انتخابات کے ساتھ مذاق کب تک
ملک کا اس سلسلے میں قانون اور الیکشن کمیشن انتخابات کو مذاق بنانے والوں کے سامنے بے بس ہے۔
ملک میں عام انتخابات کے بعد خالی ہونے والی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوتے ہیں، جن میں سیاسی جماعتیں ، سیاسی طاقت کے حامل با اثر رہنما تو حصہ لیتے ہی ہیں مگر آزادانہ طور پر ضمنی انتخابات میں شریک ہونے والوں نے انتخابات کو ایک مذاق بنا کر رکھا ہوا ہے۔
یہ سلسلہ سالوں سے جاری ہے مگر ملک کا اس سلسلے میں قانون اور الیکشن کمیشن انتخابات کو مذاق بنانے والوں کے سامنے بے بس ہے اور ایسے امیدواروں کو روکا نہیں جاسکتا کیونکہ ہر پاکستانی کو ہمارا آئین اپنی سیاسی جماعت بنانے اور الیکشن لڑنے کا حق دیتا ہے اور اس حق کا بیدردی سے استعمال کرنے والوں نے انتخابات کو مذاق بنا کر رکھا ہوا ہے اور وہ اس آئینی آزادی کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔
حال ہی میں کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 249 میں ضمنی انتخاب ہوا جس میں قومی و علاقائی جماعتوں سمیت 30 امیدواروں نے حصہ لیا۔ ضمنی انتخاب لڑنے والی 6 سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں تھے۔ بعض وجوہات کے باعث الیکشن میں تقریباً اکیس فیصد ووٹ ڈالے گئے جب کہ 2018 میں اس حلقے میں 42 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔
سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مقررہ انتخابی نشانات پر الیکشن لڑا جس میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ 6,156 1ووٹ اور سب سے کم ووٹ 7,511 ایم کیو ایم کے امیدوار نے لیے اور ان بڑی سیاسی جماعتوں کے ووٹ سات ہزار سے 16 ہزار تک تھے۔ صرف ایک آزاد امیدوار نے 1590 ووٹ لیے اور دو علاقائی پارٹیوں میں ایک نے 362 دوسری نے 414 ووٹ حاصل کیے اور ایک علاقائی پارٹی کے امیدوار نے صرف 25 ووٹ لیے جو مسلم لیگ (ج) بن کر الیکشن لڑی ۔ مسلم لیگ کے نام پر ملک میں دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) ہیں اور مسلم لیگ (ج) کا نام استعمال کرنے والے امیدوار کو ہمارے آئین میں انتخاب لڑنے سے روکا نہیں جاسکتا تھا۔
اس حلقے میں جن 19 آزاد امیدواروں نے حصہ لیا ان میں 16 آزاد امیدواروں نے صرف 8 سے 96 تک ووٹ لیے اور دو امیدواروں کو صرف آٹھ آٹھ ووٹ ملے جس سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کراچی کے ضمنی انتخاب میں دو آزاد امیدواروں نے صرف آٹھ آٹھ ووٹ لیے، کیا 8 ووٹ لینے والوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق ہونا چاہیے مگر اس سلسلے میں آئین خاموش اور الیکشن کمیشن بے بس ہے۔ آٹھ ووٹ لینے والوں کے نام اور انتخابی نشان الیکشن کمیشن کے چھپوائے گئے تقریباً تین لاکھ بیلٹ پیپروں تک چھپے اور بعض اخبارات میں بھی شایع ہوئے۔
سولہ امیدوار ایک سو تک ووٹ نہ لے سکے اور قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے میدان میں تھے جن کے بہ مشکل چند پولنگ ایجنٹ ہی پولنگ اسٹیشنوں پر موجود ہوں گے۔ ایک بڑی جماعت تک کا امیدوار تمام پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے پولنگ ایجنٹس نہ بٹھا سکا تو یہ 8 ووٹ لینے والے کیا الیکشن لڑنے کے اہل تھے؟ ان کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے فالتو رقم تھی جو ضبط ہوگئی مگر ایسے آزاد امیدواروں کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو 30 امیدواروں کے ناموں پر مشتمل ایک بڑا بیلٹ پیپر چھپوانا پڑا۔
تیس امیدواروں کے بیلٹ پیپر پر ووٹرز کو بھی مشکل پیش آئی ہوگی اور انھوں نے تلاش کرکے بہ مشکل اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیا ہوگا اور اسی وجہ سے اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد ہارنے والے امیدوار کے 683 ووٹوں سے زیادہ ہے جو انتخابات کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔
ہمارے یہاں الیکشن کمیشن میں ایسی چھوٹی محلے کی حد تک محدود سیاسی پارٹی بھی ہے جس کے امیدوار نے صرف 25 ووٹ لیے۔ انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں جو چاہے چند ہزار روپے جمع کرا کر الیکشن لڑنے آ جاتا ہے۔ اس کی آئین میں کوئی پکڑ نہیں کوئی ایسے امیدواروں کو پوچھنے والا نہیں جو محض اپنے نام کے لیے شوقیہ الیکشن لڑ کر 8 ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔
یہ قوم کا سرمایہ اور وقت الگ ضایع کرتے ہیں حکومت اور الیکشن کمیشن کو انتخابات کو مذاق بنانے والے امیدواروں کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے اور حاصل شدہ ووٹوں کی کم ازکم تعداد مقرر کرنی چاہیے اور جو امیدوار مقررہ تعداد میں ووٹ نہ لے سکے اس پر بھاری جرمانہ بلکہ سزا بھی مقرر ہونی چاہیے تاکہ انتخابات محفوظ رہ سکیں۔