پاک سعودی تعلقات کا نیا تناظر
سعودی ولی عہد نے علاقائی سالمیت اور استحکام میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا۔
LONDON:
وزیر اعظم عمران خان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر جمعہ کو سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے' دورے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی کابینہ کے ارکان وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل کے مطابق جدہ ایئرپورٹ پر وزیر اعظم عمران خان کا استقبال سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ بن سلمان نے کیا۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی خودمختاری اور حرمین شریفین کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات خصوصاً عسکری اور دفاعی شعبوں میں تعاون، سیکیورٹی، افغان امن عمل میں پیش رفت سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔
مشرق وسطیٰ کے وسیع تر سیاسی و اسٹریٹیجیکل تناظر میں وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان کے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ سعودی عرب کی خاص اہمیت ہے، صورتحال نے پاکستان کے عالمی اور علاقائی سیاق وسباق میں کثیر جہتی کردار کے کئی زاویے اور تزویراتی پہلو نمایاں کیے ہیں، میڈیا نے دورہ کے انتظامات کا ایک ہنگامی تناظر میں چند غیر معمولی فیصلوں کے امکانات میں جائزہ لیا، کیونکہ سعودی عرب، یمن، ایران، او آئی سی، بھارت، کشمیر اور کنٹرول لائن کی صورتحال سمیت کورونا، ویکسین اور وبائی اموات سے پیدا ہونے والی گمبھیرتا میں پاکستانی کردار کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
سعودی عرب سے پاکستان کی قربت، حرمین شریفین کی سلامتی، دفاع کے معاملات عالم اسلام کے لیے جسم و روح کا درجہ رکھتے ہیں جو تاریخی رشتوں، روایات اور دین و اقدار کے اساسی سوالات سے منسلک ہیں، پاکستان نے سعودی عرب کی سالمیت اور دفاع پر ہمیشہ غیر متزلزل موقف اور اصولی سیاسی استدلال کو پیش نظر رکھا۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام نے اس عہد کی ہر وقت تجدید کی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب سیاسی، سماجی، مذہبی، دینی اور اقتصادی تعاون، شراکت اور معاہدوں میں ایک دوسرے کے ترجیح میں دونوں برادر ملک علاقائی امن، انسانی حقوق اور نوع انسانی کے اقتصادی مقاصد کے حصول میں ہمیشہ شانہ بشانہ رہیں گے، چنانچہ گزشتہ دنوں عالمی سیاست میں پاکستان کو ایران اور سعودی عرب میں معاونت، دوستی، اخوت و اشتراک، سیاسی کشیدگی، تناؤ اور تنازعات کے تصفیہ اور دو برادر ملکوں میں سیاسی ہم آہنگی کی جیسے ہی کوئی نوید ملی۔
وزیر اعظم نے اس موقع کو زریں پیش رفت سمجھتے ہوئے مفاہمت کا خیر مقدم کیا، انھوں نے سعودی ولی عہد کے اس خیر سگالی پیغام کو خوش آیند قرار دیا کہ سعودی عرب ایران کو دوست سمجھتا ہے اور دونوں ملک عالم اسلام کی طاقت ہیں، ان کے مابین مفاہمت، تعلقات، تعاون اور رابطے، خطے علاقے کی ترقی اور عوام میں محبت اور یگانگت و تعمیری سرگرمیوں کے لیے بے حد مفید اور تقاضائے وقت ہے، مبصرین نے بھی اس خیر سگالی کی گرمی کو کھلے دل سے محسوس کیا۔
عرب میڈیا نے اس اطمینان کا اظہار کیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے سیاسی، اقتصادی، فکری اور تہذیبی سطح پر غیر معمولی اقدامات اٹھائے ہیں، سعودی خواتین کے سماجی وقار، اقتصادی استحکام، تعلیمی اور فنون لطیفہ کے حوالے سے اہم فیصلے کرتے ہوئے سعودی عرب کو عہد حاضر کے روشن خیالی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا دلیرانہ اقدام کیا ہے، سیاسی مبصرین کی نگاہیں، سعودی عرب، ایران، یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے سیاسی مسافت کا رخ موڑنے کی کامیاب کوششوں کی منزل جلد حاصل کرلے گی، یقین کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب میں رہنماؤں اور قائدین کے مابین ان ہی خطوط پر تبادلہ خیال جاری ہے۔
خطے میں امن و امان اور علاقائی اسٹریٹجکل مفاہمت، اشتراک و تعاون کو مزید فوقیت ملے گی، مسلم امہ میں اشتراک اور سیاسی یگانگت میں اضافہ ہوگا، دنیا میں امن کی کوششوں کو مزید حمایت حاصل ہوگی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف اور پرنس محمد بن سلمان کی ملاقات میں خطے میں قیام امن کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا بتانا ہے کہ سعودی ولی عہد نے علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پرنس محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات اخوت اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں، دونوں ممالک امن واستحکام اور امت مسلمہ کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق جمعہ کو جدہ میں ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات بالخصوص عسکری اور دفاعی شعبوں میں تعاون اور ترقی کے مواقع سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے جمعرات کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کی۔
سعودی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ شہزادہ خالد بن سلمان نے جدہ میں پاکستان کے آرمی چیف کا خیر مقدم کیا۔ ملاقات کے دوران دونوں برادر ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات خصوصاً دفاعی اور فوجی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ سیکیورٹی اور استحکام بر قرار رکھنے کے لیے مشترکہ تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ یہ ملاقات اور اس میں زیربحث آنے والے ایشوز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان وسیع پیمانے پر تعاون کی باتیں ہوئی ہیں جو کہ ایک اچھی اور مثبت پیش رفت ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے جاری کردہ بیان کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سیکیورٹی کی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔ بیان کے مطابق دورانِ ملاقات افغان امن عمل میں حالیہ پیش رفت، دو طرفہ دفاع، سیکیورٹی، علاقائی امن اور رابطوں کے لیے تعاون کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال گیا۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان، سعودی عرب کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور حرمین شریفین کے دفاع کے لیے پختہ عزم رکھتا ہے۔
سعودی ولی عہد نے علاقائی سالمیت اور استحکام میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات بھائی چارے اور باہمی اعتماد پر قائم ہیں اور دونوں ممالک امن استحکام اور امتِ مسلمہ کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ سعودی قیادت کے ساتھ وزیر اعظم کی مشاورت میں دوطرفہ تعاون کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا جائے گا جس میں معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، پاکستانی افرادی قوت کے لیے ملازمت کے مواقع اور مملکت میں پاکستانی آبادی کی فلاح و بہبود شامل ہیں۔
یاد رہے سعودی عرب 20 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے جنہوں نے دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ باقاعدگی سے اعلیٰ سطح کے دوطرفہ دورے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات اور قریبی تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب نے مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سعودی عرب کے سرکاری دورے پر دوطرفہ تعلقات میں مزید بہتری کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
2018کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان کا سعودی عرب کا یہ تیسرا سرکاری دورہ ہے۔ وزیر اعظم کی آمد کے بعد طے پانے والے معاہدے کے مطابق دونوں ریاستوں کے مابین قریبی رابطہ قائم کرنے کے لیے ایک 'سپریم کوآرڈینیشن کونسل' تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ معاشی تعاون، اسٹرٹیجک شراکت داری، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، ماحولیات اور میڈیا شراکت داری کے شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ وزیر اعظم عمران خان کی آمد کے فوراً بعد ولی عہد انھیں شاہی محل لے گئے جہاں انھوں نے وزیر اعظم کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔
شہزادہ محمد بن سلمان سے ون آن ون ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے مابین وفود کی سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور پاکستانی افرادی قوت کے لیے ملازمت کے مواقع اور مملکت میں پاکستانی کمیونٹی کی بہبود کے امور میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر غور کیا گیا۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی سیاسی ایشوز میں بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے۔
سعودی عرب جس رفتار سے اپنے معاشی اور اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں سعودی عرب ایک جدید اور انڈسٹریلائزڈ ملک ہو گا جس کی معیشت کا انحصار محض تیل پر نہیں رہے گا۔ پاکستان کو بھی معاشی، سیاسی اور اسٹرٹیجک محاذ پر دوررس اثرات کی حامل تبدیلیوں کو بروئے کار لانا ہوگا کیونکہ آج کی دنیا ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ پاکستان کو آج کی دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا اور اس سلسلے میں سعودی عرب کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر جمعہ کو سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے' دورے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی کابینہ کے ارکان وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل کے مطابق جدہ ایئرپورٹ پر وزیر اعظم عمران خان کا استقبال سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ بن سلمان نے کیا۔
ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی خودمختاری اور حرمین شریفین کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات خصوصاً عسکری اور دفاعی شعبوں میں تعاون، سیکیورٹی، افغان امن عمل میں پیش رفت سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔
مشرق وسطیٰ کے وسیع تر سیاسی و اسٹریٹیجیکل تناظر میں وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان کے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ سعودی عرب کی خاص اہمیت ہے، صورتحال نے پاکستان کے عالمی اور علاقائی سیاق وسباق میں کثیر جہتی کردار کے کئی زاویے اور تزویراتی پہلو نمایاں کیے ہیں، میڈیا نے دورہ کے انتظامات کا ایک ہنگامی تناظر میں چند غیر معمولی فیصلوں کے امکانات میں جائزہ لیا، کیونکہ سعودی عرب، یمن، ایران، او آئی سی، بھارت، کشمیر اور کنٹرول لائن کی صورتحال سمیت کورونا، ویکسین اور وبائی اموات سے پیدا ہونے والی گمبھیرتا میں پاکستانی کردار کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
سعودی عرب سے پاکستان کی قربت، حرمین شریفین کی سلامتی، دفاع کے معاملات عالم اسلام کے لیے جسم و روح کا درجہ رکھتے ہیں جو تاریخی رشتوں، روایات اور دین و اقدار کے اساسی سوالات سے منسلک ہیں، پاکستان نے سعودی عرب کی سالمیت اور دفاع پر ہمیشہ غیر متزلزل موقف اور اصولی سیاسی استدلال کو پیش نظر رکھا۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام نے اس عہد کی ہر وقت تجدید کی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب سیاسی، سماجی، مذہبی، دینی اور اقتصادی تعاون، شراکت اور معاہدوں میں ایک دوسرے کے ترجیح میں دونوں برادر ملک علاقائی امن، انسانی حقوق اور نوع انسانی کے اقتصادی مقاصد کے حصول میں ہمیشہ شانہ بشانہ رہیں گے، چنانچہ گزشتہ دنوں عالمی سیاست میں پاکستان کو ایران اور سعودی عرب میں معاونت، دوستی، اخوت و اشتراک، سیاسی کشیدگی، تناؤ اور تنازعات کے تصفیہ اور دو برادر ملکوں میں سیاسی ہم آہنگی کی جیسے ہی کوئی نوید ملی۔
وزیر اعظم نے اس موقع کو زریں پیش رفت سمجھتے ہوئے مفاہمت کا خیر مقدم کیا، انھوں نے سعودی ولی عہد کے اس خیر سگالی پیغام کو خوش آیند قرار دیا کہ سعودی عرب ایران کو دوست سمجھتا ہے اور دونوں ملک عالم اسلام کی طاقت ہیں، ان کے مابین مفاہمت، تعلقات، تعاون اور رابطے، خطے علاقے کی ترقی اور عوام میں محبت اور یگانگت و تعمیری سرگرمیوں کے لیے بے حد مفید اور تقاضائے وقت ہے، مبصرین نے بھی اس خیر سگالی کی گرمی کو کھلے دل سے محسوس کیا۔
عرب میڈیا نے اس اطمینان کا اظہار کیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے سیاسی، اقتصادی، فکری اور تہذیبی سطح پر غیر معمولی اقدامات اٹھائے ہیں، سعودی خواتین کے سماجی وقار، اقتصادی استحکام، تعلیمی اور فنون لطیفہ کے حوالے سے اہم فیصلے کرتے ہوئے سعودی عرب کو عہد حاضر کے روشن خیالی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا دلیرانہ اقدام کیا ہے، سیاسی مبصرین کی نگاہیں، سعودی عرب، ایران، یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے سیاسی مسافت کا رخ موڑنے کی کامیاب کوششوں کی منزل جلد حاصل کرلے گی، یقین کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب میں رہنماؤں اور قائدین کے مابین ان ہی خطوط پر تبادلہ خیال جاری ہے۔
خطے میں امن و امان اور علاقائی اسٹریٹجکل مفاہمت، اشتراک و تعاون کو مزید فوقیت ملے گی، مسلم امہ میں اشتراک اور سیاسی یگانگت میں اضافہ ہوگا، دنیا میں امن کی کوششوں کو مزید حمایت حاصل ہوگی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف اور پرنس محمد بن سلمان کی ملاقات میں خطے میں قیام امن کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا بتانا ہے کہ سعودی ولی عہد نے علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پرنس محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات اخوت اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں، دونوں ممالک امن واستحکام اور امت مسلمہ کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق جمعہ کو جدہ میں ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات بالخصوص عسکری اور دفاعی شعبوں میں تعاون اور ترقی کے مواقع سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے جمعرات کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کی۔
سعودی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ شہزادہ خالد بن سلمان نے جدہ میں پاکستان کے آرمی چیف کا خیر مقدم کیا۔ ملاقات کے دوران دونوں برادر ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات خصوصاً دفاعی اور فوجی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ سیکیورٹی اور استحکام بر قرار رکھنے کے لیے مشترکہ تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ یہ ملاقات اور اس میں زیربحث آنے والے ایشوز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان وسیع پیمانے پر تعاون کی باتیں ہوئی ہیں جو کہ ایک اچھی اور مثبت پیش رفت ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے جاری کردہ بیان کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سیکیورٹی کی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔ بیان کے مطابق دورانِ ملاقات افغان امن عمل میں حالیہ پیش رفت، دو طرفہ دفاع، سیکیورٹی، علاقائی امن اور رابطوں کے لیے تعاون کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال گیا۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان، سعودی عرب کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور حرمین شریفین کے دفاع کے لیے پختہ عزم رکھتا ہے۔
سعودی ولی عہد نے علاقائی سالمیت اور استحکام میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات بھائی چارے اور باہمی اعتماد پر قائم ہیں اور دونوں ممالک امن استحکام اور امتِ مسلمہ کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ سعودی قیادت کے ساتھ وزیر اعظم کی مشاورت میں دوطرفہ تعاون کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا جائے گا جس میں معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، پاکستانی افرادی قوت کے لیے ملازمت کے مواقع اور مملکت میں پاکستانی آبادی کی فلاح و بہبود شامل ہیں۔
یاد رہے سعودی عرب 20 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے جنہوں نے دونوں ممالک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ باقاعدگی سے اعلیٰ سطح کے دوطرفہ دورے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ تعلقات اور قریبی تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب نے مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سعودی عرب کے سرکاری دورے پر دوطرفہ تعلقات میں مزید بہتری کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
2018کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان کا سعودی عرب کا یہ تیسرا سرکاری دورہ ہے۔ وزیر اعظم کی آمد کے بعد طے پانے والے معاہدے کے مطابق دونوں ریاستوں کے مابین قریبی رابطہ قائم کرنے کے لیے ایک 'سپریم کوآرڈینیشن کونسل' تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ معاشی تعاون، اسٹرٹیجک شراکت داری، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، ماحولیات اور میڈیا شراکت داری کے شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ وزیر اعظم عمران خان کی آمد کے فوراً بعد ولی عہد انھیں شاہی محل لے گئے جہاں انھوں نے وزیر اعظم کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔
شہزادہ محمد بن سلمان سے ون آن ون ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے مابین وفود کی سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور پاکستانی افرادی قوت کے لیے ملازمت کے مواقع اور مملکت میں پاکستانی کمیونٹی کی بہبود کے امور میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر غور کیا گیا۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی سیاسی ایشوز میں بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے۔
سعودی عرب جس رفتار سے اپنے معاشی اور اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں سعودی عرب ایک جدید اور انڈسٹریلائزڈ ملک ہو گا جس کی معیشت کا انحصار محض تیل پر نہیں رہے گا۔ پاکستان کو بھی معاشی، سیاسی اور اسٹرٹیجک محاذ پر دوررس اثرات کی حامل تبدیلیوں کو بروئے کار لانا ہوگا کیونکہ آج کی دنیا ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ پاکستان کو آج کی دنیا کے ساتھ چلنا ہو گا اور اس سلسلے میں سعودی عرب کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔