موبائل فون تنہائی سے بچنے کا ذریعہ
ہمارے بچے اپنے حقیقی رشتوں سے دور ہوکر ایک بے جان چیز کو ہی اپنی کل کائنات سمجھ بیٹھے ہیں
گزشتہ دنوں راولپنڈی کے مشہور علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں بچوں کے ایک پارک کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ بچوں کے اس قدیم پارک کو جہاں ہم لوگ بھی اپنے بچپن میں جایا کرتے تھے، کار پارکنگ بنانے کی تیاری کرنے کی مصدقہ خبریں جب مجھ تک پہنچیں تو دل بہت اداس ہوا۔
بچے قوم کا وہ سرمایہ ہیں جن پر ہمیں توجہ اور شفقت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بچے تو پھولوں کی مانند ہیں کیونکہ جس طرح پودوں اور پھولوں کی آبیاری کےلیے صاف پانی، تازہ ہوا، اچھی کھاد اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بچوں کو بھی اچھی نگہداشت، بہترین تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مان لیا کہ ہر زمانہ اپنے سابقہ زمانے سے یکسر مختلف ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ والدین تو اپنی ذمے داریاں پوری نہ کریں اور نئی نسل پر تمام کا تمام الزام دھر دیا جائے۔ آج کل کے بڑوں اور والدین کا طریقہ کار یہی ہے کہ وہ شدت پسند ہوچکے ہیں۔ بچوں کو یا تو بے لگام آزادی دے کر خراب کردیا گیا ہے یا ہر طرف شیر کی آنکھ سے دیکھنے کا رواج ہی ہو چلا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں سونے کا نوالہ کھلانے کی بات نہیں ہورہی۔
اب آتے ہیں اصل مدعے کی طرف، آج کل کی نوجوان نسل کو ہمہ وقت یہی سننے کو ملتا ہے کہ وہ موبائل فون کی جان نہیں چھوڑتے، گھنٹوں بیٹھے گیمز کھیلتے رہتے ہیں، وقت بے وقت چھوٹے بڑے کا لحاظ کیے بغیر فون استعمال کرتے ہیں۔ اتنے مصروف دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں درسی کتب کھولنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ تعلیمی اداروں اور امتحانات کی حالت کورونا کے باعث پہلے ہی بہت خطرناک ہے۔
بچے سستی کے مارے اول تو سوئے رہتے ہیں یا پھر موبائل سے چپک جاتے ہیں۔ ان سب باتوں کے بعد کوئی یہ نہیں سوچتا کہ نوجوان نسل پر ہر وقت تنقید تو کردی جاتی ہے کہ یوں نہ کرو، وہ نہ کرو، وہاں نہ جاؤ لیکن بعض اوقات یہ تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تنقید برائے تنقید ہوجاتی ہے۔
ٹی وی پر دیکھئے تو بچوں کےلیے کوئی خاص، دلچسپ اور معلوماتی پروگرامز پیش نہیں کیے جاتے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے بچوں کےلیے ادیب خدانخواستہ رہے نہیں یا ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔
بچوں کو اچھے پارک بنا کر دینا تو دور رہا، پرانے پارکس بھی کمرشل ایریاز میں تبدیل کیے جارہے ہیں۔ جو پارکس موجود ہیں وہاں ٹوٹے جھولے اور بے تحاشا اگی ہوئی گھاس ایک ویرانے کا منظر پیش کررہی ہے۔ گھر ہے تو وہاں کوئی ان کے ساتھ کھیلنے والا نہیں کیونکہ گھر والوں کو اپنے بکھیڑوں سے ہی فرصت نہیں۔ مزید مصروفیت مارننگ شوز اور ڈراموں نے پیدا کردی ہے۔
تو اس سب صورتحال میں ہمارے نوجوان موبائل کو ہی اپنی تنہائی دور کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نہ تو وہاں پر کوئی روک ٹوک کرتا ہے نہ ہی انھیں جسمانی مشقت کرنا پڑتی ہے۔ یہ صورتحال بہت الارمنگ ہے کیونکہ ہمارے بچے اپنے حقیقی رشتوں سے دور ہوکر ایک بے جان چیز کو ہی اپنی کل کائنات سمجھ بیٹھے ہیں۔ ایسے تنہائی کے مارے جوان زندگی میں مثبت انداز سے آگے نہیں بڑھ سکتے، کیونکہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ تر اچھی باتیں نہیں سیکھ رہے۔
اب یہ تنہائی ہمیں خود دور کرنا ہے، ورنہ موبائل سے ہمارے بچوں کی اس قربت کی قیمت ہمیں بہت مہنگی ادا کرنی پڑے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بچے قوم کا وہ سرمایہ ہیں جن پر ہمیں توجہ اور شفقت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بچے تو پھولوں کی مانند ہیں کیونکہ جس طرح پودوں اور پھولوں کی آبیاری کےلیے صاف پانی، تازہ ہوا، اچھی کھاد اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بچوں کو بھی اچھی نگہداشت، بہترین تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مان لیا کہ ہر زمانہ اپنے سابقہ زمانے سے یکسر مختلف ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ والدین تو اپنی ذمے داریاں پوری نہ کریں اور نئی نسل پر تمام کا تمام الزام دھر دیا جائے۔ آج کل کے بڑوں اور والدین کا طریقہ کار یہی ہے کہ وہ شدت پسند ہوچکے ہیں۔ بچوں کو یا تو بے لگام آزادی دے کر خراب کردیا گیا ہے یا ہر طرف شیر کی آنکھ سے دیکھنے کا رواج ہی ہو چلا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں سونے کا نوالہ کھلانے کی بات نہیں ہورہی۔
اب آتے ہیں اصل مدعے کی طرف، آج کل کی نوجوان نسل کو ہمہ وقت یہی سننے کو ملتا ہے کہ وہ موبائل فون کی جان نہیں چھوڑتے، گھنٹوں بیٹھے گیمز کھیلتے رہتے ہیں، وقت بے وقت چھوٹے بڑے کا لحاظ کیے بغیر فون استعمال کرتے ہیں۔ اتنے مصروف دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں درسی کتب کھولنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ تعلیمی اداروں اور امتحانات کی حالت کورونا کے باعث پہلے ہی بہت خطرناک ہے۔
بچے سستی کے مارے اول تو سوئے رہتے ہیں یا پھر موبائل سے چپک جاتے ہیں۔ ان سب باتوں کے بعد کوئی یہ نہیں سوچتا کہ نوجوان نسل پر ہر وقت تنقید تو کردی جاتی ہے کہ یوں نہ کرو، وہ نہ کرو، وہاں نہ جاؤ لیکن بعض اوقات یہ تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تنقید برائے تنقید ہوجاتی ہے۔
ٹی وی پر دیکھئے تو بچوں کےلیے کوئی خاص، دلچسپ اور معلوماتی پروگرامز پیش نہیں کیے جاتے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے بچوں کےلیے ادیب خدانخواستہ رہے نہیں یا ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔
بچوں کو اچھے پارک بنا کر دینا تو دور رہا، پرانے پارکس بھی کمرشل ایریاز میں تبدیل کیے جارہے ہیں۔ جو پارکس موجود ہیں وہاں ٹوٹے جھولے اور بے تحاشا اگی ہوئی گھاس ایک ویرانے کا منظر پیش کررہی ہے۔ گھر ہے تو وہاں کوئی ان کے ساتھ کھیلنے والا نہیں کیونکہ گھر والوں کو اپنے بکھیڑوں سے ہی فرصت نہیں۔ مزید مصروفیت مارننگ شوز اور ڈراموں نے پیدا کردی ہے۔
تو اس سب صورتحال میں ہمارے نوجوان موبائل کو ہی اپنی تنہائی دور کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نہ تو وہاں پر کوئی روک ٹوک کرتا ہے نہ ہی انھیں جسمانی مشقت کرنا پڑتی ہے۔ یہ صورتحال بہت الارمنگ ہے کیونکہ ہمارے بچے اپنے حقیقی رشتوں سے دور ہوکر ایک بے جان چیز کو ہی اپنی کل کائنات سمجھ بیٹھے ہیں۔ ایسے تنہائی کے مارے جوان زندگی میں مثبت انداز سے آگے نہیں بڑھ سکتے، کیونکہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ تر اچھی باتیں نہیں سیکھ رہے۔
اب یہ تنہائی ہمیں خود دور کرنا ہے، ورنہ موبائل سے ہمارے بچوں کی اس قربت کی قیمت ہمیں بہت مہنگی ادا کرنی پڑے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔