معاشی استحکام کے مشکل اہداف
معاشی پالیسی ایسے خطوط پر استوار ہونی چاہیے جس سے ملک قرضوں کے بوجھ تلے سے نکل آئے۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی مہنگی نہیں ہوگی ،جس طرح سے آئی ایم ایف کہہ رہا ہے ویسے نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنے طریقے سے ریونیو بڑھانا ہوگا،عام آدمی ٹیکسوں سے تنگ آچکاہے، فیول چارجز میں اضافے سے ہر چیز پر فرق پڑے گا، ہرچیزمہنگی ہوجائے گی۔ ہم اس پروگرام سے نکلیں گے نہیں تاہم ہمیں اسپیس چاہیے ۔ وزیرخزانہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صائب ہیں ، یقینا وہ وزیراعظم کے خوابوں کو شرمندہ تعبیرکرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت ملکی معیشت کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے ، کیونکہ ملک کی معاشی صورتحال دگرگوں ہے، عام آدمی پرٹیکسوں کااضافی بوجھ بڑھ گیا ہے اور اس کے لیے اپنی اور اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات کوپورا کرنا تقریبا ناممکن ہوتا جارہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو تشویش ہے کہ عام آدمی کے لیے مہنگائی کم کی جائے، بلاشبہ نو منتخب وزیرخزانہ سے یہ امید وابستہ کی جاسکتی ہے، وہ ملک کو مشکل اقتصادی صورت حال سے نکال لیں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا.
معاشی پالیسی ایسے خطوط پر استوار ہونی چاہیے جس سے ملک قرضوں کے بوجھ تلے سے نکل آئے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے ۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے ، پی ٹی آئی حکومت کے پہلے وزیرخزانہ اسدعمر نے تقریباً ایسی ہی باتیں کی تھیں ، کیونکہ وہ کافی مزاحمت کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو من وعن تسلیم نہ کیا جائے۔
ان کے خیال میں اس طرح عام آدمی کے مصائب میں اضافہ ہوتا ، لیکن مختصر مدت کے بعد انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا ۔ اب بھی معاشی واقتصادی پالیسیوں کی ایک واضح جہت متعین کرنے میں حکومت تاحال ناکام نظر آتی ہے کیونکہ تین وزیر خزانہ تو تبدیل ہوچکے ہیں۔
اب نومنتخب وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پربہت زیادہ انحصارکرنے کے بجائے ہمیں اپنے طریقے سے ریونیو بڑھانا ہوگا ، کم انحصار کی تو ایک ہی صورت بنتی ہے کہ ملکی سطح پر ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے لیکن ٹیکسوںکی بھرمار سے تو عوام ، تجارتی وصنعتی طبقہ پہلے ہی پریشان ہے تو پھراس کے علاوہ ایسا کونسا متبادل نظام موجود ہے جس سے معاشی اہداف حاصل کیے جاسکیں ۔
حکومت کی طرف سے ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور پھر اسٹیٹ بینک کی جامع اصلاحات پر تعمیراتی شعبے اور صنعت و تجارت کے حلقوں کا اظہارِ اطمینان اچھا ہے لیکن انھیں بدستور حکومت کی ٹیکس پالیسی کا خوف ہے کہ کل کسی وقت ہاؤسنگ سیکٹر کو دی جانے والی مراعات کے باوجود کوئی ایسی شق نہ ڈال دی جس سے ملکی و بیرون ملک سرمایہ کار اِس طرف آنے سے گریز کریں، اِس سے حکومت اور اسٹیٹ بینک کی ساری محنت رائیگاں جا سکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ تعمیراتی شعبہ کی ترقی پر حکومت بہت زیادہ توجہ مرکوز کررہی ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ تعمیراتی شعبے میں استعمال ہونے والے میٹریل کی کئی اقسام امپورٹ کی جاتی ہیں چین ، ایران ، اسپین اور دیگر ممالک سے ماربل اور سرامکس مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں ،سینٹری فٹینگز ، الیکٹرک آئٹمز بھی درآمد کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ملکی صنعت بھی متاثر ہورہی ہے۔
یوں قیمتی زرمبادلہ تو باہر منتقل ہورہا ہے، ایسی صورت میں معیشت کو کیسے استحکام ملے گا، ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیرات کے شعبے میں استعمال ہونے لگژری آٹمز کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے تو تعمیراتی لاگت میں کمی سے درمیانے طبقے کے لیے بھی گھر بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا ، سچ تو یہ ہے کہ اس وقت غریب اور مڈل کلاس کی دسترس سے ایک پانچ مرلے کا مکان تعمیر کرنا باہر ہوچکا ہے۔
کیونکہ لاگت کروڑ روپے سے بھی بڑھ چکی ہے۔شعبہ زراعت کی بات کی جائے تو تقسیم ہند کے وقت ہم اپنی زرعی اجناس میں تقریباً خود کفیل تھے لیکن آج ہم اناج بھی درآمد کررہے ہیں۔ بھارت نے اپنی زراعت کو بہت زیادہ سبسڈائز کیا، جس کے نتیجے میں بھارت میں یوریا کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ہمارے یہاں گنے کی پیداوار وسیع پیمانے پر ہوتی ہے ، متعدد شوگر ملیں ملک بھر میں موجود ہیں ، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ملک میں چینی باآسانی اور سستی دستیاب ہونی چاہیے لیکن ملک میں ایک سو بیس روپے فی کلو چینی فروخت ہورہی ہے ، وہ بھی باآسانی دستیاب نہیں ہے ، جب کہ ہمیں دیگر ممالک سے چینی درآمد کرنی پڑرہی ہے ۔
زرعی ملک ہونے کے ناتے اگر ہم صرف سبزیوں کی پیداوار پر بات کرلیں تو کبھی آلو کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں تو کبھی ٹماٹر چار سو روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے اور پھر سبزیاں تک ہمیں درآمد کرنا پڑجاتی ہیں ،چینی، آٹو موبائلز، سیمنٹ، فارماسیوٹیکل اور بے شمار ایسی بڑی صنعتیں ہیں جنھوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور قیمتوں میں ردوبدل کرتے رہتے ہیں اور ہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی نظر آتی ہے، کبھی چینی کا بحران پیدا ہوجاتا ہے ، تو کبھی آٹے کا ، تو کبھی کسی شئے کا ، سوال یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں ملک میں معاشی استحکام کیسے آئے گا؟جب تک اپنی خامیوں اور غلطیوں کی اصلاح نہیں کریں گے ۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے رواں مالی سال کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ 1.5 فیصد معاشی شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے۔تاہم پاکستان میں کئی معاشی ماہرین عالمی ادارے کے پاکستان کے بارے میںجائزہ کو درست نہیں مانتے۔
ان کا کہنا ہے کہ مئی میں جب مارچ کے ملک میں مینوفیکچرنگ کے اعدادوشمار آئیں گے تو شاید صورت حال مختلف ہو۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں مارچ میں ریکارڈ مینوفیکچرنگ ہوئی۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ای او کی رپورٹ میں عالمی نمو کی 2021 میں چھ فیصد کی مضبوط بحالی کی پیش گوئی کی گئی ہے جو جون 2020 کی پیش گوئی سے 0.8 فیصد زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ پیش گوئی بھی کی ہے کہ اقتصادی نمو کی شرح آیندہ مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کے چار فیصد اور 2026 تک پانچ فیصد ہو جائے گی۔ دنیا بھر میں جی ڈی پی کی شرح میں کمی سے گلوبل سطح پر بیروزگاری کا نہ رکنے والا سیلاب آئے گا، جس میں پاکستان بھی شامل ہو گا۔ اِس وقت حکومت کو سب سے زیادہ بڑا چیلنج یہی ہے کہ ملک میں جیسے تیسے کاروباری سرگرمیاں بحال ہوں اور صنعتی شعبہ کا پہیہ چلنا شروع ہو۔
کورونا وبا کی وجہ سے بیرونی ممالک میں موجود لاکھوں پاکستانی بے روزگار ہوکروطن واپس آچکے ہیں ،اوورسیزپاکستانی ملکی معیشت کے استحکام کا باعث تھے ، اب یہ سہارا بھی ختم ہوا، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس وقت ہمیں اقتصادی میدان میں جن مشکلات کا سامنا ہے، اس میں غلطی ہماری ناقص حکمت عملی کی بھی ہے کہ ہم نے برآمدات میں اضافے کے حوالے سے مستحکم خارجی تعلقات پر توجہ نہیں دی ہے۔ ہماری سرمایہ کاری کی شرح بتدریج کم ہوتی گئی ۔ یہ دو بڑے مسئلے پاکستان میں برآمدات میں کمی اور سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی کا باعث بنے۔
ہماری متبادل درآمدی حکمت عملی کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک بڑا ملک ہونے کے باوجود بھی ہماری فی کس آمدن میں خاص اضافہ نہیں ہو رہا اور تجارتی ترقی سست روی کا شکار ہے۔ دوسرا یہ کہ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی موجودگی میں ہماری متبادل درآمدی حکمت عملی ناکام نظر آتی ہے خاص کر چائنہ کے ساتھ جس پر ہمارا درآمدی انحصار خاصا بڑھ چکا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور گیس اور بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے عام آدمی کے لیے دو قت کی روٹی کا حصول اور ملکی صنعتی پہیہ جام کردیا ہے ۔
زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں زیادہ اضافی قدریں شامل کی جائیں۔ ہماری 20 مصنوعات ایسی ہیں جن کی برآمدات کا حجم 100 سے 250 ملین ڈالر ہے۔ ان شعبوں میں برآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور شعبہ جس سے ہماری کافی امیدیں وابستہ ہیں وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے، اس میں ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
پاکستان اور خصوصا پنجاب میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار اپنی پیداوار کا 60 فیصد تک برآمد کرتے ہیں جب کہ ہماری (بڑے پیمانے پر) پیداواری صنعتیں اپنی پیداوار کا 25 فیصد بھی برآمد نہیں کرتیں۔صنعتی ترقی کے لیے حکومت کا کردار نہایت اہم ہے لیکن مافیا اور اجارہ داروں سے نپٹنے کے لیے ضوابط بنانے چاہئیں۔
المیہ یہ ہے کہ زراعت اور تجارت کے فروغ کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ ملکی آمدن میں اضافے کے لیے مناسب اور بروقت اقدامات سے ہم مجموعی قومی پیداوارکو بہتر بنا سکتے ہیں۔ہم دعا گو ہیں کہ وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین اپنی معاشی پالیسیاں عملی طور پر نافذ کر سکیں تاکہ ملک کی اقتصادی ومعاشی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہوسکے ۔
اس وقت ملکی معیشت کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے ، کیونکہ ملک کی معاشی صورتحال دگرگوں ہے، عام آدمی پرٹیکسوں کااضافی بوجھ بڑھ گیا ہے اور اس کے لیے اپنی اور اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات کوپورا کرنا تقریبا ناممکن ہوتا جارہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو تشویش ہے کہ عام آدمی کے لیے مہنگائی کم کی جائے، بلاشبہ نو منتخب وزیرخزانہ سے یہ امید وابستہ کی جاسکتی ہے، وہ ملک کو مشکل اقتصادی صورت حال سے نکال لیں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا.
معاشی پالیسی ایسے خطوط پر استوار ہونی چاہیے جس سے ملک قرضوں کے بوجھ تلے سے نکل آئے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے ۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے ، پی ٹی آئی حکومت کے پہلے وزیرخزانہ اسدعمر نے تقریباً ایسی ہی باتیں کی تھیں ، کیونکہ وہ کافی مزاحمت کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو من وعن تسلیم نہ کیا جائے۔
ان کے خیال میں اس طرح عام آدمی کے مصائب میں اضافہ ہوتا ، لیکن مختصر مدت کے بعد انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا ۔ اب بھی معاشی واقتصادی پالیسیوں کی ایک واضح جہت متعین کرنے میں حکومت تاحال ناکام نظر آتی ہے کیونکہ تین وزیر خزانہ تو تبدیل ہوچکے ہیں۔
اب نومنتخب وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پربہت زیادہ انحصارکرنے کے بجائے ہمیں اپنے طریقے سے ریونیو بڑھانا ہوگا ، کم انحصار کی تو ایک ہی صورت بنتی ہے کہ ملکی سطح پر ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے لیکن ٹیکسوںکی بھرمار سے تو عوام ، تجارتی وصنعتی طبقہ پہلے ہی پریشان ہے تو پھراس کے علاوہ ایسا کونسا متبادل نظام موجود ہے جس سے معاشی اہداف حاصل کیے جاسکیں ۔
حکومت کی طرف سے ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور پھر اسٹیٹ بینک کی جامع اصلاحات پر تعمیراتی شعبے اور صنعت و تجارت کے حلقوں کا اظہارِ اطمینان اچھا ہے لیکن انھیں بدستور حکومت کی ٹیکس پالیسی کا خوف ہے کہ کل کسی وقت ہاؤسنگ سیکٹر کو دی جانے والی مراعات کے باوجود کوئی ایسی شق نہ ڈال دی جس سے ملکی و بیرون ملک سرمایہ کار اِس طرف آنے سے گریز کریں، اِس سے حکومت اور اسٹیٹ بینک کی ساری محنت رائیگاں جا سکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ تعمیراتی شعبہ کی ترقی پر حکومت بہت زیادہ توجہ مرکوز کررہی ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ تعمیراتی شعبے میں استعمال ہونے والے میٹریل کی کئی اقسام امپورٹ کی جاتی ہیں چین ، ایران ، اسپین اور دیگر ممالک سے ماربل اور سرامکس مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں ،سینٹری فٹینگز ، الیکٹرک آئٹمز بھی درآمد کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ملکی صنعت بھی متاثر ہورہی ہے۔
یوں قیمتی زرمبادلہ تو باہر منتقل ہورہا ہے، ایسی صورت میں معیشت کو کیسے استحکام ملے گا، ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیرات کے شعبے میں استعمال ہونے لگژری آٹمز کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے تو تعمیراتی لاگت میں کمی سے درمیانے طبقے کے لیے بھی گھر بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا ، سچ تو یہ ہے کہ اس وقت غریب اور مڈل کلاس کی دسترس سے ایک پانچ مرلے کا مکان تعمیر کرنا باہر ہوچکا ہے۔
کیونکہ لاگت کروڑ روپے سے بھی بڑھ چکی ہے۔شعبہ زراعت کی بات کی جائے تو تقسیم ہند کے وقت ہم اپنی زرعی اجناس میں تقریباً خود کفیل تھے لیکن آج ہم اناج بھی درآمد کررہے ہیں۔ بھارت نے اپنی زراعت کو بہت زیادہ سبسڈائز کیا، جس کے نتیجے میں بھارت میں یوریا کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ہمارے یہاں گنے کی پیداوار وسیع پیمانے پر ہوتی ہے ، متعدد شوگر ملیں ملک بھر میں موجود ہیں ، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ملک میں چینی باآسانی اور سستی دستیاب ہونی چاہیے لیکن ملک میں ایک سو بیس روپے فی کلو چینی فروخت ہورہی ہے ، وہ بھی باآسانی دستیاب نہیں ہے ، جب کہ ہمیں دیگر ممالک سے چینی درآمد کرنی پڑرہی ہے ۔
زرعی ملک ہونے کے ناتے اگر ہم صرف سبزیوں کی پیداوار پر بات کرلیں تو کبھی آلو کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں تو کبھی ٹماٹر چار سو روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے اور پھر سبزیاں تک ہمیں درآمد کرنا پڑجاتی ہیں ،چینی، آٹو موبائلز، سیمنٹ، فارماسیوٹیکل اور بے شمار ایسی بڑی صنعتیں ہیں جنھوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور قیمتوں میں ردوبدل کرتے رہتے ہیں اور ہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی نظر آتی ہے، کبھی چینی کا بحران پیدا ہوجاتا ہے ، تو کبھی آٹے کا ، تو کبھی کسی شئے کا ، سوال یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں ملک میں معاشی استحکام کیسے آئے گا؟جب تک اپنی خامیوں اور غلطیوں کی اصلاح نہیں کریں گے ۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے رواں مالی سال کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ 1.5 فیصد معاشی شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے۔تاہم پاکستان میں کئی معاشی ماہرین عالمی ادارے کے پاکستان کے بارے میںجائزہ کو درست نہیں مانتے۔
ان کا کہنا ہے کہ مئی میں جب مارچ کے ملک میں مینوفیکچرنگ کے اعدادوشمار آئیں گے تو شاید صورت حال مختلف ہو۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں مارچ میں ریکارڈ مینوفیکچرنگ ہوئی۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ای او کی رپورٹ میں عالمی نمو کی 2021 میں چھ فیصد کی مضبوط بحالی کی پیش گوئی کی گئی ہے جو جون 2020 کی پیش گوئی سے 0.8 فیصد زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ پیش گوئی بھی کی ہے کہ اقتصادی نمو کی شرح آیندہ مالی سال 2022 میں جی ڈی پی کے چار فیصد اور 2026 تک پانچ فیصد ہو جائے گی۔ دنیا بھر میں جی ڈی پی کی شرح میں کمی سے گلوبل سطح پر بیروزگاری کا نہ رکنے والا سیلاب آئے گا، جس میں پاکستان بھی شامل ہو گا۔ اِس وقت حکومت کو سب سے زیادہ بڑا چیلنج یہی ہے کہ ملک میں جیسے تیسے کاروباری سرگرمیاں بحال ہوں اور صنعتی شعبہ کا پہیہ چلنا شروع ہو۔
کورونا وبا کی وجہ سے بیرونی ممالک میں موجود لاکھوں پاکستانی بے روزگار ہوکروطن واپس آچکے ہیں ،اوورسیزپاکستانی ملکی معیشت کے استحکام کا باعث تھے ، اب یہ سہارا بھی ختم ہوا، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس وقت ہمیں اقتصادی میدان میں جن مشکلات کا سامنا ہے، اس میں غلطی ہماری ناقص حکمت عملی کی بھی ہے کہ ہم نے برآمدات میں اضافے کے حوالے سے مستحکم خارجی تعلقات پر توجہ نہیں دی ہے۔ ہماری سرمایہ کاری کی شرح بتدریج کم ہوتی گئی ۔ یہ دو بڑے مسئلے پاکستان میں برآمدات میں کمی اور سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی کا باعث بنے۔
ہماری متبادل درآمدی حکمت عملی کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک بڑا ملک ہونے کے باوجود بھی ہماری فی کس آمدن میں خاص اضافہ نہیں ہو رہا اور تجارتی ترقی سست روی کا شکار ہے۔ دوسرا یہ کہ آزادانہ تجارتی معاہدوں کی موجودگی میں ہماری متبادل درآمدی حکمت عملی ناکام نظر آتی ہے خاص کر چائنہ کے ساتھ جس پر ہمارا درآمدی انحصار خاصا بڑھ چکا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور گیس اور بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافے نے عام آدمی کے لیے دو قت کی روٹی کا حصول اور ملکی صنعتی پہیہ جام کردیا ہے ۔
زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں زیادہ اضافی قدریں شامل کی جائیں۔ ہماری 20 مصنوعات ایسی ہیں جن کی برآمدات کا حجم 100 سے 250 ملین ڈالر ہے۔ ان شعبوں میں برآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور شعبہ جس سے ہماری کافی امیدیں وابستہ ہیں وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے، اس میں ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
پاکستان اور خصوصا پنجاب میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار اپنی پیداوار کا 60 فیصد تک برآمد کرتے ہیں جب کہ ہماری (بڑے پیمانے پر) پیداواری صنعتیں اپنی پیداوار کا 25 فیصد بھی برآمد نہیں کرتیں۔صنعتی ترقی کے لیے حکومت کا کردار نہایت اہم ہے لیکن مافیا اور اجارہ داروں سے نپٹنے کے لیے ضوابط بنانے چاہئیں۔
المیہ یہ ہے کہ زراعت اور تجارت کے فروغ کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ ملکی آمدن میں اضافے کے لیے مناسب اور بروقت اقدامات سے ہم مجموعی قومی پیداوارکو بہتر بنا سکتے ہیں۔ہم دعا گو ہیں کہ وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین اپنی معاشی پالیسیاں عملی طور پر نافذ کر سکیں تاکہ ملک کی اقتصادی ومعاشی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہوسکے ۔