سفارتی دنیا کے نام

ارباب اختیار سفارتی محاذ پر سکون اور تدبر و شائستگی کی فضا بحال کرنے کی سعی کریں۔


Editorial May 08, 2021
ارباب اختیار سفارتی محاذ پر سکون اور تدبر و شائستگی کی فضا بحال کرنے کی سعی کریں۔ فوٹو:فائل

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سمندر پار پاکستانی ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، سفارتخانوں کا پاکستانی شہریوں کے ساتھ نوآبادیاتی دور والا رویہ ناقابل قبول ہے، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ پن سے محفوظ رہا، ہم اپنے شہریوں کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتے۔

دنیا بھر میں تعینات پاکستانی سفراء سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا اوورسیز پاکستانی ہماری سب سے بڑی طاقت ہیں، ان کی ترسیلات زر سے پاکستان کا معاشی نظام چل رہا ہے، بیرون ملک سفارتخانوں میں محنت کش پاکستانی شہریوں کے ساتھ نوآبادیاتی دور جیسا رویہ روا رکھا جاتا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانہ میں کچھ پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی، پاکستان سٹیزن پورٹل پر بھی سفارتخانہ کے خلاف بہت ساری شکایتیں ملیں، پاکستانی سفارتخانے جس طرح چل رہے ہیں اس طرح مزید نہیں چل سکتے۔

جس طرح سفارتخانوں کے رویے ہیں اس طرح انگریزوں کی نوآبادکاری تو چل سکتی ہے پاکستان کا نظام اس طرح نہیں چل سکتا، وہ دن گئے جب لندن میں ایک پاکستانی سفیر انگریزوں سے مل کر خوش ہوتا تھا، نہ تو انھوں نے ملک میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے شہریوں کی خدمت کی۔ بھارتی سفارتخانے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے زیادہ متحرک ہیں۔ مجھے بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کا پرانا تجربہ ہے، سفارتی عملہ محنت کش طبقہ کے ساتھ انتہائی ناروا رویہ رکھتا ہے حالانکہ وہ مشکل اور انتہائی نامساعد حالات میں 12،12گھنٹے کام کرتے ہیں۔

پاکستانی سفارتخانوں کے ذریعے اپنے شہریوں کو17مختلف خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ سٹیزن پورٹل پر غیر ضروری تاخیر اور سفارتی عملے کی غیر موجودگی کی شکایات موصول ہوئیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای سے پاکستان میں سب سے زیادہ ترسیلات زر آتی ہیں۔

کویت میں پاکستانی سفارتخانے میں نادرا کے عملے کی جانب سے250 درہم رشوت لینے کی شکایت موصول ہوئی جب کہ سٹیزن پورٹل پر رشوت ستانی کی شکایت پر سفیر نے کوئی کارروائی نہیں کی، حیرت ہے کہ سفارتخانے کے اندر فراڈ ہو رہا ہے لیکن سفیر کوئی کارروائی نہیں کر رہا، پاکستانی سفارتخانوں کی جانب سے شکایات کے ازالے کے بجائے روایتی جواب دیا جاتا ہے، ہماری خواہش ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے سفیروں کا رویہ بہتر رہے لیکن بدقسمتی سے عوامی شکایات کے ازالہ کے لیے سفارتخانوں میں کوئی نظام نہیں ہے۔

وزیر اعظم نے سٹیزن پورٹل کو سفارتخانوں سے لنک کرنے کی ہدایت کی اور وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ خصوصی افسر تعینات کرے جو صرف شکایات کی نگرانی کرے، سفارتخانوں کو جس قسم کا تعاون چاہیے فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانے اپنی کارکردگی اور شہریوں سے رویہ ٹھیک کریں، سفارتخانے پاکستانی قیدیوں کی مدد کے لیے وکیل اور قانونی چارہ جوئی کا انتظام کریں۔

انضمام شدہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے جائزہ اجلاس میں وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ انضمام شدہ علاقوں کے حوالے سے آیندہ سال کے بجٹ میں مقامی قیادت اور عوامی نمایندوں کی مشاورت سے ان منصوبوں کو ترجیح دی جائے جو عوام کی فوری ضرورت ہیں، ترقیاتی عمل کو عوام کی حمایت سے آگے بڑھایا جائے، 48 ارب روپے کے ریکارڈ ترقیاتی فنڈز کی فراہمی انضمام شدہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمارے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انھوں نے ہدایت کی کہ ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت کی مانیٹرنگ اور مقررہ اہداف کے بروقت حصول پر نظر رکھنے کے لیے وفاق اور صوبائی حکومت کے نمایندگان پر مبنی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

وزیر اعظم عمران خان کے پاکستانی سفیروں سے خطاب کے مضمرات اور اثرات پر ردعمل شروع ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کو درپیش مسائل اور شکایات پر خارجہ سیکریٹریز، دفتر خارجہ کے سینئر افسروں، سفیروں، ہائی کمشنروں، ڈپٹی ہائی کمشنروں اور فارن آفس سے وابستہ خارجہ امور کے ماہرین نے وزیر اعظم کے ویڈیو لنک پر خطاب کو انتہائی سنجیدگی سے سنا، سفارتی ذرایع کا کہنا تھا کہ خطاب غیر متوقع تھا، وزیر اعظم سخت برہمٕ تھے، انھیں سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل نے بلاشبہ سخت الجھن میں ڈالا تھا، وہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے والا ہر اول دستہ تھے، اور وزیر اعظم کو ان پر بڑا مان تھا، اس لیے ان تک سٹیزن پورٹل کے حوالے سے جو شکایات جمع ہوتی نظر آئیں۔

اس کا ردعمل تو ان کی طرف سے آنا ناگزیر تھا تاہم سفارتی ذرایع نے جس اجتماعی رنجش کا اظہار کیا ہے وہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بہرحال سفارتی اور نظریاتی و فکری طور پر خارجہ تجربات، تہذیبی وراثت کو جو خارجہ ماہرین کے ذریعے ریاستی سوچ کو پہنچتی رہی ہے اس کی توقیر میں کمی نہی آنی چاہیے، یہ احسن اقدام ہوگا کہ سمندر پار پاکستانیوں کی مشکلات کم ہوں، ان کو ہر ممکن سہولیات مہیا کی جائیں۔

سفارت خانہ کے ماتحت سفارتی عملہ اہل وطن اور خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں، محنت کشوں کو کسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، حکومت سمندر پار پاکستانیوں کی خدمت کا جو جذبہ رکھتی ہے اس کا سفارت خانے اور سفارت خانہ کا عملہ ہمہ وقت ادراک کریں اور جن بنیادی سہولتوں کی سمندر پار پاکستانی ڈیمانڈ کرتے ہیں وہ بلا شبہ کسی دشواری کے بغیر انھیں دستیاب ہونی چاہئیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سفارتی امور اور اہل وطن کے مفادات مشترکہ ہیں، دنیا میں جہاں کہیں سفیر موجود ہیں، ان کا اہل وطن سے رشتہ جسم اور روح کا ہے، سفیر بر بنائے عہدہ ملکی نمایندگی کرتے ہیں جب کہ سمندر پار پاکستانی اپنی محنت، افرادی قوت، وطن کے پرچم اور پاکستان کی شناخت کو عالمگیر بنیاد پر فروغ دیتے ہیں، وہ بھی پاکستان کے سفیر ہی کہلاتے ہیں، وہ وطن کے ہیرو ہیں، اگر اس انداز نظر کو وزیر اعظم کے خطاب سے ہم آہنگ کیا جائے تو سفرا برادری کا گلہ بار خاطر ہر گز نہ ہوگا۔

ڈپلومیٹک ماہرین کو اندازہ ہوگا کہ ملک ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے، سیاسی افراط و تفریط، اور ہیجانی اظہار رائے کا سیاسی دباؤ سے بچنا ممکن نہیں، جذباتیت نے سیاسی ڈکشن اور ڈپلومیسی کو بھی لہجے کے زوال اور بحران سے متاثر کیا ہے، مکالمہ میں جارحیت کے آثار نمایاں ہیں، معتبر سفارتی ذرایع کا یہ رنج قابل غور ہے کہ ڈپلومیٹک مسائل، خارجہ امور کے حساس معاملات ٹویٹ سے حل نہیں ہونے چاہئیں، سفارت کو سیاسی تلخیوں سے الگ رکھنا چاہیے۔

خارجہ امور کی ذہنی وراثت، کثیر وزنی دلائل و استدلال پر سیاسی جارحیت کا غلبہ ملکی مفادات کے حق میں نہیں، سفارتی شعبہ دلائل کی بنیاد مضبوط رکھے تو پاکستان کسی کیس میں کمزور نہیں ہو سکتا۔ ہماری سفارتی تاریخ شاندار ماضی کی حامل ہے، اس پر قوم کو اعتبار ہے اور انشاء اللہ سفارتی میدان میں پاکستانی ماہرین خارجہ امور اور سفیران ملک ایسے انتظامی معاملات سے بحسن وخوبی نمٹ لیں گے۔

ویڈیو لنک خطاب اور اس پر سفارتی رد عمل بھی فطری تھا، وزیر اعظم نے نوآبادیاتی طرز عمل اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی پر زور دیا اور کہا کہ سفیر محنت کش پاکستانیوں کو درپیش مسائل اور مصائب کے حل پر توجہ دیں، وہ دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں تعینات کیے گئے ہیں، ان کے کار منصبی کثیر جہتی ہیں، اہل وطن کی خدمت کریں، انتھک خدمت شرط ہے، ان کے پاسپورٹ، شناختی کارڈ کے اجرا، تجدید، ویزا، ازدواجی معاملات، تنازعات، ملازمتوں میں درپیش مسائل، تنخواہوں کے معاملات، بیروزگاری، ڈسپلن، محکمہ جاتی یا دیگر مشکلات کے ازالے کی جملہ کوششوں میں اہل وطن جو مدد یا سہولت چاہتے ہیں، وہ انھیں ملنی چاہیے۔

وزیر اعظم کا رد عمل فارن آفس کے لیے حیران کن تھا، خارجہ ماہرین نے کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں ایسا درد انگیز اور اضطراب انگیز رد عمل سفرا برادری کو کبھی موصول نہیں ہوا اور الیکٹرانک میڈیا پر ملکی دفتر خارجہ کے ماہرین کے لیے یہ تجربہ ناقابل یقین بیان کیا گیا ہے، دوسری جانب سمندر پار پاکستانیوں نے وزیر اعظم کو مبارک باد دی اور پاکستانی سفارتخانوں کے طرز عمل، ان کے عدم تعاون، سرد مہری اور بے حسی کے خلاف شدید ردعمل میں پاکستانی مشنز پر زور دیا کہ وہ اس صورتحال کا کوئی بہتر حل نکالیں۔

وزیر اعظم نے مسائل پر عوامی برہمی کی نمایندگی کی، اپنے سفیروں کی توہین نہیں کی، میڈیا کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ متعلقہ سفارتی مشنز عملہ کو اپنے فرائض کی بجاآوری پر مجبور کریں انھیں بتائیں کہ حکومت ان کے معاملات میں غیر انسانی تغافل اور تساہل سے واقف ہے، اب ان کے مسائل کی گونج انٹرنیشنل میڈیا پر بھی آ چکی ہے، اس لیے حقائق پر بلا جواز بحث ومباحثہ کی حوصلہ افزائی مناسب نہیں، صورتحال کے صائب حل کا مداوا کیا جائے۔

دوسری جانب میڈیا ماہرین کا کہنا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل، شکایات اور انٹر ڈپارٹمنٹل معاملات کے ازالے کے لیے متعدد چینلز روبہ عمل لائے جا سکتے تھے، ملکی پورٹل کو اس مقصد کے لیے مزید بہتر انداز میں کام میں لایا جا سکتا تھا، سفارتکاری کو نازک، نفیس، تخلیقی، انتہائی حساس اور تفکر و دور اندیشی کے ساتھ انجام تک پہنچایا جاسکتا تھا، اب بھی تدبر کے ساتھ سیاسی جذباتیت اور سنسنی خیزی کو شکست دی جا سکتی ہے، سفارتکاری اور امور خارجہ کے معاملات اس نہج پر لائے گئے جہاں دشمن ملک کے میڈیا کو اسے رنگ آمیزی، حاشیہ آرائی اور دو طرفہ معاملات میں فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا، بھارتی میڈیا نے سمندر پار پاکستانیوں کے محنت مزدوری کے موضوع پر نمک مرچ لگا کر ماحول خراب کیا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار سفارتی محاذ پر سکون اور تدبر و شائستگی کی فضا بحال کرنے کی سعی کریں، پاکستان کو عالمی سطح پر ایک پرامن، دوستانہ، امن دوست اور توازن و بردباری کی فضا پیدا کرنے کی عالمی کوششوںکو مہمیز کرنے کی کامیاب سفارت کاری میں پہل کرنی چاہیے، اس ایشو کو بڑے تدبر، سنجیدگی اور کمال مہارت سے لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں