نزول مسیحؑ قران حکیم کی روشنی میں

قرب ِقیامت کے اہم آثار کا قران وحدیث کی رو سے تحقیقی بیان


قرب ِقیامت کے اہم آثار کا قران وحدیث کی رو سے تحقیقی بیان

پچھلے ایک برس سے پُراسرار کورونا وائرس کی پیدا کردہ خوفناک وبا،کوویڈ19 انسانیت پر حملہ آور ہے۔

اس نے لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا اور کروڑوں لوگوں کی زندگیاں درہم برہم کر دیں۔ہمارے پڑوسی،بھارت میںبھی وہ آفت بن کر سامنے آئی اور بھارتی شہریوں کی روزمرہ زندگی ڈرؤانا خواب بنا دی۔بعض علمائے کرام کا کہنا ہے،ظالم بھارتی حکمران طبقے نے مظلوم کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر جو ظلم وستم ڈھائے،اس کی سزا کوویڈ19 بن کر اہل ِبھارت پر نازل ہوئی کیونکہ وہ بھی اپنے حکمرانوں کے مظالم پر صُم بُکم بنے رہے۔

آثار ِقیامت

شاید آپ جانتے ہوں،احادیث نبویﷺ کے مطابق قیامت آنے کی '' اہم نشانی''یہ ہے کہ انسان کی غیر فطری سرگرمیوں کے سبب دنیا میں عجیب وغریب وبائیں اور بیماریاں ظہور پذیر ہوں گی۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوویڈ19 کی صورت قدرت الہی نے بنی نوع انسان کو خبردار کیا ہے کہ وہ اب بھی راہ راست پر آ جائے ورنہ جان لو،تمھارے گناہوں کی وجہ سے دنیاکا انت قریب ہے۔

قیامت کے دن پر ایمان ہمارے چھ ارکان ِاسلام میں سے ایک ہے۔قران مجید کے مطابق یہ دن برحق ہے اور اس دن انسانوں کی جزا وسزا کا حساب ہو گا۔ مسلمانوں کے علاوہ یہود ونصاری بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ایسا دن آ کر رہے گا۔ قران حکیم میں اس بے مثال دن کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے:''یوم القیامت''، ''الساعت''، ''النبا عظیم'' اور ''یوم الدین۔''آیات قرانی اور احادیث نبویﷺ پڑھ کر کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ قیامت کب آئے گی تاہم کتاب الہی میں مقررہ وقت نہیں بتایا گیا۔اس ضمن میں کتب احادیث میں ''آثار ِقیامت''کے عنوان سے حدیثیں جمع کی گئی ہیں۔

احادیث کی رو سے قیامت کی دیگر اہم نشانیوں میں یہ نمایاں ہیں:٭لوگ تجارت اور کاروبار میں بے ایمانی کریں گے،نتیجے میں ان پر قحط،طوفان اور ظلم کی شکل میں آفتیں نازل ہوں گی۔٭خیرات دینے میں بخل اور دولت جمع کرنے میں حرض دکھائیں گے۔٭اللہ اور رسولﷺ کے فرمان بھلا دینے کے سبب دشمن مسلمانوں پر حاوی ہو جائیں گے۔٭اسلامی ممالک کے حکمران ایک دوسرے سے نبردآزما رہیں گے۔اس صورت حال میں شیطان دجال بن کر نمودار ہو گا تاکہ دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کر سکے۔پہلے امام مہدی اس کا مقابلہ کریں گے۔آخر میں حضرت عیسیؑ دوبارہ زمین پہ آ کر دجال کو مار ڈالیں گے۔وہ پھر کچھ عرصہ عدل وانصاف سے حکومت کریں گے۔بعد ازاں یوم حشر آ پہنچے گا۔تب نیکو کاروں اور گناہ گاروں کو دائمی جزا یا سزا سنائی جائے گی۔

آمد ِثانی

زمین پر حضرت عیسیٰ ؑکادوبارہ نزول اصطلاح میں ''آمدثانی''(Second Coming) کہلاتا ہے۔ قران مجید میں نبی اکرمﷺ، حضرت آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، یوسفؑ، موسیؑ اور داؤدؑ علیہ السلام کے علاوہ حضرت عیسیؑ بھی اہم رسول و پیغمبر کی حیثیت سے اجاگر ہوئے ہیں۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آپ پر خد ا تعالی نے ایک کتاب،انجیل نازل فرمائی۔آپ باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور گناہوں سے پاک تھے۔

آپ کو معزز خطاب بھی دئیے گئے۔مبلغ تھے جو گھوم پھر کر لوگوں کو دین حق کی تعلیم دیتے تھے۔آپ نے حکم ِالہی سے معجزے دکھائے۔آپ کی باتیں پُراثر اور دلکش ہوتیں۔کئی صوفیا آپ کے ادا کردہ جملے اپنی دعاؤں میں دہراتے ہیں۔قران ہم پہ آشکارا کرتا ہے کہ حضرت عیسی ؑ مصلوب نہیں ہوئے بلکہ ان کی صورت کا کوئی اور شخص رومیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔صلیب دینے سے قبل ہی اللہ تعالی نے آپ کو اوپر اٹھا لیا۔اس سے پہلے وہ ''فارقلیط''(رحمت للعالمینﷺ)کے آنے کی خبر دے چکے تھے جنھیں رب کائنات نے انسانیت کا عظیم ترین راہنما مقرر فرمایا تھا۔

اسرائیلیات(یہودی علما کے لکھے قصّے کہانیوں)سے متاثر ہو کر عام مسلمانوں نے نزول مسیح کے گرد بھی کچھ روایات اکھٹی کر دیں۔مستند و جامع مفسرین نے اپنی تفاسیر میں ان کا ذکر نہیں فرمایا تاہم نسبتاً غیر معروف علما نے اپنی کتب میں روایات کو تفصیل سے لکھا ہے۔مثال کے طور پر یہ کہ حضرت عیسی ؑ یروشلم یا جامع مسجد،دمشق کے سفید مینار پر پہلی مرتبہ نمودار ہوں گے۔اس وقت پو پھٹ رہی ہو گی۔زمین پہ پہنچ کر شادی کریں گے۔پھر سفید گھوڑے پہ براجمان ہو کر دجال کو شکست دے کر موت کو گلے لگائیں گے۔حتی کہ فلسطین میں ایک قبر ان سے منسوب کر دی گئی وغیرہ۔



آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں بہرحال شروع سے مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت عیسی ؑ قرب قیامت زمین پر تشریف لائیں گے۔کتب تاریخ میں درج ہے کہ اہل دمشق کو بعض اوقات مسیح ؑ کی آمد ثانی کا اتنا یقین ہو جاتا کہ وہ سفید گھوڑا لیے جامع مسجد پہنچ جاتے۔ سوال مگر یہ ہے کہ قران و سنت کی روشنی میں نزول عیسیٰ ؑ کی حقیقت کیا ہے؟کیا اس اعتقاد میں سچائی بھی ملتی ہے؟علم الکلام کے علمائے کرام نے اس موضوع پر کیا فرمایا ہے؟ ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی خاطر ہمیں سب سے پہلے کتاب مبین سے رجوع کرنا ہو گا۔

ایک جلیل القدر پیغمبر

قران حکیم میں حضرت عیسی ؑ کے بارے میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے، اس کے بیشتر مندرجات سے دور حاضر کے عیسائی علما بھی اتفاق کرتے ہیں۔مثلاً آپ کی کنواری پیدائش، گناہوں سے پاک ہونا، آسمان پر اٹھایا جانا اور مسیح ؑکے معجزے جیسے مردے کو زندہ کر دینا۔قران پاک میں کم از کم دو مقامات پر یوم قیامت اور حضرت عیسیؑ کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے۔نیز ایک آیت کے بارے میں مفسرین کی اکثریت یہ نکتہ نظر رکھتی ہے کہ اس میں آپ کی آمد ثانی کا تذکرہ فرمایا گیا۔اسی باعث مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی ؑ زندہ اور جنت میں مقیم ہیں۔آپ قیامت آنے کے نزدیک حکم الہی سے دوبارہ زمین پہ تشریف لائیں گے۔

جیسا کہ بتایا گیا،قران پاک نے حضرت عیسی ؑ کو ایک جلیل القدر پیغمبر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔کتاب مبین میں آپ کو تیتیس مقامات پر ''ابن مریم'' پچیس جہگوں پر ''عیسی'' اور دیگر آیات قرانی میں ''المسیح''، ''النبی''، الرسول''، ''منال مقربین مبارک''، ''قول الحق''اور ''عبداللہ'' کے نام دئیے گئے ہیں۔آگے بڑھنے سے پیشتر قران و سنت کی روشنی میں یہ جائزہ پیش خدمت ہے کہ کیا حضرت عیسی ؑ صلیب پر قتل کر دئیے گئے تھے(جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے)یا انھیں صلیب پر چڑھنے سے قبل اللہ تعالی نے زندہ اوپر اٹھا لیا تھا (جیسا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے)

مسیحؑ قتل نہیں ہوئے

ممتاز مفسر،فخر الدین رازی اپنی تفسیر''مفاتیح الغیب'' میں لکھتے ہیں :''زمانہ قدیم کے مورخین نے لکھا ہے، رومی فوجیوں نے اس مکان پر حملہ کیا جہاں حضرت عیسی ؑ اپنے بارہ حواریوں کے ساتھ قیام پذیر تھے۔اس دوران اللہ پاک کے حکم سے مسیحؑ اوپر اٹھا لیے گئے۔رومیوں نے حضرت عیسی ؑ کی شکل وصورت رکھنے والے ایک حواری کو پکڑا اور اسے صلیب پر چڑھا دیا۔عام لوگ یہی سمجھے کہ مسیحؑ مصلوب ہو گئے مگر وہ پیغمبر نہیں تھے۔بعض مورخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جب رومی فوجی مکان کے اندر داخل ہوئے تو خدا تعالی کے حکم سے سبھی حواریوں کی شکلیں حضرت عیسیؑ کی طرح ہو گئیں۔چناں چہ رومیوں نے ایک حواری کو پکڑا اور اسے صلیب دے دی۔''

قران حکیم میں مسیحؑ کو صلیب دینے کے واقعے کی بابت تفصیل نہیں دی گئی مگر یہ ضرور درج ہے کہ حضرت عیسی ؑ مصلوب نہیں ہوئے اور نہ انھیں قتل کیا گیا۔حتی کہ ان کے قاتل رومیوں کو بھی پوری طرح اعتماد نہیں تھا کہ کیا واقعی مسیح ہی قتل ہوئے ہیں؟ (سورہ النسا۔آیات 158-57)گویا دو ہزار سال پہلے کوئی انسان مصلوب ضرور ہوا مگر کون؟یہ سچائی صرف اللہ پاک جانتے ہیں۔یہود ونصاری کا دعوی ہے کہ وہ حضرت عیسیؑ ؑتھے۔لیکن قران پاک یہ دعوی تسلیم نہیں کرتا ۔ایک آیت قرانی ملاحظہ فرمائیے۔سورہ آل عمران آیت55میں ارشاد الہی ہے:

''یاد کرو جب اللہ نے کہا،اے عیسیؑ!میں تیرا وقت پورا کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا۔اور تجھے مشرکوں سے پاک کر دوں گا۔''

''مْتَوَفِّیکَ'' سے کیا مراد؟

ممتاز عالم دین،علامہ راغب اصفہانی اپنی کتاب''مفردات فی الفاظ قران''میں رقم طراز ہیں:''اس (درج بالا)آیت کریمہ میں لفظ ''مْتَوَفِّیکَ''سے موت مراد نہیں جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔''(اگرچہ لفظ پہ بحث کرتے ہوئے علامہ نے نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے اس لفظ سے لغوی معنی ہی (یعنی موت)مراد لیے ہیں۔)اسلام کے اولیّں مورخ،الطبری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:''اس جگہ ''مْتَوَفِّیکَ'' سے مراد ہے: (حضرت عیسیؑ کو) لینا، آسمان پر بلند کرنا اور جنت لے جانا۔''الطبری آیت کریمہ کی مختلف تشریحات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:''میری رائے میں ''مْتَوَفِّیکَ'' کا مطلب ہے:زمین سے لے کر جنت تک پہنچا دینا۔''واضح رہے،یہ آیت کریمہ حضرت عیسیؑ کے اوپر اٹھائے جانے اور مشرکین سے جنگ کرنے کے بارے میں ہے۔

علم الکلام کے امام اور مشہور عالم،ماتریدی اپنی کتاب ''تاویلات قران''میں لکھتے ہیں:''اس آیت میں پہلے یہ ذکر ہوا کہ حضرت عیسی ؑ وفات پا چکے۔پھر ان کا اوپر اٹھایا جانا بیان ہوا، مگر وہ زندہ ہیں۔مسیحؑ آمد ثانی کے بعد ہی وفات پائیں گے۔تاہم آیت میں موجود موت کے لغوی معنی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔''دور جدید کے علما کا کہنا ہے کہ امام ماتریدی نے پہلے یہ تذکرہ کیا کہ حضرت عیسیؑ زندہ ہیں۔پھر ''مْتَوَفِّیکَ'' کے لغوی معنی کا حوالہ دیا۔لہذا انھوں نے اس خیال کو مقدم رکھا کہ مسیحؑ زندہ ہیں۔یاد رہے،امام ماتریدی حضرت عیسیؑ کی آمد ثانی کو احادیث نبویﷺ کی روشنی میں برحق سمجھتے ہیں۔

معتزلی عالم، زمخشری اپنی تفسیر''الکشاف''میں رقم طراز ہیں:''حضرت عیسیؑ ابھی فوت نہیں ہوئے۔زمین پہ واپسی کے بعد جب وہ دجال کو شکست دیں گے تب ان کا انتقال ہو گا۔''افریقہ کے ممتاز مفسر وعالم دین،ابن عطیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:''حضرت عیسیؑ آمد ثانی کے بعد دجال کو قتل کرکے دوبارہ وفات پائیں گے۔''گویا ابن عطیہ کے نزدیک مسیحؑ ایک بار وفات پا چکے۔ آمد ثانی کے بعد ان کی دوبارہ وفات ہو گی۔

علامہ جوزی اپنی تفسیر میں درج بالا آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''حضرت عیسیؑ کو اللہ تعالی نے اوپر اٹھا لیا۔وہ فوت ضرور ہوئے مگر یہ عارضی موت تھی۔ان کی حقیقی موت زمین پہ دوبارہ آنے کے بعد ہو گی۔''فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں:''اللہ تعالی نے اوپر اٹھا کر حضرت عیسیؑ کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔انھیں گویا مشرکین کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا گیا۔''

علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ''مْتَوَفِّیکَ''کے معنی ''نیند''لکھے ہیں۔گویا ان کے نزدیک حضرت عیسیؑ نیند سے ملتی جلتی حالت میں زندہ ہیں۔جلال الدین سیوطی بھی اپنی تفسیر میں علامہ ابن کثیر کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔اندلس کے مشہور مفسر،ابن حیان نے اپنی تفسیر ''بحر محیط''میں لکھا ہے:''''مْتَوَفِّیکَ'' کے معنی ہیں کہ حضرت عیسیؑ انتقال فرما چکے۔تاہم یہ عارضی موت ہے۔ان کی اصل موت آمد ثانی اور دجال کو قتل کرنے کے بعد وقوع پذیر ہو گی۔اس موقع پر حضرت عیسیؑ عیسائیت کو تمام بدعات سے پاک کر دیں گے۔''دور جدید کے ممتاز مفسر،علامہ آلوسی اپنی تفسیر ''روح المعانی'' میں آیت کی ترجمانی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:''حضرت عیسیؑ اوپر اٹھا لیے گئے۔اب وہ تمام انسانی ضروریات اور صفات سے محروم ہیں۔درحقیقت ان کا قیام ایسی جگہ ہے جس سے انسان واقف نہیں۔''

مولانا ابوالاعلی مودودی اپنی تفسیر''ترجمان القران''میں آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:''مْتَوَفِّیکَ'' کا لفظ ''توفی''سے نکلا ہے جس کے معنی لینے اور وصول کرنے کے ہیں۔اس کا تعلق موت سے جوڑ لینا غلط ہو گا۔آیت میں یہ لفظ انگریزی لفظ ''To recall''کے معنی میں آیا ہے۔یعنی کسی عہدے دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا۔جو لوگ اس آیت سے حضرت عیسیؑ کی وفات کا مفہوم نکالتے ہیں،وہ دراصل یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کو صاف،سلجھی ہوئی عبارت میں اپنا منشا ظاہر کرنے کا سلیقہ معلوم نہیں۔''

ترکی کے ممتاز عالم دین، علامہ زاہد کوثری اپنی کتاب''نظرۃ عابرۃ فی مزاعم من ینکر نزول عیسی علیہ السلام قبل الاخرۃ''میں لکھتے ہیں:''آیت کریمہ میں ''مْتَوَفِّیکَ'' کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔وجہ یہ کہ اگر اس سے موت مراد لی جائے تو قران پاک میں موت کے لیے جو لفظ استعمال ہوا ہے،وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔ان تمام جہگوں پر موت سے مراد مر جانا ہی ہے۔مذید براں قران حکیم میں ایسے کئی الفاظ ہیں جن کے قدیم اور جدید معنی مختلف ہیں۔مثلاً آج ''رسالہ''لفظ کسی مکتوب یا چھوٹی کتاب کے متعلق بولا جاتا ہے۔مگر قران مجید میں اس سے مراد ''رسالت''ہے۔''

مصر کے جدید مفسر،محمد عبدہ اور رشید رضا نے اپنی تفاسیر میں ''مْتَوَفِّیکَ'' کے لغوی معنی استعمال کیے ہیں۔گویا ان کے نزدیک اوپر اٹھائے جانے سے قبل حضرت عیسیؑ وفات پا چکے تھے۔رشید رضا لکھتے ہیں:''حضرت عیسیؑ فوت ہو گئے اور ان کی روح اوپر اٹھا لی گئی۔اس آیت میں حضرت عیسیؑ کے جسمانی وجود کا ذکر نہیں ہوا۔بلکہ یہ ان کے روحانی وجود کو اوپر اٹھانے کی بات ہو رہی ہے۔''مصر کے ایک اور ممتاز مفسر،محمود شلتوت بھی یہی خیال رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ فوت ہو گئے تھے،ان کی روح اوپر اٹھا لی گئی۔

مسفرین کی درج بالا آرا سے مگر واضح ہے، ان کی اکثریت اس نکتہ نظر کی حامی ہے کہ جب حضرت عیسیؑ اوپر اٹھائے گئے تو وہ زندہ تھے اور اب بھی اسی حالت میں جنت میں زندگی گذار رہے ہیں ۔

عمل مصلوب

رب کریم نے سورہ النسا کی آیات 153تا 159میں اہل کتاب کی نافرمانیوں ،لغزشوں اور سرکشیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ایک لغزش ان سے یہ سرزد ہوئی کہ وہ سمجھنے لگے کہ رومیوں نے حضرت عیسیؑ کو قتل کر دیا۔اللہ پاک ان کا یہ دعوی جھٹلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ سولی پر نہیں چڑھے بلکہ انھیں اوپر اٹھا لیا گیا۔بے شک یہ عمل انجام دینے کی خاطر اللہ تعالی غالب اور دانا ہے۔اللہ پاک پھر فرماتے ہیں کہ اہل کتاب میں سے ہر کوئی روز قیامت اس بات پر ایمان لے آئے گا (کہ حضرت عیسیؑ اوپر اٹھا لیے گئے)۔جو لوگ اس امر سے اختلاف رکھتے ہیں،انھیں( اس بات پر )وہم وگمان رکھنے سے کچھ نہیں ملے گا۔



مفسرین نے دو نمایاں انداز میں ان آیات کی ترجمانی فرمائی ہے۔اول یہ کہ حضرت عیسیؑ فوت نہیں بلکہ اوپر اٹھا لیے گئے۔دوم یہ کہ جب انھیں اوپر اٹھایا گیا تو کیا وہ فوت ہو چکے تھے یا زندہ تھے؟اولیّں مفسرین میں شامل تابعی،مجاہد بن جبرؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:''رومیوں نے حضرت عیسیؑ کی جگہ کسی اور کو مصلوب کر دیا تھا۔جبکہ حضرت عیسیؑ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔'' اندلس کے ممتاز عالم دین،ابن حزم نے اپنی کتاب ''علم الکلام''میں لکھا ہے:''آیات کریمہ کی رو سے حضرت عیسیؑ زندہ ہیں ۔اب وہ جنت میں ہیں۔''ان کے نزدیک گویا یہ آیات کریمہ ہمیں مطلع کرتی ہیں کہ مسیح زندہ ہیں۔نیز احادیث نبوی ﷺ کے مطابق حضرت عیسیؑ قیامت سے کچھ عرصہ قبل زمین پر تشریف لا کر قدرتی انداز میں فوت ہوں گے۔

جارج قنوتی (متوفی 1994ء )مصر میں عیسائیت اور اسلام کا نامور جدید عالم گذرا ہے۔اس نے لائیڈن کے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں حضرت عیسیؑ پرمربوط مقالہ لکھ کر شہرت پائی۔وہ لکھتا ہے:''قران مجید ہمیں بتاتا ہے کہ نیکی کو آخرکار بدی پہ فتح حاصل ہو گی۔اگر حضرت عیسیؑ کے دشمن ان کو مصلوب کر دیتے تو بدی کو فتح مل جاتی۔جبکہ قران پاک میں درج ہے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا دفاع کرتے ہیں(سورہ الحج آیت 38)لہذا اس حقیقت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عیسیؑ صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔''

مفسرین اور علمائے کرام کی اکثریت متفق ہے کہ حضرت عیسیؑ مصلوب نہیں ہوئے اور زندہ ہیں۔اگلے مرحلے میں اس سوال نے جنم لیا کہ اگر وہ زندہ ہیں تو حضرت عیسیؑ کی آمد ثانی قیامت کے نزدیک کیوں مُوخر کر دی گئی؟جن علما کا دعوی ہے کہ حضرت عیسیؑ انتقال فرما چکے ،وہ ان کی زمین پر دوبارہ آمد کو تسلیم نہیں کرتے۔

ایک حدیث مبارک

البخاری،المسلم اور ابن ماجہ کے مجموعہ ہائے احادیث میں یہ حدیث مبارک موجود ہے:'' حضرت عیسیؑ فوت نہیں ہوئے اور وہ قیامت سے کچھ عرصہ قبل ظاہر ہوں گے۔''اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ کو یہ مشن دیا گیا تھا کہ وہ یہو و کفار کو دین حق پر واپس لے آئیں۔چونکہ وہ اپنا مشن پورا نہیں کر سکے لہذا دوبارہ زمین پہ تشریف لا کر اسے مکمل کریں گے۔اس کے بعد ہی ان کا انتقال ہو گا۔

بدیع الزماں نورسی (متوفی1960ء)ترکی کے ممتاز جدید عالم دین گذرے ہیں۔وہ اپنی تفسیر''رسالہ نور'' میں رقم طراز ہیں'':زندگی کی پانچ مخصوص سطحیں ہیں۔پہلی سطح ''انسانیت'' ہے جن میں عام زندہ انسان رہتے بستے ہیں۔دوسری سطح ''خضرؑ والیاسؑ''کہلاتی ہے۔اس سطح کے باسی کچھ آزاد ہیں اور وہ بیک وقت مختلف جہگوں پر موجود ہو سکتے ہیں۔تیسرا مقام ''ادریسؑ و عیسیؑ''کہلاتا ہے۔اس سطح کے باسی انسانی ضروریات نہیں رکھتے اور فرشتوں کے مانند زندگی گذارتے ہیں۔ان سے نور کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔چوتھی سطح ''شہدا''اور پانچویں ''انسانی ارواح ''کے لیے مخصوص ہیں۔اس تشریح کی رو سے حضرت عیسیؑ جنت میں زندہ ہیں،گو ان کی حیات فرشتوں سے مماثلت رکھتی ہے۔

آیت قرانی اور نزول مسیحؑ

سورہ زخرف مکی سورہ ہے۔اس میں اللہ تعالی نے مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے مختلف انبیائے کرام کی مثالیں بیان فرمائی ہیں تاکہ وہ کفر کی راہ ترک کر کے دین اسلام اختیار کر لیں۔سورہ کی آیات 57تا 67میں حضرت عیسیؑ اور ان کے متبعین کا تذکرہ فرمایا گیا ۔کئی مفسرین سمجھتے ہیں کہ آیت 61میں نزول مسیحؑ کو قیامت آنے کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔تاہم اس خیال پر سبھی مفسر متفق نہیں۔

آیت 61کے آغاز میں ''وَاِنّہ''کا لفظ آیا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس لفظ سے ''یہ''مراد ہے۔ لہذا مشہور تابعی مفسرین،حضرت حسن بصریؒ اور سعید بن جبیرؒ نے اس لفظ سے قران پاک مراد لیا ہے۔مطلب یہ کہ انسان قران حکیم کے مطالعے سے کسی حد تک جان سکتا ہے کہ قیامت کب آئے گی۔یہ سو فیصد درست بات ہے۔مگر زیر بحث آیات کے سیاق و سباق میں قران پاک کا ذکر موزوں نہیں بیٹھتا۔یعنی ان آیات کے مطالعے سے آشکارا ہوتا ہے کہ ان میں قران پاک کی طرف اشارہ نہیں فرمایا گیا۔اسی لیے بہت کم مفسرین نے یہ رائے دی ہے۔

مفسرین کی اکثریت کے نزدیک ''وَاِنّہ''سے مراد ''وہ''ہے۔اور یہ حضرت عیسیؑ کی سمت اشارہ کیا گیا۔سیاق وسباق بھی انہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔گویا آیت 61 کے ابتدائی تین الفاظ...''وَاِنّہُ لَعِلم لِّلسَّاعَۃِ'' کے معنی ہوئے:''وہ ( حضرت عیسیؑ) قیامت کی نشانی ہیں۔''اب سوال ابھرتا ہے کہ حضرت عیسیؑ کو قیامت کی نشانی یا اس کا علم رکھنے والا کیوں کہا گیا؟مفسرین کے نزدیک اس لیے کہ حضرت عیسیؑ زمین پہ واپس آ کر اللہ تعالی کے دین کا بول بالا کریں گے۔احادیث میں بھی یہی نکتہ بیان ہوا ہے۔یہ نکتہ نظر رکھنے والوں میں حضرت ابن عباسؓ،حضرت ابوہریرہؓ، مجاہد، عکرمہ، قتادہ، ضحاک اور ابوالعلی جیسے بڑے مفسر شامل ہیں۔جدید مفسرین کی اکثریت بھی یہی رائے رکھتی ہے۔

علامہ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں آیت 61کے ابتدائی تینوں الفاظ کا ترجمہ یہ فرمایا ہے:''وہ قیامت کی نشانی ہیں۔''مگر ان قرانی الفاظ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''ان الفاظ میں حضرت عیسیؑ کے معجزات کا ذکر فرمایا گیا ۔یہ ذکر فرما کر اللہ تعالی نے مشرکین مکہ پر واضح کیا ہے کہ ان معجزوں کو جانو ،دیکھو اور سمجھو کہ اللہ تعالی مردوں کو زندہ کرنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں ۔اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بھی ضرور آ کر رہے گی۔لہذا اللہ تعالی کی پیروی ہی میں بھلائی ہے۔''گویا علامہ ابن کثیر کی رائے میں یہ الفاظ نزول مسیح ؑکی سمت اشارہ نہیں کرتے۔

دور جدید کے بعض مفسرین آیت 60اور آیت61کو ملا کر تینوں الفاظ کی تشریح فرماتے ہیں۔آیت 60میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو تم (انسانوں)میں سے بعض کو فرشتے بنا دیں اور پھر وہ زمین پر ہمارے جانشین بن جائیں گے۔آیت 60کا فرمان الہی مدنظر رکھتے ہوئے یہ مفسرین''وَاِنّہُ لَعِلم لِّلسَّاعَۃِ''کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:''(مگر)یہ اس گھڑی کا علم ہے۔''معنی یہ کہ انسانوں اور فرشتوں کے مابین جو خفیہ و سربستہ معاملات و تعلقات ہیں،ان کا علم یا ذکر قیامت کے دن ظاہر ہو گا۔ابھی پوشیدہ باتیں عیاں کرنے کا موقع اور وقت نہیں آیا۔گویا ان مفسرین نے بھی'' وَاِنّہ''سے ''یہ''مراد لیا ہے۔

اس اختلاف کے باوجود مفسرین کی اکثریت آیت 61سے یہی نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیؑ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔اور یہ آثار قیامت کی اہم نشانی ہے کیونکہ قران حکیم میں اس کا ذکر فرمایا گیا۔اسی آیت کی روشنی میں جامعہ الازہر بھی یہ فتوی جاری کر چکی کہ نزول عیسیؑ برحق ہے۔یہ عمل اپنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سورہ زخرف کی آیت61سورہ النسا کی آیت 159کی تصدیق کرتی ہے۔اس آیت میں اللہ پاک نے فرمایا ہے:''اور اہل کتاب میں جو کوئی بھی ہے، وہ ضرور اس ( حضرت عیسیؑ)پر ایمان لے آئے گا۔اور وہ ( حضرت عیسیؑ) قیامت کے دن ان پہ گواہ ہو گا۔''

حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ نے آیت159کی یہ تشریح فرمائی ہے: ''قیامت سے قبل حضرت عیسیؑ زمین پہ نازل ہوں گے تاکہ اپنے مذہب (عیسائیت) کو درست راستے پر لے آئیں۔یوں ہر عیسائی ان پر ایمان لے آئے گا اور یوم قیامت حضرت عیسیؑ اپنے پیروکاروں کے ایمان لانے کی گواہی دیں گے۔'' ابن عطیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ کے نواسے، حضرت امام حسنؓ کو بھی اس ترجمانی سے اتفاق تھا۔

مسرّت وخوشی کی عظیم خبر

اسلامی عقائد کی رو سے عیسائیت کی مذہبی تعلیمات میں تحریف ہو چکی۔ حضرت عیسیؑ مگر آمد ثانی کے بعد عیسائیت کو اپنی اصل حالت میں لے آئیں گے جو صرف ایک خدا کی فرماں برداری کرنا ہے۔(اسی عمل کو ''اسلام''کہا جاتا ہے)۔سورہ شوری آیت 13میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

''اللہ نے تمھارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر کیا ہے جس کی تاکید اس نے نوحؑ کو کی تھی۔اور جو ہم نے (اے رسول اللہﷺ)تمھاری طرف وحی کیا ہے۔اور جس کی تاکید ہم نے ابراہیمؑ،موسیؑ اور عیسی ؑکو کی تھی کہ اللہ کا دین قائم کرو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔''

درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ نزول مسیحؑ اہل زمین کے لیے ایک بہت بڑا واقعہ اور انقلاب انگیز خبر ہو گی۔کیونکہ حضرت عیسیؑ کی آمد ثانی سے عیسائیت دوبارہ اللہ تعالی کے دین کی حیثیت اختیار کر لے گی۔یوں دنیا کے دو سب سے بڑے مذاہب کے مابین اختلافات دو ر ہوں گے اور کرہ ارض امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے گا۔احادیث نبوی ﷺ میں اسی زمانے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

گویا حضرت عیسیؑ کی زمین پر دوبارہ تشریف آوری عیسائیت اور اسلام،دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے خوشی ومسّرت کی خبر ہو گی۔اس موقع پر زندہ اور مردہ نیکوکار پُرسکون اور مطمئن ہوں گے۔جبکہ گناہ گاروں پر شدید خوف طاری ہو جائے گا کیونکہ عنقریب دوزخ کے در ہمیشہ کے واسطے ان پہ کھل جائیں گے۔اسی دن(یوم ِقیامت)مقام ِمحمود پہ تشریف فرما سید المرسلینﷺ بحکم الہی انسانوں کے لیے شفاعت کا وسیلہ بننے کا بلند ترین درجہ پائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔