اِمام المتقین سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ
بسترِ رسول ﷺ پر سونے کا اعزاز کسی اور صحابیؓ کے حصے میں نہ آیا۔
''اور (اے نبیؐ!) اپنے قریبی رشتے داروں کو (اﷲ کے عذاب سے ) ڈرائیے۔'' (الشعراء) نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے قریبی رشتے داروں بنو ہاشم کو ایک دن کھانے پر بلایا اور کھانے کے بعد اسلام کی دعوت دی تو کسی نے کان نہ دھرا۔
آپ ﷺ نے تین بار اپنی دعوت کو دہرایا لیکن صرف ایک نوعمر لڑکے نے اُٹھ کر اکابرِ بنی ہاشم کی پروا نہ کرتے ہوئے بڑی بے خوفی اور جرأت سے بھری مجلس میں فرمایا: اگرچہ میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں لیکن میں آپ ﷺ کا دست و بازو بنوں گا اور آپ ﷺ کا ساتھ دوں گا۔
یہ نو عمر لڑکے کون تھے؟ جنہوں نے نوعمری میں ہی اکابرِ بنی ہاشم کی پروا نہ کرتے ہوئے بڑی بے خوفی اور جرأت سے بھری مجلس میں آپ ﷺ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ یہ تھے قریش مکہ کی شاخ بنو ہاشم کے سردار ابو طالب کے بیٹے اور آپ ﷺ کے چچازاد بھائی سیدنا علی المرتضیٰؓ۔
داماد رسول ﷺ، امیر المؤمنین خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیٰ ؓ بعث ِ نبوی سے تقریباً دس برس پہلے ماہ رجب، شعب بنی ہاشم مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہاشمی النسب تھے۔ والد کا نام: ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی تھا اور والدہ کا نام: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی۔ جناب ابوطالب جناب رسالت مآب ﷺ کے حقیقی چچا تھے۔ والدہ نے اس نومولود کا نام ''اسد'' یا ''زید'' رکھا، والد نے تبدیل کر کے ''علی'' نام تجویز کردیا۔ آپؓ کا لقب '' اسداﷲ، حیدر، مرتضیٰ'' اور کنیت ''ابوالحسن و ابوتراب'' ہے۔ مؤخرالذکر کنیت آپ ؓ کو بہت پسند تھی جب کوئی شخص اس کنیت سے پکارتا تو بہت خوش ہوتے۔ اس لیے کہ یہ کنیت آپ ﷺ کے پکارنے کی وجہ سے مشہور ہوئی تھی۔ جناب علیؓ اعلان نبوت سے قبل ہی رسول کریم ﷺ کی کفالت اور تربیت میں آگئے تھے۔ اس عمر میں اسلام قبول کرنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آپؓ پر کفر کا کوئی دور نہیں گزرا اور آپ کا واسطہ صرف دین اسلام ہی سے پڑا تھا۔
سیدنا علیؓ نے کم عمری میں شعب بنی ہاشم میں محاصرت کے دوران آپؓ نے بھی صعوبتیں جھیلیں۔ آپؓ کے کم عمری ہی میں تبلیغ اسلام اور اجنبی لوگوں کو خفیہ اور دانائی کے ساتھ آپ ﷺ تک پہنچاتے تھے۔ مشرکین مکہ کی سخت نگرانی کی وجہ سے سیدنا ابوذرغِفاریؓ کی آپ ﷺ سے ملاقات مشکل ہوگئی تو سیّدنا علیؓ نے فرمایا: ''تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا، اگر میں راستے میں کسی کافر دیکھوں، جس سے مجھے تمھارے بارے میں خطرہ ہوا تو میں کسی دیوار کے پاس بیٹھ جاؤں گا، تم اس وقت میرا انتظار نہ کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آجانا تاکہ کو ئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں اکٹھے ہیں اور اس طرح جس گھر میں میں داخل ہوں، تم بھی داخل ہو جانا۔
دیکھیے! مشرکین کی سخت نگرانی کے باوجود، سیّدنا علیؓ نے کس دانائی سے سیّدنا ابوذر غِفاریؓ کو آپ ﷺ تک پہنچا دیا۔
سیدنا علیؓ تقریباً تئیس سال کی عمر تک مکہ میں حضور ﷺ کی تربیت اور رفاقت میں رہے۔ لکھنا پڑھنا سیکھا۔ مروجہ جنگی فنون میں مہارت حاصل کی، حضور ﷺ سے بہترین دینی، اخلاقی، روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اور اپنی زندگی کے بقیہ اوقات حضور ﷺ کی رفاقت و حمایت کے لیے وقف کر دیے۔ آپ ﷺ کی خلوت و جلوت کی مجلسوں اور دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں ساتھ رہے۔ کاتب وحی بھی رہے۔
جب مشرکینِ مکہ کی ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ِ خداوندی آگیا۔ حضور اکرم ﷺ خود سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو ہم راہ لے کر عازم مدینہ ہوئے۔ چوںکہ صادق و امین ﷺ کے پاس اہل مکہ کی امانتیں رکھی تھیں، اس لیے آپ ﷺ نے سیدنا علی ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ چلے آنا۔ ہجرت کی شب بستر نبوی پر آپ ﷺ کی چادر اوڑھ کر سونا اور لوگوں کی امانتوں کی بہ حفاظت سپردگی آپؓ کی جاں نثاری کا ایک بے مثال واقعہ ہے۔ بسترِ رسول ﷺ پر سونے کا اعزاز کسی اور صحابیؓ کے حصے میں نہ آیا۔
مدینہ منورہ پہنچ کر سیدنا علیؓ کی اس فعال و سرگرم زندگی کا آغاز ہوا جس نے انہیں اسد اﷲ بنا دیا۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر ہو یا غزوات بدر، احد، خندق، صلح حدیبیہ، فتح مکہ اور غزوہ حنین میں بھرپور شرکت کی۔ ان غزوات میں سیدنا علیؓ کی قوت و شجاعت، دلیری و پامردی، جان بازی و فدا کاری کے جوہر کھلے۔ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کی زیر قیادت تمام غزوات میں شرکت کی۔ اور کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ خاص طور پر خیبر کی فتح، صلح حدیبیہ میں صلح نامہ کی تحریر اور واقعہ تبوک میں آپ ﷺ کی نیابت کا شرف بھی آپ ؓ کے حصہ میں آیا۔
شرفِ صحابیت کے بعد جو شرف آپؓ کے حصے میں آیا، وہ رسول اﷲ ﷺ کی دامادی ہے۔ جنگ بدر کے بعد آپ ﷺ نے اپنی محبوب ترین صاحب زادی سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کی سیدنا علیؓ سے شادی کر دی اور فرمایا: پیاری بیٹی! میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے۔ سیّدہ فاطمہ ؓ سے دو صاحب زادے حسن ؓ اور حسین ؓ اور دو صاحب زادیاں ام کلثوم ؓ اور زینب ؓ پیدا ہوئیں۔
سیدنا علیؓ کو اپنی شہادت کے متعلق نبی اکرم ﷺ کی خبر کے مطابق پورا یقین تھا۔ ایک دن نبی اکرم ﷺ نے سیدنا علی ؓ سے پوچھا: '' اے علی! کیا تم جانتے ہو کہ بعد میں آنے والوں میں سب سے زیادہ بد بخت کون ہے؟'' سیدنا علیؓ نے عرض کیا: '' اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔'' حضور ﷺ نے فرمایا: ''تیرا قاتل سب سے زیادہ بدبخت ہے۔
17رمضان 40 ھ کو بد بخت ابن ملجم خارجی نے سیدنا علیؓ پر حملہ کر دیا۔ جس سے آپؓ تین دن موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد 21 رمضان 40ھ میں بہ عمر 63 سال جامِ شہادت نوش کرگئے۔
اﷲ رب العزت امت مسلمہ کو سیدنا علیؓ کے ارشادات و تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
آپ ﷺ نے تین بار اپنی دعوت کو دہرایا لیکن صرف ایک نوعمر لڑکے نے اُٹھ کر اکابرِ بنی ہاشم کی پروا نہ کرتے ہوئے بڑی بے خوفی اور جرأت سے بھری مجلس میں فرمایا: اگرچہ میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں لیکن میں آپ ﷺ کا دست و بازو بنوں گا اور آپ ﷺ کا ساتھ دوں گا۔
یہ نو عمر لڑکے کون تھے؟ جنہوں نے نوعمری میں ہی اکابرِ بنی ہاشم کی پروا نہ کرتے ہوئے بڑی بے خوفی اور جرأت سے بھری مجلس میں آپ ﷺ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ یہ تھے قریش مکہ کی شاخ بنو ہاشم کے سردار ابو طالب کے بیٹے اور آپ ﷺ کے چچازاد بھائی سیدنا علی المرتضیٰؓ۔
داماد رسول ﷺ، امیر المؤمنین خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیٰ ؓ بعث ِ نبوی سے تقریباً دس برس پہلے ماہ رجب، شعب بنی ہاشم مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہاشمی النسب تھے۔ والد کا نام: ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی تھا اور والدہ کا نام: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی۔ جناب ابوطالب جناب رسالت مآب ﷺ کے حقیقی چچا تھے۔ والدہ نے اس نومولود کا نام ''اسد'' یا ''زید'' رکھا، والد نے تبدیل کر کے ''علی'' نام تجویز کردیا۔ آپؓ کا لقب '' اسداﷲ، حیدر، مرتضیٰ'' اور کنیت ''ابوالحسن و ابوتراب'' ہے۔ مؤخرالذکر کنیت آپ ؓ کو بہت پسند تھی جب کوئی شخص اس کنیت سے پکارتا تو بہت خوش ہوتے۔ اس لیے کہ یہ کنیت آپ ﷺ کے پکارنے کی وجہ سے مشہور ہوئی تھی۔ جناب علیؓ اعلان نبوت سے قبل ہی رسول کریم ﷺ کی کفالت اور تربیت میں آگئے تھے۔ اس عمر میں اسلام قبول کرنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آپؓ پر کفر کا کوئی دور نہیں گزرا اور آپ کا واسطہ صرف دین اسلام ہی سے پڑا تھا۔
سیدنا علیؓ نے کم عمری میں شعب بنی ہاشم میں محاصرت کے دوران آپؓ نے بھی صعوبتیں جھیلیں۔ آپؓ کے کم عمری ہی میں تبلیغ اسلام اور اجنبی لوگوں کو خفیہ اور دانائی کے ساتھ آپ ﷺ تک پہنچاتے تھے۔ مشرکین مکہ کی سخت نگرانی کی وجہ سے سیدنا ابوذرغِفاریؓ کی آپ ﷺ سے ملاقات مشکل ہوگئی تو سیّدنا علیؓ نے فرمایا: ''تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا، اگر میں راستے میں کسی کافر دیکھوں، جس سے مجھے تمھارے بارے میں خطرہ ہوا تو میں کسی دیوار کے پاس بیٹھ جاؤں گا، تم اس وقت میرا انتظار نہ کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آجانا تاکہ کو ئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں اکٹھے ہیں اور اس طرح جس گھر میں میں داخل ہوں، تم بھی داخل ہو جانا۔
دیکھیے! مشرکین کی سخت نگرانی کے باوجود، سیّدنا علیؓ نے کس دانائی سے سیّدنا ابوذر غِفاریؓ کو آپ ﷺ تک پہنچا دیا۔
سیدنا علیؓ تقریباً تئیس سال کی عمر تک مکہ میں حضور ﷺ کی تربیت اور رفاقت میں رہے۔ لکھنا پڑھنا سیکھا۔ مروجہ جنگی فنون میں مہارت حاصل کی، حضور ﷺ سے بہترین دینی، اخلاقی، روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اور اپنی زندگی کے بقیہ اوقات حضور ﷺ کی رفاقت و حمایت کے لیے وقف کر دیے۔ آپ ﷺ کی خلوت و جلوت کی مجلسوں اور دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں ساتھ رہے۔ کاتب وحی بھی رہے۔
جب مشرکینِ مکہ کی ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ِ خداوندی آگیا۔ حضور اکرم ﷺ خود سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو ہم راہ لے کر عازم مدینہ ہوئے۔ چوںکہ صادق و امین ﷺ کے پاس اہل مکہ کی امانتیں رکھی تھیں، اس لیے آپ ﷺ نے سیدنا علی ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ چلے آنا۔ ہجرت کی شب بستر نبوی پر آپ ﷺ کی چادر اوڑھ کر سونا اور لوگوں کی امانتوں کی بہ حفاظت سپردگی آپؓ کی جاں نثاری کا ایک بے مثال واقعہ ہے۔ بسترِ رسول ﷺ پر سونے کا اعزاز کسی اور صحابیؓ کے حصے میں نہ آیا۔
مدینہ منورہ پہنچ کر سیدنا علیؓ کی اس فعال و سرگرم زندگی کا آغاز ہوا جس نے انہیں اسد اﷲ بنا دیا۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر ہو یا غزوات بدر، احد، خندق، صلح حدیبیہ، فتح مکہ اور غزوہ حنین میں بھرپور شرکت کی۔ ان غزوات میں سیدنا علیؓ کی قوت و شجاعت، دلیری و پامردی، جان بازی و فدا کاری کے جوہر کھلے۔ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کی زیر قیادت تمام غزوات میں شرکت کی۔ اور کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ خاص طور پر خیبر کی فتح، صلح حدیبیہ میں صلح نامہ کی تحریر اور واقعہ تبوک میں آپ ﷺ کی نیابت کا شرف بھی آپ ؓ کے حصہ میں آیا۔
شرفِ صحابیت کے بعد جو شرف آپؓ کے حصے میں آیا، وہ رسول اﷲ ﷺ کی دامادی ہے۔ جنگ بدر کے بعد آپ ﷺ نے اپنی محبوب ترین صاحب زادی سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کی سیدنا علیؓ سے شادی کر دی اور فرمایا: پیاری بیٹی! میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے۔ سیّدہ فاطمہ ؓ سے دو صاحب زادے حسن ؓ اور حسین ؓ اور دو صاحب زادیاں ام کلثوم ؓ اور زینب ؓ پیدا ہوئیں۔
سیدنا علیؓ کو اپنی شہادت کے متعلق نبی اکرم ﷺ کی خبر کے مطابق پورا یقین تھا۔ ایک دن نبی اکرم ﷺ نے سیدنا علی ؓ سے پوچھا: '' اے علی! کیا تم جانتے ہو کہ بعد میں آنے والوں میں سب سے زیادہ بد بخت کون ہے؟'' سیدنا علیؓ نے عرض کیا: '' اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔'' حضور ﷺ نے فرمایا: ''تیرا قاتل سب سے زیادہ بدبخت ہے۔
17رمضان 40 ھ کو بد بخت ابن ملجم خارجی نے سیدنا علیؓ پر حملہ کر دیا۔ جس سے آپؓ تین دن موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہنے کے بعد 21 رمضان 40ھ میں بہ عمر 63 سال جامِ شہادت نوش کرگئے۔
اﷲ رب العزت امت مسلمہ کو سیدنا علیؓ کے ارشادات و تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔