریز کیا گیا۔

ماہرین قانون، سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو جمہوری عمل کے ضمن میں سیاسی فیصلے کرنے چاہئیں، اس میں کوتاہی، تساہل اور تجاہل عارفانہ کی تاویل و توضیح ہمارے کمزور سسٹم کا ایک دردناک المیہ رہا ہے، سیاست دانوں نے کبھی اہم آئینی اور قانونی باریکیوں، سسٹم کی خرابیوں کی اصلاح پر توجہ نہیں دی، چنانچہ آج عوام جن سیاسی اور دیگر سماجی، معاشی اور سفارتی معاملات کے گورکھ دھندے میں پھنسے ہوئے ہیں اس کی بنیادی وجہ نظام کی بنیاد رکھنے سے شعوری اور مصلحتاً گریز ہمارا قومی رویہ رہا ہے۔

اگر حکومت اپنے سو دن اس اصول کی روشنی میں پورے کرلیتی کہ انتخابی اصلاحات کے لیے سیاسی سواد اعظم کو مل بیٹھ کر ملک کے لیے ایک آزاد، با اختیار اور جمہوری طرز پر الیکشن کمیشن کی تشکیل میں دیر نہیں لگانی چاہیے، اس ڈیمانڈ پر وزیراعظم اپنے شرکا، مشیروں اور اتحادیوں کو پابند کر لیتے، ان سے کمٹمنٹ لیتے تو ملکی انتخابات میں دھاندلی، جھرلو، انجینئرڈ، رگنگ اور چمک ٹیمپرینگ کے الزامات سے سیاست داغدار نہ ہوتی، مگر سیاسی شراکت داروں پر ایسی جمہوری کمٹمنٹ ہمیشہ سے ایک قرض رہی۔

ستر کے الیکشن کو سیاسی اعتبار سے ملک کے شفاف انتخابات کے زمرے ڈالا جاتا ہے حالانکہ سیاسی بصیرت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ستر کے الیکشن کی منصفانہ صداقت بھی ملکی سالمیت اور سیاسی نظام کی کمزوریوں، سیاسی خلفشار اور مخالفانہ انتخابی گرداب میں ملک کو دونیم ہونے سے نہ بچا سکی، یہ انتخابی مسائل کی گمبھیرتا کا شاخسانہ تھا کہ دھاندلی کے الزامات سے پاک انتخابی عمل بھی سیاست دانوں سے گریٹر جمہوری رویے، سیاسی نظام اور عوام کے ووٹ کے تقدس کے علاوہ سیاسی اخلاقیات اور جمہوری عمل میں فیئر پلے کو اولیت دینے پر اصرار کرتا رہا مگر سیاسی تضاد اور ہٹ دھرمی نے کام خراب کیے۔

لیکن کراچی کے ضمنی انتخابات نے سیاست دانوں کو یاد دلایا کہ اب بھی وقت انتخابی اصلاحات کے لیے سیاسی رہنماؤں سے التماس کرتا ہے کہ وہ کراچی اور ڈسکہ کے ضمنی انتخابات سے سبق سیکھ لیں، انتخابی نظام میں مضمر خرابیوں کی جلد اصلاح پر اپنے فروعی اور دیگر اختلافات ختم کر کے عوام کو ایک شفاف الیکشن کمیشن اور شفاف ترین الیکٹرل کالج کی تشکیل نو کا راستہ کلیئر کریں، دوسرے مغربی و جمہوری ملکوں کے تجربات سے فیضیاب ہوں، ووٹنگ کی شفافیت پورے سیاسی نظام کی طاقت، جمہوری وقار، عوامی امنگوں کی پاسداری کی نقیب ہوتی ہے، ووٹنگ عوام کے جمہوری شعور کی نمایندگی کا سب سے بڑا معیار ہوتی ہے، اس لیے وکلا و دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کی بھر پور طریقے سے وکالت کریں۔

ماہرین قانون حکمرانوں کا اس جمہوری اصول کی روشنی میں احتساب کریں کہ اگر الیکشن شفاف نہیں ہوں گے تو قوم کسی جمہوری قانون کی شفافیت پر یقین نہیں کرے گی، حالات درست نہیں ہوںگے، انارکی اور تناؤ کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا، اسٹیٹس کو ختم ہونے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ شفافیت اور جوابدہی قانون کی حکمرانی سے ہم آہنگ ہو، ان اصولوں کی دستاویزی ضمانت دی جائے۔ سارے اقدامات آئین و قانون سے روشنی پائیں جنھیں ادارہ جاتی وقعت و تکریم الیکشن کمیشن سے ملے تاکہ عوام کو قوی اطمینان اور جمہوری استحکام منزل پر اطمینان کا سانس لینے کا موقع مل سکے، اسے یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ

منزل کہاں ہے تیری اے لالۂ صحرائی

نہ ہی کسی کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے، پہلے ڈسکہ کے ضمنی الیکشن اور اب کراچی کا ضمنی الیکشن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انتخابی اصلاحات کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ووٹنگ کی شرح سے اندازہ ہوتا ہے عوام کا انتخابی عمل سے اعتبار ختم ہو رہا ہے ۔گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ کراچی کے این اے 249 کے انتخابات کا نتیجہ جمہوریت کے لیے افسوسناک ہے، وزیر اعظم عمران خان شفاف انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام چاہتے ہیں۔

ادھر وزیراعظم عمران خان نے 6 ماہ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے کی ہدایت کر دی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ کراچی کے ضمنی الیکشن کو ٹیسٹ کیس بنایا جائے، ملک کو جمہوری پیش رفت کی اشد ضرورت ہے، پاکستان بالخصوص کراچی کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کی امید دلانے والا سسٹم چاہیے، ووٹرز کو معلوم ہونا چاہیے کہ انھوں نے جس پارٹی اور امیدوار کو ووٹ ڈالا ہے ، وہ چوری نہیں ہوسکتا ہے۔

یہی یقین اور اعتماد جمہوری نظام کی کامیابی کی پہلی اینٹ ہے۔ سیاسی اور ریاستی سٹیک ہولڈر کوشش کریں کہ انتخابی گلے شکوے باہمی سیاسی مکالمہ اور جمہوری جذبہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوں، عوام کو مہنگائی، غربت سے نجات ملے اور پاکستان کی عوام میں خیر سگالی اور وسیع المشربی فروغ پائے۔

حکومت کو انتخابی اصلاحات کے وسیع تر ایجنڈے کو نتیجہ خیز اقدامات سے مربوط بنیاد فراہم کرنا ہوگی، سب سے پہلے سیاسی شراکت دار ایک ایسے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنائیں جو پاکستان میں انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنا دے، اسے مکمل مالیاتی، قانونی، آئینی اور انتظامی اختیارات تفویض ہوں، ملک کی انتظامی مشینری دوران الیکشن اس کے ماتحت ہو، ہمہ جہتی اختیارات بشمول الیکشن مہم ، پولنگ کے مکمل میکنزم، انگوٹھوں کے نشان وغیرہ میں کسی دوسرے ادارہ کی مداخلت کا کوئی شائبہ تک نہ ہو، اب تک الیکشن کمیشن سے متعلق جو سنگین الزامات، تنازعات اور شکوک وشبہات اٹھائے گئے ان کا مکمل ازالہ ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن کے سامنے پورے انتخابی عمل کی جوابدہی کو آئینی استقامت اور انتظامی سہولت مہیا کی جائے۔

انتخابات اور ضمنی انتخابات میں شرح ووٹنگ کے حوالے سے قوانین میں کوئی ابہام نہ رہنے دیا جائے، کوئی ذومعنیت باقی نہ رہنے دی جائے، چیف الیکشن کمشنر کی ذات پر سب کو مکمل اعتماد ہونا چاہیے، انھیں متنازع بنانے کی کوئی گنجائش قانون میں نہیں ہونی چاہیے، ان کا وقار مسلمہ ہو۔ جمہوری حکومتوں میں جو طرز انتخاب مسلمہ اور مروج ہے اس کی پیروی کی جائے، پولنگ کے دن سیکیورٹی کا پورا سسٹم الیکشن کمیشن کی نگرانی میں دیا جائے، دھاندلی اور رگنگ کا الزاماتی داغ اب سیاسی نظام نے دھونا ہے، ووٹنگ کے وقت کا تعین سختی سے ہونا شرط ہے، رزلٹ کے اعلان کی شفافیت ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر رکھی جائے۔

بلاشبہ ایک پیش رفت الیکٹرانک ووٹنگ میں متوقع ہے، یہ برقیاتی شفافیت کی جانب ایک اہم قدم ہوگا، نادرا کا اس میں بنیادی کردار ہونا چاہیے، یوں مینول جعلی ووٹنگ کا راستہ بند ہوگا اور ووٹ کی توقیر بڑھ جائے گی۔ بہر حال ممکنہ انسانی اور تکنیکی اقدامات کے تناظر میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا لازم ہے کہ سسٹم کی شفافیت کو داغدار کرنے میں ملوث عناصر بھی جمہوری سسٹم کے اندر آپریٹ کرتے ہیں، پولنگ کے دوران اور بعد میں رگنگ کے حوالے سے جو بھی سامنے آجائے ، اس کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہونے چاہیے۔

ان پر نظر رکھنے کی ذمے داری بھی جمہوریت کے کسٹوڈین کی ہوتی ہے، ملک کی سیاسی قیادت جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سیاسی ارتقا کے جدلیاتی عمل سے خود کو ہمیشہ منسلک رکھیں، کوئی آسمان سے انتخابی شفافیت نہیں لائے گا، یہ کام بھی جمہوریت کے پاسبانوں ہی کو کرنے ہوںگے۔ پہلو تہی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں