جلنے والے کا منہ کالا
ماضی کے مسلمان حکمران عوام کے دکھ درد اور مسائل سے خود کو باخبر رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے تھے۔
بچپن سے ہمیں گھر، اسکول، بچوں کے رسالوں اور تعلیمی نصاب کے توسط سے جو سبق آموز قصے سننے کو ملے۔ان میں اس نوعیت کے کئی واقعات بھی شامل تھے کہ ماضی کے مسلمان حکمران عوام کے دکھ درد اور مسائل سے خود کو باخبر رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے تھے۔
نوعمری میں سنا یہ واقعہ مجھے اب تک یاد ہے کہ ریاستِ مدینہ کے حکمران حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ راتوں کو بھیس بدل کر گلیوں میں گھومتے تھے۔ اپنے کندھے پر اشیائے ضرورت کا بار اٹھا کر سفید پوشوں کے گھر خاموشی سے پہنچایا کرتے تھے۔ بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کرتے تھے۔
بھیس بدل کر عوام کے دکھ درد معلوم کرنے کا طریقہ اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز اور عباسی خلیفہ ہارون رشید سے بھی منسوب ہے۔اس کے کئی فائدے تھے۔ایک تو حکمران کو بیورو کریسی '' سب اچھا کشل منگل '' کی جو رپورٹ دیتی ہو گی اس کی درستی و نادرستی سے حکمران کو براہِ راست کماحقہ واقفیت ہو جاتی ہو گی۔خود سے گشت کرنے کے ذاتی تجربے کی روشنی میں حکمران کو عوامی فلاح و بہبود سے متعلق درست فیصلے کرنے میں آسانی رہتی ہو گی۔
نیز حکمران کو یہ بھی معلوم ہو جاتا تھا کہ اس کے اردگرد عمل داروں کا جو حلقہ ہے وہ کتنی صحت کے ساتھ روزمرہ عوامی مسائل حکمران کے علم میں لاتا ہے۔اس حلقے میں کون خوشامدی ہے ، کون تساہل پسند ہے ، کون کتنا سچ اور جھوٹ بولتا ہے اور کون کھرا یا کھوٹا ہے۔
مگر وہی لوگ جو ماضی کے حکمرانوں کی عوام دوستی کے قصوں پر سر دھنتے اور انھیں یاد کر کر کے سبحان اللہ کہتے نہیں تھکتے۔جب یہی دردمندی دورِ جدید کا کوئی زندہ حکمران دکھاتا ہے تو اس کی نیت پر فوراً شک کا اظہار ہونے لگتا ہے۔دال میں کالا ظاہر کیا جاتاہے۔ تشہیر اور فوٹو سیشن کا اسیر تماشا گر بتایا جاتاہے۔ تعصب کے اندھے پن میں حکمران کی خوش نیتی کو داغ دار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔
ہم میں سے بہت سوں کو یاد ہے کہ جب جنرل ضیا الحق نے ایک دن ملک میں سادگی کو فروغ دینے کے لیے سائیکل پر سواری کا علامتی مظاہرہ کیا تو یار لوگوں نے اس پیغام کی اصل روح سراہنے کے بجائے اس مظاہرے میں بھی کیڑے تلاش کر لیے۔
طعنہ زنی شروع ہو گئی کہ ایک کلومیٹر تک سائیکل سواری کے ذریعے سادگی کو فروغ دینے کا تماشا قومی خزانے کو کئی لاکھ روپے میں پڑا۔صدرِ مملکت کے باڈی گارڈز بھی سائیکلوں پر سوار ہو کر جنرل صاحب کو گھیرے ہوئے تھے۔
جس عام آدمی کو درس ِسادگی دینا مقصود تھا اسے سائیکل سواری کے مقررہ راستے پے پر مارنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔عام ٹریفک کئی گھنٹے رکا رہا تاکہ سائیکل بردار صدرِ مملکت کا سادگی نواز فوٹو سیشن بہ خیریت مکمل ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔
جب خادمِ اعلی شہباز شریف شدید بارشوں کے بعد لاہور کے نشیبی علاقوں کے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے لانگ بوٹ پہن کر تین تین فٹ پانی میں کھڑے ہوئے اور اتفاقاً وہاں سے گذرتے کسی فوٹو گرافر نے یہ منظر محفوظ کر لیا تب بھی خادمِ اعلی کے اس قابل ِ قدر جذبے کو رنگ بازی اور سستی شہرت کا مظاہرہ قرار دیا گیا۔
گزشتہ برس جب وزیرِ اعلی عثمان بزدار مون سون میں عوام کی تکالیف سے بنفسِ نفیس آگہی کے لیے بغیر سیکیورٹی کے اپنی لینڈ کروزر ڈرائیو کرتے ہوئے لاہور کی آب زدہ سڑکوں پر نکلے اور موسلا دھار بارش میں فٹ پاتھ پر پھنسے ایک خاندان کو اپنی لینڈ کروزر میں لفٹ دے کر منزل تک پہنچایا تب بھی کسی نے واہ واہ نہیں کی۔الٹا عثمان بزدار پر سستی ڈرامے بازی کا الزام لگ گیا۔
اور تین دن پہلے یہی کچھ جدید ریاست مدینہ کے حکمران عمران خان کے ساتھ کرنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان کوویڈ کے دور میں ایس او پیز پر عمل درآمد کا حقیقی احوال جاننے کے لیے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے بغیر سیکیورٹی کے اسلام آباد کے عوامی مراکز کے دورے پر سینیٹر فیصل جاوید اور سی ڈی اے کے افسرِ اعلی کے ہمراہ نکل کھڑے ہوئے۔
وہی لوگ جو حکمران اور عوام میں حائل فاصلے مٹانے کی ضرورت پر لمبی لمبی تقریریں کرتے نہیں تھکتے اور وی آئی پی کلچر کی مذمت میں دن رات ایک کیے رکھتے ہیں۔انھی اعتراضیوں نے وزیرِ اعظم کے اچانک عوامی دورے کے پس پشت مثبت ارادے کو سراہنے کے بجائے اس میں بھی مین میخ نکالنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
کسی جل ککڑے کو بس یہ دکھائی دیا کہ اگر یہ دورہ واقعی اچانک تھا تو وزیرِ اعظم کی آمد سے پہلے مخصوص علاقے میں عام ٹریفک کس کی اطلاع پر روک دی گئی۔ دو سیکٹرز میں موبائل فون کے سگنلز کیسے جام ہو گئے۔ ان افلاطونوں میں سے کسی نے بھی ایمان داری سے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ بنا محافظوں کے سیلف ڈرائیو کرنے والے وزیرِ اعظم ہر اس سگنل پر رکتے تھے جہاں لال بتی روشن تھی۔اس کی گواہی وزیرِ اعظم کے ہمسفر سینیٹر فیصل جاوید نے دی ہے۔
جب کوئی معقول دلیل ہاتھ نہ آئی تو پھر یہ پھپھولے پھوڑے گئے کہ تصاویر میں صرف ٹھیلے والے نظر آ رہے ہیں۔آس پاس خریدار کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔ ہر ٹھیلہ غیر معمولی صاف ستھرا کیوں ہے اور ہر ریڑھی والے نے ماسک کیوں لگایا ہوا ہے۔ اسلام آباد کے دیگر سیکٹرز میں اس قدر قانون پسند اور ایس او پیز کی مکمل پاسداری کرنے والے ٹھیلہ بردارکیوں عنقا ہیں۔
فیس بک کے ایک گفتاری غازی نے تو پورا افسانہ ہی کھینچ ڈالا۔آپ بھی پڑھئے اور پھر ایسی منفی ذہنیت پر ماتم کیجیے جو ہر اچھے کام میں بھی جگت بازی کا موقع نکالنے میں زندگی ضایع کر دیتے ہیں۔
موصوف لکھاری کے بقول وزیراعظم نے گوشت مارکیٹ کا دورہ کیا۔ انتہائی صاف و شفاف مارکیٹ میں چہل قدمی کرتے ہوئے وزیراعظم ایک قصائی کے پاس جا کر کھڑے ہوئے۔ صفائی ستھرائی کی تعریف کی اور پوچھا گوشت تو خوب بکتا ہوگا
قصائی: صبح سے ایک کلو بھی فروخت نہیں ہوا
وزیراعظم: کیا وجہ ہے؟
قصائی:کیونکہ آپ کے آنے کے سبب خریداروں کو مارکیٹ میں آنے ہی نہیں دیا گیا
وزیراعظم: اوہو پھر تو میں چار کلو خرید لوں گا
قصائی: میں آپ کو گوشت نہیں دے سکتا
وزیراعظم: کیوں؟
قصائی: کیونکہ آپ کی حفاظت کے لیے ہم سے چھریاں لے لی گئی ہیں
وزیراعظم: تو تم بغیر کاٹے بھی مجھے دے سکتے ہو
قصائی: نہیں میں نہیں دے سکتا
وزیراعظم: کیوں؟
قصائی: کیونکہ میں سیکیورٹی اہل کار ہوں قصائی نہیں
وزیراعظم (غصے سے): جاؤ فوری طور پر اپنے سینئر افسر کو بلا کر لاؤ
قصائی: سوری سر ایسا نہیں ہو سکتا
وزیراعظم: کیوں؟
قصائی: کیونکہ سامنے والی دوکان پر وہ مچھلی فروش بن کر کھڑے ہیں۔
اب مجھے بتائیے کہ ایسی اٹائیں سٹائیں اڑانے والے چھچھورے گپ بازوں کا کیا علاج ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)