یہ بجلی کہاں سے آتی ہے
نہ بجلی نہ پانی نہ گیس میسر نہ جان و مال کی حفاظت موجود مگر سب کا بل پہلے سے کئی گنا زیادہ اتنا زیادہ کہ۔۔۔
نہ بجلی نہ پانی نہ گیس میسر نہ جان و مال کی حفاظت موجود مگر سب کا بل پہلے سے کئی گنا زیادہ اتنا زیادہ کہ یقین نہیں آتا کہ یہ کسی گھر کا بل ہے یا کسی کارخانے کا اور ہم سب کسی ایسے کاروبار میں ہیں جس کی آمدنی لاکھوں میں ہے کوئی ملازم وغیرہ نہیں ہیں جس کی آمدنی محدود ہے اور اسی میں پورا مہینہ گزارنا نہیں کاٹنا ہے۔ ہم پاکستانیوں نے لاہور کے میاں صاحبان کی حکومت میں پہلے بھی کئی بار زندگی بسرکی ہے مگر ان کا رویہ اس قدر عوام دشمنی کا کبھی نہیں تھا جو اب ہے۔ اب غریب کلاس کو تو دفع کریں کہ وہ ہے اسی قابل اور گردن زدنی، متوسط کلاس کے لوگ بھی ہر روز موت کے منہ میں جاتے ہیں اور نکلتے ہیں کسی دن ایسے ہی موت کا منہ تھک کر بند ہو جائے گا اور وہ واپس باہر نہیں نکل سکیں گے۔ ایک صوفی کا فارسی شعر یاد آ رہا ہے میں اسے فارسی میں لکھوں گا لیکن ترجمہ کر دوں گا
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جائے دیگر است
صوفی لوگ اس شعر میں وجد میں آتے اور پھر کوئی نئی زندگی پا کر لوٹ آتے یا پھر اس وجد کی کیفیت میں ہی گزر جاتے۔ اب ترجمہ ملاحظہ فرمائیے کہ ''اس کی تسلیم و رضا کے خنجر کے نیچے ذبح ہو جانے والے لوگوں کو ہر وقت غیب سے نئی زندگی ملتی ہے'' ہمیں بھی اپنی منتخب حکومت کے خنجر تلے ذبح ہونے کے بعد کبھی کوئی نئی زندگی مل جاتی ہے اور ہم گھروں کو لوٹ آتے ہیں یا پھر ناقابل برداشت اور ناقابل تصور گرانی سے گھبرا کر چھینا جھپٹی اور چوری چکاری میں پھنس جاتے ہیں اور یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ ہم مسلمانوں کے کئی گھر اب عصمت مآب نہیں رہے۔ آپ جانتے ہیں کہ نیکی کے مقابلے میں بدی کس قدر تیزی سے پھیلتی ہے ایک بار جھجھک دور ہوئی تو پھر ہر بات کی جھجھک دور ہوتی چلی گئی۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے عموماً مستقل فقر و غربت کار فرما ہوتی ہے۔ حضور پاکؐ کا فرمان ہے کہ 'فقر کفر کے قریب کر دیتا ہے'۔ ہمارے ہاں اس فقر اور غربت کی وجہ سے ہمارے گھروں اور بازاروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کفر نہیں تو اور کیا ہے۔ چلیے ایسے وعظوں کو چھوڑئیے فی الحال ایک عجوبہ اور پہیلی درپیش ہے اس کا جواب اگر آپ میں کسی کو ملے یا کسی کے پاس ہو تو مطلع فرمائیے اور وہ یہ ہے کہ حکومت کسی تہوار وغیرہ کے موقع پر اعلان کرتی ہے کہ اس دن لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی اور وہ اس دن نہیں ہوتی، اس لیے پہیلی یہ ہے کہ اس دن بجلی کہاں سے آ جاتی ہے۔
بجلی تیل کی طرح اسٹور تو کی نہیں جاتی کہ ضرورت کے مطابق اسے نکال لیں۔ یہ تو ادھر پیدا ہوتی ہے اور ادھر خرچ ہوتی ہے کسی بھی مرحلے پر اس کی ذخیرہ اندوزی نہیں ہوتی تو پھر یہ کسی دن اتنی زیادہ کہاں سے آجاتی ہے کہ اس دن اس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔ کوئی بجلی والا انجینئر ملے گا تو اس سے پوچھیں گے۔ کہیں ہمارے جگری دشمن کے فی الحال نیم جگری دوست حکمرانوں نے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی خفیہ زیرزمین تار تو نہیں بچھائے ہوئے کہ کسی دن ان تاروں کے ذریعے ہمیں بجلی پہنچ جاتی ہے۔ میرے جیسے لاعلم کو تو اس پہیلی کا جواب معلوم نہیں ہو سکا ہاں جناب ڈار صاحب کو اس کا ضرور پتہ ہو گا۔ یہ بظاہر تو صرف وزیر خزانہ ہیں وزیر بجلی نہیں مگر سب کچھ ہیں اور اس خاندان سے قریبی تعلق رکھتے ہیں جو ہمارا سب کچھ ہے، یوں تو یہ ہیں تو ایک حساب دان یعنی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مگر خزانہ کے وزیر ہیں۔ خزانہ بھی حساب کتاب پر چلتا ہے لیکن خزانے میں آمد پیداواری ذرایع سے ہوتی ہے حساب کتاب سے نہیں۔ بھٹو صاحب نے بھی ایک انجینئر کو وزیر خزانہ بنا دیا تھا ڈاکٹر مبشر حسن جو ٹاؤن پلانر تھے، وزیر خزانہ بن کر ڈار صاحب کی طرح سب کو حیران کر گئے اور ملک کی اقتصادیات کا بھٹہ بٹھا دیا۔ خوش طبع بھٹو صاحب اپنے وزیر خزانہ پر بھی طنز کیا کرتے تھے کہ ایک انجینئر وزیر خزانہ ہے۔ بھٹو صاحب ایک ذہین و فطین شخص تھے جو طنز و مزاح کا ملکہ بھی رکھتے تھے لطیفہ گو نہیں تھے۔ بہر حال اصل سوال یہ ہے کہ مجھے کوئی بتائے بلکہ میرے جیسے عامی آدمی کو کوئی سمجھائے کہ کسی ایک دن یہ بجلی کہاں سے آ جاتی ہے اور وہ کون ہے جو اس دنیا میں بھی 'کن فیکون' کا اختیار رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت اگر کسی ایک خاص دن بجلی فراہم کر لیتی ہے تو سال کے دوسرے دن اس کے سوتیلے ہیں جو ان کو بجلی نہیں ملتی۔ یہ عدم مساوات نا انصافی ہے، میری طرح پوری قوم اس انتظار میں رہتی ہے کہ کوئی تہوار آئے اور سارے دن رات بجلی میسر ہو تاکہ دن رات بجلی کو زندہ دیکھ کر لطف لے سکیں اور میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے کا مشہور عوامی گیت گاتے گاتے تھک کر سو جائیں۔ ہمارے اشرافیہ اور ہمارے قائد کے ان کھوٹے سکوں نے 66 سال میں عام سی بنیادی ضرورت پر بھی توجہ نہیں دی اب اس عرصہ تک چلتے چلتے سب کچھ پرانا ہو گیا ہے۔ انگریزوں نے جو چیزیں ایک خاص عرصہ اور مدت کے لیے بنائی تھیں وہ اپنی عمر پوری کر چکیں۔ ہمارے خوشاب کے قریب جہلم پر ریلوے کا پل جو ایک سڑک بھی تھی اپنی عمر پوری کر چکی ہے اگرچہ ایک متبادل سڑک بھی کچھ ہی پہلے بنی ہے لیکن یہ انگریزی سڑک اور ریلوے بھی چل رہی ہے کیونکہ اب بھی زیادہ قابل اعتماد یہی ہے۔ انگریز زیادہ تر اپنے اقتدار کی مدت سامنے رکھ کر کوئی تعمیر کرتا تھا مگر ہم تو انگریز کے اقتدار کی رخصتی کی مدت کے برابر بھی اپنی کوئی چیز نہیں بنا سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں بس تہواروں کی بجلی تک اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اگر ہمارے لیڈر اور حکمران ملک کو سنجیدگی سے لیتے تو کس کی مجال تھی کہ اسے توڑ سکتا لیکن ہمیں تو وزیراعظم بننا تھا خواہ وہ پاکستان کے ایک حصے کا ہی ہو۔ ایک ملک میں تودو وزیراعظم ہو نہیں سکتے تھے جو ایک وزیراعظم کا مشہور فارمولا تھا چنانچہ اس فارمولے کے تحت دو وزیراعظم بنانے کے لیے مجبوراً دو ملک بنانے پڑے۔ یہ ہماری ایک واقعی مجبوری تھی کیونکہ وزیراعظم تو بننا ہی تھا جو ہم بن گئے اور اس کی جو سزا ملی وہ بھی ہمیں معلوم ہے برائے عبرت، پرانی بات یاد دلانے والی بات ہے کہ پاکستان توڑنے والے تینوں کو غیرقدرتی موت ملی مجیب الرحمن، بھٹو اور اندرا گاندھی۔ باقی ماندہ ملک اب تک قائم ہے اگرچہ اس کے مہربان بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ اس پر بات کسی مناسب وقت پر فی الحال صرف بجلی والی بات۔