سیاسی سرگرمیاں عروج پر گورنر اور دیگر عہدوں پر تبدیلی کی باتیں
بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض دیگر وزراء کے محکموں میں بھی ردوبدل کئے جانے کا امکان ہے۔
بلوچستان کے سیاسی ماحول میں یکدم گرمی تبدیلی کی باتوں کو تقویت ملنا شروع ہو گئی۔
وزیراعظم عمران خان کے ایک روزہ دورے کے بعد گورنر بلوچستان کی تبدیلی سمیت دیگر کلیدی عہدوں وزرات اعلیٰ اور اسپیکر کے حوالے سے بھی سیاسی محفلوں میں تبدیلی پر بحث و مباحثہ نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے ۔ افطار ڈنرز اور اس کے بعد سیاسی بیٹھکوں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں گزرتے وقت کے ساتھ تیزی آگئی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کے ایک روزہ دورے پر جس طرح سے تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے رویے کو بنیاد بنا کر احتجاج کیا اور وزیراعظم عمران خان سے ایک گھنٹے سے زائد جاری ملاقات میں شکایات کے انبار لگائے گئے اس سے بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔
بعض سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اورتحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند میں تلخی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں اتحادی جماعتوں میں اچھے تعلقات میں دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اس بیان کو بھی تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ اور جماعت نے ہدف تنقید بنایا ہے جس میں انہوں نے سردار یار محمد رند پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی وزرات چھوڑنا چاہتا ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ نے وزیراعظم عمران خان سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے وزیراعلیٰ جام کمال کے سوا باپ پارٹی کے کسی بھی دوسرے رکن کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے تو انہیں قبول ہوگا کیونکہ موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کو کسی بھی معاملے میں اعتماد میں نہیں لے رہے حالانکہ وہ ان کی بڑی اتحادی جماعت ہے جس سے پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔
ان شکوؤں کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے معاملے کو رفع دفع کروایا اور دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان بلوچستان میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے وفاقی وزیر اسد عمر کو رابطہ کار کی ذمہ داری سونپی اور تحریک انصاف کے ناراض پارلیمانی گروپ کو منا کر اپنے ہمراہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی ان تقاریب میں شرکت کے لئے لے گئے جس میں تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے رویے کی وجہ سے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسی طرح تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے گورنر بلوچستان جسٹس (ریٹائرڈ) امان اللہ یاسین زئی کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا۔جس پر انہوں نے پارلیمانی گروپ کو اس عہدے کیلئے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والوں میں سے تین نام تجویز کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد صوبے میں گورنر کی تبدیلی کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور کئی شخصیات کے نام سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگئے جبکہ تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے بھی یکے بعد دیگرے اپنے اجلاس منعقد کر کے تین نام تجویز کرکے وزیراعظم کو ارسال کردیئے۔
تاہم گورنر بلوچستان کی تبدیلی کے حوالے سے کئی خبریں اس وقت سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں اور ایک درجن سے زائد سیاسی و قبائلی شخصیات کے نام گردش کر رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کے ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا اور بعض اخبارات میں گورنر شپ کے لئے جو نام سامنے آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی نام پارلیمانی گروپ نے تجویز نہیں کیا۔
ان ذرائع کے مطابق ان ناموں سے ہٹ کر تین نام دیئے گئے ہیں جنہیں خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق گورنر کی تبدیلی کی خبریں آنے کے بعد وزارت اعلیٰ اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی تبدیلی کی باتوں نے بھی زور پکڑ لیا اور دوسری جانب یہ بات بھی وثوق سے کہی جانے لگی کہ بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف ایک ناراض فارورڈ گروپ بن چکا ہے جس نے تبدیلی کے لئے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور اس گروپ کے اتحادی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کے ساتھ بھی رابطے ہیں۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق رمضان المبارک سے قبل ہی سیاسی بیٹھک کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا تاہم وزیراعظم عمران خان کے دورے گورنر کی تبدیلی کی بات اور پھر تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کی ناراضگی نے ان سیاسی بیٹھکوں کو مزید تقویت دی اور کئی حکومتی ارکان اسمبلی متحد ہوگئے جبکہ گزشتہ روز حکومتی سائیڈ سے ایک اور خبر نے سیاسی ماحول کو گرما کر رکھ دیا ۔
اتحادی جماعتوں باپ اور پی ٹی آئی میں کشیدگی بڑھ گئی جب وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض وزراء سینیٹرز اور پارلیمانی سیکرٹریز کی وزیراعلیٰ جام کمال سے ملاقات کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ اس ملاقات میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی و سینیٹرز نے اتحادی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر و وزیر تعلیم کے خلاف شکایت کی ہے کہ وزیر تعلیم محکمہ میں غیر ضروری مداخلت کر رہے ہیں اور سیاسی بنیادوں پر لوئر کیڈر کے آفیسران کی پوسٹنگ ٹرانسفر کر رہے ہیں، سول سیکرٹریٹ میں ان کے مسلح محافظوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی سے ماحول میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
اس بیان پر تحریک انصاف کا جوابی بیان بھی سامنے آگیا جس میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے دوران ہونے والے فیصلے کے برعکس وزیراعلیٰ جام کمال نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جسے پارلیمانی گروپ یکسر مسترد کرتا ہے اور ان تمام معاملات اور بیان کے حوالے سے اپنے تحفظات وزیر اعظم کی جانب سے مقرر کئے گئے رابطہ کار وفاقی وزیر اسد عمر کے سامنے رکھے جائیں گے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بیان بازی اور تنقید کے اس سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس میں کوئی مفاہمت کا راستہ نہ اپنایا گیا تو صورتحال اور ماحول میں مزید خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بھی اختلافات کی باتوں میں کسی حد تک صداقت اس لئے بھی ہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ جام کمال نے اپنی سیاسی جماعت کے وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی سے ان کے محکمے کا قلمدان واپس لے لیا جبکہ ان کا اس حوالے سے یہ رد عمل سامنے آیا کہ انہیں وزیراعلیٰ نے اعتماد میں نہیں لیا، قلمدان واپس لینے کے بعد کی صورتحال سے سینئر ساتھیوں سے رابطے میں ہوں جن کی مشاورت کے بعد فیصلے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرونگا ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بعض حلقوں میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض دیگر وزراء کے محکموں میں بھی ردوبدل کئے جانے کا امکان ہے جبکہ حکومتی ترجمان نے ردوبدل کی تردید کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی سربراہی میں بلوچستان کی مخلوط حکومت صحیح سمت میں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے اور کابینہ کے ارکان کی کارکردگی سے بھی وزیر اعلیٰ مطمئن ہیں۔
انہوں نے ایسی خبروں کو افواہیں اور من گھڑت قرار دیا ہے، سیاسی مبصرین کے مطابق صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی سے محکمے کے قلمدان کی واپسی کے عمل کو بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بعض ارکان نے انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا اور ان کا یہ خیال ہے کہ ایسا ہی عمل دیگر دو تین وزراء کے ساتھ اپنایا جا سکتا ہے لہذا اس کی پیش بندی ضروری ہے جس کے لئے وہ وزیراعلیٰ سے رابطہ کریں گے اور اس کے علاوہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کی جائے گی ۔
دوسری جانب بلوچستان میں سیاسی ماحول کو گرم ہوتے دیکھ کر متحدہ اپوزیشن نے بھی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لئے اسپیکر کو ریکوزیشن (درخواست) جمع کرا دی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عید سے قبل بلوچستان کے سیاسی ماحول میں جو ہلچل سی پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات کب تک رہتے ہیں؟ اور تبدیلی کی یہ ہوا کیا رخ اختیار کرتی ہے اور سیاسی اتار چڑھاؤ کیا رنگ لاتا ہے؟ مئی کا مہینہ اس حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ایک روزہ دورے کے بعد گورنر بلوچستان کی تبدیلی سمیت دیگر کلیدی عہدوں وزرات اعلیٰ اور اسپیکر کے حوالے سے بھی سیاسی محفلوں میں تبدیلی پر بحث و مباحثہ نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے ۔ افطار ڈنرز اور اس کے بعد سیاسی بیٹھکوں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں گزرتے وقت کے ساتھ تیزی آگئی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کے ایک روزہ دورے پر جس طرح سے تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے رویے کو بنیاد بنا کر احتجاج کیا اور وزیراعظم عمران خان سے ایک گھنٹے سے زائد جاری ملاقات میں شکایات کے انبار لگائے گئے اس سے بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔
بعض سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اورتحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند میں تلخی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں اتحادی جماعتوں میں اچھے تعلقات میں دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اس بیان کو بھی تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ اور جماعت نے ہدف تنقید بنایا ہے جس میں انہوں نے سردار یار محمد رند پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی وزرات چھوڑنا چاہتا ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ نے وزیراعظم عمران خان سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے وزیراعلیٰ جام کمال کے سوا باپ پارٹی کے کسی بھی دوسرے رکن کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے تو انہیں قبول ہوگا کیونکہ موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کو کسی بھی معاملے میں اعتماد میں نہیں لے رہے حالانکہ وہ ان کی بڑی اتحادی جماعت ہے جس سے پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔
ان شکوؤں کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے معاملے کو رفع دفع کروایا اور دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان بلوچستان میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے وفاقی وزیر اسد عمر کو رابطہ کار کی ذمہ داری سونپی اور تحریک انصاف کے ناراض پارلیمانی گروپ کو منا کر اپنے ہمراہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی ان تقاریب میں شرکت کے لئے لے گئے جس میں تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے رویے کی وجہ سے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسی طرح تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے گورنر بلوچستان جسٹس (ریٹائرڈ) امان اللہ یاسین زئی کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا۔جس پر انہوں نے پارلیمانی گروپ کو اس عہدے کیلئے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والوں میں سے تین نام تجویز کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد صوبے میں گورنر کی تبدیلی کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور کئی شخصیات کے نام سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگئے جبکہ تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ نے بھی یکے بعد دیگرے اپنے اجلاس منعقد کر کے تین نام تجویز کرکے وزیراعظم کو ارسال کردیئے۔
تاہم گورنر بلوچستان کی تبدیلی کے حوالے سے کئی خبریں اس وقت سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں اور ایک درجن سے زائد سیاسی و قبائلی شخصیات کے نام گردش کر رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کے ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا اور بعض اخبارات میں گورنر شپ کے لئے جو نام سامنے آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی نام پارلیمانی گروپ نے تجویز نہیں کیا۔
ان ذرائع کے مطابق ان ناموں سے ہٹ کر تین نام دیئے گئے ہیں جنہیں خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق گورنر کی تبدیلی کی خبریں آنے کے بعد وزارت اعلیٰ اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی تبدیلی کی باتوں نے بھی زور پکڑ لیا اور دوسری جانب یہ بات بھی وثوق سے کہی جانے لگی کہ بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف ایک ناراض فارورڈ گروپ بن چکا ہے جس نے تبدیلی کے لئے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور اس گروپ کے اتحادی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کے ساتھ بھی رابطے ہیں۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق رمضان المبارک سے قبل ہی سیاسی بیٹھک کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا تاہم وزیراعظم عمران خان کے دورے گورنر کی تبدیلی کی بات اور پھر تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کی ناراضگی نے ان سیاسی بیٹھکوں کو مزید تقویت دی اور کئی حکومتی ارکان اسمبلی متحد ہوگئے جبکہ گزشتہ روز حکومتی سائیڈ سے ایک اور خبر نے سیاسی ماحول کو گرما کر رکھ دیا ۔
اتحادی جماعتوں باپ اور پی ٹی آئی میں کشیدگی بڑھ گئی جب وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض وزراء سینیٹرز اور پارلیمانی سیکرٹریز کی وزیراعلیٰ جام کمال سے ملاقات کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ اس ملاقات میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی و سینیٹرز نے اتحادی جماعت تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر و وزیر تعلیم کے خلاف شکایت کی ہے کہ وزیر تعلیم محکمہ میں غیر ضروری مداخلت کر رہے ہیں اور سیاسی بنیادوں پر لوئر کیڈر کے آفیسران کی پوسٹنگ ٹرانسفر کر رہے ہیں، سول سیکرٹریٹ میں ان کے مسلح محافظوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی سے ماحول میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
اس بیان پر تحریک انصاف کا جوابی بیان بھی سامنے آگیا جس میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے دوران ہونے والے فیصلے کے برعکس وزیراعلیٰ جام کمال نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جسے پارلیمانی گروپ یکسر مسترد کرتا ہے اور ان تمام معاملات اور بیان کے حوالے سے اپنے تحفظات وزیر اعظم کی جانب سے مقرر کئے گئے رابطہ کار وفاقی وزیر اسد عمر کے سامنے رکھے جائیں گے ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بیان بازی اور تنقید کے اس سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس میں کوئی مفاہمت کا راستہ نہ اپنایا گیا تو صورتحال اور ماحول میں مزید خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بھی اختلافات کی باتوں میں کسی حد تک صداقت اس لئے بھی ہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ جام کمال نے اپنی سیاسی جماعت کے وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی سے ان کے محکمے کا قلمدان واپس لے لیا جبکہ ان کا اس حوالے سے یہ رد عمل سامنے آیا کہ انہیں وزیراعلیٰ نے اعتماد میں نہیں لیا، قلمدان واپس لینے کے بعد کی صورتحال سے سینئر ساتھیوں سے رابطے میں ہوں جن کی مشاورت کے بعد فیصلے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرونگا ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بعض حلقوں میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض دیگر وزراء کے محکموں میں بھی ردوبدل کئے جانے کا امکان ہے جبکہ حکومتی ترجمان نے ردوبدل کی تردید کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی سربراہی میں بلوچستان کی مخلوط حکومت صحیح سمت میں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے اور کابینہ کے ارکان کی کارکردگی سے بھی وزیر اعلیٰ مطمئن ہیں۔
انہوں نے ایسی خبروں کو افواہیں اور من گھڑت قرار دیا ہے، سیاسی مبصرین کے مطابق صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی سے محکمے کے قلمدان کی واپسی کے عمل کو بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں بعض ارکان نے انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا اور ان کا یہ خیال ہے کہ ایسا ہی عمل دیگر دو تین وزراء کے ساتھ اپنایا جا سکتا ہے لہذا اس کی پیش بندی ضروری ہے جس کے لئے وہ وزیراعلیٰ سے رابطہ کریں گے اور اس کے علاوہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے مشاورت کی جائے گی ۔
دوسری جانب بلوچستان میں سیاسی ماحول کو گرم ہوتے دیکھ کر متحدہ اپوزیشن نے بھی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لئے اسپیکر کو ریکوزیشن (درخواست) جمع کرا دی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عید سے قبل بلوچستان کے سیاسی ماحول میں جو ہلچل سی پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات کب تک رہتے ہیں؟ اور تبدیلی کی یہ ہوا کیا رخ اختیار کرتی ہے اور سیاسی اتار چڑھاؤ کیا رنگ لاتا ہے؟ مئی کا مہینہ اس حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔