سارے رنگ

سماجی حلقوں کے اختلاف رائے برداشت نہ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی سنگین یا جان لیوا قدم اٹھاتے ہیں۔

سماجی حلقوں کے اختلاف رائے برداشت نہ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی سنگین یا جان لیوا قدم اٹھاتے ہیں۔

ISLAMABAD:
مختلف رائے ڈنکے کی چوٹ پر دیجیے!

اگر آپ اپنی عقل اور شعور کے مطابق کوئی الگ رائے رکھیں گے اور لوگوں کی عام باتوں کے بہائو میں نہیں بہیں گے، تو یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ سب لوگ آپ سے بد گمان ہونے لگتے ہیں، جن سے آپ اختلاف کر رہے ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ آپ صرف وہی بات کریں، جو وہ چاہتے ہیں، صرف اسی خیال کی تائید کریں، جو ان کا ہے۔۔۔ چاہے وہ دن کو رات کہہ دیں یا رات کو دن کہنے پر بہ ضد ہوں، آپ بس ہاں میں ہاں ملائے جائیے۔۔۔ خبردار، جو ذرا سوال کرنے یا اختلاف کرنے کی جرأت کی۔۔۔ حکومت اور ریاست تو خوامخواہ بدنام ہے، یہاں تو سماجی حلقے بھی تنقید یا جداگانہ رائے کو جگہ دینے پر تیار نہیں، بہ الفاظ دیگر سبھی یہ کہتے ہوئے محسوس ہوتے ہیںکہ 'مستند ہے میرا فرمایا ہوا!'

سماجی حلقوں کے اختلاف رائے برداشت نہ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی سنگین یا جان لیوا قدم اٹھاتے ہیں، بلکہ وہ یہ کرتے ہیں کہ جب بھی یہ چار لوگ یک جا ہوتے ہیں، تو اختلاف کرنے والے پانچویں کو ایک مخصوص 'دائرے' میں قید کر لیتے ہیں، اور پھر اس پر اپنے تئیں کوئی چھاپ بھی لگا دیتے ہیں کہ یہ دراصل فلاں سوچ کا حامل ہے یا فلاں طرزِ فکر کا شخص ہے، اس لیے تو یہ ہماری باتوں سے متفق نہیں۔ پُرلطف بات یہ ہے کہ جس کی چھاپ لگائی جا رہی ہوتی ہے، وہاں والے بھی کبھی کسی اور بات پر عدم اتفاق کے سبب اس پر کوئی اور چھاپ لگا کر اسے کنارے کر دیتے ہیں۔۔۔

عدم قبولیت یا 'سماجی تنہائی' کی اس تکلیف دہ صورت حال سے بچنے کے لیے پھر آپ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اب کیا لوگوں سے جدا رہنا ہونٹ سی لیے جائیں، اپنے الفاظ کی تلخی کو بڑھنے نہ دیا جائے اور اپنے اظہارِرائے کے حق کا دَم گھونٹ دیا جائے، تاکہ ہم بھی ان نام نہاد پڑھے لکھوں سے 'کَٹا' نہ دیے جائیں۔۔۔ مگر چوں کہ آپ اپنی سرشت میں یک سر 'غیر جانب دار' ہو کر بیٹھنا چاہ رہے ہیں، یہ بھی مختلف 'لابیوں' کو قبول نہیں ہوتا اور اختلاف کی 'پچھلی کارکردگی' کے باعث آپ سے مکمل 'وفاداری' اور اندھی تائید اور حمایت کا تقاضا ہوتا ہے، جو کہ ظاہر ہے آپ نہیں کرتے۔۔۔ جس کے نتیجے میں اِن سماجی جَتھوں کے ہاں آپ کا وہی 'تشخص' برقرار رہتا ہے، جو انھوں نے طے کیا ہوا ہوتا ہے۔

آپ ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے، ان کے لوگوں کو جائز وناجائز سے بالاتر ہوکر ہر جگہ انھیں آگے نہیں بڑھاتے اور 'انجمنِ ستائش باہمی' میں بے جا 'واہ، واہ' کے ڈونگرے نہیں برساتے، اس لیے آپ اپنا اتنا دَم گھونٹ کر بھی خود کو ایسے طعنے تشنے اور الزامات سے نہیں بچا پاتے اور آخر کو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جب قدرت نے آپ کو واقعی باضمیر بنایا ہے اور ایک حساس دل دیا ہے، تو جان لیجیے کہ آپ اپنے جیسے دکھائی دینے والے دیگر لوگوں کی طرح نہیں ہیں، آپ دنیا کے نفع ونقصان اور دو جمع دو کے قاعدے کو سمجھ ہی نہیں سکتے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کھل کر اپنی بات کہیے اور لکھیے، آپ چاہ کر بھی ان مفاداتی انجمنوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔

اس لیے پھر کیوں ایسوں کی خاطر اپنی زندگی کو مزید گھٹن سے دوچار کریں اور پھر بھی وہی کہلائیں، جو کہلاتے آئے ہیں۔ اس لیے ہمیں تو اس کا یہی حل دکھائی دیتا ہے کہ ڈنکے کی چوٹ پر ایسے کڑوے، ناگفتنی اور ناپسندیدہ سچ اور اپنے دل کی آوازوں کو راہ دیجیے، جنھیں اچھا نہیں لگتا، تو انھیں آپ کے محتاط انداز کے باجود بھی تو اچھا نہیں لگتا۔ وہ اگر اب آپ کی بات پڑھ کر یا آپ کا نام سن کر تیوریاں چڑھاتے ہیں، تو وہ آپ کی احتیاط پسندی کے باوجود بھی اس سے باز نہیں رہتے۔ تاہم آپ کے کھل کر کہنے سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ کہیں نہ کہیں حق کی صدا ضرور گونج جائے گی اور شاید کچھ لوگوں کا بھلا بھی ہو جائے، اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم ازکم آپ کو خودساختہ جبر اور گھٹن سے تو نجات رہے گی۔۔۔!

کھجور یا 'Dates'
ظہیر انجم تبسم، خوشاب


ہمارے ایک دوست جو کسی انٹرنیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے لیکن اب ریٹائر ہو چکے ہیں، باتوں باتوں میں ایک واقعہ سنانے لگے۔ دفتر میں کام اور اسٹاف کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ایک ٹیلی فون آپریٹر کی بہت اشد ضرورت ہے۔ کئی امیدوار آئے۔ انٹرویو اور انتخاب کا فرض مجھے سونپا گیا۔

ایک 25 سالہ قبول صورت لڑکی مجھے پسند آگئی۔ اس کی خاص خوبی یہ تھی کہ اسے کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا گویا کہ وہ ہفت زبان تھی۔ علم و ادب کی بھی کافی دل دادہ تھی۔ ایک لڑکی کے آجانے کی وجہ سے دفتر میں چہل پہل پیدا ہوگئی اور عملے میں ایک خاص جوش و خروش نظر آنے لگا۔ عملے کے بیش تر ارکان بہانے تلاش کر کے اس کے کمرے میں جانے آنے لگے اور ہنسی مذاق کر کے اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتے۔ لیکن لڑکی سمجھ دار تھی۔

اس نے کسی کو بھی ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ بعض اوقات میرا دل اس کے پاس جانے کو بے چین ہو جاتا، لیکن میرے عہدے کا تقاضا تھا کہ میں اپنا بھرم قائم رکھوں۔ لہٰذا دل مسوس کر رہ جاتا۔ ایک سال گزر گیا۔ ایک دن اس کی درخواست میری میز پر آئی۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حج پر جانا چاہتی ہے، لہٰذا ایک ماہ کی چھٹی عنایت فرمائی جائے۔میں نے اس کی رخصت منظور کرلی۔ ایک ماہ بعد وہ اپنے کام پر حاضر ہوگئی۔

اب لوگوں کو بہانہ میسر آگیا۔ ہر شخص مبارک باد دینے کے لیے اس کے گرد چکر کاٹنے لگا اور ہر ایک کی کوشش یہی ہوتی کہ وہ اس وقت جائے جب کمرے میں کوئی اور نہ ہو۔ میں نے بھی دوسرے دن موقع نکالا اور سلام دعا کے بعد حج کی مبارک باد دی اور پھر خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ''ہاں تو اب DATES کب دے رہی ہیں۔'' یہ سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ وہ روہانسی سی ہوگئی اور رقت آمیز لہجے میں کہنے لگی۔ ''میں تو کب سے آپ کے قریب ہونا چاہ رہی تھی، مگر آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔ اب میں حج کر آئی ہوں تو آپ DATES مانگ رہے ہیں۔''

نورا۔۔۔
مبین امجد
نورا سارا دن اپنے کنگھے، شیشے، قینچیاں اور استرے ایک تختے پر جمائے بیٹھا بڑے بزرگوں کے ساتھ ملکی وغیر ملکی خبریں سنتا اور ان پہ تبصرے بھی کرتا رہتا۔ گاوں کے لوگوں نے روس کے پہلی بار کتا چاند پر بھیجنے کی خبر بھی نورے نائی کے ریڈیو پر ہی سنی تھی۔ دن بھر نورے کے پاس جمگھٹا لگا رہتا۔ بابوں کی دل چسپی کا ہر سامان جو وہاں موجود ہوتا تھا۔ خبریں اگلتا ریڈیو، ہنستے مسکراتے اپنے ہم عمر، گڑگڑ کرتا حقہ اور مسلسل دھواں اور چائے کی خوش بو چھوڑتا سماوار۔ مگر نورا اپنی بھاری ذمہ داری والی جاب کی وجہ سے تبصروں میں کم ہی حصہ لیتا۔ ہاں اگر کوئی خبر اس کے مطلب کی ہوتی تو اس کے استرے تلے آئے بندے کی شامت آجاتی۔۔۔ شیو یا حجامت کرتے ہوئے وہ اکثر کٹ لگا دیتا۔

اکثر شام کی اذان کے بعد وہ ریڈیو کو اونچی آواز میں چلا کر گھڑونچی پر رکھ دیتا۔ ایسے میں لاہور اسٹیشن سے موسیقی کا پروگرام نشر ہوتا تو گاؤں بھر کی عورتیں بھی اس سے لطف اندوز ہو لیتیں۔ رومانوی گیتوں پر گائوں بھر کی مٹیاریں پیا ملن کی آس میں ٹھنڈی میٹھی آہیں بھرتیں۔ اور اگر کبھی ہجر کا گیت آرہا ہوتا تو وہ تمام عورتیں گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں بھر کر اپنا غم غلط کرلیتیں جن کے محبوب محاذ پر گئے ہوئے ہوتے۔ نورے نائی کا ریڈیو واحد ایسی شے تھا، جو گائوں بھر کے بچوں، بزرگوں اور عورتوں میں یک ساں مقبول تھا۔ایسے ہی ایک دن شام ڈھلے جب بادل ہواؤں سے اٹھکھیلیاں کر رہے تھے ، نورے نے ریڈیو چلا کر باہر رکھ دیا۔ اور لاہور اسٹیشن سے ہواؤں کے دوش پر اقبال بانو کی آواز اپنا جادو جگا رہی تھی 'پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے؛ تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے؛ تو پیا سے مل کر آئی ہے؛ بس آج سے نیند پرائی ہے؛ دیکھے گی سپنے بالم کے؛ تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے؛ پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔ اچانک موسیقی روک کر خبروں کا بلیٹن چلنے لگا۔

خبروں کے مطابق ایک ایسی بیماری پیدا ہو گئی تھی، جو ایک سے دوسرے کو اور دوسرے سے تیسرے کو لگ جاتی ہے۔ ایسے میں سرکار نے گھروں سے نکلنے اور تمام تر مجلسیں ترک کر دینے کا قانون پاس کر دیا تھا۔ اور نورا، جو مجلسی اور یار باش آدمی تھا اس خبر سے ڈھے گیا۔ پورے گاؤں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ اور اگلے کچھ ہی دنوں میں گلیاں سنسان ہو گئیں۔ لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ تک کرنے سے گئے۔ جانے کیسی بیماری تھی جس نے بندے کو بندہ نہیں رہنے دیا تھا۔۔ ہر ایک کو دوسرا انسان بھوت نظر آتا۔ ہر ایک دوسرے سے ڈرا ہوا اور بند دروازے کے پیچھے خود کو محفوظ سمجھتا تھا۔

ٹاہلی کے نیچے نورا اکیلا ہی بیٹھا رہتا، حقے کی محفلیں ختم ہوئیں اور سماوار سے خوش بو اور دھواں چھوٹنا بند ہو گیا۔ خوف وہراس کی اس فضا میں شام کی موسیقی کا پروگرام بھی اختتام کو پہنچا۔ لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے سے ترس گئے۔ اخیر وہ بھی گھر میں ہی رہنے لگا اور تخت بالکل ویران ہو گیا۔ ہاں وہ اکثر اکیلا ہی ریڈیو سنا کرتا۔ ایسے میں خدا کی رحمت ہوئی اور حکومتی پالیسیوں ، ڈاکٹروں کی شبانہ روز و ان تھک کوششوں اور کاوشوں سے اس بیماری پہ قابو پا لیا گیا۔

ایک دن نورا اپنی کھاٹ پر پڑا ہوا ریڈیو سن رہا تھا کہ سرکار کی جانب سے عوام کو اس بیماری پر فتح پالینے کی خوش خبری سنائی گئی۔ یہ سن کر تو نورے کو لگا جیسے ایک بار پھر بہار لوٹ آئی ہے۔ اس نے یکایک آواز بڑھا کر ریڈیو کو گھڑونچی پر رکھ دیا۔ گاؤں والے جو پہلے ہی بہت ڈرے ہوئے تھے یہ آواز سن کر اور بھی ڈر گئے اور انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔

نورا مگر اگلے دن صبح دم ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے حقے میں چلم بھری، سماوار دھو کر اس میں پتی ڈالی، ریڈیو میں نئے سیل ڈالے اور ٹاہلی کے نیچے اپنے تختے پہ جا پہنچا۔ وہاں جھاڑو دی اور ٹاہلی کے خشک پتوں کو آگ لگائی، ریڈیو کو تیز آواز میں چلا کر سماوار میں چائے بنانے لگا۔ اور گاؤں کے لوگوں کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ مگر گاؤں والوں نے وہ اعلان سنا ہوتا تو پھر آتے ناں۔ وہ اکیلا بیٹھا ریڈیو سنتا رہا اور چائے کی پیالیاں پیتا رہا۔


دوسرے دن اس نے پھر یہی کیا، مگر بے سود۔۔۔ پھر تیسرے دن بھی کوئی نہ آیا۔ وہ روزانہ آتا مگر اکیلا بیٹھا رہتا۔ سرکار وقفے وقفے سے خوشخبری سناتی رہتی مگر اب وہ ریڈیو کی آواز اونچی نہ کرتا، کیوں کہ اسے لگتا تھا کہ اب اس گاؤں میں سوائے اس کے کوئی اور ذی نفس نہیں رہا، جانے لوگ کہاں چلے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ پھر خوف وہراس کا شکار ہوتا چلا گیا۔

آج تیرھواں دن تھا، گاؤں اسی طرح ویران اور سنسان تھا۔ اور آج اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ اگر اب کوئی نہ آیا تو وہ بھی یہ گاؤں چھوڑ جائے گا۔ اخیر جب سائے لمبے ہونے لگے، تو وہ اپنا سامان باندھنے لگا کہ اتنے میں نمبردار اس کی طرف آ نکلا۔ پہلی نظر میں تو وہ اسے کسی بھوت کی طرح لگا، کیوں کہ اس کے سر اور داڑھی کی بال بڑھے ہوئے تھے۔ نورا تو غش کھا کر ایسا گرا کہ پھر اٹھ نہ سکا۔ گاؤں کے لوگوں نے سوچا شاید یہ اسی خطرناک بیماری سے مر گیا ہے۔ کسی نے بھی اس کی میت کو ہاتھ نہ لگایا۔۔ اور اس کی لاش کئی روز کھلے آسمان تلے پڑی رہی۔کہنے والے کہتے ہیں کہ نورے کی لاش کی یہ بے حرمتی قدرت کو منظور نہ ہوئی اور جلد ہی اس گاؤں کو سیلاب نے آن لیا۔ اور وہ گاؤں آج تک آباد نہ ہو سکا۔ اور وہاں کی زمین بنجر ہوگئی۔

ہم عینک پہن کر اسکول کیوں گئے تھے؟
سلیمان شاہ، کراچی
کلاس سوئم کی بات ہے جب ہم نے مس شمیم کو پہلی دفعہ اپنے منگیتر ہارون سر سے سرگوشیاں کرتے دیکھا تو دل ڈوب سا گیا۔

سرگوشیاں ہمارے لیے ہرگز معیوب نہیں بشرطے کہ ہارون سر کی جگہ ہمیں رکھا جاتا۔

قریب ہوئے تو مس شمیم کہتی نظر آئیں۔
''ہارون تم پر عینک بہت جچتی ہے۔''
جسے سن کر ہارون سر شرمائے اور مس شمیم مسکرائیں۔
ہم نے عزم بالجزم کرلیا کہ مس شمیم کو اپنی عینک سے متاثر کرنا ہے، ہو نہ ہو یہ عینک ہی ہے، جس نے ہارون سر کو سرگوشیوں کے لائق بنایا ہے!
سوچ و بچار میں گھر تو آگئے لیکن عینک اب کہاں سے لائیں؟
کیسے مس شمیم کو اپنی شخصیت سے متاثر کریں؟
دفعتاً خیال دادی ماں کی عینک پر گیا جسے ہم نے فقط دادی ماں کو محلے میں عورتوں کی لڑائی میں ہی پہنتے دیکھا تھا!
اگلے دن عینک ناک پر سجا کر کلاس پہنچے تو سبھی بچے ہنسنے لگے ہمیں ہنسی بالکل نہ آئی!
ایک عہد تھا جو خود سے کیا اور جسے نبھانا تھا!
مس شمیم آئیں، ہمیں دیکھا تو ہماری طرف ہی اس بت طناز کے قدم اٹھنے لگے۔
لیکن یہ کیا وہ تو پھنکارتے ہوئی آگے بڑھیں۔
کان مروڑتے پوچھنے لگیں یہ کیا مصیبت ناک پر رکھی ہے؟
کس کا چشمہ ہے؟
جواب دیا ہمارا اپنا ہے!
نمونے! شکل دیکھی ہے اپنی؟
ایک تو اتنی موٹی ناک اس پر سوا کلو کی عینک رکھ لی تم نے مس شمیم نے غصے سے کہا!
یہاں قارئین کو یہ بات مدنظر رکھنی ہے کہ خاکسار ناک میں فربہی بکثرت رکھتا ہے۔
دوسرا کان مروڑتے ہوئے سچ سچ بتاؤ یہ کس کا چشمہ اٹھا لائے۔؟
جواب ندارد
ہاتھ سے پکڑ کر دفتر لے گئیں اور ہمارا منہ اسکول اسٹاف کے آگے کیا تو میڈم سمیت سارا اسٹاف ہنسنے لگا جس میں ہارون سر پیش پیش تھے، صاف لگ رہا تھا وہ ہم سے اور ہماری عینک سے جل رہے ہیں!
جلد ہی یہ عقدہ کھل گیا کہ عینک ہماری نہیں بلکہ دادی ماں کی ہے۔
اتنے میں چچا اسکول آئے، ان کے تیور ایسے تھے جیسے وہ ہم سے دادی ماں کی عینک بازیاب کرانے نہیں، بلکہ دادی ماں کو بازیاب کرانے آئے ہیں۔
خیر جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔
گھر پہنچے تو چچا صحن میں ہی گھوم رہے تھے، بستے سمیٹ اٹھا کر اندر لے گئے باقاعدہ میرے جبڑے نکالنے کی سازش کی گئی کہ میں بتادوں عینک کیوں لے کر گیا تھا؟
دادی ماں وقفے وقفے سے رانوں پر تسبیح کے وار کرتی ہوئی پوچھ رہی تھی بتا محلے کی کس عورت نے تجھے ایسا کرنے کو کہا؟
اماں آئی بہلا پھسلا کر لے گئی، سر پر ہاتھ پھیرا، منہ دھلوایا پھر کہنے لگی بتاتا کیوں نہیں دادی ماں کی عینک کیوں لے کر گیا تھا؟
گویا وہ عینک نہ ہوئی گھر کی تجوری ہوگئی۔
پر ہم نے بھی آج تک زبان نہیں کھولی اور اب تک یہ بات صیغہ راز میں ہے کہ ہم وہ عینک اسکول کیوں لے کر گئے تھے!
Load Next Story