چومکھی

ہاتھی جب کسی ندی کو پار کرتا ہے تو وہ تیزی سے چلنے کے بجائے ہر قدم پر رک رک کر چلتا ہے۔


MJ Gohar May 02, 2021

چھوٹے جانوروں کو جب کسی ندی کو پارکرنا ہو تو وہ پانی میں تیزی سے چل کر دوسری جانب بحفاظت نکل جاتے ہیں، مگر ہاتھی جب کسی ندی کو پار کرتا ہے تو وہ تیزی سے چلنے کے بجائے ہر قدم پر رک رک کر چلتا ہے، وہ ہر دوسرا قدم نہایت احتیاط سے رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔

اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ پانی کے نیچے کی مٹی نرم ہو یا سخت چھوٹے جانوروں کو اس سے خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کا ہلکا پھلکا جسم پانی سے باآسانی گزر جاتا ہے مگر ہاتھی غیر معمولی طور پر بڑا جانور ہے۔ بھاری جسم کی وجہ سے اس کے لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر نیچے کی مٹی نرم ہو اور اس کا پاؤں اس میں دھنس جائے تو اس کے لیے اس سے نکلنا سخت مشکل ہو جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہاتھی کو جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ نیچے کی سطح مضبوط ہے وہ قدم آگے نہیں بڑھاتا۔ ہر بار جب وہ قدم رکھتا ہے تو اس پر اپنا پورا بوجھ نہیں ڈالتا۔ وہ ہلکا قدم رکھ کر پہلے زمین کی نرمی اور سختی کو جانچتا ہے اور جب وہ یہ اندازہ کر لیتا ہے کہ زمین سخت ہے تب اس پر اپنا پورا بوجھ رکھ کر آگے بڑھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ ہاتھی کو کس نے سکھایا؟

جواب سادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہاتھی کے اس طریقِ عمل کو خدائی تصدیق حاصل ہے۔ گویا زندگی کے لیے خدا کا بتایا ہوا سبق یہ ہے کہ جب راستے میں کسی خطرے کا اندیشہ ہو تو اس طرح نہ چلا جائے جس طرح بے خطر راستے پر چلا جاتا ہے بلکہ ہر قدم سنبھل سنبھل کر رکھا جائے اور ''زمین'' کی قوت کا اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔

رب کائنات نے انسان کو ہاتھی سے زیادہ عقل و شعور اور علم و آگہی عطا کی ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں بارود کے ذخیرے ہوں وہاں دیا سلائی نہیں جلائی جاتی۔ جس ٹرین میں پٹرول کے ڈبے لگے ہوں اس کا ڈرائیور بے احتیاطی کے ساتھ اس کی شفٹنگ نہیں کرتا۔ ہر معاشرے میں طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور وہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دوسروں کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ سماج میں کہیں ''دلدل'' ہوتی ہے اور کہیں ''پٹرول'' کہیں پر ''کانٹا'' ہوتا ہے اور کہیں ''گڑھا''۔ عقل مند انسان وہ ہے جو اس قسم کے پریشان کن سماجی حالات سے دامن بچا کے نکل جائے نہ کہ ان سے الجھ کر اپنا اصل راستہ کھو بیٹھے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس آدمی کے سامنے کوئی مقصد ہو وہ راستوں کی ناخوشگواریوں سے کبھی نہیں الجھے گا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان سے الجھنا اپنے آپ کو اپنی منزل اور اپنے اصل مقصد سے دورکرنا ہے۔ با مقصد و بااصول آدمی کی توجہ آگے کی طرف ہوتی ہے نہ کہ دائیں بائیں۔ وہ مستقل نتائج پر نظر رکھتا ہے نہ کہ وقتی اور جزوی کارروائیوں پر۔ وہ حقیقت کی آنکھ سے چیزوں کو دیکھتا ہے نہ کہ ذاتی خواہشات کی نظر سے۔

وزیر اعظم عمران خان آج کل کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ وہ ریاست مدینہ کا اپنا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں، وہ امیر و غریب ہر ایک کو جزا و سزا کے ایک ہی قانونی عمل سے گزرتا دیکھنا چاہتے ہیں، وہ کڑے احتساب کے شکنجے میں بدعنوان عناصر کو جکڑنا چاہتے ہیں، خواہ اس قطار میں ان کی اپنی جماعت کے لوگ ہی کیوں نہ شامل ہوں ، وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر مشکل چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ ہر قسم کی مافیاز سے لڑنے کے لیے تیار اور جھکنے پر آمادہ نہیں ہیں،کسی کو این آر او نہیں دینا چاہتے۔

وزیر اعظم عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت پاکستان کی پہلی حکومت ہے جو غریب طبقے کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے یوم تاسیس پر اپنے ویڈیو پیغام میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی کارکردگی پر فخر ہے، انھیں حکومت ملی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، روپے کی قدر گر رہی تھی، ان کے بقول آج معیشت بہتر ہے، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہیں، قومیں جنگوں سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی کرپشن سے تباہ ہوتی ہیں، کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے والے سب لوگ ان کی حکومت کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں لیکن وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ جنگ جیتیں گے۔

وزیر اعظم عمران خان کی خواہشیں ، امیدیں، توقعات اور دعوے اپنی جگہ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت کے دوران عوامی مسائل میں اضافہ ہوا ہے، عمران خان سے عوام نے جو امیدیں باندھی تھیں وہ سب ٹوٹتی و بکھرتی نظر آتی ہیں ، عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا طوفان ہے۔ اس کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول عذاب جاں بن چکا ہے۔ غربت ، بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مجبور لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صاحب مہنگائی بلند ترین ہوگئی، کیا اب ہم تھوڑا سا گھبرا لیں۔ عمران خان اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی پر بھلے شادیانے بجائیں لیکن آنے والے ڈھائی سالوں میں انھیں عوام کے آنسو پونچھنے کا سامان کرنا ہوگا۔ انھیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔ ان کی حکومت کو چار جانب سے مسائل و چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم کی ٹرین ہے جس میں ''پٹرول'' کے ڈبے لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ دو ڈبے کٹ چکے ہیں لیکن (ن) لیگ کا انجن باقی ڈبوں کو کھینچ رہا ہے۔

دوسری جانب ان کے اپنے قریبی دوست جہانگیر ترین کے کیمپ میں چالیس کے قریب ''کانٹے'' عمران خان کے دامن سے الجھ رہے ہیں۔ تیسری جانب جو ''گڑھا'' ہے اس میں سے کورونا وائرس کی وبا وقفے وقفے سے اچھل اچھل کر باہر نکلتی ہے۔ اس کی لوگوں کو نگلنے کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔ اس عفریت پر قابو پانا بڑا چیلنج ہے۔ چوتھی جانب وہ ''دلدل'' ہے جس میں کپتان سے وابستہ عوامی توقعات اور امیدیں دھنستی چلی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم اس ''چومکھی لڑائی'' میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں