اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری
شنید ہے کہ سعودی عرب اور قطر سے متوقع 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ میں چند رکاوٹیں تاحال باقی ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 2 ارب ڈالر بلا سود امدادی قرض کی واپسی کی مدت میں ایک برس کی توسیع کر دی ہے، تاہم شنید ہے کہ سعودی عرب اور قطر سے متوقع 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ میں چند رکاوٹیں تاحال باقی ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے ابوظہبی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اماراتی ہم منصب شیخ عبد بن زایدالنہیان کے درمیان ملاقات میں امدادی قرض کی واپسی کی مدت میں توسیع سے آگاہ کیا۔ اس امدادی قرض کی واپسی کی ڈیڈ لائن 19 اپریل 2021کو ختم ہو چکی تھی، یوں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو ایک بار پھر ریلیف دے دیا ہے۔
ادھراسلام آباد میں ڈرائنگ رومز میںچائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے میں مشہور دانشور اپنے ذرایع کے حوالے سے تیر اندازی کرتے ہیں، وزیراعظم عمران کو آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ مریم نواز شریف کی لندن روانگی میں رکاوٹیں دور کریں تاکہ سعودی عرب اور قطر سے 30 ارب ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری پاکستان میں آنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ قطر نے تو مصر کی طرز پر پاکستان کو نقد قرض دینے کی مشروط پیش کش بھی کر دی ہے۔
واللہ علم باثواب۔البتہ سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین نے گزشتہ مہینوں اپنے استعفیٰ میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ میں جن رکاوٹوں کا ذکر کیا تھا،ان میں لکھا گیا تھا کہ عدم تحفظ کا شکار بیورو کریسی کا ڈھانچے، سیاسی مداخلت، ناتجربے کار اور معلومات سے عاری افراد کی بیرونی سرمایہ کاری کے لیے تعیناتی بنیادی وجوہات ہیں۔ وہ معاشی پالیسیوں میں عدم استحکام، افسر شاہی کی مزاحمت، سرمایہ کاری کے لیے بیرون ملک متعین بعض کمرشل قونصلروں اور وزراء کی نامزدگیوں میں سیاسی مداخلت پر پْروقار طریقے سے مستعفی ہوئے تھے۔
ٹیکنو کریٹس کو غیرمنصفانہ انداز میں عہدے سے برطرف کرنے کے بڑھتے ہوئے رحجان نے ان کا یہ فیصلہ درست ثابت کیا، پالیسیوں پر افسر شاہی کے اثرانداز ہونے کے باعث وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نہیں نبھا پارہے تھے۔ قطرنے بنگلہ دیش میں پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے ، اگر پاکستان کوشش کرتا تو یہ سرمایہ کاری یہاں بھی باآسانی آسکتی تھی۔ قطری کمپنیاں بنگلہ دیش میں پاورسیکٹر،ایئرپورٹس، سیاحتی مقامات کی تعمیر اورہوٹل انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں گی۔
امیر قطر شیخ حمد التھانی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قطری کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔پاکستان کی موجود حکومت کو اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی اورنیبراس پاور کے سربراہان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کا دورہ بھی کیا تھا۔اس دورے کے دوران انھوں نے وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر اعلی حکام سے ملاقات کی تھی۔
بعدازاں قطر کی سرمایہ کاری سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ پاورسیکٹر،ایئرپورٹس کی تعمیر اورہوٹلز کے لیے 5ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش نے قطری سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرلیا۔
متحدہ عرب امارات نے ابوظہبی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اماراتی ہم منصب شیخ عبد بن زایدالنہیان کے درمیان ملاقات میں امدادی قرض کی واپسی کی مدت میں توسیع سے آگاہ کیا۔ اس امدادی قرض کی واپسی کی ڈیڈ لائن 19 اپریل 2021کو ختم ہو چکی تھی، یوں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو ایک بار پھر ریلیف دے دیا ہے۔
ادھراسلام آباد میں ڈرائنگ رومز میںچائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے میں مشہور دانشور اپنے ذرایع کے حوالے سے تیر اندازی کرتے ہیں، وزیراعظم عمران کو آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ مریم نواز شریف کی لندن روانگی میں رکاوٹیں دور کریں تاکہ سعودی عرب اور قطر سے 30 ارب ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری پاکستان میں آنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ قطر نے تو مصر کی طرز پر پاکستان کو نقد قرض دینے کی مشروط پیش کش بھی کر دی ہے۔
واللہ علم باثواب۔البتہ سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین نے گزشتہ مہینوں اپنے استعفیٰ میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ میں جن رکاوٹوں کا ذکر کیا تھا،ان میں لکھا گیا تھا کہ عدم تحفظ کا شکار بیورو کریسی کا ڈھانچے، سیاسی مداخلت، ناتجربے کار اور معلومات سے عاری افراد کی بیرونی سرمایہ کاری کے لیے تعیناتی بنیادی وجوہات ہیں۔ وہ معاشی پالیسیوں میں عدم استحکام، افسر شاہی کی مزاحمت، سرمایہ کاری کے لیے بیرون ملک متعین بعض کمرشل قونصلروں اور وزراء کی نامزدگیوں میں سیاسی مداخلت پر پْروقار طریقے سے مستعفی ہوئے تھے۔
ٹیکنو کریٹس کو غیرمنصفانہ انداز میں عہدے سے برطرف کرنے کے بڑھتے ہوئے رحجان نے ان کا یہ فیصلہ درست ثابت کیا، پالیسیوں پر افسر شاہی کے اثرانداز ہونے کے باعث وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نہیں نبھا پارہے تھے۔ قطرنے بنگلہ دیش میں پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے ، اگر پاکستان کوشش کرتا تو یہ سرمایہ کاری یہاں بھی باآسانی آسکتی تھی۔ قطری کمپنیاں بنگلہ دیش میں پاورسیکٹر،ایئرپورٹس، سیاحتی مقامات کی تعمیر اورہوٹل انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں گی۔
امیر قطر شیخ حمد التھانی پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قطری کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔پاکستان کی موجود حکومت کو اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی اورنیبراس پاور کے سربراہان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کا دورہ بھی کیا تھا۔اس دورے کے دوران انھوں نے وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر اعلی حکام سے ملاقات کی تھی۔
بعدازاں قطر کی سرمایہ کاری سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ پاورسیکٹر،ایئرپورٹس کی تعمیر اورہوٹلز کے لیے 5ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش نے قطری سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرلیا۔