یہ کیسے سیاسی لوگ ہیں
علم سیاسیات طویل ہے میں نے بہت مختصر چند عوامل پیش کیے مجھ جیسے لوگ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے سوال کر رہے ہیں۔
ایک آدمی کسی جنگل سے گزر رہا تھا ، لومڑی بولی ''سیلاب آگیا ہے'' آدمی نے جواباً کہا ''سیلاب تو نہیں آیا البتہ تم پانی میں ڈوب رہی ہو۔''
آگے بڑھا، اس نے دیکھا ایک آدمی لکیر کو پیٹ رہا ہے۔ پوچھا '' لکیر کیوں پیٹ رہے ہو؟ '' بولا '' سانپ گزرا تھا یہ اس کے گزرنے کی لکیر ہے'' پوچھا '' تمہیں کیسے معلوم؟ '' بولا '' میں نے خود جاتے ہوئے دیکھا '' پوچھا '' اس وقت سانپ کو کیوں نہیں مارا؟ '' بولا '' میں نے سوچا گزر جائے پھر اس کی لکیر کو پیٹوں گا۔''
دور گیا ، دیکھا ایک آدمی کھڑا نجانے کیا کہے جا رہا ہے۔ پوچھا '' بھائی تم کون ہو اور کیا کہہ رہے ہو؟'' بولا '' میں سیاسی نمایندہ ہوں اور جھوٹ بولنے کی مشق کر رہا ہوں۔'' بولا '' تم کو سیاست معلوم ہے کس کو کہتے ہیں؟'' '' ہاں، ہاں کیوں نہیں، میں جو جانتا ہوں سیاست مکاری ، عیاری ، جھوٹ ، منافقت کا نام ہے۔
ہمارے ایسے بڑے جغادری جو فخر سے کہتے ہیں کہ ہم سیاسی لوگ ہیں، سیاسی بات کرتے ہیں۔ وہ شاید سیاست کو ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ کھڑے ہوئے شخص نے کہا۔ اس کے علاوہ چند لوگ بے شمار خرچ کرتے ہیں منہ مانگی رقومات دیتے ہیں ، دوسرے الفاظ میں وہ ووٹ خریدتے ہیں۔ ایسے لوگ کیسے عوام کے ہمدرد ، مخلص ہوسکتے ہیں جو خرچ کیا ہے اس سے کئی گنا کی وصولیابی ان کی جدوجہد ہے۔ ان کو صرف اپنے مقاصد عزیز ہیں وہ کیا جانیں عوام کا دکھ درد اور مسائل۔ مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ فرماتے ہیں آبادی جو بڑھ رہی ہے۔
ڈاکا ، لوٹ مار ہر وہ طریقہ جس کے ذریعے مال و زر زیادہ سے زیادہ آئے ملک سے بھاگ جاتے ہیں سب دیکھتے رہ جاتے ہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، ایسا لگتا ہے ان کے آگے ہمارا قانون بھی بے بس ہے۔کہتے ہیں تنقید اصلاح کا لازمہ ہے لیکن ایسے لوگوں پر کسی تنقید کو نہ ضروری محسوس کرتا ہوں۔ ملک کو چاہنے والوں کے لیے مختصراً علم سیاست کا ذکرکروں سیاسی طرز حکومت، سیاسی حکمت عملی، سیاسی فیصلے سازیوں ، سیاسی و غیر سیاسی امور ، سیاسی امور کا باہمی موازنہ کرنا جیسے مختلف علاقوں میں مختلف لوگ رہتے ہیں۔
ان کے جو رویے بدلتے رہتے ہیں ان کے رویوں کا عمل اس کو سیاسی عمل کا نام دیتے ہیں۔ سیاسی مفکرین کی مختلف آرا رہی ہیں کوئی فیصلہ کا عمل، کوئی حکومت سازی ، کوئی عوامی تعبیر ، زیادہ مفکرین نے ''سرگرمی'' کی اصلاح سیاسی عمل ، سیاسی طریقہ ساز ، سیاسی اختیار مثلاً اقتدار یہ تین مراحل تقابلی سیاست میں شامل ہیں۔ مفکرین نے کہا کہ مسائل کا حل ان سیاسی بنیادوں پر کیا جائے۔ سیاسی کارکردگی ، سیاسی حل ، سیاسی قوت ، سیاسی اختیار یا اقتدار۔
سیاسی سرگرمیوں کو سیاسی کارکردگی کا نام دیا گیا۔ جیسے موجودہ دور میں بھی ہر شخص اقتدار حاصل کرنے کے لیے دوڑ لگا رہا ہے ، اگر اس دوڑ یا اس غلط جدوجہد کو قابو نہ کیا جائے تو معاشرہ درہم برہم ہو جائے گا۔ کشیدگی ، محاذ آرائی طبقاتی فرق ، اختیارات کا حامل طبقہ اختیارات والا ، اختیارات سے محروم دونوں طبقات کو مل کر محاذ آرائی ، کشیدگی ، طبقاتی فرق کو ختم کرنا ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ سب منحصر ہے سیاسی کارکردگی پر۔ پیچھے کون سے عوامل ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے کوئی سیاسی کارروائی یا عقائد وجہ تو نہیں۔ سیاسی عمل جس کو فیصلہ سازی کہا جاتا ہے ، فیصلہ سازی میں ریاستی و سیاسی دونوں طبقات کی شمولیت لازمی ہے۔
سیاسیات میں بتایا گیا ہے کہ اقتدار کو کس طرح فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔ سیاسی قوت دراصل بنیادی طور پر حکومتی پالیسی ہے۔ اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے سیاسی قوت ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے سیاسی قوت کمزور کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں اقتدار اعلیٰ ، حامل اقتدار طبقہ سیاسی جانچ پڑتال کرے ، مقتدر اعلیٰ کون سیاسی قوت کس کی حامل ہے۔
٭۔ اختلافی نقاط کو مرتب شدہ صورت میں پیش کرنا۔
٭۔ ترقیاتی اسکیمیں پیش کرنا۔
٭۔ عوام کے مسائل حل کرنا، روزگار کے مواقع ، صنعتوں میں اضافہ۔
٭۔ ویلفیئر اداروں کا قیام ، غربت کو دور کرنا ، کوئی بھوکا نہ رہے۔
٭۔ رہائشی پالیسی عوام کے لیے مکانات مہیا کرنا۔
علم سیاسیات طویل ہے میں نے بہت مختصر چند عوامل پیش کیے مجھ جیسے لوگ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے سوال کر رہے ہیں۔ کیا ان سیاسی رہنماؤں نے ملک کی ترقی عوام کی خوشحالی کے لیے کچھ کیا؟ ملک میں بے روزگاری ، غربت ، افلاس ، بھوک ، ننگ بڑھ رہا ہے ۔ حال ہی میں پورے ملک نے دیکھا کس طرح ایوان بالا کی نمایندگی حاصل کرنے کے لیے کن کن لوگوں نے دو ارب ستر کروڑ تیس لاکھ خرچ کیے۔ دوسرے الفاظ میں منڈی بنا کر ووٹ کی خریداری کی۔ بے ضمیر لوگ پہلے بھی بکتے تھے وہ آج بھی فروخت ہوئے شاید آیندہ بھی بکتے رہیں گے۔
پہلے چوری، ڈاکا سیکڑوں سے ہزاروں، ہزاروں کے بعد لاکھوں تک رہا لیکن جب برساتی مینڈک آگئے تو اشرافیہ کے چند بڑے لوگوں نے اربوں ، کھربوں میں ملک لوٹا۔ خوب لوٹ مار کی اور بالادست لوگوں سے مل ملا کر بھاگنے کا عمل جاری رکھا۔ پہلے بھی ایسا ہی کہا بعد میں معافی تلافی کے بعد آئے پہلے سے زیادہ لوٹا اور چلتے بنے۔ ان لوگوں کا یہی شیوا رہا ہے۔ انھوں نے لوٹ مار ، چوری ، ڈاکا ، عیاری ، مکاری ، جھوٹ فریب ، منافقت بڑی سند حاصل کی ہے اس کا عملی ثبوت دیا۔ ان کی ایک دوسرے سے یہ حرص رہی ہے کہ کون سب سے زیادہ عوام کو بے وقوف بنائے اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ لوٹ کر لے جائے زیادہ سے زیادہ کی کوشش رہتی ہے خوف اس لیے نہیں کہ کبھی ان کو کڑی سزا نہ ہوئی۔
آگے بڑھا، اس نے دیکھا ایک آدمی لکیر کو پیٹ رہا ہے۔ پوچھا '' لکیر کیوں پیٹ رہے ہو؟ '' بولا '' سانپ گزرا تھا یہ اس کے گزرنے کی لکیر ہے'' پوچھا '' تمہیں کیسے معلوم؟ '' بولا '' میں نے خود جاتے ہوئے دیکھا '' پوچھا '' اس وقت سانپ کو کیوں نہیں مارا؟ '' بولا '' میں نے سوچا گزر جائے پھر اس کی لکیر کو پیٹوں گا۔''
دور گیا ، دیکھا ایک آدمی کھڑا نجانے کیا کہے جا رہا ہے۔ پوچھا '' بھائی تم کون ہو اور کیا کہہ رہے ہو؟'' بولا '' میں سیاسی نمایندہ ہوں اور جھوٹ بولنے کی مشق کر رہا ہوں۔'' بولا '' تم کو سیاست معلوم ہے کس کو کہتے ہیں؟'' '' ہاں، ہاں کیوں نہیں، میں جو جانتا ہوں سیاست مکاری ، عیاری ، جھوٹ ، منافقت کا نام ہے۔
ہمارے ایسے بڑے جغادری جو فخر سے کہتے ہیں کہ ہم سیاسی لوگ ہیں، سیاسی بات کرتے ہیں۔ وہ شاید سیاست کو ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ کھڑے ہوئے شخص نے کہا۔ اس کے علاوہ چند لوگ بے شمار خرچ کرتے ہیں منہ مانگی رقومات دیتے ہیں ، دوسرے الفاظ میں وہ ووٹ خریدتے ہیں۔ ایسے لوگ کیسے عوام کے ہمدرد ، مخلص ہوسکتے ہیں جو خرچ کیا ہے اس سے کئی گنا کی وصولیابی ان کی جدوجہد ہے۔ ان کو صرف اپنے مقاصد عزیز ہیں وہ کیا جانیں عوام کا دکھ درد اور مسائل۔ مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ فرماتے ہیں آبادی جو بڑھ رہی ہے۔
ڈاکا ، لوٹ مار ہر وہ طریقہ جس کے ذریعے مال و زر زیادہ سے زیادہ آئے ملک سے بھاگ جاتے ہیں سب دیکھتے رہ جاتے ہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، ایسا لگتا ہے ان کے آگے ہمارا قانون بھی بے بس ہے۔کہتے ہیں تنقید اصلاح کا لازمہ ہے لیکن ایسے لوگوں پر کسی تنقید کو نہ ضروری محسوس کرتا ہوں۔ ملک کو چاہنے والوں کے لیے مختصراً علم سیاست کا ذکرکروں سیاسی طرز حکومت، سیاسی حکمت عملی، سیاسی فیصلے سازیوں ، سیاسی و غیر سیاسی امور ، سیاسی امور کا باہمی موازنہ کرنا جیسے مختلف علاقوں میں مختلف لوگ رہتے ہیں۔
ان کے جو رویے بدلتے رہتے ہیں ان کے رویوں کا عمل اس کو سیاسی عمل کا نام دیتے ہیں۔ سیاسی مفکرین کی مختلف آرا رہی ہیں کوئی فیصلہ کا عمل، کوئی حکومت سازی ، کوئی عوامی تعبیر ، زیادہ مفکرین نے ''سرگرمی'' کی اصلاح سیاسی عمل ، سیاسی طریقہ ساز ، سیاسی اختیار مثلاً اقتدار یہ تین مراحل تقابلی سیاست میں شامل ہیں۔ مفکرین نے کہا کہ مسائل کا حل ان سیاسی بنیادوں پر کیا جائے۔ سیاسی کارکردگی ، سیاسی حل ، سیاسی قوت ، سیاسی اختیار یا اقتدار۔
سیاسی سرگرمیوں کو سیاسی کارکردگی کا نام دیا گیا۔ جیسے موجودہ دور میں بھی ہر شخص اقتدار حاصل کرنے کے لیے دوڑ لگا رہا ہے ، اگر اس دوڑ یا اس غلط جدوجہد کو قابو نہ کیا جائے تو معاشرہ درہم برہم ہو جائے گا۔ کشیدگی ، محاذ آرائی طبقاتی فرق ، اختیارات کا حامل طبقہ اختیارات والا ، اختیارات سے محروم دونوں طبقات کو مل کر محاذ آرائی ، کشیدگی ، طبقاتی فرق کو ختم کرنا ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ سب منحصر ہے سیاسی کارکردگی پر۔ پیچھے کون سے عوامل ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے کوئی سیاسی کارروائی یا عقائد وجہ تو نہیں۔ سیاسی عمل جس کو فیصلہ سازی کہا جاتا ہے ، فیصلہ سازی میں ریاستی و سیاسی دونوں طبقات کی شمولیت لازمی ہے۔
سیاسیات میں بتایا گیا ہے کہ اقتدار کو کس طرح فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔ سیاسی قوت دراصل بنیادی طور پر حکومتی پالیسی ہے۔ اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے سیاسی قوت ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے سیاسی قوت کمزور کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں اقتدار اعلیٰ ، حامل اقتدار طبقہ سیاسی جانچ پڑتال کرے ، مقتدر اعلیٰ کون سیاسی قوت کس کی حامل ہے۔
٭۔ اختلافی نقاط کو مرتب شدہ صورت میں پیش کرنا۔
٭۔ ترقیاتی اسکیمیں پیش کرنا۔
٭۔ عوام کے مسائل حل کرنا، روزگار کے مواقع ، صنعتوں میں اضافہ۔
٭۔ ویلفیئر اداروں کا قیام ، غربت کو دور کرنا ، کوئی بھوکا نہ رہے۔
٭۔ رہائشی پالیسی عوام کے لیے مکانات مہیا کرنا۔
علم سیاسیات طویل ہے میں نے بہت مختصر چند عوامل پیش کیے مجھ جیسے لوگ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے سوال کر رہے ہیں۔ کیا ان سیاسی رہنماؤں نے ملک کی ترقی عوام کی خوشحالی کے لیے کچھ کیا؟ ملک میں بے روزگاری ، غربت ، افلاس ، بھوک ، ننگ بڑھ رہا ہے ۔ حال ہی میں پورے ملک نے دیکھا کس طرح ایوان بالا کی نمایندگی حاصل کرنے کے لیے کن کن لوگوں نے دو ارب ستر کروڑ تیس لاکھ خرچ کیے۔ دوسرے الفاظ میں منڈی بنا کر ووٹ کی خریداری کی۔ بے ضمیر لوگ پہلے بھی بکتے تھے وہ آج بھی فروخت ہوئے شاید آیندہ بھی بکتے رہیں گے۔
پہلے چوری، ڈاکا سیکڑوں سے ہزاروں، ہزاروں کے بعد لاکھوں تک رہا لیکن جب برساتی مینڈک آگئے تو اشرافیہ کے چند بڑے لوگوں نے اربوں ، کھربوں میں ملک لوٹا۔ خوب لوٹ مار کی اور بالادست لوگوں سے مل ملا کر بھاگنے کا عمل جاری رکھا۔ پہلے بھی ایسا ہی کہا بعد میں معافی تلافی کے بعد آئے پہلے سے زیادہ لوٹا اور چلتے بنے۔ ان لوگوں کا یہی شیوا رہا ہے۔ انھوں نے لوٹ مار ، چوری ، ڈاکا ، عیاری ، مکاری ، جھوٹ فریب ، منافقت بڑی سند حاصل کی ہے اس کا عملی ثبوت دیا۔ ان کی ایک دوسرے سے یہ حرص رہی ہے کہ کون سب سے زیادہ عوام کو بے وقوف بنائے اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ لوٹ کر لے جائے زیادہ سے زیادہ کی کوشش رہتی ہے خوف اس لیے نہیں کہ کبھی ان کو کڑی سزا نہ ہوئی۔