جنگ نہیں امن
چین نے امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ اب امریکا اپنے کام سے کام رکھے اور دوسرے ممالک میں دخل اندازی کرنا ترک کردے۔
عالمی امن کو آج جتنا خطرہ امریکا سے ہے، اتنا کسی اور ملک سے نہیں ہے۔ یہ کسی بھی وقت کسی بھی ملک پر قبضہ کرکے وہاں کے عوام کو اپنا محکوم بنا سکتا ہے۔ عراق اور افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن ہونے کا دعویدار تو ہے مگر اصل میں خود انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ خاص طور پر مسلمان اسے ذرا نہیں بھاتے وہ انھیں تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا ہے۔ اس وقت عراق اور افغانستان ہی نہیں شام ، لیبیا ، یمن اور صومالیہ بھی اس کے قہرکا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ سوڈان اور انڈونیشیا کو بھی وہ نشانہ بنا چکا ہے۔ ان کے کچھ حصوں کوکاٹ کر دو عیسائی ملک جنوبی سوڈان اور تیمورکے نام سے آزاد کرا چکا ہے۔
ان کے عوام نے کچھ ہی سال قبل یہ فرمائش کی تھی اور امریکا بہادر نے اپنے یورپی حلیفوں سے مل کر اقوام متحدہ کے ذریعے انھیں آزادی دلادی جب کہ فلسطین اورکشمیر کے مسلمان گزشتہ 72 برسوں سے آزادی کے لیے ترس رہے ہیں اور قابض ممالک کے ظلم و ستم کو سہہ رہے ہیں۔ امریکا چین کے یغور مسلمانوں پر مبینہ زیادتی پر چین سے باز پرس کر رہا ہے جب کہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے بھارت اور اسرائیل سے باز پرس کرنے کے بجائے ان کی ہر طرح ہمت افزائی کر رہا ہے۔
سابق صدر جارج بش اور ٹرمپ نے کھل کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں جیسی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن ان دو پیش روؤں سے مختلف ہوں گے مگر یہ نئے صدر تو ان سے بھی زیادہ مسلمانوں کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی افغان امن مذاکرات کو ختم کرا دیا اور اپنی افواج کو افغانستان سے یکم مئی تک باہر نکالنے کے وعدے کو توڑ دیا۔
اب عراق سے فوجیں واپس بلانے سے بھی منع کردیا ہے جب کہ شام ، لیبیا اور صومالیہ کے مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ عرصے میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمے دار امریکا تھا اب پھر پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اسے افغانستان سے نکالا گیا تو پھر پاکستان لامتناہی دہشت گردی کی لپیٹ میں آسکتا ہے لیکن پاکستان امریکی دھمکی سے ذرا مرعوب نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کا پہلے ہی مردانہ وار مقابلہ کرکے اس کا صفایا کرچکا ہے اور اگر اس نے پھر ایسا کیا تو پاکستان دہشت گردوں سے نمٹنا خوب جانتا ہے۔
حال ہی میں جوبائیڈن نے ترکی پر آرمینیوں کی نسل کشی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ایسا الزام اس سے پہلے کسی امریکی صدر نے نہیں لگایا تھا اس لیے کہ اس نسل کشی کو آج تک کوئی ثابت نہیں کرسکا ہے۔ یہ الزام ایسا ہی ہے جیساکہ بھارت پاکستان پر بنگالیوں کی نسل کشی کا الزام لگاتا ہے جب کہ خود بھارتی اور بنگلہ دیشی دانشوروں اور محققین نے اس دعوے کو غلط اور لغو قرار دیا ہے۔
ترک حکومت نے آرمینیوں کی نسل کشی کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ اس کے مطابق پہلی جنگ عظیم کے دوران 1915 سے 1917 تک روس کی جنگ کے بعد خلافت عثمانیہ کی فوجوں کی واپسی پر آرمینیا کے عسکریت پسندوں کی مزاحمت کی وجہ سے انھیں آرمینیوں سے نمٹنا پڑا تھا اس میں صرف عیسائی ہی نہیں ، مسلمانوں کا بھی کافی نقصان ہوا تھا۔ افسوس کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کو تو بھلا دیا گیا البتہ آرمینیوں کی ہلاکت پر ترکی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جوبائیڈن نے ترکی پر نسل کشی کا الزام لگا کر دراصل اپنے متعصب ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے اگر وہ واقعی انسانی حقوق کے علم بردار ہوتے تو کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آواز بلند کرتے اور انھیں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خود اختیاری دلانے کے لیے سینہ سپر ہوجاتے مگر وہ تو بھارت اور اسرائیل کو نوازنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے ناز نخرے اٹھا رہے ہیں۔ جوبائیڈن کو ترکی پر سو سال پرانی متنازعہ نسل کشی کا الزام لگانے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے تھا۔ کیا ان کا ملک جاپانیوں کی نسل کشی کا ذمے دار نہیں ہے۔ امریکا کے ہیروشیما اور ناگاساکی پر دوسری جنگ عظیم کے دوران پھینکے گئے ایٹم بموں کی تباہی کو کیا دنیا کبھی بھول سکتی ہے؟
ان دھماکوں میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت امریکا کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ ہے مگر امریکا نے جس طرح ہولوکاسٹ کا نام لینے پر پابندی لگا رکھی ہے اسی طرح کوئی جاپانیوں کی نسل کشی کی بھی بات نہیں کرسکتا ہے۔ ٹرمپ کے بعد لوگوں نے جوبائیڈن سے یہ امید لگا رکھی تھی کہ وہ ٹرمپ کی طرح عالمی امن کو تباہ کرنے کے بجائے امن عالم کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ٹرمپ بھی چین کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے تھے اور اب جوبائیڈن بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ ٹرمپ نے بھارت آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر ایک نیا فوجی گروپ ''کواڈ'' کے نام سے بنایا تھا جس کے ذریعے وہ چین کی بحر ہند میں ناکہ بندی کرنا چاہتے تھے جوبائیڈن اسے مزید تقویت دے رہے ہیں۔
وہ چین کے ساتھ ساتھ روس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں انھوں نے روسی صدر پوتن سے اپنی پہلی ٹیلی فونک بات چیت میں انھیں بغیر سوچے سمجھے قاتل قرار دے دیا ہے۔ یوکرین کے معاملے پر روس کو جنگ کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں اور یورپی ممالک کو روس سے تعلقات ختم کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ ادھر انھوں نے چین کے وزیر خارجہ کو الاسکا طلب کرکے چین کو قابو میں کرنے کی کوشش کی ہے مگر چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکی دباؤ میں نہیں آئے گا اور اپنے متعین کردہ عالم انسانیت کی خدمت کرنے کے مشن کو جاری رکھے گا وہ سی پیک منصوبے سے بھی دست بردار نہیں ہوگا نہ ہی ایران کو اکیلا چھوڑے گا۔
چین نے امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ اب امریکا اپنے کام سے کام رکھے اور دوسرے ممالک میں دخل اندازی کرنا ترک کردے کیونکہ اب وہ دنیا کی سپرپاور نہیں رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اب امریکا اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ اب اس کی چوہدراہٹ کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ اب وہ دنیا کی سپرپاور بھی نہیں رہا ہے اب اصل سپرپاور چین ہے مگر اسے اس بات پر ذرا غرور نہیں ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن ہونے کا دعویدار تو ہے مگر اصل میں خود انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ خاص طور پر مسلمان اسے ذرا نہیں بھاتے وہ انھیں تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا ہے۔ اس وقت عراق اور افغانستان ہی نہیں شام ، لیبیا ، یمن اور صومالیہ بھی اس کے قہرکا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ سوڈان اور انڈونیشیا کو بھی وہ نشانہ بنا چکا ہے۔ ان کے کچھ حصوں کوکاٹ کر دو عیسائی ملک جنوبی سوڈان اور تیمورکے نام سے آزاد کرا چکا ہے۔
ان کے عوام نے کچھ ہی سال قبل یہ فرمائش کی تھی اور امریکا بہادر نے اپنے یورپی حلیفوں سے مل کر اقوام متحدہ کے ذریعے انھیں آزادی دلادی جب کہ فلسطین اورکشمیر کے مسلمان گزشتہ 72 برسوں سے آزادی کے لیے ترس رہے ہیں اور قابض ممالک کے ظلم و ستم کو سہہ رہے ہیں۔ امریکا چین کے یغور مسلمانوں پر مبینہ زیادتی پر چین سے باز پرس کر رہا ہے جب کہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے بھارت اور اسرائیل سے باز پرس کرنے کے بجائے ان کی ہر طرح ہمت افزائی کر رہا ہے۔
سابق صدر جارج بش اور ٹرمپ نے کھل کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں جیسی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن ان دو پیش روؤں سے مختلف ہوں گے مگر یہ نئے صدر تو ان سے بھی زیادہ مسلمانوں کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی افغان امن مذاکرات کو ختم کرا دیا اور اپنی افواج کو افغانستان سے یکم مئی تک باہر نکالنے کے وعدے کو توڑ دیا۔
اب عراق سے فوجیں واپس بلانے سے بھی منع کردیا ہے جب کہ شام ، لیبیا اور صومالیہ کے مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ عرصے میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمے دار امریکا تھا اب پھر پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اسے افغانستان سے نکالا گیا تو پھر پاکستان لامتناہی دہشت گردی کی لپیٹ میں آسکتا ہے لیکن پاکستان امریکی دھمکی سے ذرا مرعوب نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کا پہلے ہی مردانہ وار مقابلہ کرکے اس کا صفایا کرچکا ہے اور اگر اس نے پھر ایسا کیا تو پاکستان دہشت گردوں سے نمٹنا خوب جانتا ہے۔
حال ہی میں جوبائیڈن نے ترکی پر آرمینیوں کی نسل کشی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ایسا الزام اس سے پہلے کسی امریکی صدر نے نہیں لگایا تھا اس لیے کہ اس نسل کشی کو آج تک کوئی ثابت نہیں کرسکا ہے۔ یہ الزام ایسا ہی ہے جیساکہ بھارت پاکستان پر بنگالیوں کی نسل کشی کا الزام لگاتا ہے جب کہ خود بھارتی اور بنگلہ دیشی دانشوروں اور محققین نے اس دعوے کو غلط اور لغو قرار دیا ہے۔
ترک حکومت نے آرمینیوں کی نسل کشی کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ اس کے مطابق پہلی جنگ عظیم کے دوران 1915 سے 1917 تک روس کی جنگ کے بعد خلافت عثمانیہ کی فوجوں کی واپسی پر آرمینیا کے عسکریت پسندوں کی مزاحمت کی وجہ سے انھیں آرمینیوں سے نمٹنا پڑا تھا اس میں صرف عیسائی ہی نہیں ، مسلمانوں کا بھی کافی نقصان ہوا تھا۔ افسوس کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کو تو بھلا دیا گیا البتہ آرمینیوں کی ہلاکت پر ترکی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
جوبائیڈن نے ترکی پر نسل کشی کا الزام لگا کر دراصل اپنے متعصب ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے اگر وہ واقعی انسانی حقوق کے علم بردار ہوتے تو کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آواز بلند کرتے اور انھیں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خود اختیاری دلانے کے لیے سینہ سپر ہوجاتے مگر وہ تو بھارت اور اسرائیل کو نوازنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے ناز نخرے اٹھا رہے ہیں۔ جوبائیڈن کو ترکی پر سو سال پرانی متنازعہ نسل کشی کا الزام لگانے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے تھا۔ کیا ان کا ملک جاپانیوں کی نسل کشی کا ذمے دار نہیں ہے۔ امریکا کے ہیروشیما اور ناگاساکی پر دوسری جنگ عظیم کے دوران پھینکے گئے ایٹم بموں کی تباہی کو کیا دنیا کبھی بھول سکتی ہے؟
ان دھماکوں میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت امریکا کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ ہے مگر امریکا نے جس طرح ہولوکاسٹ کا نام لینے پر پابندی لگا رکھی ہے اسی طرح کوئی جاپانیوں کی نسل کشی کی بھی بات نہیں کرسکتا ہے۔ ٹرمپ کے بعد لوگوں نے جوبائیڈن سے یہ امید لگا رکھی تھی کہ وہ ٹرمپ کی طرح عالمی امن کو تباہ کرنے کے بجائے امن عالم کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ٹرمپ بھی چین کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے تھے اور اب جوبائیڈن بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ ٹرمپ نے بھارت آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر ایک نیا فوجی گروپ ''کواڈ'' کے نام سے بنایا تھا جس کے ذریعے وہ چین کی بحر ہند میں ناکہ بندی کرنا چاہتے تھے جوبائیڈن اسے مزید تقویت دے رہے ہیں۔
وہ چین کے ساتھ ساتھ روس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں انھوں نے روسی صدر پوتن سے اپنی پہلی ٹیلی فونک بات چیت میں انھیں بغیر سوچے سمجھے قاتل قرار دے دیا ہے۔ یوکرین کے معاملے پر روس کو جنگ کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں اور یورپی ممالک کو روس سے تعلقات ختم کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ ادھر انھوں نے چین کے وزیر خارجہ کو الاسکا طلب کرکے چین کو قابو میں کرنے کی کوشش کی ہے مگر چین نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکی دباؤ میں نہیں آئے گا اور اپنے متعین کردہ عالم انسانیت کی خدمت کرنے کے مشن کو جاری رکھے گا وہ سی پیک منصوبے سے بھی دست بردار نہیں ہوگا نہ ہی ایران کو اکیلا چھوڑے گا۔
چین نے امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ اب امریکا اپنے کام سے کام رکھے اور دوسرے ممالک میں دخل اندازی کرنا ترک کردے کیونکہ اب وہ دنیا کی سپرپاور نہیں رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اب امریکا اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ اب اس کی چوہدراہٹ کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ اب وہ دنیا کی سپرپاور بھی نہیں رہا ہے اب اصل سپرپاور چین ہے مگر اسے اس بات پر ذرا غرور نہیں ہے۔