شہباز شریف کو کیوں روکا گیا
حکومت اور شہباز شریف کے درمیان ایک محاذ آرائی پہلے دن سے جاری ہے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو ایک طرف لاہور ہائی کورٹ نے لندن جانے کی اجازت دے دی ہے تاہم دوسری طرف حکومت نے انھیں لندن جانے سے لاہور ائیرپورٹ پر روک لیا ہے۔ ویسے تو حکومت کو شہباز شریف کے ساتھ کچھ زیادہ ہی محبت ہے۔
ورنہ اس سے پہلے شاہد خاقان عباسی کو حکومت نے خود ہی ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اور شاہد خاقان عباسی کو اس مقصد کے لیے عدالتوں کے چکر نہیں لگانے پڑے تھے۔ بلکہ وفاقی کابینہ نے انھیں خود ہی اجازت دے دی تھی۔ حالانکہ ان کا نام ای سی ایل میں تھا۔ لیکن شہباز شریف کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ان کے معاملے میں حکومت انھیں روکنے کی ہر ممکن نہ صرف کوشش کر رہی ہے بلکہ اس ضمن میں آخری حد تک جانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی تو مزاحمت کے حامی ہیں پھر بھی انھیں اجازت مل گئی جب کہ شہباز شریف مفاہمت کے حامی ہیں انھیں روکا جا رہا ہے۔ یہ کیسی صورتحال ہے۔ تاہم بات سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی نظر میں مزاحمت اتنا بڑا جرم نہیں ہے۔ مفاہمت ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں ہم دیکھتے ہیں کہ مزاحمت والوں کے لیے رسمی بیان بازی کے علاوہ آسانیاں ہیں جب کہ مفاہمت والوں کے لیے کہیں کوئی نرمی نہیں ہے۔
اسی لیے مفاہمت کا داعی ہونے کے باوجود شہباز شریف نے موجودہ حکومت میں سب سے زیادہ جیل کاٹی ہے۔ ان کے بیٹے حمزہ شہباز نے بھی بیس ماہ طویل جیل کاٹی ہے۔ یہ سب مفاہمت کے ثمرات ہیں۔ کیونکہ موجودہ حکومت مفاہمت کو اپنے لیے سب سے زیادہ خطرہ سمجھتی ہے۔ اسی لیے مفاہمت کے حامیوں کے ساتھ بہت بے رحمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک شعوری کوشش کی جا رہی ہے کہ مفاہمت والوں کو بھی مزاحمت کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا جائے۔ تا کہ ان سے خطرہ کم ہو جائے۔حکومت کی کوشش ہے کہ تمام متبادل آپشن ختم کر دئے جائیں۔ شہباز شریف حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی آپشن نمبر ون ہیں۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
شہباز شریف کو موجودہ حکومت میں دو دفعہ گرفتار کیا گیا ہے۔ باقی سب کو نیب کا ایک ہی چکر لگوایا گیا ہے۔ لیکن شہباز شریف کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے انھیں نیب سے دو دفعہ گرفتار کروایا گیا ہے۔ پہلی دفعہ تو حکومت بننے کے فوری بعد انھیں گرفتار کروایا گیا ۔ جس کے بارے میں اب بشیر میمن بہت سے انکشافات کر رہے ہیں۔ حکومت ان انکشافات کی کسی بھی قسم کی کوئی انکوائری کروانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب کہ اپوزیشن اس معاملہ میں ایک جیوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
شہباز شریف جب پہلی دفعہ بھی نیب میں گرفتار ہوئے تو انھیں عدالتوں سے انصاف ملا۔ ان کی ضمانت ہوئی اور ضمانت کے فیصلوں میں ان پر لگائے گئے تمام الزامات پر ہائی کورٹ کے ڈبل بنچ کی رائے سب کے سامنے آگئی۔ لوگوں کو علم ہوگیا کہ آشیانہ میں زمین بھی سرکار کے پاس ہے۔ سرکار کو کوئی نقصان بھی نہیں ہوا۔
لیکن پھر بھی شہباز شریف نے ایک لمبی قید کاٹی۔ اس قید کاٹنے کے بعد بھی اپنے علاج کے غرض سے شہباز شریف لندن گئے۔ تا ہم جب کورونا کی پہلی لہر اپنے عروج پر تھی وہ لندن سے واپس آگئے۔ حکومت کو تب بھی ان کی وطن واپسی کافی ناگوار گزری۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت نے ان کی اس طرح اچانک وطن واپسی کا بہت برا منایا۔ شہباز شریف نے وطن واپسی کے بعد کورونا پر حکومت کو ٹف ٹائم دینا بھی شروع کر دیا۔ اور اس طرح کورونا کے دوران ہی انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
جب شہباز شریف لندن سے واپس آرہے تھے تو ان کے دوستوں نے انھیں خبردار کیا تھا کہ وطن واپسی پر انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ وہ گرفتاری سے نہیں ڈرتے۔ اور وہ واپس آگئے۔ اور پھر واپسی پر انھیں کورونا بھی ہوا لیکن حکومت نے پھر بھی انھیں گرفتار کیا۔ وہ اب دو سو سے زائد دن کی جیل کاٹ کر ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔
ان کے ضمانت کے فیصلے میں ان پر لگائے گئے تمام الزامات کا جواب موجود ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اب لکھا ہے کہ نیب نے لاہور ہائی کورٹ میں عدالت کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ شہباز شریف نے کسی بھی منصوبہ میں سے کسی بھی قسم کا کوئی کک بیک وصول نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی فیور دینے کے عوض کوئی غیر قانونی رقم حاصل کی ہے۔ عدالت نے یہ بھی لکھا ہے کہ کسی بھی قسم کی ٹی ٹی کے کوئی بھی پیسے شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں نہیں آئے ہیں۔ اس لیے ان پر ٹی ٹی کا کیس کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل آشیانہ میں بھی ایسا ہی فیصلہ سامنے آچکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اور شہباز شریف کے درمیان ایک محاذ آرائی پہلے دن سے جاری ہے۔ حکومت شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف کے فرائض دینے سے بھی روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔وہ جب تک جیل میں رہے ہیں ایک دن کے لیے بھی ان کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا گیا۔ جان بوجھ کر انھیں قومی اسمبلی سے دور رکھا گیا ہے تا کہ وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے فرائض ادا نہ کر سکیں۔ ان کو کسی بھی اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ حالانکہ ایک جمہوری معاشرہ میں قائد حزب اختلاف کو قائد ایوان جیسا احترام حاصل ہوتا ہے۔
قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت حاصل ہے۔ ایوان میں جو احترام قائد ایوان کو حاصل ہے وہی احترام قائد حزب اختلاف کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت جمہوریت کی گاڑی قائد حزب اختلاف کے بغیر ہی چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف جمہوریت کی گاڑی بھی ڈگمگا رہی ہے بلکہ پارلیمنٹ بھی غیر فعال ہو گئی ہے اور آج حکومت کوشش کے باوجود اپوزیشن سے بات چیت کا کوئی راستہ تلاش نہیں کر پا رہی ہے۔ کون حکومت کو سمجھائے کہ قائد حزب اختلاف کو مائنس کر کے حزب اختلاف سے کیسے بات چیت ہو سکتی ہے۔
ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ کیا شہباز شریف لندن چلے جائیں گے۔ اس ضمن میں ایک عموی رائے یہی ہے کہ حکومت کے روکنے کی شدید کوشش کے باوجود عدالت انھیں جانے کی اجازت دے گی۔ کہیں نہ کہیں حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ بالآخر انھیں جانے کی اجازت دینا ہوگی۔
ویسے تو شہباز شریف کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ حکومت کو اس طرح ٹف ٹائم نہیں دیتے جیسے مزاحمت والے دیتے ہیں۔ لیکن شاید شہباز شریف حکومت کو جہاں ٹف ٹائم دیتے ہیں اس کا سب کو اندازہ نہیں ہے۔ اب بھی دو سو سے زائد دن کی جیل سے رہائی کے بعد جب شہباز شریف اسلام آباد گئے تو چین اور برطانیہ کے سفیروں نے ان سے ملاقات کی۔
چین کے سفیر نے ان کے دور میں کیے گئے کاموں کی بر ملا تعریف کی۔ سی پیک کے لیے شہباز شریف کے کردار کی تعریف کی۔ اس ضمن مین چین کے سفیر نے سوشل میڈیا پر شہباز شریف کے ساتھ اپنی تصاویر ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
اسی طرح برطانوی سفیر کے بھی خیالات سب کے سامنے ہیں۔ ترکی سعودی عرب اور دیگر اہم ممالک بھی شہباز شریف کے ساتھ خصوصی روابط رکھتے ہیں۔ حکومت کے شدید پراپیگنڈہ کے باوجود پاکستان کے دوست ممالک کی نظر میں شہباز شریف کے احترام میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ یہ بات حکومت کے لیے پریشان کن ہے۔ اور یہ پریشانی صاف نظر بھی آتی ہے۔ عمران خان آج بھی جانتے ہیں کہ اتنی لمبی جیل اور نیب کاٹنے کے باوجود شہباز شریف ہی ان کے متبادل ہیں۔ وہ سب کو قابل قبول ہیں۔ ان کے لیے آج بھی راستے کھلے ہیں۔ یہی سب سے بڑے خطرہ کی بات ہے۔ اسی لیے انھیں بار بار جیل بھیجا جاتا ہے۔ اور اسی لیے ان کے ساتھ حکومت خاص محبت کا سلوک کرتی ہے۔