محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد …

ٹریڈ یونینز بنیادی طور پر اداروں پر گورننس کے بارے میں چیک اینڈ بیلنس ہے۔



شکاگو کے محنت کشوں کی طرف سے حقوق کے حصول کے لیے کی جانیوالی تحریک کاآغاز 135 سال قبل اُس وقت کے پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں نے ایک پرامن ریلی سے شکاگو کی گلیوں سے کیا تھا۔

سرمایہ دار طبقہ طاقت کے بل بوتے پر محنت کشوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر چکا تھا صبح مزدوروں کا روزگار پر جانے کا وقت مقرر تھا لیکن واپسی سرمایہ داروں کی ہوس کی مرہون منت ہوا کرتی تھی اگر کوئی ورکرز اپنے ساتھ ہونیوالے مظالم اور ناانصافیوں کی نشاندہی کرتا تھا تو اس تشدد کاسامنے کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار سے بھی محروم ہونا پڑتا تھا۔

ان مشکل حالات میں محنت کشوں نے خود کو منظم کیا اور 1886میں فیصلہ کیا کہ پر امن احتجاج کیا جائے گا جس میں اوقات کار کا تعین ، جو محنت کرتا تھا اس کی مناسب اُجرت اور بنیادی حقوق کی فراہمی جیسے اہم نکات پر تحریک کا آغاز کیا گیا لیکن سرمایہ دار طبقہ طاقت کے نشے میں اس قدر مست تھا کہ انسانوں کے ساتھ بھی جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے جس کی پاداش میں پُر امن محنت کشوں کی ریلی پر سرمایہ دار طبقہ نے اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے فائرنگ کروائی اور نہتے مزدوروں کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے سفید یونیفارم کو خون میں رنگ دیا بد قسمتی کے ساتھ طاقت کی آگ یہیں پر ختم نہیں ہوئی اس تحریک کی سربراہی کرنیوالے مزدوررہنماؤں پر جھوٹے مقدمے بنائے گئے اور پھرحقوق کا مطالبہ کرنے پر پھانسی کے پھندے تک چڑھا دیا لیکن ان مزدوروں کی جدوجہد کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں کی تحریکوں نے جنم لیا جس کی بنیاد پر عالمی سطح پر لیبر قوانین کا تعین کیا گیا بالخصوص آٹھ گھنٹے کے اوقات کار طے کیے گئے۔

آٹھ گھنٹے سوشل لائف اور آٹھ گھنٹے ذاتی زندگی کو لازم دینے قرار پائے۔ اسی کی روشنی میں آئی ایل او کنونشن مرتب کیے گئے جس کے تحت تمام ممالک کو پابند کیا گیا کہ اس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ دُنیا میں کوئی بھی جدوجہد کی تحریک کارکنوں کی شمولیت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ذاتی مفادات کسی فرد کو فائدہ وقتی طور پر پہنچا سکتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر تمام ورکرز کا حق وسچ کے ساتھ استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا ہی کامیابی کی علامت ہے، جس کی مثال شکاگو کے محنت کشوں کی ہے آج 135 سال ہونے جارہے ہیں لیکن تاریخ میں ان کی جدوجہد عروج کو چھو رہی ہے۔

اس تحریک میں بھی جن مزدوروں نے غداری کی آج ان کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے لیکن جنھوںنے اپنے خون سے محنت کشوں کی تحریک کو مضبوط کرکے آگے بڑھایا ان کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں تاریخ میں لکھا جائے گا۔اس تناظر میں ہم ریاست پاکستان کا جائزہ لیں، کیا یومِ مئی کے بنیادی فلسفے پر عمل درآمد کیا گیا اگر نہیں کیا گیا تو پھر کیا ہم اپنی ریاست کو سرمایہ دار طبقے کے رحم وکرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں جس سے یقینا محرومات طبقات میں انارکی پھیلنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا کسی بھی ملک کی معیشت میں محنت کش طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی مانند اپنا کردار ادا کرتا ہے لیکن طاقت کے بل بوتے پر جب محنت کشوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے تو پھر بہت سے سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔

ملک کے دستور کے آرٹیکل 17 کے تحت ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ ہر شہری کو انجمن سازی کا حق ہے اس سلسلے میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے باقاعدہ لیبر قوانین کو منظور کیا گیا ہے جس کے تحت انجمن سازی کا حق محنت کشوں کو ہوگا لیکن بد قسمتی کے ساتھ اس وقت بھی پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں کوئی دو فیصد ٹریڈ یونینز کا حق دیا گیا ہے طاقت کی بنیاد پر ملک کے آئین کے خلاف ورزی اداروں کے سربراہ اور مالکان کر رہے ہیں جن کے سامنے سیاسی پارٹیوں کے منتخب نمایندے بے بس نظر آتے ہیں چونکہ سیاسی پارٹیوں میں بھی سرمایہ دار طبقہ قابض ہو چکا ہے جو پارلیمنٹ کی سطح پر محنت کشوں کی آواز کو مکمل طور پر سلب کر چکا ہے۔

اس سلسلے میں یورپین یونین نے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنی منڈی میں فروغ دینے کے لیے جی ایس پی پلس ایگریمنٹ کیا جس میں حکومت پاکستان کو پابند کیا گیا ہے کہ آئی ایل او کنوینش 87 اور98 پر لازم عمل درآمد کیا جائے گا خلاف ورزی کی صورت میں ایگریمنٹ بھی ختم ہو سکتا ہے۔ آئی آر اے 2012 کی سیکشن2 کی سب کلاز (xxxiii) میں ورکرز کی تعریف کا تعین کیا گیا ہے کہ کسی بھی ادارے میں مستقل ورکرز، کنٹریکٹ ورکرزاور کنٹریکٹرکے ذریعے ملازمت پر رکھے گئے ورکرز کواگر نوے دن ادارے میں ملازمت پر مکمل ہو جائیں گے تو اسے یونین کی ممبر شپ کے ساتھ ساتھ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوگا اس پر بھی ملک بھر کے ادارے طاقت کے بل بوتے پر ورکرز کو بنیادی حق سے محروم کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل طور پر ورکرز کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں اور محنت کشوں کی تنظیموں کو اس پر مشترکہ جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ جن ملازمین کو ہم آگاہی دے رہے ہیں وہ بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہیںکہ یونین کی ممبر شپ لے کر جدوجہد میں شامل ہوں جس کی وجہ سے مسلسل حقوق سلب ہو رہے ہیں۔

اداروں میں ٹریڈ یونینز کے کردار کو ختم کرنے کے لیے گزشتہ بیس سالوں سے سرمایہ دار طبقہ، بیوروکریسی اور استحصالی قوتوں کے گٹھ جوڑ نے کلریکل اور نان کلریکل کیڈرز میں مستقل بھرتیوں کے بجائے کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے ذریعے ملازمتیں دی گئی ہیں اور پھر ایک منصوبہ بندی کے تحت ان ورکرز کو ٹریڈ یونینز سرگرمیوں سے محروم رکھنا آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے جب کہ اس سلسلے میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے بہت سے فیصلے بھی آچکے ہیں کہ مستقل پوسٹ پر کنٹریکٹ ، ڈیلی ویجز اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے ذریعے کی جانے والی بھرتیاں خلاف قانون ہے لیکن ریاستی ڈھانچہ اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ اداروں کی انتظامیہ اور اداروں کے مالکان ملک کے آئین سے خود کو بالا ترتصورکرتے ہیں۔ملک کا آئین تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن ریاست اس پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہے۔

اداروں میں ایک منصوبہ بندی کے تحت تاثر قائم کیا گیا ہے کہ ٹریڈ یونین کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں ٹریڈ یونینز بنیادی طور پر اداروں پر گورننس کے بارے میں چیک اینڈ بیلنس ہے اگر دونوں فریق رول آف لاء کی رٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذمے داری ادا کریں تو کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ اداروں میں گورننس کو بہتر نہ کیا جائے۔

بنیادی طور پر اداروں کی انتظامیہ بعض اداروں میں پاکٹ یونین کو فروغ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دیتی ہے جس سے ادارے تباہ ہوتے ہیں جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔ محنت کشوں کو شکاگو کی طرز پر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ ملک کے اداروں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ورکرز کے بنیادی حقوق کی فراہمی ملک کے آئین کی روشنی میں یقینی بنایا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں