انتخابی دھاندلی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین

اپوزیشن کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ جب حکومت ان مشینوں کو خود ہی تیار کر رہی ہے تو ان میں گڑبڑ بھی کرسکتی ہے۔


عثمان دموہی May 09, 2021
[email protected]

حلقہ این اے 249 میں دھاندلی کا شور بالکل ڈسکہ کی طرح بلند ہو رہا ہے، البتہ یہاں مسلم لیگ (ن) کی مدمقابل تحریک انصاف نہیں پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ اس ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والی تمام ہی سیاسی پارٹیاں نتائج کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔

ان تمام کے مطابق الیکشن میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا ہوا ہے۔ اس الیکشن کی مانیٹرنگ کرنے والی تنظیم فافن نے بھی اپنی رپورٹ میں یہاں کے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس کے مطابق اس الیکشن میں خلاف ورزیوں کے 143 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں تیرہ واقعات سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس کے علاوہ 58 خلاف ورزیاں ووٹ ڈالنے اور گننے کے عمل سے متعلق ہیں۔

اس الیکشن میں سب سے زیادہ جھٹکا ایم کیو ایم پاکستان کو پہنچا ہے۔ وہ ماضی میں کراچی کے ہر الیکشن میں وننگ پارٹی کے طور پر ابھرتی رہی ہے اس الیکشن میں سب سے کم ووٹ لے کر چھٹے نمبر پر آنے سے سخت نادم ہوگئی۔ اسی طرح حکمران پارٹی جو عام انتخابات میں کراچی کی قومی اسمبلی کی 75 فیصد نشستیں جیت گئی تھی اس الیکشن میں پانچویں نمبر پر رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اس الیکشن میں کسی پارٹی کی کارکردگی مثالی رہی ہے تو وہ پی ایس پی ہے یہ ایک نئی سیاسی پارٹی ہے لیکن اس نے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سے زیادہ ووٹ لے کر عوام میں اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو ثابت کردیا ہے۔

اس ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کو فاتح قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس کے ووٹ سب سے زیادہ ہیں مگر اس صورتحال پر خود اس حلقے کے عوام حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ سیاسی پارٹی اس حلقے کے عوامی مسائل کے حل سے ہمیشہ دور رہی ہے۔ اس نے یہاں کے مسائل کے حل کے لیے کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی حالانکہ سندھ میں اس کی حکومت ہے اور کراچی کے ہر حلقے کے عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے اسے آگے آنا چاہیے۔

اس حلقے پر شاید اس کی اس لیے نظر نہیں رہی کیونکہ یہاں کے عوام نے گزشتہ کسی الیکشن میں اسے اہمیت نہیں دی تھی۔ عام انتخابات میں یہاں مسلم لیگ (ن) کا چرچا تھا مگر یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار کو فاتح قرار دیا گیا تھا۔

یہاں کے لوگ اس نتیجے پر بہت حیران تھے کہا جاتا ہے کہ یہاں مسلم لیگ (ن) کو کافی سپورٹ حاصل تھی اور لوگوں کو قوی امید تھی شہباز شریف ہی الیکشن جیتیں گے مگر وہ سات سو ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ اس ضمنی الیکشن میں لوگوں کو پورا بھروسہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) ہی الیکشن جیتے گی اس لیے کہ اب عام انتخابات جیسے حالات نہیں رہے ہیں مگر اب ایک ایسا امیدوار الیکشن جیت گیا ہے جس کی جیت کا کوئی امکان نہیں تھا بہرحال پیپلز پارٹی کی جیت کی کوئی بھی وجہ ہو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جیت تو جیت ہوتی ہے۔

اب اسے قبول کرلینا چاہیے مگر مسلم لیگ کے امیدوار مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ یہ جیت دھاندلی کے بغیر ممکن نہیں تھی ، ان کے مطابق بیشتر پولنگ اسٹیشنز کے نتائج دس بجے تک آگئے تھے مگر کچھ نتائج کو سحری کے وقت جاری کیا گیا تھا ان میں ضرور رد و بدل کیا گیا ہے ورنہ دیر لگانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے نتائج کو چیلنج کردیا ہے اور دوبارہ گنتی کی درخواست کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا ہے کہ اگر انھیں نتائج پر شک و شبہ ہے تو وہ دھاندلی کے ثبوت کیوں پیش نہیں کرتے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے ایک اور وزیر ناصر حسین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے کوئی دھاندلی نہیں کی ہے اور اگر ووٹوں کی گنتی میں گڑبڑ ہوگئی ہے تو وہ دوبارہ گنتی سے درست ہو جائے گی مگر پھر بھی پیپلز پارٹی ہی فاتح رہے گی۔

پاکستان میں کئی سالوں سے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ہارنے والی پارٹی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتی ہے اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر اصرار کرتی ہے۔ 2014 کے عام انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے جیت حاصل کی تھی مگر تحریک انصاف نے نتائج کو رد کردیا تھا اس کا الزام تھا کہ کئی حلقوں میں جان بوجھ کر ان کے امیدواروں کو ہرایا گیا ہے چنانچہ یہ معاملہ بہت لمبا چلا۔

عمران خان نے پورے ملک میں احتجاجی تحریک شروع کرا دی تھی اور خود اسلام آباد میں ڈی چوک پر کنٹینر پر چڑھ کر کئی ماہ تک مسلسل مسلم لیگ (ن) کے خلاف مہم چلاتے رہے ان کے سپورٹرز بھی بڑی تعداد میں اس احتجاج میں شامل تھے۔ اس احتجاج سے تو کچھ نہ ہو سکا البتہ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا جس سے انھیں وزیر اعظم کے عہدے سے دست بردار ہونا پڑا۔ عمران خان کی جانب سے جن جن حلقوں میں دھاندلی کی نشاندہی کی گئی تھی وہاں دوبارہ ووٹوں کی گنتی ہوئی مگر کوئی دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔

اب تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے دھاندلی کو روکنے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر زور دیا جا رہا ہے مگر قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اس تجویز کو رد کردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم پوری دنیا میں فیل ہو چکا ہے اور ہمارا الیکشن کمیشن بھی اسے رد کرچکا ہے تاہم حکومت اس سسٹم کو متعارف کرانے پر پورا زور لگا رہی ہے۔

وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اس سسٹم پر شک و شبہ کرنا عبث ہے کیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہم نے خود تیار کی ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خبر تو بہت اچھی ہے کہ ہمارا ملک ان مشینوں کو بھی وینٹی لیٹرز کی طرح تیار کرنے کے قابل ہو گیا ہے مگر خود اسی حکومت کے ایک وزیر شبلی فراز ملک میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی کارکردگی کو ناقص قرار دے چکے ہیں۔

اپوزیشن کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ جب حکومت ان مشینوں کو خود ہی تیار کر رہی ہے تو ان میں گڑبڑ بھی کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا جیسے ملک میں بھی حالیہ الیکشن میں یہ مشینیں تنازعہ کا باعث بن چکی ہیں۔ ان مشینوں کو ہیک کرنا اور اپنی مرضی کے مطابق ان سے نتائج اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

امریکا میں منعقدہ 2016 کے الیکشن میں ٹرمپ پر روس کی مدد سے EVM کو ہیک کرنے اور ان کے نتائج میں گڑبڑ پیدا کرنے کا ہیلری کلنٹن کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا۔ بعد میں سی آئی اے نے باقاعدہ روس کی جانب سے الیکشن پر اثرانداز ہونے کے ثبوت پیش کر دیے تھے جس کی وجہ سے ٹرمپ نے فوراً سی آئی اے کے چیف کو برطرف کردیا تھا۔

بھارت میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کی خرابی کے ثبوت بھی پیش کیے جا چکے ہیں مگر مودی سرکار کے ہمنوا الیکشن کمیشن نے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے اور اسی وجہ سے مودی گزشتہ اور حالیہ عام انتخابات میں بھرپور کامیابیاں حاصل کر رہا ہے اور اگلے عام انتخابات میں بھی کامیابی کے لیے پر امید ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں