مشت غبار
یہ عرصہ کتنی طوالت اختیار کرے گا، ابھی کسی سائنسدان یا ماہر علم نجوم کے علم میں نہیں۔
ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، وہ انسان جو سوشل اینیمل کہلاتا ہے، دوست احباب اور رشتہ داروں سے میل جول ترک کر کے اپنے اپنے گھروں میں قید ِ تنہائی اختیار کر کے بستر، ٹیلیفون اور ٹیلیویژن کے ساتھ زندگی گزار رہا ہَے۔
یہ عرصہ کتنی طوالت اختیار کرے گا، ابھی کسی سائنسدان یا ماہر علم نجوم کے علم میں نہیں۔ ویسے اگر خدائے برتر نے انسانوں کی گریہ و زاری کو قبولیت بخش دی تو شاید عرصہ طوالت نہ پکڑے اور جلد معافی مل جائے لیکن کافی حد تک لوگوں پر خودی کا نشہ چڑھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یاس یگانہ چنگیری نے تو کافی عرصہ پہلے کہہ دیا تھا کہ
خود کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
ٹیلیویژن کے حوالے سے بات کریں تو ڈراموں ہی کو لے لیں، کبھی پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی وہ دُھوم تھی کہ سرحد پار مارکیٹیںبند ہو جاتی تھیں تاکہ دوکاندار اور گاہک گھروں میں جا کر ڈرامے سے لطف اندوز ہوں ۔ اب بھی بعض چینلز اس طرف توجہ دیتے ہیں لیکن ایک سال سے کورونا نام کی وباء نے پہلے سے پریشان حال لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
ادھر ٹی وی پر سیاسی جنگ و جدل کے للکارے، ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالتے، دیکھنے سُننے کو ملتے ہیں جو کورونا کی دہشت کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ بعض اوقات تو سیاسی گفتگو کو طوفان بدتمیزی کا نام دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ طوفان بدتمیزی محض عوامی سطح پر نہیں ہے بلکہ اعلیٰ اور خواص بھی اسی سرشت کے حامل ہیں۔ اس موضوع پر مزیدکچھ کہنا یا کھل کر بیان کرنا توہین کے زُمرّے میں آ سکتا ہے لہٰذا یہیں پر بس۔
اس قید ِ تنہائی سے کافی عرصہ پہلے پاکستان کے دوست ملک ترکی کے ٹی وی ڈرامے اردو میں ڈب ہو کر پی ٹی وی پر دکھائے جانے تھے۔ ہمارے اردو ٹی وی ڈرامے معیار اور تعداد میں کچھ کم ضرور ہوئے لیکن لوگوں کی ان میں دلچسپی برقرار رہی ۔ اگر مدت کا اندازاً تعین کیا جائے تو ٹرکش ڈرامے متعدد زبانوں میں ڈب ہو کر کئی ممالک میں پندرہ بیس ممالک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں ان کی اردو اور ہندی میں ڈبنگ ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں صرف اردو میں ڈبنگ ہوتی ہے۔
میرے سامنے اس وقت 28 ٹرکش ڈراموں کی فہرست ہے جن میں سے میں نے ڈبنگ شدہ ڈرامے گزشتہ دس سال میں دیکھے تیس کے قریب ڈراموں میں سے میں نے 16 ڈرامے دیکھ لیے ہیں جب کہ ستر ہواں ڈرامہ '' ارتغرل غازی '' اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
اس ڈرامے کے بعد کے حالات طویل اور فتوحات ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ بات ارتغرل غازی کے بیٹے عثمان تک پہنچی اور پھر سلطنت عثمانیہ جس کی حکمرانی تین بر ِ اعظموں پر چھ سو سال تک رہی اور اس کے بعد خدائی قدرت کہ ہر عروج ِ را زوال اور اس کی وجہ وہی دائم حکمرانی کی خواہش جس کو قائم رکھنے کا شاہی فرمان جس کے مطابق تخت پر بیٹھے حکمران کا قانون کہ اس کی بادشاہت کے دوران جتنے بھی Candidate ہوں چاہے وہ بیٹا ہو ، بھائی ہو، ہر کسی کا سر قلم کرنا لازم ہو تاکہ اس کی حکمرانی قائم رہے۔ جس ٹیم نے اس ڈرامے کی اردو زبان میں ڈبنگ کی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے ۔ اس ڈرامے کا ہیرو دو بار دعوت پر پاکستان آیا لیکن اسے بلانے والے شاید نالائق تھے۔
تقسیم ِ ہند سے قبل سن 1526سے 1761تک یہاں مغل ایمپائر تھا۔ مغل بادشاہ بابر کا عہدابتدائی تھا جو 1526 میں صرف چار سال رہا۔ اس کے بعد ہمایوں برسر ِ اقتدار آیا جس نے 26 سال تک حکومت کی ۔ اس کے بعد اکبر ِ اعظم 49 سال حکمران رہا۔ اس کے عہد میں کئی یادگار واقعات نے جنم لیا اور کچھ رومان پرور واقعات کو فلم انڈسٹری نے دوام بخشا۔ جہانگیر کا عہد حکومت 22 سال تھا۔ شاہ جہاں نے 31 سال بادشاہت کی جس کے بعد اورنگزیب 49 سال برسر ِ اقتدار رہا۔
تاج محل آگرہ شاہ جہاں کا تعمیر کردہ ہے جو 1632میں تعمیر ہونا شروع ہو کر 1648میں مکمل ہوا۔ یہ عمارت بادشاہ نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یادگار کے طور شروع کی تھی۔ مغلوں کا آخری حکمران بہادر شاہ ظفر تھا جو 1658 سے 1707تک تو بادشاہ تھا، پھر قید ِ تنہائی میں رنگون کے ایک گیراج میں بند رہا ۔ پھر اسی گیراج میں 7.12.86 میں راہی ملک عدم ہوا۔ آخر میں مغل بادشاہوں کے آخری فرمانروا کے دو شعر
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
......
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
یہ عرصہ کتنی طوالت اختیار کرے گا، ابھی کسی سائنسدان یا ماہر علم نجوم کے علم میں نہیں۔ ویسے اگر خدائے برتر نے انسانوں کی گریہ و زاری کو قبولیت بخش دی تو شاید عرصہ طوالت نہ پکڑے اور جلد معافی مل جائے لیکن کافی حد تک لوگوں پر خودی کا نشہ چڑھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یاس یگانہ چنگیری نے تو کافی عرصہ پہلے کہہ دیا تھا کہ
خود کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
ٹیلیویژن کے حوالے سے بات کریں تو ڈراموں ہی کو لے لیں، کبھی پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی وہ دُھوم تھی کہ سرحد پار مارکیٹیںبند ہو جاتی تھیں تاکہ دوکاندار اور گاہک گھروں میں جا کر ڈرامے سے لطف اندوز ہوں ۔ اب بھی بعض چینلز اس طرف توجہ دیتے ہیں لیکن ایک سال سے کورونا نام کی وباء نے پہلے سے پریشان حال لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
ادھر ٹی وی پر سیاسی جنگ و جدل کے للکارے، ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالتے، دیکھنے سُننے کو ملتے ہیں جو کورونا کی دہشت کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ بعض اوقات تو سیاسی گفتگو کو طوفان بدتمیزی کا نام دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ طوفان بدتمیزی محض عوامی سطح پر نہیں ہے بلکہ اعلیٰ اور خواص بھی اسی سرشت کے حامل ہیں۔ اس موضوع پر مزیدکچھ کہنا یا کھل کر بیان کرنا توہین کے زُمرّے میں آ سکتا ہے لہٰذا یہیں پر بس۔
اس قید ِ تنہائی سے کافی عرصہ پہلے پاکستان کے دوست ملک ترکی کے ٹی وی ڈرامے اردو میں ڈب ہو کر پی ٹی وی پر دکھائے جانے تھے۔ ہمارے اردو ٹی وی ڈرامے معیار اور تعداد میں کچھ کم ضرور ہوئے لیکن لوگوں کی ان میں دلچسپی برقرار رہی ۔ اگر مدت کا اندازاً تعین کیا جائے تو ٹرکش ڈرامے متعدد زبانوں میں ڈب ہو کر کئی ممالک میں پندرہ بیس ممالک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا میں ان کی اردو اور ہندی میں ڈبنگ ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں صرف اردو میں ڈبنگ ہوتی ہے۔
میرے سامنے اس وقت 28 ٹرکش ڈراموں کی فہرست ہے جن میں سے میں نے ڈبنگ شدہ ڈرامے گزشتہ دس سال میں دیکھے تیس کے قریب ڈراموں میں سے میں نے 16 ڈرامے دیکھ لیے ہیں جب کہ ستر ہواں ڈرامہ '' ارتغرل غازی '' اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
اس ڈرامے کے بعد کے حالات طویل اور فتوحات ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ بات ارتغرل غازی کے بیٹے عثمان تک پہنچی اور پھر سلطنت عثمانیہ جس کی حکمرانی تین بر ِ اعظموں پر چھ سو سال تک رہی اور اس کے بعد خدائی قدرت کہ ہر عروج ِ را زوال اور اس کی وجہ وہی دائم حکمرانی کی خواہش جس کو قائم رکھنے کا شاہی فرمان جس کے مطابق تخت پر بیٹھے حکمران کا قانون کہ اس کی بادشاہت کے دوران جتنے بھی Candidate ہوں چاہے وہ بیٹا ہو ، بھائی ہو، ہر کسی کا سر قلم کرنا لازم ہو تاکہ اس کی حکمرانی قائم رہے۔ جس ٹیم نے اس ڈرامے کی اردو زبان میں ڈبنگ کی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے ۔ اس ڈرامے کا ہیرو دو بار دعوت پر پاکستان آیا لیکن اسے بلانے والے شاید نالائق تھے۔
تقسیم ِ ہند سے قبل سن 1526سے 1761تک یہاں مغل ایمپائر تھا۔ مغل بادشاہ بابر کا عہدابتدائی تھا جو 1526 میں صرف چار سال رہا۔ اس کے بعد ہمایوں برسر ِ اقتدار آیا جس نے 26 سال تک حکومت کی ۔ اس کے بعد اکبر ِ اعظم 49 سال حکمران رہا۔ اس کے عہد میں کئی یادگار واقعات نے جنم لیا اور کچھ رومان پرور واقعات کو فلم انڈسٹری نے دوام بخشا۔ جہانگیر کا عہد حکومت 22 سال تھا۔ شاہ جہاں نے 31 سال بادشاہت کی جس کے بعد اورنگزیب 49 سال برسر ِ اقتدار رہا۔
تاج محل آگرہ شاہ جہاں کا تعمیر کردہ ہے جو 1632میں تعمیر ہونا شروع ہو کر 1648میں مکمل ہوا۔ یہ عمارت بادشاہ نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یادگار کے طور شروع کی تھی۔ مغلوں کا آخری حکمران بہادر شاہ ظفر تھا جو 1658 سے 1707تک تو بادشاہ تھا، پھر قید ِ تنہائی میں رنگون کے ایک گیراج میں بند رہا ۔ پھر اسی گیراج میں 7.12.86 میں راہی ملک عدم ہوا۔ آخر میں مغل بادشاہوں کے آخری فرمانروا کے دو شعر
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
......
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں