سیدہ زاہرہ طیبہ طاہرہ

حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی حیاتِ طیبہ کا مختصر جائزہ لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

nasim.anjum27@gmail.com

حضرت فاطمہؓ نے تین رمضان المبارک کو 11 ہجری میں انتقال فرمایا، آپ بے شمار خوبیوں کی مالک تھیں۔

سیدہ ، زاہرہ، طیبہ، طاہرہ

جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام

اسی حوالے سے کالم کی ابتدا کر رہی ہوں کہ ماہ رمضان اختتام کو پہنچنے والا ہے، آخری عشرہ چل رہا ہے عید کی آمد آمد ہے، کورونا وبا نے تباہی مچائی ہوئی ہے، دل پریشان ہونے کے باوجود برکتوں اور رحمتوں والے مہینے نے قلبی سکون اور عبادات کی لذت صبر و شکر کی دولت سے مالا مال کردیا ہے، زبان ذکر اللہ سے تر اور دل کلام الٰہی سے روشن، مسلمان اس مقدس و متبرک ماہ میں انھی نعمتوں کا حق دار ہوتا ہے۔

الحمد للہ رب العالمین ایسی ہی حسین اور پرنور ساعتوں میں سیدہ فاطمۃ الزہرہ نمبر کا موصول ہونا مومن کے لیے خوش بختی سے کم نہیں (تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے، حضرت فاطمہ کے حوالے سے مکمل معلومات درج ہے اس قدر فصیح و بلیغ پرچے کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

جناب ملک محبوب الرسول قادری، رسالہ ''انوارِ رضا'' کے چیف ایڈیٹر ہیں، اسلام اور اہل بیت سے محبت و عقیدت اور ایمان کی روشنی ان کی گھٹی میں شامل ہے، انھیں یہ مرتبہ حاصل ہے کہ وہ حضرت غازی اسلام جانثار پاکستان ملک عبدالرسول قادریؒ کے صاحبزادے ہیں،ملک محبوب الرسول قادری نے جو اداریہ لکھا ہے اس کا عنوان ہے ''تصور کو بھی آرہا ہے پسینہ'' بہت خوبصورت اور دلکش انداز تحریر ہے، قاری کے لیے متاثر کن ہے۔

آقائے دو جہاں سرور کائنات خاتم النبین، شفیع المذنبین، رحمۃ اللعالمین گوشہ رسول ﷺ کی صاحبزادی خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں۔ میرے رسول ﷺ کی سب سے پیاری بیٹی جنھیں خود صادق و مصدوق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے وجود اطہر کا حصہ قرار دیا، جن کی عظمت و عصمت کے حوالے کے بیان پر تو:

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے

تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

کیا میں اور کیا میری بساط

ملک کی تقریباً پون صدی کی تاریخ میں اس موضوع پر دینی صحافت کا اولین قدم رب العالمین نے اٹھانے کا اعزاز بخشا۔ انوار رضا کی اس اشاعت خاص کا مقصد فقط یوم حشر اس عالی جناب سے شفاعت کا حصول ہے۔ جس کے ہاتھ میں لاج ہے میری،وہ لجپال بڑا ہے ۔ دراصل کائنات کی تمام تر عزتیں اور نعمتیں ان کے قدموں کی دھول ہیں۔

ان کے جو ہم غلام تھے خلق کے پیشوا رہے

ان سے پھرے، جہاں پھرا،آئی کمی وقار میں

اس معمولی سی نذر کو اپنی رحمت و شفقت سے نواز دیں تو سمجھوں گا مقصدِ حیات کی تکمیل ہوگئی۔


زہرا کو عطا ہوئی جو شانِ اعلیٰ

سمجھے گا اسے کوئی مقدر والا

امید سفارش ان سے رکھتا ہے نصیر

زہرا کا کہا نہ مصطفیؐ نے ٹالا

حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی حیاتِ طیبہ کا مختصر جائزہ لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ''امِ محمد'' ہے، فاطمہ کے معنی، فاطمہ فطم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں روکنا اور چھڑانا۔ سیدی اعلیٰ حضرتؒ فرماتے ہیں آتشِ جہنم سے نجات دینے والی۔ آپ کا نام ہی فاطمہ ہے یعنی آگ سے چھڑانے والی۔ آپؓ کا لقب زہرہ بمعنی ''کلی'' آپؓ جنت کی کلی تھیں۔ شیخ شعیب حِرنیفیشؒ فرماتے ہیں جب آپؓ کی ولادت باسعادت ہوئی تو ساری فضا، چہرۂ مبارک کے نور سے منور ہوگئی۔

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا بچپن اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اللہ عنہا کے زیر سایہ گزرا اور جب بعثت کے دسویں برس ماں کی آغوش سے جدا ہوئیں تو اس کے بعد ان کا گہوارۂ تربیت صرف نبی اکرم ﷺ کا سایہ رحمت تھا۔

خاتون جنت حضرت فاطمۃالزہراؓ کو بچپن میں بہت سے غموں کا سامنا کرنا پڑا، چھوٹی سی عمر میں ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور پھر آپؓ کی زندگی اپنے والد ماجد حضرت محمد ﷺ کے سایۂ عاطفت میں شروع ہوئی تو دشمنان اسلام کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں نے سینہ چھلنی کردیا۔ کبھی ابو جہل کی سختی کی شکایت لے کر بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوتیں تو کبھی کفار کے منصوبوں کی بھنک پا کر زار و قطار روتیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ایک بار نبی کریم ﷺ حالت سجدہ میں تھے تو ابوجہل کے کہنے پر کفار نے اونٹ کی غلاظت آپؐ کے شانہ مبارک پر ڈال دی، آپؐ دیر تک سجدے میں رہے اور کفار ہنس ہنس کر دوہرے ہو رہے تھے، حضرت فاطمہؓ ان دنوں کم سن تھیں، جب انھیں معلوم ہوا تو وہ حرم کعبہ میں تشریف لے آئیں، اپنے والد پرنور اللہ کے حبیب احمد مجتبیٰ کے کاندھوں سے گندگی ہٹاتی جاتیں اور کفار کو برا بھلا کہتی جاتیں، حضور پاک ﷺ نے نماز سے فارغ ہو کر یہ دعا تین بار کی کہ'' اے اللہ تُو قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔''

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیںکہ'' خدا کی قسم میں نے ان سب کافروں کو جنگ بدر کے دن دیکھا، ان کی لاشیں زمین پر پڑی ہوئی تھیں، پھر ان کی لاشوں کو بدر کے ایک گڑھے میں نہایت ذلت کے ساتھ گھسیٹ کر ڈال دیا اور حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان گڑھے والوں پر خدا کی لعنت ہے۔'' جب آپؓ کی عمر مبارک پندرہ اور سترہ سال کے درمیان ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کی طرف سے نکاح کے پیغامات آنے شروع ہوگئے لیکن یہ سعادت و عظمت حضرت علیؓ کے حصے میں آئی۔

ایک موقع پر رسول اللہؐ نے فرمایا کہ'' مجھے رب تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے کہ فاطمہؓ کا نکاح علی کرم اللہ وجہ سے کردوں۔'' حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے مشورے پر حضرت علیؓ اپنی شادی کا پیغام لے کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ''کیا آپؐ اپنی لخت جگر فاطمۃ الزہراؓ کا نکاح میرے ساتھ کرنا پسند فرمائیں گے۔'' حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ''میں نے دیکھا کہ یہ سن کر حضور اکرمؐ کا چہرہ اقدس خوشی و مسرت سے کھل اٹھا۔''

امام الانبیا نکاح کا اعلان کرنے اپنے منبر اقدس پر جلوہ افروز ہوئے، حضرت بلالؓ نے مہاجرین و انصار کو رسول پاکؐ کے حکم کے مطابق مدعو کرلیا۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا'' ابھی ابھی جبریل امین نے یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کے پاس ملائکہ کو گواہ بنا کر میری بیٹی حضرت فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کردیا ہے اور مجھے بھی حکم دیا ہے کہ زمین پر ان کا نکاح کردوں میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح علیؓ سے کردیا ہے'' سبحان اللہ کائنات کی یہ پہلی شادی تھی جو اللہ کے گھر طے پائی اور نکاح کے ذریعے انجام کو پہنچی۔

حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی زندگی قابل رشک تھی۔ آپؓ نے فاقے کیے، اپنے ہاتھوں سے گھر کے کام انجام دیے اور جب اپنے پدر حضرت محمد ﷺ سے اپنی تکلیفوں کا ذکر کیا تو آپؐ نے تقویٰ کی تلقین کی اور سبحان اللہ، الحمد للہ 33، 33 بار اور اللہ اکبر 34 بار پڑھنے کی ہدایت دی۔ وقت وصال حیدر کرار حضرت علیؓ سے وصیت کی اجازت طلب کی اور پھر فرمایا کہ'' اگر آپؓ کو میری ذات سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف فرما دیجیے۔ میرے بچوں پر بہت شفقت فرمائیے، قبرستان میں میرا جنازہ رات کے وقت لے جائیے اس لیے کہ میری زندگی میں کسی نامحرم نے میرے قد و قامت کو نہیں دیکھا، میرے لیے دعائے خیر فرماتے رہیے'' حضرت فاطمہؓ زہد و تقویٰ، صبر و شکر اور شرم و حیا کا پیکر تھیں۔ حضرت فاطمہؓ کا وصال رمضان المبارک منگل کی شب ہوا۔ اور آپؓ اپنے والد ماجد حضرت رسول پاکؐ سے جا ملیں۔
Load Next Story