باب العلم حیدر کرار علی کرم اﷲ وجہہ
خانہ کعبہ سے لے کر کوفہ کی جامع مسجد تک آپؓ کی زندگی کا ہر لمحہ قابل رشک و تقلید ہے۔
پروردہ رسول کریمؐ، اقلیم ولایت کے شہنشاہ، عبادات و ریاضت میں مسلمانوں کے پیشوا، ہمت و شجاعت کے عظیم تاج دار، معرکہ خیبر کے شہسوار، خاتون جنّتؓ کے شوہر نام دار، سرداران جنّتؓ کے والد گرامی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ جن کی ولادت کعبہ میں ہوئی اور شہادت مسجد میں پائی۔ جن کی زندگی کا محور آغاز سے انجام تک اﷲ تعالیٰ کا گھر تھا۔
آپؓ وہ ہیں جن کی محبّت میں جینا عبادت ہے اور ان کی محبّت میں مرنا سعادت ہے۔ انہی عظیم المرتبت کو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کہتے ہیں۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نجیب الطرفین ہاشمی اور رسول اﷲ ﷺ کے سگے چچا زاد بھائی ہیں، آپؓ کی کنیت ابُوالحسن اور ابُوتراب ہے۔ یوں تو حضرت علیؓ کے بہت سے القاب و خطاب ہیں مگر آپؓ کو ابُوتراب بہت پسند تھا۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی جملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ رسول اﷲ ﷺ کے سگے چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ ''عقد مواخاۃ'' میں بھی آپ ﷺ کے بھائی ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اﷲ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اور ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا دینی و اسلامی بھائی بنا دیا تو حضرت علیؓ آبدیدہ ہوکر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ''یارسول اﷲ ﷺ! آپؐ نے تمام صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ اس پر رسول اﷲ ﷺ نے نہایت پیار اور محبت سے فرمایا: ''اے علی! تم دنیا و آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔''
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی عمر ابھی صرف دس سال تھی، جب حضرت محمد ﷺ کو بارگاہ خداوند ی سے نبوت و رسالت کا عظیم الشان منصب عطا کیا گیا۔ حضرت علیؓ بچپن سے ہی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہتے آرہے تھے، اس لیے آپؓ کو اسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے۔
حضور سرکار دوعالم ﷺ کی جو ہر شناس نگاہوں نے حضرت علیؓ کی خداداد قابلیت و استعداد کا پہلے ہی اندازہ کرلیا تھا اور آپ ﷺ کی زبان سے حضرت علی کو ''باب العلم'' کی سند و اعزاز مل چکا تھا۔ حضرت علیؓ نے نبی کریم ﷺ سے تقریباً پانچ سو چھیاسی احادیث روایت کی ہیں۔ آپؓ کے علمی نکات، فتاویٰ اور بہترین فیصلوں کا انمول مجموعہ اسلامی علوم کے خزانوں کا بہترین اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ حضرت علیؓ کمال علم و فضل، جمال و فصاحت و بلاغت، پُرتاثیر مواعظ و خطابت، بے مثال فیاضی و سخاوت، بے نظیر جرأت و شجاعت اور قرابت رسول ﷺ میں تمام صحابہ کرامؓ میں ایک ممتاز اور منفرد فضیلت کے مالک ہیں۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی بے مثال ہمت و شجاعت اور جرأت و بہادری کی لازوال داستانوں کے ساتھ سارے عرب و عجم میں آپؓ کی قوت بازو کے چرچے تھے۔ آپؓ کے رعب و دبدبے سے بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے تھے۔ تما م غزوات و سرایا میں آپؓ شریک ہوئے اور بڑی جاں بازی کے ساتھ کفار و مشرکین کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہا دروں اور شہسواروں کو ذوالفقار حیدری سے موت کے گھاٹ اُتارا۔ حضور سیّد عالم ﷺ نے جب اﷲتعالیٰ کے حکم کے مطابق مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ''مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت مدینے کا حکم ہو چکا ہے اور میں آج ہی مدینہ منورہ روانہ ہو جاؤں گا۔
لہٰذا تم میرے بستر پر میری چادر اُوڑھ کر سوجانا اور صبح قریش مکہ کی ساری امانتیں اور وصیتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں، وہ ان کے مالکان کے سپرد کرکے تم بھی مدینہ منورہ چلے آنا۔'' حضرت علی حیدرکرارؓ بلا کسی خوف و خطر کے حضور اقدس ﷺ کے بستر مبارک پر سوگئے ۔ صبح ہوئی تو کفار مکہ جو رات بھر کاشانہ نبویؐ کا سخت محاصرہ کیے ہوئے تھے، برہنہ تلواریں لے کر اندر داخل ہوگئے لیکن جب یہ دیکھا کہ بستر نبوی ﷺ پر حضرت علیؓ سو رہے ہیں تو ناکام و نامراد ہوکر واپس چلے گئے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام و سکون کے ساتھ سویا اور صبح اُٹھ کر لوگوں کی امانتیں اور وصیتیں ان کے مالکوں کے حوالے کیں اور پھر میں نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سیّد عالم ﷺ کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے۔ آغاز طفولیت ہی سے حضرت علیؓ حضور خاتم الانبیاء ﷺ کی آغوش پرورش میں رہے۔ آپؓ محاسن اخلاق اور حسن تربیت کا بہترین نمونہ تھے، گویا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق حسنہ کے چمن کے باغ و بہار ہیں۔ حضرت علیؓ کو بچپن سے ہی درس گاہ نبوتؐ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم و دوائم رہا۔ آپ کرم اﷲ وجہہ اس پر فخر و ناز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا اور تقرب کا یہ درجہ میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ تھا۔ چناں چہ اسی وجہ سے آپؓ کو حضور اکرم ﷺ کے تحریری کام کرنے کی سعادت بھی حاصل تھی۔ کاتبان وحی میں آپؓ کا اسم گرامی سرفہرست ہے۔ صلح حدیبیہ کا صلح نامہ آپؓ نے ہی لکھا تھا۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ نے ایک طویل مدت تک اہل ایمان کے قلوب و اذہان کو قرآن و حدیث اور علم و عرفان سے فیض یاب فرمایا، اسلام کی راہ میں زندگی بھر کفّار سے برسر پیکار رہے۔ دین اسلام کی بے مثال تبلیغ اور خدمت کی۔ ہر قدم پر صحابہ کرامؓ کی ہر ممکن راہ نمائی فرمائی۔ اسلام کی راہ میں اپنا مال و متاع اور اپنا تن من دھن قربان کیا اور آخر اسلام کی خاطر اپنی جان بھی قربان کردی۔
اکیس رمضان المبارک بہ روز جمعۃ ُالمبارک 40 ہجری کو فجر کی نماز میں عین حالت سجدہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور یوں علم و فضل، زہد و تقویٰ، فیاضی و سخاوت، جرأت و بہادری، شجاعت و بسالت اور رشد و ہدایت کا روشن و تابان آفتاب غروب ہوگیا۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ہما ری ظاہری نگاہوں سے ضرور اوجھل ہوگئے ہیں لیکن اہل باطن کے سامنے آج بھی رونق افروز ہیں۔ خانہ کعبہ سے لے کر کوفہ کی جامع مسجد تک آپؓ کی زندگی کا ہر لمحہ قابل رشک و تقلید ہے۔
آپؓ وہ ہیں جن کی محبّت میں جینا عبادت ہے اور ان کی محبّت میں مرنا سعادت ہے۔ انہی عظیم المرتبت کو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کہتے ہیں۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نجیب الطرفین ہاشمی اور رسول اﷲ ﷺ کے سگے چچا زاد بھائی ہیں، آپؓ کی کنیت ابُوالحسن اور ابُوتراب ہے۔ یوں تو حضرت علیؓ کے بہت سے القاب و خطاب ہیں مگر آپؓ کو ابُوتراب بہت پسند تھا۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی جملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ رسول اﷲ ﷺ کے سگے چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ ''عقد مواخاۃ'' میں بھی آپ ﷺ کے بھائی ہیں۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اﷲ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اور ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا دینی و اسلامی بھائی بنا دیا تو حضرت علیؓ آبدیدہ ہوکر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ''یارسول اﷲ ﷺ! آپؐ نے تمام صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ اس پر رسول اﷲ ﷺ نے نہایت پیار اور محبت سے فرمایا: ''اے علی! تم دنیا و آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔''
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی عمر ابھی صرف دس سال تھی، جب حضرت محمد ﷺ کو بارگاہ خداوند ی سے نبوت و رسالت کا عظیم الشان منصب عطا کیا گیا۔ حضرت علیؓ بچپن سے ہی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہتے آرہے تھے، اس لیے آپؓ کو اسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے نظر آئے۔
حضور سرکار دوعالم ﷺ کی جو ہر شناس نگاہوں نے حضرت علیؓ کی خداداد قابلیت و استعداد کا پہلے ہی اندازہ کرلیا تھا اور آپ ﷺ کی زبان سے حضرت علی کو ''باب العلم'' کی سند و اعزاز مل چکا تھا۔ حضرت علیؓ نے نبی کریم ﷺ سے تقریباً پانچ سو چھیاسی احادیث روایت کی ہیں۔ آپؓ کے علمی نکات، فتاویٰ اور بہترین فیصلوں کا انمول مجموعہ اسلامی علوم کے خزانوں کا بہترین اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ حضرت علیؓ کمال علم و فضل، جمال و فصاحت و بلاغت، پُرتاثیر مواعظ و خطابت، بے مثال فیاضی و سخاوت، بے نظیر جرأت و شجاعت اور قرابت رسول ﷺ میں تمام صحابہ کرامؓ میں ایک ممتاز اور منفرد فضیلت کے مالک ہیں۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی بے مثال ہمت و شجاعت اور جرأت و بہادری کی لازوال داستانوں کے ساتھ سارے عرب و عجم میں آپؓ کی قوت بازو کے چرچے تھے۔ آپؓ کے رعب و دبدبے سے بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے تھے۔ تما م غزوات و سرایا میں آپؓ شریک ہوئے اور بڑی جاں بازی کے ساتھ کفار و مشرکین کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہا دروں اور شہسواروں کو ذوالفقار حیدری سے موت کے گھاٹ اُتارا۔ حضور سیّد عالم ﷺ نے جب اﷲتعالیٰ کے حکم کے مطابق مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ''مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت مدینے کا حکم ہو چکا ہے اور میں آج ہی مدینہ منورہ روانہ ہو جاؤں گا۔
لہٰذا تم میرے بستر پر میری چادر اُوڑھ کر سوجانا اور صبح قریش مکہ کی ساری امانتیں اور وصیتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں، وہ ان کے مالکان کے سپرد کرکے تم بھی مدینہ منورہ چلے آنا۔'' حضرت علی حیدرکرارؓ بلا کسی خوف و خطر کے حضور اقدس ﷺ کے بستر مبارک پر سوگئے ۔ صبح ہوئی تو کفار مکہ جو رات بھر کاشانہ نبویؐ کا سخت محاصرہ کیے ہوئے تھے، برہنہ تلواریں لے کر اندر داخل ہوگئے لیکن جب یہ دیکھا کہ بستر نبوی ﷺ پر حضرت علیؓ سو رہے ہیں تو ناکام و نامراد ہوکر واپس چلے گئے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام و سکون کے ساتھ سویا اور صبح اُٹھ کر لوگوں کی امانتیں اور وصیتیں ان کے مالکوں کے حوالے کیں اور پھر میں نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سیّد عالم ﷺ کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے۔ آغاز طفولیت ہی سے حضرت علیؓ حضور خاتم الانبیاء ﷺ کی آغوش پرورش میں رہے۔ آپؓ محاسن اخلاق اور حسن تربیت کا بہترین نمونہ تھے، گویا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق حسنہ کے چمن کے باغ و بہار ہیں۔ حضرت علیؓ کو بچپن سے ہی درس گاہ نبوتؐ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم و دوائم رہا۔ آپ کرم اﷲ وجہہ اس پر فخر و ناز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا اور تقرب کا یہ درجہ میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ تھا۔ چناں چہ اسی وجہ سے آپؓ کو حضور اکرم ﷺ کے تحریری کام کرنے کی سعادت بھی حاصل تھی۔ کاتبان وحی میں آپؓ کا اسم گرامی سرفہرست ہے۔ صلح حدیبیہ کا صلح نامہ آپؓ نے ہی لکھا تھا۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ نے ایک طویل مدت تک اہل ایمان کے قلوب و اذہان کو قرآن و حدیث اور علم و عرفان سے فیض یاب فرمایا، اسلام کی راہ میں زندگی بھر کفّار سے برسر پیکار رہے۔ دین اسلام کی بے مثال تبلیغ اور خدمت کی۔ ہر قدم پر صحابہ کرامؓ کی ہر ممکن راہ نمائی فرمائی۔ اسلام کی راہ میں اپنا مال و متاع اور اپنا تن من دھن قربان کیا اور آخر اسلام کی خاطر اپنی جان بھی قربان کردی۔
اکیس رمضان المبارک بہ روز جمعۃ ُالمبارک 40 ہجری کو فجر کی نماز میں عین حالت سجدہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور یوں علم و فضل، زہد و تقویٰ، فیاضی و سخاوت، جرأت و بہادری، شجاعت و بسالت اور رشد و ہدایت کا روشن و تابان آفتاب غروب ہوگیا۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ہما ری ظاہری نگاہوں سے ضرور اوجھل ہوگئے ہیں لیکن اہل باطن کے سامنے آج بھی رونق افروز ہیں۔ خانہ کعبہ سے لے کر کوفہ کی جامع مسجد تک آپؓ کی زندگی کا ہر لمحہ قابل رشک و تقلید ہے۔