کورونا کے دن اور ذہنی صحت

موجودہ دور میں ذہنی و جسمانی صحت زوال پذیر ہیں اور نت نئی بیماریاں حملہ آور ہو رہی ہیں۔

shabnumg@yahoo.com

فطرت اور ماحولیات کی تباہی کے بعد زندگی ایک ایسے رخ کی طرف سفر کرنے لگی ہے ، جو تباہ کن اور پرخطر ہے۔ صنعتی ترقی ، برقی آلات کا استعمال ، اور فطری زندگی سے مصنوعیت کی چھیڑ چھاڑ نے دنیا کو خطرات کی طرف دھکیل دیا۔

موجودہ دور میں ذہنی و جسمانی صحت زوال پذیر ہیں اور نت نئی بیماریاں حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں بیماری پر زیادہ گفتگوکی جاتی ہے اور لوگوں میں بیماریوں کے حوالے سے خوف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو بیماری کی علامات محسوس ہوتی ہیں مگر ٹیسٹ وغیرہ کرواتے ہیں تو انھیں تندرست قرار دیا جاتا ہے۔

اس قسم کی کیفیت سائیکو سو میٹک ڈس آرڈر کے زمرے میں آتی ہے۔ بیماری کا وہم سماجی زندگی میں کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے کیونکہ لوگ نہ صرف غیر صحت مند زندگی گذارتے ہیں بلکہ وہ تخلیقی سرگرمیوں سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں۔

آج کل کورونا وائرس کے دوران خوف کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس قسم کے خوف کو Nosophobia یا Hypochondriacs کہا جاتا ہے ، تاہم دونوں کی کیفیات الگ ہیں۔ ہائپوکونڈریاس کے شکار شخص کو یقین ہے کہ اسے کوئی جان لیوا بیماری لاحق ہے اس کے باوجود ان میں جسمانی علامات نہیں پائی جاتیں۔ اس بیماری کے اضطراب میں مبتلا افراد کو غیر حقیقت پسندانہ خوف لاحق رہتا ہے کہ ان کی سنگین طبی حالت ہوسکتی ہے یا انھیں خدشہ ہے کہ ان کے بیمار ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ وہ بیماری کے علامات کے طور پر اپنی کیفیات کی اکثر غلط تشریح کرتے ہیں۔

طبی معائنے میں کوئی پریشانی نہ ہونے کے بعد بھی، ھائپوکونڈر یاسس عارضے میں مبتلا افراد اس مغالطے کا شکار ہوتے ہیں کہ انھیں جان لیوا بیماری لاحق ہوچکی ہے۔ ان کی صحت کی پریشانیوں سے ان کے تعلقات ، کیریئر اور زندگی کئی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب نوسو فوبیا کی اہم علامت ، نمایاں خوف اور اضطراب ہے ، اس شدید خوف اور اضطراب کے نتیجے میں جسمانی علامات پیدا ہوسکتی ہیں ، جن میں یہ علامات شامل ہیں : چکر آنا ، متلی ، نبض میں اضافہ ، پسینہ آنا ، تیز سانس لینے اور سونے میں پریشانی وغیرہ۔ اس طرح کی کیفیات اینگزائٹی کے زمرے میں آتی ہیں۔

غیر حقیقی بیماری سے تعلق رکھنے والی یہ کیفیات روزمرہ کے کاموں میں رخنہ ڈالتی ہیں اور ذہنی صحت کو بیحد متاثرکرتی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اکثر لوگ اس طرح کی کیفیات میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ آج کل دنیا کورونا وائرس سے برسر پیکار ہے۔ اس عارضے کی وجہ سے تعلیم ، روزگار اور سماجی سرگرمیاں معطل ہوکر رہ گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں تشویشی امراض ، ذہنی دباؤ ، بے چینی و بے یقینی میں اصافہ ہوا ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں اپنی ذات ، خاندان ، دوست و احباب کے لیے کس قدر فعال ہوسکتے ہیں؟ جس کے لیے ڈبلیو۔ ایچ۔ او کا کہنا ہے کہ خود کو آگاہ رکھیں۔ قابل اعتماد نیوز چینلز ، ٹی وی اور ریڈیو پر عمل کریں، اور سوشل میڈیا پر ڈبلیو۔ ایچ ۔ او کی تازہ ترین خبروں کے ساتھ تازہ ترین معلومات حاصل کریں۔

جہاں تک ممکن ہو روزمرہ کے معمولات کو ذاتی حفظان صحت کے ساتھ جاری رکھیں۔ میں صحت مند کھانا کھائیں۔ جسمانی مشق باقاعدگی سے جاری رکھیں۔کام اور آرام کے وقت کو اچھی طرح مینیج کریں۔ ان چیزوں کے لیے وقت نکالیں جن سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دماغ اور ہمارے دفاعی نظام کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ مدافعتی نظام ، ماحولیاتی ایجنٹوں جیسے مائکرو بس،کیمیکلز اورکورونا وائرس کا بنیادی ثالث ہے۔ بیماری کا خوف یا ذہنی دباؤ ، جسمانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں گھر کے بڑے بیک وقت میں کئی مسائل سے نبرد آزما ہیں جب کہ بچے اور نوجوان بوریت اور بے چینی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کے سونے اور جاگنے کے اوقات بدل چکے ہیں۔ رات میں جاگتے ہیں اور دن میں دیر تک سوتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کے رہن سہن کے فطری نظام میں جب تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں تو اس کا منفی اثر ذہن و جسم پر اثرانداز ہوتا ہے۔ نیند کی کمی کی وجہ سے یکسوئی ، فیصلے کی قوت اور۔ کام کی فعالیت متاثر ہوتے ہیں۔

رات کو جاگنے کی وجہ سے رات رات کو کھانے کی عادت ہوجاتی ہے، جسےNight Eating Syndrome (NES) کہا جاتا ہے ، یہ علامت کئی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ جس میں موٹاپا ، کینسر ، ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن اور بے زاری وغیرہ شامل ہیں۔ آج کل تعلیمی سرگرمیاں آن لائن جاری ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ذہنی کام نہیں کیا جاسکتا ، دوسری جانب اساتذہ کورس کا بوجھ طلبا پر مسلط کردیتے ہیں۔ کافی طلباء آن لائن کلاسز اور امتحانات میں معمول کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا سکتے اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال میں جسمانی مشقیں اور مصروفیت ذہنی تناؤ میں کمی لاسکتی ہے۔

وبائی بیماری کے آغاز سے ، یہ خدشات موجود ہیں کہ کورونا کے متاثرین کو اعصابی اور دماغی صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بیماری مرکزی اعصابی نظام کو متاثرکرسکتی ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو کورونا کی شدت کو جھیلتے ہوئے طویل عرصہ اسپتال میں گذار کر واپس آتے ہیں، ان کی ذہنی صحت متاثر ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ متاثرین کے قریبی عزیز بھی شدید ذہنی دباؤکا شکار ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب معمر لوگ جو پہلے سے ہی مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں مزید ذہنی الجھن کا شکار ہو چکے ہیں۔

وہ زیادہ تر ویکسین لگوانے سے خوف میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے کئی من گھڑت کہانیاں گردش کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ویکسین لگوانے سے گریزکررہے ہیں۔ بہت سے لوگ پہلے ہی انجکشن فوبیا کا شکار ہوتے ہیں ، جسے trypanophobia بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ نفسیاتی حالت ہے، جہاں انجکشن کے تصور سے بے جا خوف اور اضطراب کے شدید جذبات پیدا ہوجاتے ہیں یا گھبراہٹ کا حملہ دل کی تیز رفتار ، تیز سانس لینے ، پسینہ آنا اور بلڈ پریشر میں کمی کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔

اس صورتحال کے حوالے سے ڈبلیو۔ ایچ۔او کے نمایندے کہتے ہیں کہ دنیا کو کورونا جیسے بڑے خطرے کا سامنا ہے لہذا ویکسین کورونا جیسی مہلک بیماری سے بچاؤ کا ایک مؤثر دفاعی ذریعہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ویکسین کا منفی رد عمل بہت کم نظر آتا ہے۔ لاکھوں میں چند لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ماہرین یہ بات بھی واضح کرچکے ہیں کہ اس وقت جتنی بھی ویکسینز کی اقسام مہیا کردی گئی ہیں وہ تمام منظور شدہ اور موثر ہیں۔ موجودہ صورتحال میں افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے احتیاط اور درست فیصلہ کئی جانیں بچا سکتا ہے۔
Load Next Story