لاک ڈاؤن سے پہلے بازاروں میں شدید رش ایس او پیز نظرانداز

محدوداوقات کے سبب بازاروںاورمارکیٹوں میں رش بڑھ گیا، خریداروں کی کوشش تھی کہ آخری روزکسی طرح کپڑے اور جوتے خرید لیں۔

معاشی مسائل سے متوسط وغریب طبقے کی قوت خریدجواب دے گئی، پچھلی عید پر بھی لاک ڈاؤن تھا اور اب بھی وہی صورتحال ہو گئی۔ فوٹو : فائل

کراچی کے بازاروں میں لاک ڈاؤن سے ایک روز قبل بازاروں مارکیٹوں اور تجارتی مراکز اور دکانوں پر شدید رش کے باعث کورونا ایس او پیز کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا۔

ایکسپریس نے عید خریداری کے حوالے سے مارکیٹوں کا سروے کیا تو عید خریداری سے متعلق مختلف اشیا فروخت کرنے والے دکاندار محسن علی ، شاہد بھٹی اور دیگر نے بتایا کہ پچھلی عید پر کورونا کے سبب لاک ڈاؤن تھا اور بہت ہی کم دنوں کے لیے مارکیٹیں اور بازار کھلے تھے، اسی لیے لوگوں نے محدود خریداری کی، کورونا کی تیسری لہر اب بھی جاری ہے۔

معاشی مشکلات کے سبب متوسط اور غریب طبقے کی 50 فیصد سے بھی زائد قوت خرید کم ہو گئی ہے، زیادہ تر لوگوں کی کوشش ہے کہ وہ تیار شدہ ملبوسات اپنے اور اہل خانہ کے لیے خریدیں، مارکیٹوں میں رش تو بہت دیکھنے میں آر ہا ہے، اگر کوئی خاتون خریداری کے لیے آتی ہیں تو گھر کی دو سے تین خواتین ان کے ہمراہ ہوتی ہیں یہی حال لڑکوں کا بھی ہے مارکیٹوں میں خریدار کم ہیں اور گھومنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ عید سے 5 روز قبل لاک ڈاؤن کے سلسلے میں مارکیٹیں اور بازار بند کر دیے گئے ہیں جس کے سبب عید سیزن کی خریداری تقریبا 30 سے 40 فیصد کم ہوگی، حکومت مارکیٹوں اور بازاروں کو عید تک کھولنے کی اجازت دے۔

کورونا ایس او پیزاور پابندیوں سے خواتین بناؤ سنگھار سے محروم

خواتین عید کے موقع پر بناؤ سنگھار کیسے کریں گی، کورونا ایس او پیز اور پابندیوں نے خواتین کو عید کی تیاریوں سے محروم کردیا ہے، عید سے قبل تمام بیوٹی پارلرز بند رہیں گے، اس حوالے سے مقامی بیوٹیشن حرا خان نے بتایا کہ حکومت سندھ کے احکامات کے مطابق 9 مئی سے بیوٹی پارلرز بند ہو جائیں گے ، انہوں نے کہا کہ اس پابندی کی وجہ سے بیوٹی پارلرز کایہ عید سیزن تقریبا ختم ہو گیا ہے۔

مقامی سطح پر بیوٹی پارلرز کا کام کرنے والی خواتین پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہیں اس عید سے قبل بھی خواتین کو اپنے بناؤ سنگھار کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا زیادہ تر خواتین عید سے قبل اپنے بالوں کی کٹنگ ، فیشل ، تھریڈنگ اور اپنے بناؤ سنگھار کے لیے بیوٹی پارلرز کا رخ کرتی ہیں اور عید کے لیے مہندی لگواتی ہیں ، تاہم اب علاقائی سطح پر ہوسکتا ہے کہ کچھ بیوٹی شن اپنے قریبی جاننے والی خواتین کو ہوم سروس مہیا کریں یا پھر ایک ہی مقام پر ایس او پیز کے مطابق صرف مہندی لگا دیں تاہم یہ سب بھی مشکل نظر آتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب یہی ہو گا کہ خواتین اپنے گھروں میں خود ہی فیشل کریں گی اور مہندی لگائیں گی اس صورتحال کے سبب خواتین اور بچیوں کی بڑی تعداد نے مارکیٹوں اور بازاروں میں موجود اسٹالوں سے کون مہندی خرید لی ہیں تاکہ وہ عید پر گھروں میں ہی اپنے ہاتھوں پر مہندی لگا سکیں۔

مردوں نے پشاوری، بلوچی چپل اورکٹ شوز خریدے

عیدالفطر کے موقع پر مارکیٹوں اور بازاروں میں مردانہ ، زمانہ اور بچوں کے مختلف اقسام کے جوتے اور چپلیں فروخت ہوئیں، مقامی دکاندار عاطف انصاری نے بتایا کہ شلوار قمیص پر زیادہ تر لوگ پشاوری ، بلوچی سینڈل ، کٹ شوز ، مختلف اقسام کی چپلیں فروخت ہورہی ہیں ، یہ چپلیں ، جوتے اور سینڈلز 500 روپے سے لے کر 2 ہزار روپے کے درمیان ہے جبکہ طبقہ اشرافیہ مختلف برانڈز کی چپلیں ، جوتے اور سینڈلز خریدنا پسند کرتا ہے جن کی قیمتوں ان کے ڈیزائن ، کوالٹی اور برانڈ کے حساب سے ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عید کے حوالے سے خواتین اور بچیوں کے لیے مختلف اقدام کی مقامی سطح پر تیار شدہ فلیٹ چپلیں زیادہ فروخت ہو رہی ہیں، اس کے علاوہ خواتین سینڈلز اور کٹ شوز بھی فروخت ہورہے ہیں، خواتین اور بچیوں کی زیادہ ترجیح سادہ اور ڈیزائن والی فلیٹ چپلوں پر مرکوز ہے یہ چپلیں 500 روپے سے لے کر 1500 سو روپے کے درمیان ہے جبکہ بچوں کے لیے عید پر مختلف اقسام اور ڈیزائن کے جوتے ، چپلے اور سینڈلز متعارف کرائے گئے ہیں چھوٹے بچے لائٹ والے جوگر جوتے اور سینڈلز پہننا کرتے ہیں یہ جوتے ، چپلیں اور سینڈلز 500 روپے سے لے کر 2 ہزار روپے تک میں دستیاب ہیں۔

آن لائن عید خریداری میں اضافہ


کورونا وبا کے سبب آن لائن عیدخریداری میں اضافہ ہوگیا ہے اس حوالے سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے زریعے مرد وخواتین اپنے اوربچوں اہل خانہ کے دیگر افراد کے لیے مختلف برانڈز اور دیگر سے تیار شدہ ملبوسات۔جوتے وچپلیں، منصوعی جیولری، کاسمیٹکس اور دیگر خریداری کررہے ہیں۔

ایک گھریلو خاتون جمیلہ مون کا کہنا ہے کہ بازاروں اور مارکیٹوں میں رش کے سبب کورونا ہونے کاخدشہ ہے اس لیے آن لائن خریداری بہتر ہے اس وقت صورتحال میں تیار شدہ ملبوسات کی خریداری بہتر ہے اس طرح گھر میں رہ کر ہم نے محفوظ طریقے سے عید شاپنگ مکمل کی ہے، آن لائن خریداری کے نظام میں بہتری کی ضرورت ہے، آئندہ برسوں میں اب آن لائن خریداری کارحجان بڑھے گا اور اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

مردانہ بغیرسلے کپڑے کا سوٹ ایک سے 3ہزارتک فروخت ہوا

کراچی میں تیار شدہ مردانہ ملبوسات کی خریداری کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد درزیوں سے اپنی پسند کے کپڑے اور ڈیزائن کے مطابق کرتا شلوار اور شلوار قمیض سلوائے، مقامی درزی مقیم ماموں نے بتایا کہ جن لوگوں کی معاشی حالت اچھی تھی انھوں نے رمضان سے قبل ہی مختلف اقسام کے کاٹن اور واشنگ ویئر بغیر سلے مردانہ کپڑے مختلف مارکیٹوں سے خریدے، مردانہ بغیر سلے کپڑے ایک ہزار سے لے کر 3 ہزار یا اس سے زائد تک فروخت کیے گئے شہریوں کپڑا خرید کر اپنے پسند کے درزیوں کو سلائی کے لیے دیا۔

انھوں نے بتایا کہ زیادہ عمر کے لوگ سادہ شلوار قمیض اور کرتا شلوار سلواتے ہیں جبکہ کم عمر افراد اور نوجوان نسل اپنی پسند اور ڈیزائن کے مطابق کالر اور بغیر کالر شلوار قمیض اور کرتا شلوار سلوانا پسند کرتے ہیں انھوںنے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے درزیوں کا سیزن بہت متاثر ہوا ہے اور سلائی کے آرڈرز میں 30 سے 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں میں سلائی کے ریٹ الگ الگ ہیں۔ سادہ اور ڈیزائن والے شلوار قمیض اور کرتا شلوار کی کم سے کم قیمت 800 سے لے کر 1500 روپے کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ درزیوں سے وہ لوگ کپڑے سلواتے ہیں ، جو روز مرہ زندگی میں بھی پینٹ شرٹ کے علاوہ شلوار قمیض پہننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ترجیح تیار شدہ سستے شلوار قمیض اور کرتا شلوار خریدنے پر ہے۔

خواتین نے لان، کاٹن، چکن، شیفون کے بغیرسلے کپڑے بھی خریدے

عید الفطر ہو اور خواتین کی تیاریاں عروج پر نہ ہوں یہ ہو نہیں سکتا، کورونا وبا ہو ، یا خراب معاشی صورتحال ہر لڑکیوں اور خواتین کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ اپنی پسند کے کپڑے ، جوتے اور بناؤ سنگھار کی اشیا خریدیں، اسی لیے شہر قائد کی مارکیٹوں میں خواتین کا رش زیادہ دیکھنے میں آیا ہے، خواتین کے ملبوسات فروخت کرنے والے دکاندار سعد الیاس نے بتایا کہ زیادہ تر خواتین بغیر سلے کپڑے خریدنا پسند کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گرمی کی مناسبت رواں عید سیزن میں خواتین بچیاں مختلف اقسام کی لان ، کاٹن ، چکن ، شیفون ، جارجٹ اور دیگر اقسام کے بغیر سلے کپڑے خریدنے کو ترجیح دی، زیادہ عمر کی خواتین ہلکے اور سادہ ڈیزائن کے بغیر سلے ملبوسات خریدتی ہیں جبکہ کم عمر خواتین گہرے رنگ کے ملبوسات خریدنے کو ترجیح دیتی ہیں، بچیاں زیادہ تر تیار شدہ کرتیاں خریدنے کو پسند کرتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقے کی خواتین رعایتی سیل سے بغیر سلے ملبوسات خریدنا پسند کرتی ہیں، یہ تیار شدہ ملبوسات ایک ہزار سے دو ہزار روپے تک کے درمیان ہیں انھوں نے بتایا کہ خواتین بغیر سلے ملبوسات خرید کر اپنے علاقے میں ہی گھریلو سطح پر کپڑوں کی سلائی کرنے والی خواتین کو یہ کپڑے تیار کرنے کے لیے دیتی ہیں۔

خواتین کے کپڑے سینے والی ایک خاتون بینہ مقدس نے بتایا کہ گھریلو سطح پر جو خواتین کپڑے سیتی ہیں ان کی اجرت ٹیلرز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، زیادہ تر خواتین مختلف اقسام کے کاٹن اور لان کے ڈیزائن والے ملبوسات تیار کروا رہی ہیں اس وقت لمبی قمیضوں ، ٹراؤزر ، پاجاموں کا فیشن چل رہا ہے جبکہ بچیاں کرتا ، جینز کا ٹراؤزر پہننا پسند کرتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹیلروں کی نسبت گھریلو سلائی والی خواتین کے پاس کام زیادہ ہے اور ہم کم سے کم زیادہ سے زیادہ فی جوڑا 400 سے 800 روپے تک سلائی کی اجرت لیتی ہیں۔

 
Load Next Story