غربت اور کورونا کے درمیان

کورونا، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے پورے ایجنڈے کو سمیٹ کر اقتصادی مسسیحاؤں کے روبرو رکھ دیا جائے۔


Editorial May 04, 2021
کورونا، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے پورے ایجنڈے کو سمیٹ کر اقتصادی مسسیحاؤں کے روبرو رکھ دیا جائے۔ فوٹو:فائل

وزیر اعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ آیندہ مالی سال کے بجٹ میں مستقبل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل کے ساتھ، مہنگائی روکنے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔ ا

توار کو وزیر اعظم کی زیر صدارت آیندہ بجٹ اور ملکی معیشت کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، شفقت محمود، اسد عمر، فواد چوہدری، گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، صوبائی وزرا ہاشم جواں بخت، تیمور سلیم جھگڑا اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں آیندہ بجٹ کے حوالے سے پارٹی کی سینئر قیادت سے تجاویز طلب کی گئیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ آیندہ مالی سال کا بجٹ ترقیاتی بجٹ ہوگا جس میں تمام تر توجہ شرح نمو میں اضافے پر ہوگی، ترقیاتی کاموں کو مزید تیز کر کے نئے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا جس سے معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور روزگار کے بے شمار مواقعے پیدا ہونگے، جی ڈی پی کا حجم بڑھے گا اور محصولات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت متاثر ہوئی ہے تاہم حکومت کی جامع پالیسیوں کی بدولت ملکی معیشت کا پہیہ رواں ہے۔

کورونا وبا اور حالیہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے باوجود اس سال اپریل میں محصولات کی شرح پچھلے سال سے تقریباً دو گنا ریکارڈ کی گئی ہے۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو مہنگائی کو روکنے کے لیے بنائی گئی جامع حکمتِ عملی سے بھی آگاہ کیا گیا۔ دریں اثنا وزیر اعظم عمران خان نے بغیر سیکیورٹی اور پروٹوکول کے وفاقی دارالحکومت کے مختلف مقامات کا اچانک دورہ کر کے کاروباری سرگرمیوں، ترقیاتی کاموں اور کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کا جائزہ لیا۔

وزیر اعظم نے ریڑھی بانوں اور ٹھیلے والوں سے ملاقات کرکے ان کے حالات دریافت کیے، وزیر اعظم عمران خان نے کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کی تاکید کی اور کہا کہ سب ماسک کا استعمال لازمی کریں، وزیر اعظم نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا بھی جائزہ لیا۔

وزیر اعظم کا بغیر پروٹوکول دورے کا مقصد بلاشبہ عوام کے درمیان گزرنے والی رواں دواں زندگی کا جائزہ لینا تھا، معاشی، زمینی اور طبعی صورتحال کا لوگوں سے احوال معلوم کرنا تھا جو صائب بات ہے، حکمرانوں کو عوام کی دلگیری، دستگیری اور معاشی حالات کا قریبی مشاہدہ کرنے کی اس وقت پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، انھیں خود اپنی چشم بینا اور مشاہدے کی آنکھ سے ملکی داخلی اقتصادی، سیاسی اور مہنگائی کثیر جہتی غربت اور بیروزگاری کے سنگلاخ حقائق کا معروضی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔

ارباب اختیار کو ایسے جائزے لینے چاہئیں تاکہ ان پر حقیقت کھلے جو بیورو کریسی یا کابینہ کے دریچوں اور راہداریوں سے اہل سیاست پر نہیں کھلتی، مثلاً انھیں ملکی معاشی صورتحال پر معروضی حقائق کی آگہی کا احوال حکمرانوں کو وہ رفقا بتاتے نہیں جو متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی سے واقف ہیں، جنھیں عوام کی مہنگائی کا علم ہے، وہ ''صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا'' کی خبر رکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ عوام بدترین غربت کا شکار ہیں، بیروزگاری نے نوجوانوں، مزدوروں کو زندہ رہنے کی امنگ سے محروم کر دیا ہے، غریب اور بے آسرا خواتین کے لیے اپنی غربت کی آگ کو بجھانا کتنا مشکل ہوگیا ہے، ٹھیک ہے حکومت بجٹ کی تیاری کرے، منصوبوں کو مکمل کرے، ترقیاتی پروگراموں کی تکمیل ہونی چاہیے۔

مہنگائی پر ارباب اختیار ہر ممکن توجہ دیں، یہ سارے کام ہونے لازمی ہیں مگر معیشت کے کچھ علمی، عقلی، انتظامی اور ملکی تقاضے بھی ہیں جن کی تکمیل ان حکمرانوں کی ذمے داری ہوتی ہے جنھیں ملکی معاشی استحکام کے ٹارگٹس پورے کرنے پڑتے ہیں، ملک کی اقتصادی پیش قدمی ان کی دانشمندی اور معاشی بریک تھرو کی ضمانت بنتی ہے، آج حکومتی اجلاس کے تناظر میں ارباب اختیار کو یہ یاد دلانا بھی ضروری تھا کہ ڈھائی سال ہو چکے ہیں، حکومت کے بہت سے کام کورونا کے باعث کسی نتیجہ خیز معاشی فتحمندی سے ہمکنار نہیں ہوئے۔

وزیر اعظم نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ وہ غلط فیصلے کرتے ہیں پھر سوچتے ہیں۔ لیکن قوم کو یہ نہیں بتاتے کہ وہ کیوں غلط فیصلے کرتے ہیں، یہ کسی فرد واحد کے فیصلے نہیں، اس قوم کے ایک جمہوری قائد کے فیصلے ہیں، ان کی سچائی، استقامت، نتیجہ خیزی پر ملک کے مستقبل، کامیابی اور استحکام و تقدیر کا انحصار ہے، آج اگر معیشت گرداب سے نکلنے میں مصروف ہے تو حکمرانوں کے لیے ہزاروں اکنامسٹوں کے پھیلے ہوئے اقتصادی اور معاشی نمو کے تجربات، رپورٹوں اور کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں۔

جن کی ورق گردانی کرکے قوم کو نئے اقتصادی اور معاشی فارمولوں، فلسفہ اور پالیسی دستاویز سے سرفراز کر لیجیے، سنگاپور کے سربراہ اور ماہر اقتصادیات لی کوان لی کا کہنا تھا کہ مجھے وہ شخص یاد ہے جس نے مجھے پہلی بار ''نہیں'' کہا تھا، کیونکہ اس کی اس ناں نے مجھ پر معاشیات کی زبردست جست کا راز منکشف کیا، میں نے ملکی معیشت کی بازی پلٹ دی اور اپنے عزم سے ملکی اقتصادیات کی کایا پلٹ دی، حکومت لی کوان کے عزم کو زندہ کر سکتی ہے۔

ارباب اختیار ''ڈس کنکٹ'' سے خود کو بچائیں جو ماہرین کو اس سے مسئلہ کے حل کو لاتعلق کرتی ہیں، ملک کے سارے مسائل روئے زمین پر موجود ہیں، ہر قسم کی ایجاد، اختراع اور تحقیق ممکن ہے، بس عزم، اقدام اور پہل کرنے کی دیر ہے، ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ قلت کسی چیز کا محض ایک التباس ہے، عزم سے عوام وسائل کے انبار لگا سکتے ہیں، معیشت کے ذہین افراد سے استفادہ کیجیے ذہانت اور معاشی مسیحاؤں کی ٹیم بھی انھی ذہین پاکستانیوں کے انتخاب سے تشکیل پا سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ دنیا کو بچائیں، پانی، فوڈ سیکیورٹی، غربت، معیشت کی شرح نمو اور خواتین کی اکنامک پاورمنٹ میں بہتری لائیں، پہلے کسی ایک مسئلہ میں حکومت کی پیش رفت کو کامیابی سے مکمل کیجیے، سارے مسئلے ایک ایک کرکے حل ہو جائیں گے، ہمارے وزرا، معاونین خصوصی اور مشیر مسائل کے حل میں پیش رفت سے گھبراتے کیوں ہیں، مشوروں کا اجتماع کیوں ہے، مشاورت سے راستے کلیئر نہیں ہوتے، وجہ کیا ہے؟

وزیر اعظم انھیں ساتھ بٹھائیں، معاملات میں کوئی لنک پیدا ہو، منصوبے بنائیے تو ان میں ترتیب اور ان کی تکمیل کا امکان پیدا ہو، غربت اور مہنگائی کو سامنے رکھیں، جن کو یہ کام آتا ہے ان کی مشاورت، عمل اور سنجیدگی سے سرپرستی کریں، ان منصوبوں کو پورا کریں۔

کام سارے ادھورے پڑے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی رزلٹ قوم کے سامنے نہیں آتا۔ ابھی خوشخبری ملی کہ دو ڈیم بن رہے ہیں، دو شہر آباد ہو رہے ہیں، مگر جس نے ایک بڑا ڈیم بنانے کا دعویٰ کیا تھا، پورے نظام عدل و انصاف میں یقین ہو چلا تھا کہ ڈیم بنے گا، قوم نے ڈیم فنڈز بھی جمع کیا، لیکن ہمارے حکمران جلد بھول جاتے ہیں، کسی کو یاد نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے مابین ایک میثاق جمہوریت بھی طے ہوا تھا، اس کی قسم کھائی تھی کہ تاریخ سے سبق سیکھیں گے، مگر افسوس کیا ہوا، اگر احساس زیاں بھی ہوتا تو ملکی سیاسی صورتحال میں بہت حیران کن تبدیلی آ جاتی۔

ایک طرف کہا جاتا ہے کہ افراط زر نہیں ہوگا تو ملک ترقی نہیں کر سکتا، دوسری طرف کوئی تعمیری رائے دی جاتی ہے تو اس کا ایسا برا حشر ہوتا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ ہالی وڈ کے مشہور اداکار اور گلوگار نے کہا تھا best revenge is success

ووٹنگ مشین کا منصوبہ زیادہ پرانا نہیں، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اپنی بنائی ہوئی مشین ہے، واپس نہیں ہو سکتی، تاہم پیپلز پارٹی نے الیکٹرانک ووٹنگ نظام کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ زیادہ خطرناک ہوگی جن ممالک نے اس کو شروع کیا تھا انھوں نے بھی اسے چھوڑ دیا ہے، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکریٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید نیر حسین بخاری کا پریس کانفرنس میں مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں آئے روز سیکیورٹی کے نام پر انٹرنیٹ کے ساتھ چھیڑ خانی ہوتی رہتی ہے۔ جن ممالک نے یہ تجربہ شروع کیا ان میں سے کئی ممالک نے یہ چھوڑ دیا اور وزیر اعظم کو یہ پتہ ہونا چاہیے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کا انتخابی اصلاحات پر مذاکرات سے فرار انتہائی افسوس ناک ہے۔ گزشتہ روز اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا (ن) لیگ کا یہ کہنا کہ اصلاحات کا عمل پارلیمان کے بجائے الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ انھیں نظام کی سمجھ ہے نہ ہی اصلاحات سے کوئی دلچسپی۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات میاں فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ای ووٹنگ کی مخالفت سے شہباز شریف کے دل میں چور نظر آ رہا ہے، وہ کوئی ایسا سسٹم بتا دیں جس سے دھاندلی کو روکا جا سکے، امریکا میں جب صدر ٹرمپ نے دھاندلی کی بات کی تو ای ووٹنگ سے انصاف ہوا، (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن ای ووٹنگ سے کیوں بھاگتی ہے، میاں فرخ حبیب نے مزید کہا کہ کورونا وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، حکومت اس وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، فیصل آباد شہر میں مزید 5 ویکسی نیشن سینٹر شروع کیے جا رہے ہیں، اس سے ویکسی نیشن میں یومیہ 20 ہزار کا اضافہ ہوگا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کورونا، بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے پورے ایجنڈے کو سمیٹ کر اقتصادی مسسیحاؤں کے روبرو رکھ دیا جائے، پالیسیوں میں فکری انتشار کا خاتمہ کیا جائے، حکمت عملی، میکنزم اور اقدامات و فیصلوں کی دور اندیشی سے استفادہ کیا جائے، ایس او پیز پر عمل کرائیں، لیکن جو خلق خدا لاک ڈاؤن کے خطرات سے سہم رہی ہے وہ ماسک لگانے سے نہیں ڈر رہی، انھیں بھوک، بیروزگاری، مہنگائی سے خوف آتا ہے، ویکسین لگائی جا رہی ہے، عوام رجسٹریشن کرا رہے ہیں، مگر گھر کے اندر کہرام برپا ہے، غریبوں کے بچے بلک رہے ہیں، دودھ، روٹی، پاپے، بسکٹ اور کھانے کے منتظر ہیں، حکمراں اپنی سمت سازی میں مزید غلط فیصلوں سے بچیں، ملک کے بائیس کروڑ عوام کے مستقبل پر مل بیٹھ کر ایسے صائب فیصلے کریں جن پر سوچنا اور پچھتانا نہ پڑے، حکمران فوری ایکشن لیں، عید سر پر آ رہی ہے، بڑی دھوپ پڑ رہی ہے، کوئی سائبان نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں