پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے محروم رہ جاتے ہیں، ہم اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھ پاتے؟
''بابا میں کل سے مسجد میں افطار کروں گا۔''
''مگر کیوں؟'' بیٹے کی بات سن کر بیروزگار باپ نے دکھ بھری آواز میں سوال کیا۔
''اس لیے کہ گھر میں ہم گرم پانی سے افطار کرتے ہیں اور مسجد میں فروٹ کی بھرمار ہوتی ہے۔''
''اچھا بیٹا کل میں آپ کےلیے فروٹ لاؤں گا۔''
اگلے دن بوڑھا بیروزگار باپ ایک فروٹ کی ریڑھی پر جاپہنچا، اور اپنی بچی کچھی جمع پونجی جو کل ملا کے 30 روپے تھی، اس کے حوالے کرکے سیب دینے کی فرمائش کی۔ ریڑھی والے نے بتایا کہ اس رقم میں تو صرف ایک سیب ہی آئے گا۔ اور پھر بے بس مجبور باپ گلے سڑے سیب جو ریڑھی والے نے کچرے میں ڈالنے کےلیے رکھے ہوتے ہیں، لینے پر راضی ہوجاتا ہے۔
بظاہر یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گردش کرتی مختصر دورانیے کی اصلاحی ویڈیو کا ایک منظر ہے، لیکن درحقیقت یہ ہمارے مجموعی سماجی رویوں کا عکاس ہے۔
ہم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی اپنی مرضی اور سہولت دیکھتے ہیں۔ بالخصوص رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں ہم فروٹ سے بھرا بیگ مسجد میں تو بھیج دیں گے، لیکن پڑوس کی خبر لینے کو ضرروی نہیں سمجھتے۔ چندہ دینا ہوگا تو مسجد، زکوٰۃ ادا کرنی ہو تو مسجد، صدقہ خیرات، الغرض ہم میں سے اکثر لوگوں کو جب کبھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا خیال آئے تو ہم مسجد کے چندہ میں جمع کروا کر خود کو شانت کرلیتے ہیں۔ ہمارے انہیں سماجی رویوں کی وجہ سے وطن عزیز میں نجی اسکولوں کی طرح مساجد، مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت وطن عزیز میں 30 ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں، جو قیام پاکستان کے وقت تقریباً 247 تھے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے محروم رہ جاتے ہیں، ہم اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھ پاتے؟ درحقیقت ہمارے معاشرے میں معاف کرنے کی عادت ترک ہورہی ہے۔ وسیع القلبی، حسن سلوک ہماری روزمرہ زندگی سے مفقود ہوتا جارہا ہے۔ ہم رشتے داروں اور اپنے اردگرد کے افراد سے معمولی باتوں پر ناراض ہوکر خود ساختہ دیوار کھینچ لیتے ہیں۔ حالانکہ پڑوسی اور رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان پر مال خرچ کرنے کے بارے میں ہمارے دین میں سختی سے تاکید کی گئی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
''دریافت کرتے ہیں وہ تم سے کہ کیا خرچ کریں۔ کہہ دو جو کچھ خرچ کرو تم مال میں سے، تو ہے وہ والدین کے لیے اور قریب کے رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کےلیے اور جو کرو گے تم کوئی بھلائی تو بیشک اللہ اس کو جانتا ہے۔''
(سورۃ بقرہ آیت نمبر 215)
تاجدار مدینہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے۔ مفہوم (مسند احمد):
''جو شخص یہ چاہے کہ اس کی عمر میں برکت ہو، اس کے رزق میں اضافہ ہو، اس کو چاہیے کہ خونی رشتوں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔''
صلۂ رحمی کی تفصیل علمائے کرام یوں بیان فرماتے ہیں کہ وہ تعلق توڑیں، تم تعلق جوڑو، وہ ظلم کریں تم معاف کرو، وہ چھین لیں، تم عطا کرو۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم مساجد کو چندہ دینا یا مدارس کی مالی معاونت کرنا بند کردیں۔ گزارش صرف اور صرف اتنی ہے کہ مساجد، مدارس کی مالی معاونت کرتے وقت اہل علم سے مشاورت کرلی جائے۔ وسیع القلبی کا مظاہر کرتے ہوئے، پڑوسیوں، رشتے داروں کے احوال معلوم کرلیے جائیں۔ اگر وہ ضرورت مند ہوں تو پہلے انہیں ترجیح دی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر مال بچ جائے تو ضرور مدارس اور دوردراز کے لوگوں کی معاونت کی جائے، بلکہ دل کھول کر کی جائے۔
یاد رہے کہ اگر ہمارے دین نے زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کے بارے میں تفصیل بھی بیان کی ہے۔ یعنی ہمیں آزادی نہیں دی گئی کہ جس کو چاہے نواز دیں۔ (شاید اسی لیے قبر میں ہونے والے سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ مال کہاں یا کس طرح خرچ کیا؟)
اور آخر میں ایک اہم ترین واقعہ جس میں ہم سب کےلیے سبق ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ایک ہر دلعزیز ساتھی کا کورونا کے باعث انتقال ہوگیا۔ کل ہی میرے لیے علم میں یہ بات آئی کہ بہت سے دوست فطرانہ اور زکوٰۃ کی رقم ان کے اہل خانہ کو بھیج رہے ہیں۔ اس بارے میں جب سرکاری فتویٰ سینٹر سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اگر ان کے اہل خانہ صاحب حیثیت ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے، ہم سب کےلیے لازم ہے کہ زکوٰۃ، فطرانہ یا صدقہ کی رقم کسی کے حوالے کرتے وقت تحقیق کرلیں کہ آیا وصول کرنے والا اس کا مستحق ہے یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نیکی برباد گناہ لازم۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''مگر کیوں؟'' بیٹے کی بات سن کر بیروزگار باپ نے دکھ بھری آواز میں سوال کیا۔
''اس لیے کہ گھر میں ہم گرم پانی سے افطار کرتے ہیں اور مسجد میں فروٹ کی بھرمار ہوتی ہے۔''
''اچھا بیٹا کل میں آپ کےلیے فروٹ لاؤں گا۔''
اگلے دن بوڑھا بیروزگار باپ ایک فروٹ کی ریڑھی پر جاپہنچا، اور اپنی بچی کچھی جمع پونجی جو کل ملا کے 30 روپے تھی، اس کے حوالے کرکے سیب دینے کی فرمائش کی۔ ریڑھی والے نے بتایا کہ اس رقم میں تو صرف ایک سیب ہی آئے گا۔ اور پھر بے بس مجبور باپ گلے سڑے سیب جو ریڑھی والے نے کچرے میں ڈالنے کےلیے رکھے ہوتے ہیں، لینے پر راضی ہوجاتا ہے۔
بظاہر یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گردش کرتی مختصر دورانیے کی اصلاحی ویڈیو کا ایک منظر ہے، لیکن درحقیقت یہ ہمارے مجموعی سماجی رویوں کا عکاس ہے۔
ہم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی اپنی مرضی اور سہولت دیکھتے ہیں۔ بالخصوص رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں ہم فروٹ سے بھرا بیگ مسجد میں تو بھیج دیں گے، لیکن پڑوس کی خبر لینے کو ضرروی نہیں سمجھتے۔ چندہ دینا ہوگا تو مسجد، زکوٰۃ ادا کرنی ہو تو مسجد، صدقہ خیرات، الغرض ہم میں سے اکثر لوگوں کو جب کبھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا خیال آئے تو ہم مسجد کے چندہ میں جمع کروا کر خود کو شانت کرلیتے ہیں۔ ہمارے انہیں سماجی رویوں کی وجہ سے وطن عزیز میں نجی اسکولوں کی طرح مساجد، مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت وطن عزیز میں 30 ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں، جو قیام پاکستان کے وقت تقریباً 247 تھے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے محروم رہ جاتے ہیں، ہم اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھ پاتے؟ درحقیقت ہمارے معاشرے میں معاف کرنے کی عادت ترک ہورہی ہے۔ وسیع القلبی، حسن سلوک ہماری روزمرہ زندگی سے مفقود ہوتا جارہا ہے۔ ہم رشتے داروں اور اپنے اردگرد کے افراد سے معمولی باتوں پر ناراض ہوکر خود ساختہ دیوار کھینچ لیتے ہیں۔ حالانکہ پڑوسی اور رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان پر مال خرچ کرنے کے بارے میں ہمارے دین میں سختی سے تاکید کی گئی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
''دریافت کرتے ہیں وہ تم سے کہ کیا خرچ کریں۔ کہہ دو جو کچھ خرچ کرو تم مال میں سے، تو ہے وہ والدین کے لیے اور قریب کے رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کےلیے اور جو کرو گے تم کوئی بھلائی تو بیشک اللہ اس کو جانتا ہے۔''
(سورۃ بقرہ آیت نمبر 215)
تاجدار مدینہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے۔ مفہوم (مسند احمد):
''جو شخص یہ چاہے کہ اس کی عمر میں برکت ہو، اس کے رزق میں اضافہ ہو، اس کو چاہیے کہ خونی رشتوں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔''
صلۂ رحمی کی تفصیل علمائے کرام یوں بیان فرماتے ہیں کہ وہ تعلق توڑیں، تم تعلق جوڑو، وہ ظلم کریں تم معاف کرو، وہ چھین لیں، تم عطا کرو۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم مساجد کو چندہ دینا یا مدارس کی مالی معاونت کرنا بند کردیں۔ گزارش صرف اور صرف اتنی ہے کہ مساجد، مدارس کی مالی معاونت کرتے وقت اہل علم سے مشاورت کرلی جائے۔ وسیع القلبی کا مظاہر کرتے ہوئے، پڑوسیوں، رشتے داروں کے احوال معلوم کرلیے جائیں۔ اگر وہ ضرورت مند ہوں تو پہلے انہیں ترجیح دی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر مال بچ جائے تو ضرور مدارس اور دوردراز کے لوگوں کی معاونت کی جائے، بلکہ دل کھول کر کی جائے۔
یاد رہے کہ اگر ہمارے دین نے زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کے بارے میں تفصیل بھی بیان کی ہے۔ یعنی ہمیں آزادی نہیں دی گئی کہ جس کو چاہے نواز دیں۔ (شاید اسی لیے قبر میں ہونے والے سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ مال کہاں یا کس طرح خرچ کیا؟)
اور آخر میں ایک اہم ترین واقعہ جس میں ہم سب کےلیے سبق ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ایک ہر دلعزیز ساتھی کا کورونا کے باعث انتقال ہوگیا۔ کل ہی میرے لیے علم میں یہ بات آئی کہ بہت سے دوست فطرانہ اور زکوٰۃ کی رقم ان کے اہل خانہ کو بھیج رہے ہیں۔ اس بارے میں جب سرکاری فتویٰ سینٹر سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اگر ان کے اہل خانہ صاحب حیثیت ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے، ہم سب کےلیے لازم ہے کہ زکوٰۃ، فطرانہ یا صدقہ کی رقم کسی کے حوالے کرتے وقت تحقیق کرلیں کہ آیا وصول کرنے والا اس کا مستحق ہے یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نیکی برباد گناہ لازم۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔