پاکستان کا قدیم ترین شہر ملتان
تاریخ کی کتب میں یہ بھی ہے کہ ایک قوم جس کا نام ’’مالی تھان‘‘ یہاں آکر آباد ہوئی۔
ملتان گزرے وقت میں ایک سلطنت کا درجہ رکھتا تھا اس کے وسیع و عریض رقبے کی حدود لاہور کے قرب و جوار تک پھیلی ہوئی تھی۔
ساہیوال، پاک پتن، اوکاڑہ، میاں چنوں، خانیوال، لودھراں، مظفر گڑھ اور بھکر اس کے علاقوں میں شامل تھے۔ لیکن بے رحم وقت نے اسے علاقہ در علاقہ تقسیم کردیا۔ ملتان کے محل وقوع کی بات کی جائے تو اس کے مشرق میں وہاڑی ، جنوب مشرق میں لودھراں ، شمال میں خانیوال ، جنوب میں بھاولپور اور مغرب میں دریائے چناب کے پار مظفرگڑھ واقع ہے۔
ملتان ایک ہزار بیس کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار آٹھ سو چالیس نفوس پر مشتمل ہے۔ ملتان کی زمین اپنی زرخیزی اور پیداواری صلاحیتوں میں مثال ہے اس کی اہم فصلوں میں گنا ، چاول، کپاس اور گندم شامل ہیں۔ آموں کو بڑے بڑے اور نایاب اقسام کے باغات موجود ہیں۔ یہاں کے آم نہ صرف پاکستان بھر میں بلکہ دنیا میں مشہور ہیں۔ ملتان میں سرائیکی، اردو اور پنجابی زبانیں بولی جاتی ہیں۔
یہاں کافی تعداد میں اولیا، صوفیا کرام و بزرگان دین کے مزارات ہیں، مشہور مزارات میں حضرت شاہ شمس تبریزؒ، حضرت بہاالحسنؒ، حضرت بہاالدین زکریاؓؒ ملتانی، حضرت شاہ رکن عالم ؒ، حضرت موسیٰ پاک شہید اور حضرت حافظ محمد جمالؒ ؒ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے اولیا، صوفیا اور بزرگان دین کے مزارات یہاں موجود ہیں۔
دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں دریاؤں کی وادی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پروان چڑھیں ، نہر دجلہ ، فرات اور سندھ تہذیبیں دریاؤں کی تہذیبیں ہیں۔ دریائے سندھ کی وسیع و عریض آبادی کے علاقوں میں شہر اور اس کا نواحی علاقہ بھی شامل ہے۔ ملتان قدیم تاریخی شہروں میں سے ایک شہر ہے جن کا ذکر اندر پرست کے دور میں ہوتا ہے۔ قدیم ہندو گھرانوں میں اس کا ذکر ''مالی تھان'' کے نام سے موجود ہے۔
تاریخ کی کتب میں یہ بھی ہے کہ ایک قوم جس کا نام ''مالی تھان'' یہاں آکر آباد ہوئی اور سنسکرت میں آباد ہونے کو ''ستھان'' کہتے ہیں۔ شروع میں اس کا نام مالی استھان پڑ گیا بعد میں بدل کر مالی تھان بن گیا، وقت کے ساتھ ساتھ مالی تھان پھر مولتان اور اب یہ ملتان بن گیا۔ بہت سے قدیمی شہر آباد ہوئے یہاں حالات زمانہ کا شکار ہوکر مٹ گئے، لیکن شہر ملتان پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے والے سیکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہوگئے۔ آج ان کا نام لیوا بھی نہیں۔ لیکن ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے۔
ملتان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے یہ دریائے چناب کے کنارے آباد ہے آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ ضلع ملتان، تحصیل ملتان کا صدر مقام بھی ہے۔ تحصیلوں میں تحصیل صدر، تحصیل شجاع آباد، تحصیل جلال پور پیراں والا شامل ہے۔ اس کی ثقافت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانی ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے اس سے بھی قدیم ہو۔ اس امر پر مورخین کا اتفاق ہے کہ ملتان اور قلعہ ملتان کا وجود تاریخ دیو مالائی دور سے بھی پہلے کا ہے۔
قابل افسوس بات ہے کہ حملہ آوروں نے قلعہ ملتان کو نشانہ بنایا اور اسے فتح کرنے کے بعد خوب لوٹ مار آتش زدگی ہوتی رہی۔ 1200 قبل مسیح میں دارا نے اسے تباہ کیا۔325 قبل مسیح میں سکندر نے اس پر چڑھائی کی۔ بعد ازاں عرب ، افغان ، سکھ اور فرنگی حملہ آوروں نے قدیم قلعہ ملتان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
تاریخ کے اوراق میں ملتان قبل از مسیح سے ہی حربی اور ثقافتی فنون کا حصہ اور مرکز رہا ہے۔ چونکہ جنگی آلات ہر زمانے میں طاقت کے اظہار کا بہترین ذریعہ رہے ہیں لہٰذا وہ تمام افراد جو جنگی آلات بنانے کے فن سے جڑے ہوتے تو ان کا معاشرے میں ایک خاص مقام ہوتا تھا۔ خطہ ملتان میں حربی فنون کی مہارت اور تیر کمان سازی کا سب سے قدیم حوالہ 323 قبل از مسیح میں ملتا ہے ایک حوالے کے مطابق سکندر یونانیوں کو لگنے والا تیر ملتان کا تیارکردہ تھا۔
ابوالفضل نے اپنی مشہور کتاب ''آئین اکبری'' میں ملتان کی حدود کچھ اس طرح بیان کی ہیں۔ صوبہ ملتان کے ساتھ ٹھٹھہ کے الحاق سے قبل یہ صوبہ فیروز پور سے فیوستان تک چوڑائی میں کف پور سے جیسلمیر تک، ٹھٹھہ کے الحاق کے بعد یہ صوبہ کیچ مکران تک وسیع ہو گیا۔ مشرق میں اس کی سرحدیں سرہند سرکار سے، شمال میں پشاور سے جنوب میں اجمیر کے صوبہ اور مغرب میں کیچ (تربت) مکران سے ملتی ہیں۔ کیچ مکران پہلے صوبہ سندھ میں شامل تھا۔ ملتان کے صوبہ میں تین سرکاریں ملتان خاص ، دیال پور اور بھکر تھیں۔ ملتان کی وسعت اور عظمت پر تاریخ آج بھی رشک کرتی ہے۔
792 کو محمد بن قاسم نے ملتان فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ 997 کو محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کیا۔ 1175 میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کرلیا۔ سلطان شہاب الدین محمد غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اسے پایہ تخت بنائے رکھا۔ جن میں خاندان غلامان، خاندان خلجی، غیاث الدین تغلق، خاندان سادات، خاندان لودھی، پھر مغلیہ سلاطین کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا۔
رنجیت سنگھ نے ملتان پر حملہ کیا ایک زوردار جنگ ہوئی تاریخ میں اسے جنگ ملتان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ مارچ 1818 میں شروع ہوئی اور 2 جون 1818 کو ختم ہوگئی۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے قلعہ ملتان پر 2 جون 1818 میں قبضہ کرلیا۔ 1857 تک رنجیت سنگھ کے بیٹوں کی حکمرانی رہی۔1857 کی جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے ملتان پر قبضہ کرلیا اور 1947 تک برٹش امپائر کے زیر اثر رہا۔ آزادی کے بعد ملتان پاکستان کا حصہ بن گیا۔
تاریخ میں قلعہ ملتان کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ قلعہ اندر دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ طرز تعمیر میں بھی یگانگت رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس قلعے کی دیواریں تقریباً چالیس سے ستر فٹ اونچی اور دو میل کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں اس کے ہر داخلی دروازے کے پہلو میں حفاظتی مینار تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818 میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔ جوکہ ''کاتوچوں'' یعنی راجپوتوں کی حکمرانی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ جنگ کے لیے مورچہ نما چھوٹا قلعہ کہلایا جس کے پہلو میں تیس حفاظتی مینار ایک مسجد ایک مندر اور خواتین کے محلات تعمیر کیے گئے تھے۔ ملتانی قلعہ کے باہر خندق بھی بنائی گئی تھی۔