سیاستدان حکومتی وزرا اور اخلاقیات کا فقدان

فردوس عاشق اعوان کو جہاں موقع ملتا ہے وہ منہ سے پھول جھڑنے سے باز نہیں آتی ہیں

پی ٹی آئی ہی لمحہ موجود میں بدکلامی کی وجہ سے بدنام کیوں ہے؟ (فوٹو: فائل)

QUETTA:
ہم میں سے تقریباً ہر ایک نے اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ سونیا صدف اور وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کے مابین مکالمہ دیکھ لیا ہوگا۔ کیا فردوس عاشق ایوان کی جانب سے یہ رویہ پہلی مرتبہ ہے؟ ہرگز نہیں۔

میرا یقین ہے کہ معاون خصوصی کو یہ علم نہیں ہوگا کہ ایک سی ایس پی افسر کیسے بنتا ہے؟ اس کےلیے کتنی محنت درکار ہوتی ہے؟ میرے ایک کزن سی ایس پی آفیسر ہیں۔ اُن کے والد یعنی میرے خالو کی وفات میرے کزن کے لڑکپن میں ہوگئی اور اُس کے بعد اُن کے سر پر ایک چھت تھی اور اللہ کی ذات تھی اور انہوں نے وہ مشکل وقت بھی دیکھا جو ہم ناولوں میں پڑھتے تھے۔ تاہم اچھے دوست اور رہنمائی اور سب سے بڑھ کر اُن کی انتھک محنت نے اور ایسی محنت کہ جس میں 18 گھنٹے سے زائد کام اور محض 4 سے 5 گھنٹے نیند ہو، ایسی محنت نے اُن کو سی ایس ایس میں کامیابی بھی دلوائی۔

میرے دو اساتذہ بھی سی ایس پی ہیں، ایک دوست بھی سی ایس پی آفیسر ہے اور آپ یقین کیجئے کہ یہ حضرات چلتی پھرتی لائبریری ہوتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ سی ایس ایس پاس کرنے کےلیے اہل علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ملک کی کریم ہوتے ہیں۔ آپ ان سے نفرت کریں یا نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی باگ ڈور کسی نہ کسی طرح اگر چل رہی ہے تو ان کی وجہ سے ہی چل رہی ہے۔ لہٰذا اگر محترمہ فردوس عاشق اعوان اپوزیشن کو کڑکی لگوانے سے فارغ ہوجائیں تو دیکھیں کہ ریاست کے جس ستون پر یہ حملہ آور ہیں، وہاں 99 فیصد پڑھا لکھا طبقہ موجود ہے اور دوسری جانب محترمہ خود ہی بتا دیں کہ سیاستدانوں میں پڑھے لکھے کتنے ہیں؟

شاید یہی وجہ ہے کہ محترمہ فردوس عاشق کو جہاں موقع ملتا ہے وہ منہ سے پھول جھڑنے سے باز نہیں آتی ہیں۔ اُن کو اپنی زبان و بیان کی وجہ سے پہلی شہرت معروف کالم نویس اور اینکر جاوید چوہدری کے پروگرام سے ملی تھی، جس میں انہوں نے انتہائی ادب سے کشمالہ طارق کو مخاطب کیا تھا۔ کشمالہ طارق بھی سونیا صدف کی طرح پڑھی لکھی تھیں، لہٰذا وہ بھی خاموش ہوگئی تھیں۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کوئی بیوروکریٹ کسی سیاستدان کے ہاتھ لگ گیا ہو۔ ابھی چند سال قبل ہی ایک ریلوے آفیسر نے شیخ رشید کو وزارت ریلوے سنبھالنے کے بعد حد کراس کرنے پر صحیح سے شٹ اپ کال دی تھی۔

یہ بلاگ بھی پڑھئے: ''یو ٹو شٹ اپ مسٹر شیخ رشید''


آج وہ آفیسر اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور شیخ صاحب کسی اور وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کی تو وجہ شہرت ہی کھڑے کھڑے آفیسرز کو گھر بھیجنے کی وجہ سے تھی۔ سندھ میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں تاہم بلوچستان اور کے پی کے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سیاست کے رویے الگ ہیں۔

فردوس عاشق اعوان نے ایسا کیوں کیا؟ کیا وہ یہ بات بیٹھ کر نہیں کرسکتی تھیں؟ شاید وہ کرسکتی تھیں لیکن انہوں نے کیمروں کی موجودگی میں ہیروئن بننے کا موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ یہ محض پی آر اسٹنٹ ہوتے ہیں جس کا واحد مقصد عوامی توجہ حاصل کرتے ہوئے باس کی گڈ بکس میں رہنا ہوتا ہے۔ آپ بتائیے، کیا ایسا کرنے سے وہاں تازہ پھل آگیا تھا؟ اگر ناقص کوالٹی ہی غصے کی وجہ تھی تو کیا سیالکوٹ بھر میں سب کچھ اعلیٰ اور معیاری ہے؟ وہاں کے بازار بالکل ٹھیک ہیں؟ یہ ہو کیا رہا ہے؟ ایک طرف وزیراعظم انتہائی کچے انداز میں اسلام آباد میں پی آر کرتے پھر رہے ہیں اور دوسری جانب وزیراعلیٰ کی معاون خصوصی سیالکوٹ میں یہ سب کر رہی ہیں۔

پی ٹی آئی ہی لمحہ موجود میں بدکلامی کی وجہ سے بدنام کیوں ہے؟ کیونکہ ذرائع کے مطابق ایسا کرنے سے باس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور سیٹ پکی رہتی ہے۔ ویسے محترمہ کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ یہاں پر کوئی حنیف گل جیسا آفیسر نہیں تھا، ورنہ شاید یہ سرگرمی الٹا محترمہ کے گلے پڑ جاتی۔ اس وقت پنجاب میں بیوروکریسی کام کرنے کو پہلے ہی تیار نہیں ہے۔ اُن کے سامنے فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی مثالیں ہیں، وہ فائلوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتے ہیں اور حکومت وقت کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ریاست کے اس اہم ستون کو اعتماد دیں تاکہ کام ہوسکے اور ایسی صورتحال میں اگر ریاست کا ایک ستون یوں سرعام دوسرے ستون پر حملہ آور ہوگا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اپنی فرسٹریشن اور ناکامیوں کی ذمے داری بیوروکریسی کے گلے میں کیوں ڈالی جارہی ہے؟ یہ ایسا معاملہ نہیں تھا جس کو مہذب طریقے سے سلجھایا نہ جاسکتا تھا لیکن شاید حکومت وقت کا تہذیب سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

آخر میں چند مزید سوالات ہیں۔ کیا کوئی معاون خصوصی یا مشیر کسی بھی طرح کے انتظامی اختیارات رکھتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا یہ فردوس عاشق ایوان کی جانب سے کار سرکار میں مداخلت نہیں ہے؟ اگر اُن کے خلاف تضحیک کا نشانہ بننے والی آفیسر کی جانب سے درخواست دائر کر دی جائے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story