انسانیت کے لیے دعا اور دوا
ہر طرح کی عصبیت کو دل سے نکال کر انسانیت کا درد دل میں محسوس کریں۔
بھارت میں کورونا وبا کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ، قیامت صغریٰ کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہندومت کے پیروکار جس طرح سے اللہ کو پکار رہے ہیں۔ مسلمانوں سے دعا کی اپیل کررہے ہیں یہ حیرت انگیز منظر ہے، جب کہ اس سے پہلے مختلف حلیے بہانوں سے مسلمانوں کا استحصال کیا جا رہا تھا ، مسجدوں کو بند کیا جا رہا تھا یا ڈھایا جا رہا تھا۔
گائے کو بہانا بنا کر مسلمانوں پر حملے اور پرتشدد واقعات رونما ہو رہے تھے جس سے بھارت کی سیکولر حیثیت ختم ہو رہی ہے اور بھارت کا ہندوتوا کا ایک وحشت ناک چہرہ دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے تو تاریخ کے طویل ترین لاک ڈائون کا سامنا کررہے ہیں ، وہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے قید ہیں ، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے ۔ کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔
اس ہی طرح دیگر ممالک میں بھی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح مذہبی دہشت گردی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے کہیں مسلک کی بنا پر تو کہیں فرقہ واریت تو کہیں زبان اور قوم کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ عالمی بحران بنتا جا رہا ہے آج کا یہ عالمی بحران مذہبی ، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اور معاشی طور پر دنیا کو متاثرکررہا ہے ، جس کے باعث مختلف معاشروں میں بے چینی نفرت اور اضطراب کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے اس لیے مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔
یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ہر مذہب کی اپنی تعلیمات ہوتی ہیں جو عوام کو بنیادی انسانی قدریں عطا کرتی ہیں جس سے انسانی معاشرہ بہتری کی طرف بڑھتا ہے اور یہ قدریں معاشرے کے نگراں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اب دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے، کسی بھی ملک میں ہونے والے واقعات کو پوری دنیا میں بیک وقت دیکھا جاتا ہے اور یہ واقعات دنیا کی مختلف تہذیبوں کے افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں جہاں یہ شعور اور آگاہی دیتے ہیں وہیں یہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں منفی اور مثبت رویوں کو بھی جنم دیتے ہیں اس لیے ایسی کوششوں کی عالمی سطح پر ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے تمام مسلک اور مذاہب کے درمیان مثبت رابطہ پیدا کر کے دنیا میں پائی جانے والی مشکلات کو کم کیا جائے۔
ماضی میں مذہبی طبقوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مختلف کوششیں ہوئیں مگر اس کے مثبت اثرات پیدا نہیں ہو سکے۔ مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے بنائے ہوئے دین الٰہی کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کی سعی کی مگر یہ طریقہ غیر فطری تھا۔ اس لیے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا اسی طرح بھارت میں رام اور رحیم کے فلسفہ کو بھی کامیابی نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی دونوں کوششوں کا حقیقت پسندانہ اپروچ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
مذہبی طبقات میں ڈائیلاگ کا دروازہ کھولنے کے لیے اسلام کا فلسفہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اسلام نظریاتی اختلاف کو قبول کرتا ہے برداشت احترام اور محبت کی پالیسی کو تب ہی تشکیل دیا جا سکتا ہے جب آپ دوسرے کے نظریات کو احترام دے کر اختلاف قبول کرتے ہیں یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ معاشرے کی تشکیل کے لیے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اختلافات کو سمجھنے کے بعد ہی دوسرے عقائد اور مذاہب کا احترام جنم لیتا ہے اور اسی طرح مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہے۔
اسلام نے اس حوالے سے جو نہایت اہم اصول وضع کیا ہے اس میں مذاہب کے بجائے مذہبی افراد کے مابین ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ مذاہب کے درمیان فرق کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے دیے ہوئے اس زریں اصول کی دنیا کو آج بہت ضرورت ہے ہر مذہب کے اپنے عقائد ہیں اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے مذہب یا عقائد کے حوالے سے زبان کھولے اختلافات کو سمجھ کر مذاہب کے مشرکات کو جمع کر کے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
آج تعلیم ، اٹانومی ، مذہبی و روحانی مذہبی اور سماجی خدمات ،گلوبل آؤٹ لک ، ماحولیاتی تبدیلیاں ، سائنس و ٹیکنالوجی شخصی آزادی ملٹی کلچرل ازم اور امن کے قیام جیسی درجنوں مشترکات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اگر اس کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو ضرورکامیابی ہوگی کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عالمی وبا جیسی مشکلات سامنے آتی ہیں تو لوگ بغیر مذہب قوم مسلک کے ایک دوسرے کی ہمدردی میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کہیں یہ بات سامنے نہیں آتی کہ فلاں اس فرقہ یا مسلک یا مذہب کا ہے اس کی مدد نہیں کی جائے بلکہ بغیر تخصیص کیے لوگ مدد کر رہے ہوتے ہیں انسانیت کے لیے دعا اور دوا کرتے ہیں اگر یہ ہی رویہ ہم مشکلات کے علاوہ بھی اپنا لیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی، کیونکہ ہم اس وقت تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ پرکھڑے ہیں۔
ایک طرف موت ہے اور دوسری طرف زندگی ، فطری طور پر ہر شخص جینا چاہتا ہے، لیکن جینے کے لیے اپنے من کو پاک وصاف کرنا ہوگا، ہر طرح کی عصبیت کو دل سے نکال کر انسانیت کا درد دل میں محسوس کریں۔ دنیا کے تمام انسان برابر ہیں اور انسانیت اسی میں ہے کہ اس مشکل کی گھڑی میں بلاتفریق رنگ ونسل ، زبان اور قوم کے بطور انسان دوسرے انسان کے کام آئیں تو بلاشبہ انسانیت بچ سکتی ہے اور اس وبا کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
گائے کو بہانا بنا کر مسلمانوں پر حملے اور پرتشدد واقعات رونما ہو رہے تھے جس سے بھارت کی سیکولر حیثیت ختم ہو رہی ہے اور بھارت کا ہندوتوا کا ایک وحشت ناک چہرہ دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے تو تاریخ کے طویل ترین لاک ڈائون کا سامنا کررہے ہیں ، وہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے قید ہیں ، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے ۔ کوئی اتہ پتہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔
اس ہی طرح دیگر ممالک میں بھی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح مذہبی دہشت گردی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے کہیں مسلک کی بنا پر تو کہیں فرقہ واریت تو کہیں زبان اور قوم کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ عالمی بحران بنتا جا رہا ہے آج کا یہ عالمی بحران مذہبی ، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اور معاشی طور پر دنیا کو متاثرکررہا ہے ، جس کے باعث مختلف معاشروں میں بے چینی نفرت اور اضطراب کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے اس لیے مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔
یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ہر مذہب کی اپنی تعلیمات ہوتی ہیں جو عوام کو بنیادی انسانی قدریں عطا کرتی ہیں جس سے انسانی معاشرہ بہتری کی طرف بڑھتا ہے اور یہ قدریں معاشرے کے نگراں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اب دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے، کسی بھی ملک میں ہونے والے واقعات کو پوری دنیا میں بیک وقت دیکھا جاتا ہے اور یہ واقعات دنیا کی مختلف تہذیبوں کے افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں جہاں یہ شعور اور آگاہی دیتے ہیں وہیں یہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں منفی اور مثبت رویوں کو بھی جنم دیتے ہیں اس لیے ایسی کوششوں کی عالمی سطح پر ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے تمام مسلک اور مذاہب کے درمیان مثبت رابطہ پیدا کر کے دنیا میں پائی جانے والی مشکلات کو کم کیا جائے۔
ماضی میں مذہبی طبقوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مختلف کوششیں ہوئیں مگر اس کے مثبت اثرات پیدا نہیں ہو سکے۔ مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے بنائے ہوئے دین الٰہی کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کی سعی کی مگر یہ طریقہ غیر فطری تھا۔ اس لیے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا اسی طرح بھارت میں رام اور رحیم کے فلسفہ کو بھی کامیابی نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی دونوں کوششوں کا حقیقت پسندانہ اپروچ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
مذہبی طبقات میں ڈائیلاگ کا دروازہ کھولنے کے لیے اسلام کا فلسفہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اسلام نظریاتی اختلاف کو قبول کرتا ہے برداشت احترام اور محبت کی پالیسی کو تب ہی تشکیل دیا جا سکتا ہے جب آپ دوسرے کے نظریات کو احترام دے کر اختلاف قبول کرتے ہیں یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ معاشرے کی تشکیل کے لیے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اختلافات کو سمجھنے کے بعد ہی دوسرے عقائد اور مذاہب کا احترام جنم لیتا ہے اور اسی طرح مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہے۔
اسلام نے اس حوالے سے جو نہایت اہم اصول وضع کیا ہے اس میں مذاہب کے بجائے مذہبی افراد کے مابین ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ مذاہب کے درمیان فرق کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے دیے ہوئے اس زریں اصول کی دنیا کو آج بہت ضرورت ہے ہر مذہب کے اپنے عقائد ہیں اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے مذہب یا عقائد کے حوالے سے زبان کھولے اختلافات کو سمجھ کر مذاہب کے مشرکات کو جمع کر کے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
آج تعلیم ، اٹانومی ، مذہبی و روحانی مذہبی اور سماجی خدمات ،گلوبل آؤٹ لک ، ماحولیاتی تبدیلیاں ، سائنس و ٹیکنالوجی شخصی آزادی ملٹی کلچرل ازم اور امن کے قیام جیسی درجنوں مشترکات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اگر اس کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو ضرورکامیابی ہوگی کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عالمی وبا جیسی مشکلات سامنے آتی ہیں تو لوگ بغیر مذہب قوم مسلک کے ایک دوسرے کی ہمدردی میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کہیں یہ بات سامنے نہیں آتی کہ فلاں اس فرقہ یا مسلک یا مذہب کا ہے اس کی مدد نہیں کی جائے بلکہ بغیر تخصیص کیے لوگ مدد کر رہے ہوتے ہیں انسانیت کے لیے دعا اور دوا کرتے ہیں اگر یہ ہی رویہ ہم مشکلات کے علاوہ بھی اپنا لیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی، کیونکہ ہم اس وقت تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ پرکھڑے ہیں۔
ایک طرف موت ہے اور دوسری طرف زندگی ، فطری طور پر ہر شخص جینا چاہتا ہے، لیکن جینے کے لیے اپنے من کو پاک وصاف کرنا ہوگا، ہر طرح کی عصبیت کو دل سے نکال کر انسانیت کا درد دل میں محسوس کریں۔ دنیا کے تمام انسان برابر ہیں اور انسانیت اسی میں ہے کہ اس مشکل کی گھڑی میں بلاتفریق رنگ ونسل ، زبان اور قوم کے بطور انسان دوسرے انسان کے کام آئیں تو بلاشبہ انسانیت بچ سکتی ہے اور اس وبا کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔