شکایات کے ازالے کیلئے وزیر اعلیٰ کے مختلف اداروں کے دورے
وزیراعلیٰ محمودخان نے یہ سلسلہ اپنے دور اقتدار کے اوائل میں بھی شروع کیا تھا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان چھاپوں کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں نے تھانہ چمکنی اور غربی کے دورے کیے جہاں انہوں نے نہ صرف یہ کہ ریکارڈ چیک کیا اور پولیس اہلکاروں کو یہ احساس دلایا کہ ان کے سروں پر بھی کوئی موجود اوران سے پوچھنے والا ہے بلکہ ساتھ ہی حوالات میں بند قیدیوں سے بھی بات چیت کی۔
وزیراعلیٰ نے عوام کو ریلیف پہنچانے اور سرکاری اہلکاروں کی جانب سے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا فوری طور پر ازالہ کرنے کے لیے چھاپوں کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے اور جو بدستور جاری ہے اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اسے مزید توسیع دی جائے گی اور وزیراعلیٰ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے اہلکاروں کو ٹھکانے لگانے اور تھانوں کے دوروں کے بعد یقینی طور پر ہسپتالوں کا بھی رخ کریں گے اور ساتھ ہی دیگر محکموں واداروں کا بھی رخ کریں گے جس کا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ یقینی طور پر عوام کو ہی حاصل ہوگا کیونکہ وزیراعلیٰ کی یوں آمدورفت سے سرکاری محکمے اور اہلکار ہمہ وقت الرٹ رہیں گے۔
وزیراعلیٰ محمودخان نے یہ سلسلہ اپنے دور اقتدار کے اوائل میں بھی شروع کیا تھا لیکن بعدازاں سرکاری مصروفیات اورسیاسی اتارچڑھاؤ کی وجہ سے وہ یہ راہ بھلا بیٹھے جس کا نقصان کسی اور کو نہیں بلکہ عوام کو ہوا کیونکہ ان چھاپوں کی وجہ سے سرکاری اداروں میں عوام کے کام بھی ہونے لگے تھے اور انھیں قدرے عزت بھی ملنے لگی تھی لیکن جونہی یہ چھاپے ختم ہوئے تو سرکاری ادارے اور اہلکار اپنی پرانی روش اور ڈگر پر واپس آگئے لیکن اب شاید انھیں ایک مرتبہ پھر سوچنا ہوگا کہ وزیراعلیٰ محمودخان کسی بھی وقت آسکتے ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا تاکہ وہ عام لوگوں کے مسائل حل کریں۔
تاہم سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک چونکہ پرانے اور روایتی سیاستدان ہیں اس لیے وہ چھاپوں کا سلسلہ شروع نہیں کر سکے لیکن ان کے برعکس موجودہ وزیراعلیٰ محمودخان غیرروایتی سیاستدان ہیں جس کی وجہ سے ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس انداز میں کاروائیاں کرتے ہوئے عوام کو ریلیف پہنچانے کا بندوبست ضرور کریں گے ۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب میں عثمان بزداراورخیبرپختونخوا میں محمودخان کووزیراعلیٰ تعینات کرنے کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ دونوں غیر روایتی سیاستدان ہیں اور ان کی تقرری کے ذریعے وزیراعظم عوام کو فائدہ پہنچانے کے خواہاں تھے اور وزیراعلیٰ محمودخان اب سے نہیں بلکہ شروع ہی سے جس انداز اور طریقے سے معاملات کو ڈیل کر رہے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
وہ اپنے غیر روایتی ہونے اوروزیراعظم کے اعتماد کا بھرپور طریقہ سے جواب دے رہے ہیں اور اب ان کا متحرک ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ موجودہ حکومتیں اپنا نصف سے زائد عرصہ اقتدار میں مکمل کرچکی ہیں اور اس سال کے بعداگلا پورا سال ان موجودہ حکومتوں کو ملے گا جس کے بعد 2023ء عام انتخابات کا سال ہوگا جس کے لیے تیاریاں اب سے شروع کردی گئی ہیں یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت بیک وقت کئی محاذوں پر مورچہ زن ہوگئی ہے تاکہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے لیے میدان ہموار کیا جا سکے،صوبائی حکومت کی مرکز سے بجلی منافع کی سالانہ رقم اور بقایاجات کے حصول کے لیے جدوجہد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کیونکہ حکومت اپنے کھاتے میں کوئی ایسا سوراخ نہیں چھوڑنا چاہتی کہ جس سے اس کے سیاسی دشمن اس پر ضرب لگاسکیں ۔
یقینی طور پر بجلی منافع کے حصول کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے اپنی نوعیت کی یہ پہلی کوشش نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی صوبائی حکومت وقتاًفوقتاً ایسی کوششیں کرتی رہی ہے جن میں کبھی تو اسے کامیابی حاصل ہوئی اور کبھی مشکلات آڑے آتی رہیں کیونکہ مرکز میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور پارٹی چیئرمین کے وزیراعظم ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت زیادہ تیز نہیں جا سکتی اور اسے ہاتھ ہولا رکھنا ہی پڑتا ہے اور اسی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے صوبائی حکومت کوشاں ہے کہ مرکز سے بجلی منافع کی رقم کا حصول ممکن بنایا جائے جبکہ ساتھ ہی حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ ماہ جون میں اگلے مالی سال کے لیے جو بجٹ دیا جا رہا ہے۔
اس میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی بڑی تعداد کو مکمل کیا جائے اسی لیے ترقیاتی بجٹ کا زیادہ حصہ جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کیا جا رہا ہے البتہ ضرورت کی بنیاد پر نئے منصوبوں کو بھی شامل کیا جائے گا، تاہم جب 2022ء اور پھر 2023ء میں بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام پیش کیے جائیں گے تو ان میں نئے منصوبوں کی زیادہ تعداد شامل ہوگی تاکہ اس کا کریڈٹ عام انتخابات کے موقع پر لیا جا سکے۔ ان حالات میں وزیراعلیٰ نے نادار اور غرباء کے لیے راشن کارڈ سکیم شروع کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے جس کے تحت صحت کارڈ کی طرز پر نادار افراد کو ماہانہ بنیادوں پر مفت راشن فراہم کیا جائے گا، وزیراعلیٰ کا یہ اقدام یقینی طور پر بڑا قدم ہے کیونکہ ایک جانب صحت کارڈ سکیم کے ذریعے عوام مستفید ہو رہی ہے اور جب عام انتخابات کا میدان سجے گا تو پی ٹی آئی اس کا فائدہ اٹھائے گی جس کے ساتھ ہی غریب اور نادار افراد کو ماہانہ بنیادوں پر راشن کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہونے سے پی ٹی آئی کو سیاسی اعتبار سے بڑا فائدہ ہوگا۔
سیاسی میدان ہی میں فائدہ لینے کے لیے ہی وزیراعلیٰ نے خواتین اراکین اسمبلی کو بھی ملاقات کا شرف بخشاہے کیونکہ کابینہ اکھاڑ پچھاڑ اور ردوبدل کے باوجود خواتین ارکان محرومیوں کا شکار ہیں جنھیں نہ تو کابینہ میں کہیں جگہ ملی ہے اور نہ ہی حکومتی ٹیم میں ، دوخواتین کو پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیابھی گیا ہے تو ان کی حالت سب کے سامنے ہے کہ وہ کتنی اور کس حد تک بااختیار ہیں ،اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ہی وزیراعلیٰ نے خواتین ارکان کے ساتھ ملاقات کی۔
اپوزیشن کے ساتھ بحثیت مجموعی نہ تو وزیراعلیٰ کے تعلقات اچھے ہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت کے ، اور یہ تعلقات تو اسی صورت میں اچھے اور بہتر ہو سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی سطح پر پی ٹی آئی کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی آئے اور ایسا ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں عید کے بعد ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف میدان میں نکلنے کے لیے تیاریاں کررہی ہیں ،مولانا فضل الرحمٰن نے مضبوط انداز میں میدان میں نکلنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی کو بھی دوبارہ پی ڈی ایم میں شامل ہونے کی دعوت دے دی ہے جو گوکہ اتنی مضبوط تو نہیں تاہم دعوت بہرکیف ہے ۔
اس بارے میں کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو پی ڈی ایم میں دوبارہ دیکھنے کے خواہاں ہیں تو یہ کام بہتر انداز میں بھی ہو سکتا تھا اور اب بھی اس کے لیے دروازے کھلے ہیں کہ مولانافضل الرحمٰن آصف علی زرداری اور اسفندیارولی خان کے ساتھ خود رابطہ کریں۔
ان دونوں رہنماؤں کو ایک ،ایک ٹیلی فون کرنے سے معاملات بہتر اندازمیں جاسکتے ہیں لیکن ایسا نہ کرنے سے لگ رہاہے کہ مولانا فضل الرحمٰن خانہ پری کی حد تک ہی اے این پی اور پیپلزپارٹی کو واپس آنے کا کہہ رہے ہیں لیکن ایسا کرنے کی وہ خواہش نہیں رکھتے ،مولانا فضل الرحمٰن کیا کرتے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں اس سے قطع نظر دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں بالکل واضح ہے کہ انہوںنے پی ڈی ایم میں واپس نہیں جانا جس کے لیے ان کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی نے صرف پی ڈی ایم کے عہدے چھوڑے ہیں جبکہ ہم پی ڈی ایم چھوڑ باہر آگئے ہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ ہم نے جو بھی فیصلہ کیا ہے وہ نہایت سوچ سمجھ اور مشاورت سے کیا ہے،اے این پی کے اس موقف کو دیکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اے این پی پر کچھ ایسا منکشف ہوا ہے کہ جس کے بعد وہ پی ڈی ایم کی راہ لینا عبث سمجھتے ہیں ۔
وزیراعلیٰ نے عوام کو ریلیف پہنچانے اور سرکاری اہلکاروں کی جانب سے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا فوری طور پر ازالہ کرنے کے لیے چھاپوں کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے اور جو بدستور جاری ہے اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں اسے مزید توسیع دی جائے گی اور وزیراعلیٰ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے اہلکاروں کو ٹھکانے لگانے اور تھانوں کے دوروں کے بعد یقینی طور پر ہسپتالوں کا بھی رخ کریں گے اور ساتھ ہی دیگر محکموں واداروں کا بھی رخ کریں گے جس کا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ یقینی طور پر عوام کو ہی حاصل ہوگا کیونکہ وزیراعلیٰ کی یوں آمدورفت سے سرکاری محکمے اور اہلکار ہمہ وقت الرٹ رہیں گے۔
وزیراعلیٰ محمودخان نے یہ سلسلہ اپنے دور اقتدار کے اوائل میں بھی شروع کیا تھا لیکن بعدازاں سرکاری مصروفیات اورسیاسی اتارچڑھاؤ کی وجہ سے وہ یہ راہ بھلا بیٹھے جس کا نقصان کسی اور کو نہیں بلکہ عوام کو ہوا کیونکہ ان چھاپوں کی وجہ سے سرکاری اداروں میں عوام کے کام بھی ہونے لگے تھے اور انھیں قدرے عزت بھی ملنے لگی تھی لیکن جونہی یہ چھاپے ختم ہوئے تو سرکاری ادارے اور اہلکار اپنی پرانی روش اور ڈگر پر واپس آگئے لیکن اب شاید انھیں ایک مرتبہ پھر سوچنا ہوگا کہ وزیراعلیٰ محمودخان کسی بھی وقت آسکتے ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا تاکہ وہ عام لوگوں کے مسائل حل کریں۔
تاہم سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک چونکہ پرانے اور روایتی سیاستدان ہیں اس لیے وہ چھاپوں کا سلسلہ شروع نہیں کر سکے لیکن ان کے برعکس موجودہ وزیراعلیٰ محمودخان غیرروایتی سیاستدان ہیں جس کی وجہ سے ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس انداز میں کاروائیاں کرتے ہوئے عوام کو ریلیف پہنچانے کا بندوبست ضرور کریں گے ۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب میں عثمان بزداراورخیبرپختونخوا میں محمودخان کووزیراعلیٰ تعینات کرنے کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ دونوں غیر روایتی سیاستدان ہیں اور ان کی تقرری کے ذریعے وزیراعظم عوام کو فائدہ پہنچانے کے خواہاں تھے اور وزیراعلیٰ محمودخان اب سے نہیں بلکہ شروع ہی سے جس انداز اور طریقے سے معاملات کو ڈیل کر رہے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
وہ اپنے غیر روایتی ہونے اوروزیراعظم کے اعتماد کا بھرپور طریقہ سے جواب دے رہے ہیں اور اب ان کا متحرک ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ موجودہ حکومتیں اپنا نصف سے زائد عرصہ اقتدار میں مکمل کرچکی ہیں اور اس سال کے بعداگلا پورا سال ان موجودہ حکومتوں کو ملے گا جس کے بعد 2023ء عام انتخابات کا سال ہوگا جس کے لیے تیاریاں اب سے شروع کردی گئی ہیں یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت بیک وقت کئی محاذوں پر مورچہ زن ہوگئی ہے تاکہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے لیے میدان ہموار کیا جا سکے،صوبائی حکومت کی مرکز سے بجلی منافع کی سالانہ رقم اور بقایاجات کے حصول کے لیے جدوجہد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کیونکہ حکومت اپنے کھاتے میں کوئی ایسا سوراخ نہیں چھوڑنا چاہتی کہ جس سے اس کے سیاسی دشمن اس پر ضرب لگاسکیں ۔
یقینی طور پر بجلی منافع کے حصول کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے اپنی نوعیت کی یہ پہلی کوشش نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی صوبائی حکومت وقتاًفوقتاً ایسی کوششیں کرتی رہی ہے جن میں کبھی تو اسے کامیابی حاصل ہوئی اور کبھی مشکلات آڑے آتی رہیں کیونکہ مرکز میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور پارٹی چیئرمین کے وزیراعظم ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت زیادہ تیز نہیں جا سکتی اور اسے ہاتھ ہولا رکھنا ہی پڑتا ہے اور اسی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے صوبائی حکومت کوشاں ہے کہ مرکز سے بجلی منافع کی رقم کا حصول ممکن بنایا جائے جبکہ ساتھ ہی حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ ماہ جون میں اگلے مالی سال کے لیے جو بجٹ دیا جا رہا ہے۔
اس میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی بڑی تعداد کو مکمل کیا جائے اسی لیے ترقیاتی بجٹ کا زیادہ حصہ جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کیا جا رہا ہے البتہ ضرورت کی بنیاد پر نئے منصوبوں کو بھی شامل کیا جائے گا، تاہم جب 2022ء اور پھر 2023ء میں بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام پیش کیے جائیں گے تو ان میں نئے منصوبوں کی زیادہ تعداد شامل ہوگی تاکہ اس کا کریڈٹ عام انتخابات کے موقع پر لیا جا سکے۔ ان حالات میں وزیراعلیٰ نے نادار اور غرباء کے لیے راشن کارڈ سکیم شروع کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے جس کے تحت صحت کارڈ کی طرز پر نادار افراد کو ماہانہ بنیادوں پر مفت راشن فراہم کیا جائے گا، وزیراعلیٰ کا یہ اقدام یقینی طور پر بڑا قدم ہے کیونکہ ایک جانب صحت کارڈ سکیم کے ذریعے عوام مستفید ہو رہی ہے اور جب عام انتخابات کا میدان سجے گا تو پی ٹی آئی اس کا فائدہ اٹھائے گی جس کے ساتھ ہی غریب اور نادار افراد کو ماہانہ بنیادوں پر راشن کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہونے سے پی ٹی آئی کو سیاسی اعتبار سے بڑا فائدہ ہوگا۔
سیاسی میدان ہی میں فائدہ لینے کے لیے ہی وزیراعلیٰ نے خواتین اراکین اسمبلی کو بھی ملاقات کا شرف بخشاہے کیونکہ کابینہ اکھاڑ پچھاڑ اور ردوبدل کے باوجود خواتین ارکان محرومیوں کا شکار ہیں جنھیں نہ تو کابینہ میں کہیں جگہ ملی ہے اور نہ ہی حکومتی ٹیم میں ، دوخواتین کو پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیابھی گیا ہے تو ان کی حالت سب کے سامنے ہے کہ وہ کتنی اور کس حد تک بااختیار ہیں ،اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے ہی وزیراعلیٰ نے خواتین ارکان کے ساتھ ملاقات کی۔
اپوزیشن کے ساتھ بحثیت مجموعی نہ تو وزیراعلیٰ کے تعلقات اچھے ہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت کے ، اور یہ تعلقات تو اسی صورت میں اچھے اور بہتر ہو سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی سطح پر پی ٹی آئی کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی آئے اور ایسا ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں عید کے بعد ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف میدان میں نکلنے کے لیے تیاریاں کررہی ہیں ،مولانا فضل الرحمٰن نے مضبوط انداز میں میدان میں نکلنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی کو بھی دوبارہ پی ڈی ایم میں شامل ہونے کی دعوت دے دی ہے جو گوکہ اتنی مضبوط تو نہیں تاہم دعوت بہرکیف ہے ۔
اس بارے میں کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو پی ڈی ایم میں دوبارہ دیکھنے کے خواہاں ہیں تو یہ کام بہتر انداز میں بھی ہو سکتا تھا اور اب بھی اس کے لیے دروازے کھلے ہیں کہ مولانافضل الرحمٰن آصف علی زرداری اور اسفندیارولی خان کے ساتھ خود رابطہ کریں۔
ان دونوں رہنماؤں کو ایک ،ایک ٹیلی فون کرنے سے معاملات بہتر اندازمیں جاسکتے ہیں لیکن ایسا نہ کرنے سے لگ رہاہے کہ مولانا فضل الرحمٰن خانہ پری کی حد تک ہی اے این پی اور پیپلزپارٹی کو واپس آنے کا کہہ رہے ہیں لیکن ایسا کرنے کی وہ خواہش نہیں رکھتے ،مولانا فضل الرحمٰن کیا کرتے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں اس سے قطع نظر دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں بالکل واضح ہے کہ انہوںنے پی ڈی ایم میں واپس نہیں جانا جس کے لیے ان کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی نے صرف پی ڈی ایم کے عہدے چھوڑے ہیں جبکہ ہم پی ڈی ایم چھوڑ باہر آگئے ہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ ہم نے جو بھی فیصلہ کیا ہے وہ نہایت سوچ سمجھ اور مشاورت سے کیا ہے،اے این پی کے اس موقف کو دیکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اے این پی پر کچھ ایسا منکشف ہوا ہے کہ جس کے بعد وہ پی ڈی ایم کی راہ لینا عبث سمجھتے ہیں ۔