مدینے کی ہوائوں میں
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی<br />
قسمت کھلی ترےؐ قد و رخ سے ظہور کی۔۔۔
KARACHI:
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترےؐ قد و رخ سے ظہور کی
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی اس جہان میں آمد صرف اُمت مسلمہ کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے ایک رحمتوں بھری خوش خبری ہے کہ آپ کی تشریف آوری سے الوہی ہدایت کا سلسلہ اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ دنیا بھر میں مسلمان جہاں جہاں بھی ہیں اللہ کی وحدت کا اقرار اور آپؐ سے غیر مشروط محبت کا اظہار ہی دو ایسے رشتے ہیں جنہوں نے نہ صرف انھیں آپس میں جوڑ رکھا ہے بلکہ اسی کے ذریعے سے ان کی پہچان اور شناخت قائم ہوتی ہے۔ آپ رحمۃ اللعالمین بھی ہیں اور اپنی اُمت کے لیے شافع روز محشر بھی۔ آپ کی ذات اقدس سے محبت اور آپ کے اسوہ مبارک کی پیروی ہی وہ راستہ ہے جو ہم عاصیوں کے لیے جنت اور معافی کے دروازے کھولے گا کہ اس ایک محبت میں کونین سمٹ جاتے ہیں اور چاروں طرف یہ نوید جانفزا گونج اٹھتی ہے کہ
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس ضمن میں علامہ صاحب کی یہ مشہور رباعی خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ
تو غنی از ہر دو عالم' من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفےؐ پنہاں بگیر
عید میلاد النبیؐ کے جلسے جلوس اور ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات اپنی جگہ لیکن اصل بات وہی ہے جس کی طرف عاشق رسول اور شاعر مشرق نے اشارہ کیا ہے کہ ہر اس عمل سے گریز لازم ہے جو دربار مصطفے میں ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہو۔ جہاں تک نعت کی صنف میں حضور اکرمؐ سے محبت اور عقیدت کے اظہار کا تعلق ہے تو ہر وہ زبان جو دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمان بولتے ہیں اس سے خالی نہیں ملے گی ہندوستان کی سرزمین کہ جہاں سے رسول اکرمؐ کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اردو اور یہاں کی دیگر علاقائی زبانوں میں لکھا گیا نعتیہ کلام تعداد اور معیار دونوں اعتبار سے سرفہرست ہے۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات اور صوفی شعراء کے کلام کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر مسلمان شاعر کے یہاں آپ کو حب رسول سے متعلق شاعری کم یا زیادہ ضرور ملے گی بلکہ بعض غیر مسلم شعرا کے کلام میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں اور وہ لوگ بڑے فخر اور مان سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں۔
انیسویں صدی کے وسط یعنی مغلیہ سلطنت کے خاتمے تک برصغیر میں کی جانے والی نعتیہ شاعری زیادہ تر چند مخصوص موضوعات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے یہ ایک طرح سے حصول برکت کا اہتمام بھی تھا کہ شاعر حضرات اپنے دیوان کے آغاز میں حمدیہ اور نعتیہ اشعار ضرور شامل کرتے تھے لیکن مغل حکومت کے علامتی خاتمے اور ہمہ جہت زوال کے آشوب نے ہماری نعتیہ شاعری میں بھی ایک خاص نوع کی تبدیلی پیدا کر دی کہ اب اس میں مناجات کا رنگ زیادہ نمایاں اور گہرا ہو گیا جس کا تاثر وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف گہرا ہوتا چلا گیا بلکہ اس کی معرفت نبی اکرمؐ سے محبت' عقیدت اور ان کی شفاعت کے بھی ایسے ایسے پہلو سامنے آئے کہ اس صنف سخن پر جیسے بہار کا موسم آ گیا۔ مولانا حالی کی اس مناجات کی گونج کہ
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
تقریباً ایک صدی بعد تک آپ کو حفیظ تائب مرحوم کی نعت میں بھی سنائی دیتی ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
؎دے تبسم کی خیرات ماحول کو، ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز تک جن شعرا نے نعت گوئی کے حوالے سے اپنی پہچان کرائی ان میں علامہ اقبال، امیر مینائی' امام رضا خاں بریلوی' بیدم وارثی' ماہر القادری' حفیظ جالندھری' محسن کاکوروی اور مولانا ظفر علی خان کے اسمائے گرامی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جب کہ اس کے بعد کے زمانے میں احمد ندیم قاسمی' عبدالعزیز خالد' حافظ مظہر الدین' اعظم چشتی' حافظ لدھیانوی' مظفر وارثی' اقبال عظیم' منور بدایونی' حفیظ تائب، خورشید رضوی' منیر سیفی اور خالد احمد نے بہت بڑی تعداد میں خوبصورت اور انتہائی روح پرور نعتیہ کلام لکھا، اس مبارک سفر میں ان کے ہم سفروں کی تعداد بلامبالغہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں تک پہنچتی ہے جن میں ایک سے بڑھ کر ایک اہل دل اور اہل قلم شامل ہیں مگر اس وقت میرا مقصد فہرست سازی نہیں بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ رسول پاک کی شان میں نعتیہ کلام پیش کرنے کا رجحان اب تک باقاعدہ روائت کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا ثبوت وہ سیکڑوں نعتیہ شعری مجموعے ہیں جن میں سے زیادہ تر گزشتہ پچاس برس میں سامنے آئے ہیں اس بات کو اپنے لیے باعث رحمت و فخر گردانتا ہوں کہ ان میں سے ایک کتاب 'اسباب' پیش کرنے کی سعادت رب کریم نے مجھے بھی عطا کی سو آخر میں ایک نعتیہ نظم اس مبارک دن کے حوالے سے اس اعتراف کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ نعت کا صحیح حق تو شاید ادا نہ ہو سکا ہو مگر اس کیفیت کی سرشاری یقیناً میرے لیے ایک خصوصی عطا سے کم نہیں۔ نعت کا عنوان ہے ''مدینے کی ہواؤں میں''
وہؐ چودہ سو برس پہلے یہاں تشریف لائے تھے
مگر خوشبو ابھی تک ہے مدینے کی ہواؤں میں
جو اک پل میں دلوں کی بستیاں آباد کرتا ہے
وہی جادو ابھی تک ہے' مدینے کی ہواؤں میں
جو انؐ کی اونٹنی کے نقش پا کے ساتھ چلتے تھے
مدینے کے فلک سے اب وہ بادل جا چکے' لیکن
ابھی تک اُن کا سایا ہے' مدینے کی ہواؤں میں
سواگت کے لیے جو بچیوں نے گیت گائے تھے
ابھی تک اُن کا چرچا ہے' مدینے کی ہواؤں میں
وہ مسجد کے مناروں کے جلو میں گنبد خضریٰ
اور اس گنبد کے نیچے ''باغ جنت'' کے کنارے پر
وہ اک جالی سنہری سی
کہ جس کے روزنوں کے پار اک ایسا اُجالا ہے
کہ جس کا نور ہے تاباں مدینے کی ہواؤں میں
عجب اک کیف کا ماحول ہے اس ''راہداری'' میں
جسے اظہار میں لانا نہ ممکن ہے نہ ممکن تھا
''ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا''
قلم لکھنے سے عاجز ہے زباں میں گرہیں پڑتی ہیں
یہ کیسا راز ہے پنہاں' مدینے کی ہواؤں میں!
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترےؐ قد و رخ سے ظہور کی
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کی اس جہان میں آمد صرف اُمت مسلمہ کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے ایک رحمتوں بھری خوش خبری ہے کہ آپ کی تشریف آوری سے الوہی ہدایت کا سلسلہ اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ دنیا بھر میں مسلمان جہاں جہاں بھی ہیں اللہ کی وحدت کا اقرار اور آپؐ سے غیر مشروط محبت کا اظہار ہی دو ایسے رشتے ہیں جنہوں نے نہ صرف انھیں آپس میں جوڑ رکھا ہے بلکہ اسی کے ذریعے سے ان کی پہچان اور شناخت قائم ہوتی ہے۔ آپ رحمۃ اللعالمین بھی ہیں اور اپنی اُمت کے لیے شافع روز محشر بھی۔ آپ کی ذات اقدس سے محبت اور آپ کے اسوہ مبارک کی پیروی ہی وہ راستہ ہے جو ہم عاصیوں کے لیے جنت اور معافی کے دروازے کھولے گا کہ اس ایک محبت میں کونین سمٹ جاتے ہیں اور چاروں طرف یہ نوید جانفزا گونج اٹھتی ہے کہ
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس ضمن میں علامہ صاحب کی یہ مشہور رباعی خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ
تو غنی از ہر دو عالم' من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفےؐ پنہاں بگیر
عید میلاد النبیؐ کے جلسے جلوس اور ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات اپنی جگہ لیکن اصل بات وہی ہے جس کی طرف عاشق رسول اور شاعر مشرق نے اشارہ کیا ہے کہ ہر اس عمل سے گریز لازم ہے جو دربار مصطفے میں ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہو۔ جہاں تک نعت کی صنف میں حضور اکرمؐ سے محبت اور عقیدت کے اظہار کا تعلق ہے تو ہر وہ زبان جو دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمان بولتے ہیں اس سے خالی نہیں ملے گی ہندوستان کی سرزمین کہ جہاں سے رسول اکرمؐ کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اردو اور یہاں کی دیگر علاقائی زبانوں میں لکھا گیا نعتیہ کلام تعداد اور معیار دونوں اعتبار سے سرفہرست ہے۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات اور صوفی شعراء کے کلام کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر مسلمان شاعر کے یہاں آپ کو حب رسول سے متعلق شاعری کم یا زیادہ ضرور ملے گی بلکہ بعض غیر مسلم شعرا کے کلام میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں اور وہ لوگ بڑے فخر اور مان سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں۔
انیسویں صدی کے وسط یعنی مغلیہ سلطنت کے خاتمے تک برصغیر میں کی جانے والی نعتیہ شاعری زیادہ تر چند مخصوص موضوعات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے یہ ایک طرح سے حصول برکت کا اہتمام بھی تھا کہ شاعر حضرات اپنے دیوان کے آغاز میں حمدیہ اور نعتیہ اشعار ضرور شامل کرتے تھے لیکن مغل حکومت کے علامتی خاتمے اور ہمہ جہت زوال کے آشوب نے ہماری نعتیہ شاعری میں بھی ایک خاص نوع کی تبدیلی پیدا کر دی کہ اب اس میں مناجات کا رنگ زیادہ نمایاں اور گہرا ہو گیا جس کا تاثر وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف گہرا ہوتا چلا گیا بلکہ اس کی معرفت نبی اکرمؐ سے محبت' عقیدت اور ان کی شفاعت کے بھی ایسے ایسے پہلو سامنے آئے کہ اس صنف سخن پر جیسے بہار کا موسم آ گیا۔ مولانا حالی کی اس مناجات کی گونج کہ
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
تقریباً ایک صدی بعد تک آپ کو حفیظ تائب مرحوم کی نعت میں بھی سنائی دیتی ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
؎دے تبسم کی خیرات ماحول کو، ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز تک جن شعرا نے نعت گوئی کے حوالے سے اپنی پہچان کرائی ان میں علامہ اقبال، امیر مینائی' امام رضا خاں بریلوی' بیدم وارثی' ماہر القادری' حفیظ جالندھری' محسن کاکوروی اور مولانا ظفر علی خان کے اسمائے گرامی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جب کہ اس کے بعد کے زمانے میں احمد ندیم قاسمی' عبدالعزیز خالد' حافظ مظہر الدین' اعظم چشتی' حافظ لدھیانوی' مظفر وارثی' اقبال عظیم' منور بدایونی' حفیظ تائب، خورشید رضوی' منیر سیفی اور خالد احمد نے بہت بڑی تعداد میں خوبصورت اور انتہائی روح پرور نعتیہ کلام لکھا، اس مبارک سفر میں ان کے ہم سفروں کی تعداد بلامبالغہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں تک پہنچتی ہے جن میں ایک سے بڑھ کر ایک اہل دل اور اہل قلم شامل ہیں مگر اس وقت میرا مقصد فہرست سازی نہیں بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ رسول پاک کی شان میں نعتیہ کلام پیش کرنے کا رجحان اب تک باقاعدہ روائت کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا ثبوت وہ سیکڑوں نعتیہ شعری مجموعے ہیں جن میں سے زیادہ تر گزشتہ پچاس برس میں سامنے آئے ہیں اس بات کو اپنے لیے باعث رحمت و فخر گردانتا ہوں کہ ان میں سے ایک کتاب 'اسباب' پیش کرنے کی سعادت رب کریم نے مجھے بھی عطا کی سو آخر میں ایک نعتیہ نظم اس مبارک دن کے حوالے سے اس اعتراف کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ نعت کا صحیح حق تو شاید ادا نہ ہو سکا ہو مگر اس کیفیت کی سرشاری یقیناً میرے لیے ایک خصوصی عطا سے کم نہیں۔ نعت کا عنوان ہے ''مدینے کی ہواؤں میں''
وہؐ چودہ سو برس پہلے یہاں تشریف لائے تھے
مگر خوشبو ابھی تک ہے مدینے کی ہواؤں میں
جو اک پل میں دلوں کی بستیاں آباد کرتا ہے
وہی جادو ابھی تک ہے' مدینے کی ہواؤں میں
جو انؐ کی اونٹنی کے نقش پا کے ساتھ چلتے تھے
مدینے کے فلک سے اب وہ بادل جا چکے' لیکن
ابھی تک اُن کا سایا ہے' مدینے کی ہواؤں میں
سواگت کے لیے جو بچیوں نے گیت گائے تھے
ابھی تک اُن کا چرچا ہے' مدینے کی ہواؤں میں
وہ مسجد کے مناروں کے جلو میں گنبد خضریٰ
اور اس گنبد کے نیچے ''باغ جنت'' کے کنارے پر
وہ اک جالی سنہری سی
کہ جس کے روزنوں کے پار اک ایسا اُجالا ہے
کہ جس کا نور ہے تاباں مدینے کی ہواؤں میں
عجب اک کیف کا ماحول ہے اس ''راہداری'' میں
جسے اظہار میں لانا نہ ممکن ہے نہ ممکن تھا
''ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا''
قلم لکھنے سے عاجز ہے زباں میں گرہیں پڑتی ہیں
یہ کیسا راز ہے پنہاں' مدینے کی ہواؤں میں!