ہماری تنظیم بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب پورے ملک کے بچوں کیلئے کام کرتی ہے
با صلاحیت طلباء کی مدد کرکے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دینے سے معاشرتی سطح پر کثیر جہتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
لاہور:
تاریخ عالم گواہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم محض اپنی حکومت پر انحصار کر تے ہوتے ترقی کی منازل طے نہیں کر پائی۔ صرف انہی اقوام کو آج دنیا میں نمایاں مقام حاصل ہے جن کے لوگوں نے اپنے طور پر خود وسائل فراہم کر کے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ ان کوششوں میں صاحب ثروت لوگوں کا بھی بڑا حصہ ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں عام لوگوں نے دن رات محنت کر کے خیر کا بڑا ذریعہ فراہم کر دیا۔
پاکستان کے اندر کار خیر کرنے والوں کی کمی نہیں، بہت سی تنظیمیںانسانیت کی فلاح کے لیے سرگرم ہیں۔ ماہ رمضان میں فلاح انسانیت کا جذبہ اور اجر دونوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں سرگرم عمل ان اداروں می ا یک کارروان علم فاونڈیشن بھی ہے۔
کاروان علم فاؤنڈیشن، بے وسیلہ لیکن باصلاحیت طالب علموں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کا مشن ہے کہ پاکستان کے بے وسیلہ ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچایا جائے تاکہ وہ معاشرے کا فعال شہری بن کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
فاؤنڈیشن اب تک سات ہزار سے زائد طلبہ کو 19 کروڑ روپے کے وظائف جاری کر چکی ہے۔ اب بھی ملک بھر سے اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہونے والے سینکڑوں طالب علم منتظر ہیں کہ کاروان علم فاؤنڈیشن ان کا دست و بازو بنے، تاکہ وہ یکسو ہو کر اپنی تعلیم مکمل کریں اور پھر اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کی ترقی اور نیک نامی کا ذریعہ بنیں۔
اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد ارشاد صوفی ہیں جو پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، اپنی صحافتی زندگی میں انہوں نے ریڈیو کے لیے بھی لکھا، اردو اور پنجابی میں پروگرام کیے۔ایک نجی ٹی وی چینل پر کرنٹ افیئرز کا پروگرام بھی کیا۔ ایک موٹیویشن کا پروگرام بھی کیا، جس میں کامیاب لوگوں کی کہانیاں ناظرین کے سامنے پیش کیں۔ 2001ء میں اردو ڈائجسٹ سے وابستہ ہوگئے۔ اسی میں 2002ء میں شائع ہونے والے ان کے نیچر پر انہیں اے پی این ایس سے سال کے بہترین فیچر رائٹر کاایوارڈ ملا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم نے اردو ڈائجسٹ کے پلیٹ فارم سے غیررسمی طور پر ذہین طلبہ کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد شروع کیا، جس نے کچھ ہی عرصے میں کاروان علم فاؤنڈیشن کی شکل اختیار کر لی اور یہ پہلے دن سے ہی اس کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ اس تنظیم کا نام بھی انہوں نے تجویز کیا۔
ایکسپریس نے کارروان علم فاونڈیشن کی خدمات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے خالد ارشاد صوفی سے ایک آن لائن گفتگو کا اہتمام کیا جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
سوال: فاؤنڈیشن کا پس منظر کیا ہے اور کون سے مقاصد آپ کے سامنے تھے؟
خالد ارشاد صوفی: کاروان علم فاؤنڈیشن بناتے ہوئے ہمارا آئیڈیا یہی تھا کہ پاکستان کے وسائل سے محروم ذہین بچوں کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچائیں، اور ان کے لیے سازگار حالات پیدا کرکے انہیں آگے آنے اور ملک اور معاشرے کے لیے بہترین کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ہم چاہتے تھے تعلیم کے شعبے میں جو پاکستان کے باصلاحیت نوجوان ہیں۔
ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ہمارا مشن اور سلوگن بھی یہی ہے: Save and Promote Resource less Talent of Pakistan۔پس منظر یہ ہے کہ 2002ء میںایک خبر چھپ گئی تھی کہ میٹرک کے امتحان میں 850 میں سے ایک طالبہ نے 810 نمبر حاصل کیے لیکن اس کے پاس داخلے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے کہا کہ تفصیل معلوم کریں۔ میں نے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ فیملی خوشحال ہے، وہ خبر غلط فہمی کی بنیاد پر چھپی تھی۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ پوزیشن ہولڈرز کے اعزاز میں کوئی تقریب ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ بورڈ میں پندرہ بیس منٹ کی ایک تقریب ہوتی ہے، جس میں طلبہ کو گولڈ، سلور میڈل وغیرہ دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان طلبہ کے اعزاز میں کچھ کرنا چاہیے۔ پھر ہم نے 2002ء میں پنجاب کے آٹھ تعلیمی بورڈ ز میں، سائنس اور آرٹس کے شعبے میں، پہلی تین پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علموں کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد کیا۔ وہ بھی مشکل کام تھا۔ بورڈز، سکولوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے ہم نے ڈیٹا اکٹھا کیا۔ سکول ان دنوں بند تھے، کیونکہ عموماً نتائج گرمیوں کی چھٹیوں میں آتے ہیں۔ میں نے خود مختلف اداروں میں لوگوں کو فون کیے، ان سے ملنے گیا۔ تو ہم نے ڈیٹا اکٹھا کر کے سب طالب علموں کو لاہور بلایا۔ تقریب میں بچوں نے اپنی کہانیاں سنائیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان تقاریب میں بھی 80فیصد بچے سفید پوش گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ راولپنڈی بورڈ میں جس طالب علم نے پوزیشن حاصل کی وہ ایک غریب ریٹائرڈ فوجی کا بیٹا تھا، جو فالج کا شکار تھا۔ ملتان میں جس بچے نے ٹاپ کیا وہ ڈھائی مرلے کے گھر میں رہتے تھے۔
اس کی کہانی بھی میری کتاب میں شامل ہے۔ اس چھوٹے سے گھر میں آٹھ دس لوگ رہ رہے تھے۔ وہ بچہ سکول کے گراؤنڈ میں شام تک بیٹھ کر پڑھتا اور اس کے بعد باہر سڑک پر کھمبے کے ساتھ جو لائیٹ لگی ہوتی ہے، اس کی روشنی میں پڑھتا رہا ہے۔ تو ہمیں اسی وقت احساس ہو گیا کہ فلاح اورخیر کے دوسرے کاموں کے ساتھ نوجوانوں کی تعلیم کے لیے بھی کام ضروری ہے۔
جو صحت مند نوجوان ہے، اگر وہ اچھے نمبر لے رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پڑھنا چاہتا ہے۔ تو ہم نے فیصلہ کیا کہ بے سہارا لیکن باصلاحیت طلبہ کا دست و بازو بننا ہے۔2002ء میں غیر رسمی طور پر اس ادارے کو بنایا اور 2003ء میں باقاعدہ آغاز ہوا۔آغاز ہم نے بہت معمولی وسائل سے کیا تھا، پھر بتدریج لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا۔ ہم سے خصوصاً میڈیا کے دوستوں نے بہت تعاون کیا۔ اخبارات اور جرائد میں کالم اورمضامین لکھے گئے۔ اس سے بھی ہمیں بڑی تقویت ملی۔ پھر جنہوں نے ہمیں عطیات دیئے، انہوں نے جب دیکھا کہ یہ ادارہ بہت اچھا اور درست سمت میں کام کر رہا ہے تو انہوں نے بھی ہمیں سراہا۔ اس طرح ہم آگے بڑھتے گئے۔
سوال: فاؤنڈیشن طلبہ کے لیے کیا خدمات انجام دیتی ہے؟
خالد ارشاد صوفی: ہمارا مرکزی کام تو یہی ہے کہ ہم اُن ضرورت مند لیکن ذہین طلبہ کو تعلیم کے لیے سکالرشپ دیتے ہیں، جو پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں میرٹ پر داخل ہو جائیں اور انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہو۔ اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ ایک ذہین بچہ کسی سرکاری ادارے میں میرٹ پر داخلہ لے لیتا ہے، جہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس کی دوتین سال مدد کرتے ہیں تو وہ ڈاکٹر، انجینئر، سافٹ ویئر ماہر، سماجی علوم کا ماہر یا وکیل بن کر معاشرے کا فعال شہری بن جاتا ہے۔اور اس کا ایک مثبت پہلونہیں، اس کے تہہ در تہہ فائدے ہیں۔
مثال کے طور پر جب آپ ایک ٹیلنٹیڈ آدمی کو اس کی اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم سے ہم کنار کرنے میں مدد دیتے ہیں تو سب سے پہلے تو وہ خودکفیل بن جاتا ہے۔ اپنے خاندان کا سہارا بن جاتا ہے۔ جب وہ کمانے کے قابل بن جاتا ہے تو کسی بھی ملک میں جتنے فعال شہری ، ہنرمند اور باصلاحیت افراد ہوتے ہیں، وہ ملک اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ افراد سے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ وہ جو شعر ہے: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر/ہر شخص ہے ملک کے مقدر کا ستارہ۔ تو وہ نہ صرف اپنی ذات اور خاندان کے لیے بلکہ معاشرے اور ملک کا سہارا بنتا ہے۔ جب وہ اپنے خاندان کا سہارا بنتا ہے تو اس کے بہن بھائی اور اہل خانہ بھی اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے ہیں اور پڑھ لکھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم سپیشل طلبہ کی بھی مدد کرتے ہیں۔ عمومی طور پر طلبہ کی رہنمائی کے لیے بھی ہماری ویب سائیٹ موجود ہے۔
سوال: فاؤنڈیشن کن طلبہ کو وظائف جاری کرتی ہے؟
خالد ارشاد صوفی: طالب علم کے میٹرک میں کم از کم پچھتر فیصد نمبر ہوں اور والدین کی مالی حیثیت ایسی نہ ہو کہ وہ اسے آگے کی تعلیم دلا سکیں تو پھر ہم اسے سکالرشپ جاری کر دیتے ہیں۔ ہم انٹرمیڈیٹ سے ماسٹرز لیول تک کی تعلیم کے لیے وظائف دیتے ہیں۔ بچے کے کوائف کی تصدیق کا ہمارا ایک میکنزم بنا ہوا ہے۔ تمام درسگاہوں سے ہمارا باقاعدہ رابطہ ہے۔ ہر تعلیمی ادارے میں جو طلباء کے معاملات یا وظائف کا جو شعبہ ہوتا ہے، ان سے ہم رابطے میں ہوتے ہیں۔ بچے کی تصدیق، تحقیق تب ہی ہوتی ہے۔ اور ہمیں یونیورسٹی بتاتی ہے کہ یہ بچہ ضرورت مند ہے، اس کی مدد کریں۔ ہم انٹرمیڈیٹ سے ماسٹرز لیول تک وظائف دیتے ہیں ۔
بچے کا کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی، میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں میرٹ پر داخل ہونا ضروری ہے۔ سرکاری اداروں کا اس لیے لازمی کیا کہ وہاں پر میرٹ اور تعلیم ہے۔ میرٹ اسی لیے ہے ناں کہ وہاں بچے پڑھنا چاہتے ہیں۔ اب یو ای ٹی، کنگ ایڈورڑ اور نشتر میڈیکل کالج ہیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان یا اندرون سندھ ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار، بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ ان سب کا میرٹ ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کی فیس تھوڑی ہے، یہ ادارے سفید پوش بچوں کے لیے ہیں، اور ان کی بھی جو فیس نہ دے سکے، اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی ضرورت مند ہے، اسے آپ زکوتہ اور عطیے کی رقم اکٹھی کر کے دے سکتے ہیں۔
سوال: یہ وظائف کن تعلیمی شعبوں میں دیئے جاتے ہیں اور اس ضمن میں کسی قسم کا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے؟
خالد ارشاد صوفی: ہم ہر بامقصد تعلیم کے لیے سکالرشپ فراہم کرتے ہیں۔ پہلے تو میں انٹرمیڈیٹ تک بتا دوں۔ ایف اے ، ایف ایس سی، آئی کام، آئی سی ایس ہے۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ لیول پہ تین سال کا ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کا ایک ڈپلوما ہوتا ہے، ان کو سکالر شپ دیتے ہیں۔ پھر گریجویشن لیول پر آ جائیں۔ گریجویشن لیول پہ پچھلے کچھ برسوں سے آنرز پروگرام ہو رہے ہیں۔ تو اس میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میڈیکل، انجینئرنگ، کامرس، کمپیوٹرسائنسز، منیجمنٹ اور سوشل سائنسز، ان تمام شعبوں میں اب ہماری سکالر شپ جا رہی ہیں۔ میڈیکل میں ایم بی بی ایس اور ڈاکٹر آف وٹرنری سائنسز کو تو دے ہی رہے ہیں، لیکن ڈاکٹر آف فارمیسی اور ڈاکٹر آف فزیوتھراپی کو بھی سکالرشپ دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی چار سالہ ڈگریاں ہیں، جیسے لیبارٹریز کے ایکسرے کرتے ہیں۔ ایمرجنگ سائنسز، پیرامیڈیکل سٹاف میں جو مختلف کورسز ہیں ان سب کے لیے وظائف دے رہے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس، بی کام آنرز کے بچوں کو بھی دے رہے ہیں۔ بی اے، ایل ایل بی کے طلبہ بھی شامل ہیں۔ سوشل سائنسز کے طلباء بھی ان میں شامل ہیں، کاروان علم فاؤنڈیشن بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب، پورے پاکستان کے بچوں کے لیے کام کر تا ہے۔ پاکستان کا کوئی ایسا قابل ذکر سرکاری تعلیمی ادارہ یا یونیورسٹی نہیں ہے، جہاں کاروان کے تعاون سے بچے نہ پڑھ رہے ہوں۔
سوال: مختلف طالب علموں کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، تو آپ کیسے وظیفے کی رقم کا تعین کرتے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: ہماری سکالر شپ فکس نہیں ہے۔ ہم ہر طالب علم کی درخواست کا انفرادی جائزہ لیتے ہیں اور ان سے والدین کی طرح پیش آتے ہیں۔ ان کے والد، سرپرست کی آمدنی کا جائزہ لیتے ہیں، اس کے خاندان کی جانچ کرتے ہیں۔ وہ جس تعلیمی ادارے میں ہے، وہاں کے اخراجات دیکھ کر پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر ہم اس کے تعلیمی اخراجات، سالانہ فیس وغیرہ بھی دیتے ہیں۔ اگر وہ ہوسٹل میں ہے تو ہوسٹل کے بھی سالانہ اخراجات دیتے ہیں۔ کچھ بچے ہیں جن کے کھانے پینے کے ماہانہ اخراجات ہیں، وہ بھی دیتے ہیں۔ اپنی رہائش رکھنے والے طالب علموں کو تعلیمی ادارے میںآمدورفت کا کرایہ بھی دیتے ہیں۔ کتابوں کے بھی پیسے دیتے ہیں۔
معاون آلات، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وغیرہ لینے ہیں تو ان کے لیے بھی ہم رقم دیتے ہیں۔ بس ہمیں تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے کہ بچے کو واقعی فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ اور آپ کو بتاؤں جو ہمارا سکالرشپ لینے والے ذہین بچے ہوتے ہیں، ان کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کی بھی مدد کرتے ہیں۔ وہ ہمارا ایک بہبود والدین پروگرام ہے، یعنی وہ بچے جو میرٹ پر اچھے تعلیمی اداروں میں چلے گئے لیکن ضرورت مند ہیں، ہم کہتے ہیں کہ انہیں پیچھے والدین کی فکر نہ ہو۔ وہ مکمل یکسوئی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں۔ پھر ہمارے کچھ اصول ہیں۔ سکالر شپ کے دوران بچے اپنے سمیسٹر کے رزلٹ اور حاضری بھیجنے کے پابند ہیں۔ ہر سال ہم ان کا ری نیول فارم جاری کرتے ہیں۔ ہم ایک فہرست بناتے ہیں، بچے کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کی کارکردگی ایک خاص معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس کی کارکردگی معیار سے کم ہوتی ہے تو اسے تنبیہہ کرتے ہیں کہ تعلیم پر توجہ دو۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے ایک سسٹم بنایا ہوا ہے۔ کچھ کیسز میں ایسے ہوا ہے کہ بچے لاپروائی کا شکار ہو گئے تو ایسی صورتحال میں ہم نے ان کے سکالرشپ روک دیے، کسی کی سپلی آ گئی ہے یا کسی وجہ سے ان کا دل تعلیم سے اچاٹ ہو گیا۔ تو بالکل ہم ان کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ ہم وظائف کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔
سوال: فائونڈیشن نے اب تک جو کام کیا ہے اس کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ آپ اس کا کیا اثر دیکھ رہے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی : ایک بچے نے 2002ء میں لاہور بورڈ میں میٹرک کے آرٹس امتحان میں پہلی پوزیشن لی تھی۔ سائنس وہ رکھ سکتا تھا لیکن اس کے چھوٹے سے گائوں کے سکول میں سائنس کے مضامین نہیں پڑھائے جاتے تھے۔ وہ لڑکا میٹرک کے بعد لاہور کے جوہر ٹائون میں کچھ گھروں کی تعمیر میں بطور مزدور کام کرتا رہا ہے۔ بہت غریب گھر کا بچہ تھا۔ کاروان علم فائونڈیشن نے انٹرمیڈیٹ سے ماسٹرز تک اس کی تعلیم کے اخراجات اٹھائے۔ آج وہ ایک پرائیویٹ کالج میں پرنسپل ہیں۔ نہ صرف وہ، بلکہ اس کی فیملی کے حالات بدل گئے۔ آج اس کے پاس تیرہ سو سی سی گاڑی ہے۔ وہ سالانہ بڑے معقول پیسے کمارہا ہے۔ اس نے اپنے بہن بھائیوں کو بھی پڑھایا ہے، جنہوں نے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی اور اپنے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ تو یہ ایک کامیابی کی کہانی (success story) ہے۔ ایسی ہزاروں کہانیاں ہیں جو کاروان علم فائونڈیشن کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔
سوال: آپ کا سارا کام تعلیم سے متعلق ہے، آپ حکومت سے بہتری کے لیے کیا توقع رکھتے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: ہم نے جب یہ کام شروع کیا تو پوزیشن ہولڈرز کی حوصلہ افزائی اور نادار بچوں کی مدد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ پنجاب کی سطح پہ 2008ء میں جو حکومت تھی، ان لوگوں نے تو دو بڑے کام کیے۔ ایک یہی کہ پوزیشن ہولڈرز کو گارڈ آف آنرز، ایوارڈز وغیرہ دینے شروع کیے۔ دوسرا انہوں نے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے نام سے ادارہ بنایا۔ ایسے ادارے ہر صوبے کی ضرورت ہیں۔ وفاقی حکومت کو بھی یہ کام کرنا چاہیے کہ جو طالب علم میرٹ پر کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں داخل ہو گیا ہے تو پھر اس کا پیسوں کی وجہ سے تعلیمی سفر ادھورا نہ رہنے دیا جائے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں تعلیم مفت بھی ہے اور مہنگی بھی ہے۔ تو جو مفت تعلیم والا ماڈل ہے، وہ ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم مفت ہونی چاہیے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہو جاتا تو پھر کاروان علم فائونڈیشن جیسے اداروں کو حکومت اور عوام کی جانب سے فعال بنانا چاہیے۔ تاکہ یہ ادارے قومی فرض ادا کر سکیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک قومی ضریضہ انجام دے رہے ہیں، کیونکہ یہ پوری قوم کا فرض ہے کہ ذہین طالب علموں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مدد دی جائے۔پوری دنیا میں یہ نظام رائج ہے کہ حکومت، غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ ہم چاہیں گے کہ حکومت ہمارا ساتھ دے تاکہ ہم اپنا دائرہ وسیع کریں اور زیادہ سے زیادہ ایسے طالب علموں کی مدد کریں۔ حکومت ہمارے ساتھ مل کے کام کرے تو غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سوال: فائونڈیشن نے اب تک خصوصی طلبہ کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: خصوصی طلباء کے لیے ہمارا میرٹ متعین نہیں ہے۔ کوئی معذوری کا شکار ہے تو ہم پچاس فیصد نمبر والے طالب علموں کو شامل کر لیتے ہیں۔ کیونکہ دوسروں کے مقابلوں میں ان کی ضروریات زیادہ ہوتی ہیں، انہیں ویل چیئرز بھی درکار ہوتی ہیں، تو انہیں وہ بھی دیتے ہیں۔ سپیشل طالب علموں کے لیے ہم نے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن نے پنجاب میں صوبے اور وفاق کے جتنے بھی ادارے ہیں، ان کی تمام فیس معاف کرائی ہے۔ اسی طرح ہم نے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے بچوں کے لیے بھی کیا ہے۔ ان تینوں جگہ خصوصی طالب علموں کے لیے فیس نہیں ہے۔ ہاں اس کے بعد جن اخراجات کے لیے انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ ہم دے دیتے ہیں۔ یہ ان کو بہت بڑا ریلیف ہے جو ہماری کوششوں سے ہوا ہے۔ وفاق اور باقی صوبوں کے لیے بھی ہماری یہ کوشش جاری ہے۔ ہم نے جو حکومت سے نوٹیفکیشن کرایا تھا، اس میں تعلیم کے علاوہ یہ بھی شامل تھا کہ خصوصی بچوں کے لیے تعلیمی اداروں میں الگ سے راہداریاں بنیں گی، باتھ روم بنائے جائیں گے۔ ان کے لیے خصوصی سہولیات کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ وہ آرام سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
سوال: کاروان کتنے طالب علموں کی مدد کر چکی ہے؟ آپ مزید کیا کرنا چاہتے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: فائونڈیشن نے سات ہزار سے زائد طلبہ کے لیے انیس کروڑ کے وظائف جاری کیے ہیں۔ ان میں ساڑھے بارہ سو کے قریب یتیم بچے اور پانچ سو خصوصی طالب علم بھی شامل ہیں۔ مستفید ہونے والے طالب علم میڈیکل، انجینئرنگ، کامرس، اکائونٹینگ، سائنس اور ٹیکنالوجی، کمپیوٹر سائنس اور سوشل سائنس وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ایسے ہزاروں بچوں کی درخواستیں ابھی ہمارے پاس زیرغور ہیں، جو ہماری مدد کے منتظر ہیں۔ ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارا کام دیکھیں۔ ان بچوں سے ملیں جن کا ہم سہارا بنے ہیں اور پھر قوم کے بچوں کا سہارا بنیں۔ اب ہم نے سلوگن دیا ہے کہ ان کے ساتھ قوم کے ایک بچے کو بھی پڑھائیں اور اس کے اخراجات برداشت کریں۔ جو لوگ اپنے تین سے چار بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ سمجھیں کہ ایک بچہ اور ہے۔ ایک اور قوم کے بچے کو پڑھا دیں تو آپ کو فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں غربت بھی بہت ہے، لیکن ٹیلنٹ بھی کم نہیں۔ غریب، سفید پوش گھرانوں کے بچوں میں بہت ٹیلنٹ ہے۔
سوال: کاروان علم فائونڈیشن کا سٹرکچر کیا ہے؟
خالد ارشاد صوفی: کاروان علم فائونڈیشن ایک خودمختار این جی او ہے، گیارہ افراد پر مشتمل اس کا بورڈ ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اس کے بانی تھے۔ پہلے اس کے چیئرمین ایس ایم ظفر تھے۔ آج کل ہمارے چیئرمین مجیب الرحمٰن شامی ہیں۔ ایس ایچ ہاشمی، اشتہارات کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام تھا، اس کے بانی وائس پریزیڈنٹ تھے۔ اس کے علاوہ مختلف کاروباری شخصیات ہیں، کچھ اور شعبوں کی ممتاز شخصیات ہیں۔ یہ گیارہ افراد کا بورڈ ہے، جو ڈونر بھی ہیں۔ یہ فائونڈیشن سے کچھ لیتے نہیں بلکہ دیتے ہیں۔ تو یہ ریگولیٹری اتھاڑی ہے۔ اس کے بعد پھر منیجمنٹ ہے۔ میں پہلے دن سے ٹیم لیڈر ہوں۔ میرے ساتھ تین افراد کی ایک چھوٹی سی ٹیم ہے، ہم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب ہمیں ضرورت ہو تو کچھ وقت کے لیے کسی کوکام کے لیے بلا لیتے ہیں۔ ہمیں تعلیمی اداروں سے انٹرنیز کی بہت درخواستیں آتی ہیں، یہ بھی ہماری نیک نامی ہے۔ تو وہ چھے آٹھ ہفتوں کے لیے ادھر آ کر کچھ کام کرتے ہیں۔ ہمیں تھوڑا بہت ان سے بھی مدد مل جاتی ہے۔ہمارے پراجیکٹ کی رننگ کاسٹ پانچ سے سات فیصد کے درمیان ہے، باقی طلبہ پر خرچ ہوتا ہے۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم محض اپنی حکومت پر انحصار کر تے ہوتے ترقی کی منازل طے نہیں کر پائی۔ صرف انہی اقوام کو آج دنیا میں نمایاں مقام حاصل ہے جن کے لوگوں نے اپنے طور پر خود وسائل فراہم کر کے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ ان کوششوں میں صاحب ثروت لوگوں کا بھی بڑا حصہ ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں عام لوگوں نے دن رات محنت کر کے خیر کا بڑا ذریعہ فراہم کر دیا۔
پاکستان کے اندر کار خیر کرنے والوں کی کمی نہیں، بہت سی تنظیمیںانسانیت کی فلاح کے لیے سرگرم ہیں۔ ماہ رمضان میں فلاح انسانیت کا جذبہ اور اجر دونوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں سرگرم عمل ان اداروں می ا یک کارروان علم فاونڈیشن بھی ہے۔
کاروان علم فاؤنڈیشن، بے وسیلہ لیکن باصلاحیت طالب علموں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کا مشن ہے کہ پاکستان کے بے وسیلہ ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچایا جائے تاکہ وہ معاشرے کا فعال شہری بن کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
فاؤنڈیشن اب تک سات ہزار سے زائد طلبہ کو 19 کروڑ روپے کے وظائف جاری کر چکی ہے۔ اب بھی ملک بھر سے اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہونے والے سینکڑوں طالب علم منتظر ہیں کہ کاروان علم فاؤنڈیشن ان کا دست و بازو بنے، تاکہ وہ یکسو ہو کر اپنی تعلیم مکمل کریں اور پھر اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کی ترقی اور نیک نامی کا ذریعہ بنیں۔
اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد ارشاد صوفی ہیں جو پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، اپنی صحافتی زندگی میں انہوں نے ریڈیو کے لیے بھی لکھا، اردو اور پنجابی میں پروگرام کیے۔ایک نجی ٹی وی چینل پر کرنٹ افیئرز کا پروگرام بھی کیا۔ ایک موٹیویشن کا پروگرام بھی کیا، جس میں کامیاب لوگوں کی کہانیاں ناظرین کے سامنے پیش کیں۔ 2001ء میں اردو ڈائجسٹ سے وابستہ ہوگئے۔ اسی میں 2002ء میں شائع ہونے والے ان کے نیچر پر انہیں اے پی این ایس سے سال کے بہترین فیچر رائٹر کاایوارڈ ملا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم نے اردو ڈائجسٹ کے پلیٹ فارم سے غیررسمی طور پر ذہین طلبہ کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد شروع کیا، جس نے کچھ ہی عرصے میں کاروان علم فاؤنڈیشن کی شکل اختیار کر لی اور یہ پہلے دن سے ہی اس کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ اس تنظیم کا نام بھی انہوں نے تجویز کیا۔
ایکسپریس نے کارروان علم فاونڈیشن کی خدمات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے خالد ارشاد صوفی سے ایک آن لائن گفتگو کا اہتمام کیا جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
سوال: فاؤنڈیشن کا پس منظر کیا ہے اور کون سے مقاصد آپ کے سامنے تھے؟
خالد ارشاد صوفی: کاروان علم فاؤنڈیشن بناتے ہوئے ہمارا آئیڈیا یہی تھا کہ پاکستان کے وسائل سے محروم ذہین بچوں کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچائیں، اور ان کے لیے سازگار حالات پیدا کرکے انہیں آگے آنے اور ملک اور معاشرے کے لیے بہترین کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ہم چاہتے تھے تعلیم کے شعبے میں جو پاکستان کے باصلاحیت نوجوان ہیں۔
ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ہمارا مشن اور سلوگن بھی یہی ہے: Save and Promote Resource less Talent of Pakistan۔پس منظر یہ ہے کہ 2002ء میںایک خبر چھپ گئی تھی کہ میٹرک کے امتحان میں 850 میں سے ایک طالبہ نے 810 نمبر حاصل کیے لیکن اس کے پاس داخلے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے کہا کہ تفصیل معلوم کریں۔ میں نے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ فیملی خوشحال ہے، وہ خبر غلط فہمی کی بنیاد پر چھپی تھی۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ پوزیشن ہولڈرز کے اعزاز میں کوئی تقریب ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ بورڈ میں پندرہ بیس منٹ کی ایک تقریب ہوتی ہے، جس میں طلبہ کو گولڈ، سلور میڈل وغیرہ دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان طلبہ کے اعزاز میں کچھ کرنا چاہیے۔ پھر ہم نے 2002ء میں پنجاب کے آٹھ تعلیمی بورڈ ز میں، سائنس اور آرٹس کے شعبے میں، پہلی تین پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علموں کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد کیا۔ وہ بھی مشکل کام تھا۔ بورڈز، سکولوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے ہم نے ڈیٹا اکٹھا کیا۔ سکول ان دنوں بند تھے، کیونکہ عموماً نتائج گرمیوں کی چھٹیوں میں آتے ہیں۔ میں نے خود مختلف اداروں میں لوگوں کو فون کیے، ان سے ملنے گیا۔ تو ہم نے ڈیٹا اکٹھا کر کے سب طالب علموں کو لاہور بلایا۔ تقریب میں بچوں نے اپنی کہانیاں سنائیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان تقاریب میں بھی 80فیصد بچے سفید پوش گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ راولپنڈی بورڈ میں جس طالب علم نے پوزیشن حاصل کی وہ ایک غریب ریٹائرڈ فوجی کا بیٹا تھا، جو فالج کا شکار تھا۔ ملتان میں جس بچے نے ٹاپ کیا وہ ڈھائی مرلے کے گھر میں رہتے تھے۔
اس کی کہانی بھی میری کتاب میں شامل ہے۔ اس چھوٹے سے گھر میں آٹھ دس لوگ رہ رہے تھے۔ وہ بچہ سکول کے گراؤنڈ میں شام تک بیٹھ کر پڑھتا اور اس کے بعد باہر سڑک پر کھمبے کے ساتھ جو لائیٹ لگی ہوتی ہے، اس کی روشنی میں پڑھتا رہا ہے۔ تو ہمیں اسی وقت احساس ہو گیا کہ فلاح اورخیر کے دوسرے کاموں کے ساتھ نوجوانوں کی تعلیم کے لیے بھی کام ضروری ہے۔
جو صحت مند نوجوان ہے، اگر وہ اچھے نمبر لے رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پڑھنا چاہتا ہے۔ تو ہم نے فیصلہ کیا کہ بے سہارا لیکن باصلاحیت طلبہ کا دست و بازو بننا ہے۔2002ء میں غیر رسمی طور پر اس ادارے کو بنایا اور 2003ء میں باقاعدہ آغاز ہوا۔آغاز ہم نے بہت معمولی وسائل سے کیا تھا، پھر بتدریج لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا۔ ہم سے خصوصاً میڈیا کے دوستوں نے بہت تعاون کیا۔ اخبارات اور جرائد میں کالم اورمضامین لکھے گئے۔ اس سے بھی ہمیں بڑی تقویت ملی۔ پھر جنہوں نے ہمیں عطیات دیئے، انہوں نے جب دیکھا کہ یہ ادارہ بہت اچھا اور درست سمت میں کام کر رہا ہے تو انہوں نے بھی ہمیں سراہا۔ اس طرح ہم آگے بڑھتے گئے۔
سوال: فاؤنڈیشن طلبہ کے لیے کیا خدمات انجام دیتی ہے؟
خالد ارشاد صوفی: ہمارا مرکزی کام تو یہی ہے کہ ہم اُن ضرورت مند لیکن ذہین طلبہ کو تعلیم کے لیے سکالرشپ دیتے ہیں، جو پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں میرٹ پر داخل ہو جائیں اور انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہو۔ اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ ایک ذہین بچہ کسی سرکاری ادارے میں میرٹ پر داخلہ لے لیتا ہے، جہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس کی دوتین سال مدد کرتے ہیں تو وہ ڈاکٹر، انجینئر، سافٹ ویئر ماہر، سماجی علوم کا ماہر یا وکیل بن کر معاشرے کا فعال شہری بن جاتا ہے۔اور اس کا ایک مثبت پہلونہیں، اس کے تہہ در تہہ فائدے ہیں۔
مثال کے طور پر جب آپ ایک ٹیلنٹیڈ آدمی کو اس کی اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم سے ہم کنار کرنے میں مدد دیتے ہیں تو سب سے پہلے تو وہ خودکفیل بن جاتا ہے۔ اپنے خاندان کا سہارا بن جاتا ہے۔ جب وہ کمانے کے قابل بن جاتا ہے تو کسی بھی ملک میں جتنے فعال شہری ، ہنرمند اور باصلاحیت افراد ہوتے ہیں، وہ ملک اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ افراد سے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ وہ جو شعر ہے: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر/ہر شخص ہے ملک کے مقدر کا ستارہ۔ تو وہ نہ صرف اپنی ذات اور خاندان کے لیے بلکہ معاشرے اور ملک کا سہارا بنتا ہے۔ جب وہ اپنے خاندان کا سہارا بنتا ہے تو اس کے بہن بھائی اور اہل خانہ بھی اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے ہیں اور پڑھ لکھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم سپیشل طلبہ کی بھی مدد کرتے ہیں۔ عمومی طور پر طلبہ کی رہنمائی کے لیے بھی ہماری ویب سائیٹ موجود ہے۔
سوال: فاؤنڈیشن کن طلبہ کو وظائف جاری کرتی ہے؟
خالد ارشاد صوفی: طالب علم کے میٹرک میں کم از کم پچھتر فیصد نمبر ہوں اور والدین کی مالی حیثیت ایسی نہ ہو کہ وہ اسے آگے کی تعلیم دلا سکیں تو پھر ہم اسے سکالرشپ جاری کر دیتے ہیں۔ ہم انٹرمیڈیٹ سے ماسٹرز لیول تک کی تعلیم کے لیے وظائف دیتے ہیں۔ بچے کے کوائف کی تصدیق کا ہمارا ایک میکنزم بنا ہوا ہے۔ تمام درسگاہوں سے ہمارا باقاعدہ رابطہ ہے۔ ہر تعلیمی ادارے میں جو طلباء کے معاملات یا وظائف کا جو شعبہ ہوتا ہے، ان سے ہم رابطے میں ہوتے ہیں۔ بچے کی تصدیق، تحقیق تب ہی ہوتی ہے۔ اور ہمیں یونیورسٹی بتاتی ہے کہ یہ بچہ ضرورت مند ہے، اس کی مدد کریں۔ ہم انٹرمیڈیٹ سے ماسٹرز لیول تک وظائف دیتے ہیں ۔
بچے کا کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی، میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں میرٹ پر داخل ہونا ضروری ہے۔ سرکاری اداروں کا اس لیے لازمی کیا کہ وہاں پر میرٹ اور تعلیم ہے۔ میرٹ اسی لیے ہے ناں کہ وہاں بچے پڑھنا چاہتے ہیں۔ اب یو ای ٹی، کنگ ایڈورڑ اور نشتر میڈیکل کالج ہیں۔ خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان یا اندرون سندھ ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار، بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ ان سب کا میرٹ ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کی فیس تھوڑی ہے، یہ ادارے سفید پوش بچوں کے لیے ہیں، اور ان کی بھی جو فیس نہ دے سکے، اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی ضرورت مند ہے، اسے آپ زکوتہ اور عطیے کی رقم اکٹھی کر کے دے سکتے ہیں۔
سوال: یہ وظائف کن تعلیمی شعبوں میں دیئے جاتے ہیں اور اس ضمن میں کسی قسم کا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے؟
خالد ارشاد صوفی: ہم ہر بامقصد تعلیم کے لیے سکالرشپ فراہم کرتے ہیں۔ پہلے تو میں انٹرمیڈیٹ تک بتا دوں۔ ایف اے ، ایف ایس سی، آئی کام، آئی سی ایس ہے۔ اس کے علاوہ انٹرمیڈیٹ لیول پہ تین سال کا ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کا ایک ڈپلوما ہوتا ہے، ان کو سکالر شپ دیتے ہیں۔ پھر گریجویشن لیول پر آ جائیں۔ گریجویشن لیول پہ پچھلے کچھ برسوں سے آنرز پروگرام ہو رہے ہیں۔ تو اس میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میڈیکل، انجینئرنگ، کامرس، کمپیوٹرسائنسز، منیجمنٹ اور سوشل سائنسز، ان تمام شعبوں میں اب ہماری سکالر شپ جا رہی ہیں۔ میڈیکل میں ایم بی بی ایس اور ڈاکٹر آف وٹرنری سائنسز کو تو دے ہی رہے ہیں، لیکن ڈاکٹر آف فارمیسی اور ڈاکٹر آف فزیوتھراپی کو بھی سکالرشپ دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی چار سالہ ڈگریاں ہیں، جیسے لیبارٹریز کے ایکسرے کرتے ہیں۔ ایمرجنگ سائنسز، پیرامیڈیکل سٹاف میں جو مختلف کورسز ہیں ان سب کے لیے وظائف دے رہے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس، بی کام آنرز کے بچوں کو بھی دے رہے ہیں۔ بی اے، ایل ایل بی کے طلبہ بھی شامل ہیں۔ سوشل سائنسز کے طلباء بھی ان میں شامل ہیں، کاروان علم فاؤنڈیشن بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب، پورے پاکستان کے بچوں کے لیے کام کر تا ہے۔ پاکستان کا کوئی ایسا قابل ذکر سرکاری تعلیمی ادارہ یا یونیورسٹی نہیں ہے، جہاں کاروان کے تعاون سے بچے نہ پڑھ رہے ہوں۔
سوال: مختلف طالب علموں کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، تو آپ کیسے وظیفے کی رقم کا تعین کرتے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: ہماری سکالر شپ فکس نہیں ہے۔ ہم ہر طالب علم کی درخواست کا انفرادی جائزہ لیتے ہیں اور ان سے والدین کی طرح پیش آتے ہیں۔ ان کے والد، سرپرست کی آمدنی کا جائزہ لیتے ہیں، اس کے خاندان کی جانچ کرتے ہیں۔ وہ جس تعلیمی ادارے میں ہے، وہاں کے اخراجات دیکھ کر پھر فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر ہم اس کے تعلیمی اخراجات، سالانہ فیس وغیرہ بھی دیتے ہیں۔ اگر وہ ہوسٹل میں ہے تو ہوسٹل کے بھی سالانہ اخراجات دیتے ہیں۔ کچھ بچے ہیں جن کے کھانے پینے کے ماہانہ اخراجات ہیں، وہ بھی دیتے ہیں۔ اپنی رہائش رکھنے والے طالب علموں کو تعلیمی ادارے میںآمدورفت کا کرایہ بھی دیتے ہیں۔ کتابوں کے بھی پیسے دیتے ہیں۔
معاون آلات، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وغیرہ لینے ہیں تو ان کے لیے بھی ہم رقم دیتے ہیں۔ بس ہمیں تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے کہ بچے کو واقعی فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ اور آپ کو بتاؤں جو ہمارا سکالرشپ لینے والے ذہین بچے ہوتے ہیں، ان کی بیوہ ماؤں اور ضعیف والدین کی بھی مدد کرتے ہیں۔ وہ ہمارا ایک بہبود والدین پروگرام ہے، یعنی وہ بچے جو میرٹ پر اچھے تعلیمی اداروں میں چلے گئے لیکن ضرورت مند ہیں، ہم کہتے ہیں کہ انہیں پیچھے والدین کی فکر نہ ہو۔ وہ مکمل یکسوئی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں۔ پھر ہمارے کچھ اصول ہیں۔ سکالر شپ کے دوران بچے اپنے سمیسٹر کے رزلٹ اور حاضری بھیجنے کے پابند ہیں۔ ہر سال ہم ان کا ری نیول فارم جاری کرتے ہیں۔ ہم ایک فہرست بناتے ہیں، بچے کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کی کارکردگی ایک خاص معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس کی کارکردگی معیار سے کم ہوتی ہے تو اسے تنبیہہ کرتے ہیں کہ تعلیم پر توجہ دو۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے ایک سسٹم بنایا ہوا ہے۔ کچھ کیسز میں ایسے ہوا ہے کہ بچے لاپروائی کا شکار ہو گئے تو ایسی صورتحال میں ہم نے ان کے سکالرشپ روک دیے، کسی کی سپلی آ گئی ہے یا کسی وجہ سے ان کا دل تعلیم سے اچاٹ ہو گیا۔ تو بالکل ہم ان کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ ہم وظائف کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔
سوال: فائونڈیشن نے اب تک جو کام کیا ہے اس کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ آپ اس کا کیا اثر دیکھ رہے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی : ایک بچے نے 2002ء میں لاہور بورڈ میں میٹرک کے آرٹس امتحان میں پہلی پوزیشن لی تھی۔ سائنس وہ رکھ سکتا تھا لیکن اس کے چھوٹے سے گائوں کے سکول میں سائنس کے مضامین نہیں پڑھائے جاتے تھے۔ وہ لڑکا میٹرک کے بعد لاہور کے جوہر ٹائون میں کچھ گھروں کی تعمیر میں بطور مزدور کام کرتا رہا ہے۔ بہت غریب گھر کا بچہ تھا۔ کاروان علم فائونڈیشن نے انٹرمیڈیٹ سے ماسٹرز تک اس کی تعلیم کے اخراجات اٹھائے۔ آج وہ ایک پرائیویٹ کالج میں پرنسپل ہیں۔ نہ صرف وہ، بلکہ اس کی فیملی کے حالات بدل گئے۔ آج اس کے پاس تیرہ سو سی سی گاڑی ہے۔ وہ سالانہ بڑے معقول پیسے کمارہا ہے۔ اس نے اپنے بہن بھائیوں کو بھی پڑھایا ہے، جنہوں نے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی اور اپنے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ تو یہ ایک کامیابی کی کہانی (success story) ہے۔ ایسی ہزاروں کہانیاں ہیں جو کاروان علم فائونڈیشن کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔
سوال: آپ کا سارا کام تعلیم سے متعلق ہے، آپ حکومت سے بہتری کے لیے کیا توقع رکھتے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: ہم نے جب یہ کام شروع کیا تو پوزیشن ہولڈرز کی حوصلہ افزائی اور نادار بچوں کی مدد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ پنجاب کی سطح پہ 2008ء میں جو حکومت تھی، ان لوگوں نے تو دو بڑے کام کیے۔ ایک یہی کہ پوزیشن ہولڈرز کو گارڈ آف آنرز، ایوارڈز وغیرہ دینے شروع کیے۔ دوسرا انہوں نے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے نام سے ادارہ بنایا۔ ایسے ادارے ہر صوبے کی ضرورت ہیں۔ وفاقی حکومت کو بھی یہ کام کرنا چاہیے کہ جو طالب علم میرٹ پر کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں داخل ہو گیا ہے تو پھر اس کا پیسوں کی وجہ سے تعلیمی سفر ادھورا نہ رہنے دیا جائے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں تعلیم مفت بھی ہے اور مہنگی بھی ہے۔ تو جو مفت تعلیم والا ماڈل ہے، وہ ہمیں اختیار کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم مفت ہونی چاہیے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہو جاتا تو پھر کاروان علم فائونڈیشن جیسے اداروں کو حکومت اور عوام کی جانب سے فعال بنانا چاہیے۔ تاکہ یہ ادارے قومی فرض ادا کر سکیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک قومی ضریضہ انجام دے رہے ہیں، کیونکہ یہ پوری قوم کا فرض ہے کہ ذہین طالب علموں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مدد دی جائے۔پوری دنیا میں یہ نظام رائج ہے کہ حکومت، غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ ہم چاہیں گے کہ حکومت ہمارا ساتھ دے تاکہ ہم اپنا دائرہ وسیع کریں اور زیادہ سے زیادہ ایسے طالب علموں کی مدد کریں۔ حکومت ہمارے ساتھ مل کے کام کرے تو غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سوال: فائونڈیشن نے اب تک خصوصی طلبہ کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: خصوصی طلباء کے لیے ہمارا میرٹ متعین نہیں ہے۔ کوئی معذوری کا شکار ہے تو ہم پچاس فیصد نمبر والے طالب علموں کو شامل کر لیتے ہیں۔ کیونکہ دوسروں کے مقابلوں میں ان کی ضروریات زیادہ ہوتی ہیں، انہیں ویل چیئرز بھی درکار ہوتی ہیں، تو انہیں وہ بھی دیتے ہیں۔ سپیشل طالب علموں کے لیے ہم نے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ کاروان علم فائونڈیشن نے پنجاب میں صوبے اور وفاق کے جتنے بھی ادارے ہیں، ان کی تمام فیس معاف کرائی ہے۔ اسی طرح ہم نے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے بچوں کے لیے بھی کیا ہے۔ ان تینوں جگہ خصوصی طالب علموں کے لیے فیس نہیں ہے۔ ہاں اس کے بعد جن اخراجات کے لیے انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ ہم دے دیتے ہیں۔ یہ ان کو بہت بڑا ریلیف ہے جو ہماری کوششوں سے ہوا ہے۔ وفاق اور باقی صوبوں کے لیے بھی ہماری یہ کوشش جاری ہے۔ ہم نے جو حکومت سے نوٹیفکیشن کرایا تھا، اس میں تعلیم کے علاوہ یہ بھی شامل تھا کہ خصوصی بچوں کے لیے تعلیمی اداروں میں الگ سے راہداریاں بنیں گی، باتھ روم بنائے جائیں گے۔ ان کے لیے خصوصی سہولیات کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ وہ آرام سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
سوال: کاروان کتنے طالب علموں کی مدد کر چکی ہے؟ آپ مزید کیا کرنا چاہتے ہیں؟
خالد ارشاد صوفی: فائونڈیشن نے سات ہزار سے زائد طلبہ کے لیے انیس کروڑ کے وظائف جاری کیے ہیں۔ ان میں ساڑھے بارہ سو کے قریب یتیم بچے اور پانچ سو خصوصی طالب علم بھی شامل ہیں۔ مستفید ہونے والے طالب علم میڈیکل، انجینئرنگ، کامرس، اکائونٹینگ، سائنس اور ٹیکنالوجی، کمپیوٹر سائنس اور سوشل سائنس وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ایسے ہزاروں بچوں کی درخواستیں ابھی ہمارے پاس زیرغور ہیں، جو ہماری مدد کے منتظر ہیں۔ ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارا کام دیکھیں۔ ان بچوں سے ملیں جن کا ہم سہارا بنے ہیں اور پھر قوم کے بچوں کا سہارا بنیں۔ اب ہم نے سلوگن دیا ہے کہ ان کے ساتھ قوم کے ایک بچے کو بھی پڑھائیں اور اس کے اخراجات برداشت کریں۔ جو لوگ اپنے تین سے چار بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ سمجھیں کہ ایک بچہ اور ہے۔ ایک اور قوم کے بچے کو پڑھا دیں تو آپ کو فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں غربت بھی بہت ہے، لیکن ٹیلنٹ بھی کم نہیں۔ غریب، سفید پوش گھرانوں کے بچوں میں بہت ٹیلنٹ ہے۔
سوال: کاروان علم فائونڈیشن کا سٹرکچر کیا ہے؟
خالد ارشاد صوفی: کاروان علم فائونڈیشن ایک خودمختار این جی او ہے، گیارہ افراد پر مشتمل اس کا بورڈ ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اس کے بانی تھے۔ پہلے اس کے چیئرمین ایس ایم ظفر تھے۔ آج کل ہمارے چیئرمین مجیب الرحمٰن شامی ہیں۔ ایس ایچ ہاشمی، اشتہارات کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام تھا، اس کے بانی وائس پریزیڈنٹ تھے۔ اس کے علاوہ مختلف کاروباری شخصیات ہیں، کچھ اور شعبوں کی ممتاز شخصیات ہیں۔ یہ گیارہ افراد کا بورڈ ہے، جو ڈونر بھی ہیں۔ یہ فائونڈیشن سے کچھ لیتے نہیں بلکہ دیتے ہیں۔ تو یہ ریگولیٹری اتھاڑی ہے۔ اس کے بعد پھر منیجمنٹ ہے۔ میں پہلے دن سے ٹیم لیڈر ہوں۔ میرے ساتھ تین افراد کی ایک چھوٹی سی ٹیم ہے، ہم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب ہمیں ضرورت ہو تو کچھ وقت کے لیے کسی کوکام کے لیے بلا لیتے ہیں۔ ہمیں تعلیمی اداروں سے انٹرنیز کی بہت درخواستیں آتی ہیں، یہ بھی ہماری نیک نامی ہے۔ تو وہ چھے آٹھ ہفتوں کے لیے ادھر آ کر کچھ کام کرتے ہیں۔ ہمیں تھوڑا بہت ان سے بھی مدد مل جاتی ہے۔ہمارے پراجیکٹ کی رننگ کاسٹ پانچ سے سات فیصد کے درمیان ہے، باقی طلبہ پر خرچ ہوتا ہے۔