یارب اس بابرکت رات کے صدقے کورونا سے نجات عطا فرما

 امیر عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ مولانا محمد الیاس گھمن کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی گفتگو


 امیر عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ مولانا محمد الیاس گھمن کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی گفتگو

لیلۃ القدر کی فضیلت، برکات اور اجر و ثواب کے حوالے سے امیر عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ مولانا محمد الیاس گھمن نے ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی لیکچر دیا جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

مولانا محمد الیاس گھمن
(امیر عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر فرمایا کہ اے میرے محبوبؐ !آپؐ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کتنی بابرکت اور عظمت والی ہے ؟ یہ تو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر ہے ۔ یعنی ہزار مہینوںتک مسلسل عبادت میں مصروف رہنے سے بھی وہ اجر نہیں مل پاتا جو اس رات میں عبادت کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے ۔ یہ فضیلت صرف امت محمدیہؐ کو نصیب ہے کہ ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل قرار دی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت میں خلوص نیت سے لیلۃ القدر میں عبادت کی تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔(صحیح بخاری )

اس فضیلت کے حصول کے لیے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے 2 شرطیں ذکر کی ہیں :

1: عبادت کرنے والا مومن ہو یعنی عقیدہ صحیح ہو، اگر عقیدہ ہی غلط ہو تو ایک لیلۃ القدر نہیں ہزار لیلۃ القدر بھی عبادت کرتا رہے تو وہ محروم ہی رہے گاکیونکہ عقیدہ اصل اور بنیاد ہے۔اگر بنیاد ہی درست نہ ہو تو عبادت والی عمارت کیسے کھڑی ہوگی یعنی عقائد اسلام کی بنیاد ہیں اگر ایک عقیدہ بھی غلط ہوگیا تو گمراہی مقدر بنے گی۔

2: عبادت کرنے والے کی نیت درست ہو، اگر نیت میں ریا،دکھلاوا آگیا تو رات بھر جاگنا اور عبادت کرنا کسی کام کا نہیں۔

اس حدیث میں اور اس طرح کی احادیث میں جو عبادت پر گناہوں کی معافی کا تذکرہ ہے اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں باقی کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ اور حقوق العباد والے گناہوں کی معافی کے لیے ان حقوق کی ادائیگی یا پھر صاحب حق سے معافی ضروری ہے، صرف عبادت سے وہ کبھی معاف نہ ہوں گے۔

لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کا حکم

لیلۃ القدر کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔یعنی،21 ،23،25 ،27،29کی راتوں میں تلاش کرو۔(صحیح بخاری)اسی طرح کی ایک حدیث مسند احمد میں بھی ہے جس میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا کہ وہ کون سی رات ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

لیلۃ القدر کی مخصوص دعا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے یوں دعا مانگنا:اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔(سنن ابن ماجہ) اے پروردگار آپ بہت معاف فرمانے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند بھی فرماتے ہیں مولائے کریم مجھے معاف فرمادیں۔

لیلۃ القدر کو اعتدال سے گزاریں

اتنی بابرکت رات میں بھی امت کے بہت سارے افراد اعتدال کا دامن چھوڑ کر افراط وتفریط کرکے عتاب کے مستحق بنتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس رات اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اس کو ذریعہ بخشش بنائے۔

لیلۃ القدر اور کرونا وبا

لیلۃ القدر دعا کی قبولیت والی رات ہے ۔ یارب! اس بابرکت رات کے صدقے کورونا سے نجات عطا فرما۔تمام مسلمان اس وباء سے حفاظت کی خصوصی دعا کریں۔مزید یہ کہ چند احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی جائیں۔

گھروں میں رہیں

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ (فتنوں، گناہوں اور پریشانیوں سے) نجات کیسے ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زبان پر مکمل قابورکھو!زیادہ تر وقت اپنے گھر میں رہو اور اپنے گناہوں پر روتے رہا کرو۔ (جامع الترمذی)حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں(سے بچاؤ)کے بارے میں فرمایا: اپنے آپ کو اپنے گھروں تک محدود کر لینا۔

جس طرح فتنہ ایک روحانی وبا ہے اس سے بچنے کے لیے گھروں میں رہنا حفاظت کا باعث ہے اسی طرح کرونا ایک جسمانی وبا ہے اس سے بچنے کے لیے بھی گھروں میں رہنا حفاظت کا باعث ہے۔

وباء والے علاقے میں نہ جائیں نہ آئیں

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ہے تووہاں مت جاؤ، اور جہاں تم موجود ہو اگر وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو۔ (صحیح البخاری)

وبا والے شخص کے پاس بلا ضرورت نہ جائیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جذام کے مرض میں مبتلا شخص سے ایسے دور بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔یعنی قریب نہ جاؤ (صحیح البخاری)

وباء سے متاثرہ مریض سے نہ ملیں

حضرت عمرو بن شرید اپنے والد حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف کے وفد کے ہمراہ ایک ایسا شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لیے آیا جسے جذام کا مرض تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے( ملے بغیر ہی)اطلاع بھیجی کہ ہم نے آپ کو بیعت کر لیا آپ واپس چلے جائیں۔ (صحیح مسلم)

وباء سے متاثرہ مریض سے سماجی فاصلہ رکھیں

امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے معیقیب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھ سے ایک کمان کے برابر دور بیٹھو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ان کو یہ فرمانا اس لیے تھا کہ انہیں اس وقت کو کوئی متعدی مرض تھا۔ ورنہ تو وہ بدری صحابی تھے۔ (تہذیب الآثار للطبری)

ایک کمان کی مقدار تقریباًایک میٹر کے قریب فاصلہ بنتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں متعدی بیماریوں کی وجہ سے سوشل ڈسٹینسنگ یا سماجی فاصلے کا اعتبار کیا گیا ہے۔نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر انہیں متعدی مرض نہ ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں کبھی یوں نہ فرماتے کیونکہ وہ بدری صحابی تھے اور صحابہ کرامؓ میں بدری صحابہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔

سگریٹ نوشی سے بچیں

سگریٹ نوشی ہرگز نہ کریں۔ یہ پھیپھڑوں کو سخت نقصان دیتی ہے۔ کووڈ کی بیماری کا پہلا حملہ پھیپھڑوں پر ہی ہوتا ہے۔ شریعت نے ہر اس چیز سے منع کیا ہے جو بدن کو نقصان دیتی ہو۔ بطور خاص وباء کے ان دنوں میں سگریٹ نوشی سے مکمل اجتناب کریں۔

احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں

حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ!کیا میں اپنی اونٹنی کو باندھے بغیریونہی کھلا چھوڑ دوں اورتوکل( بھروسہ)کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ایسا کرنا(اسباب کو اختیار نہ کرنا) توکل نہیں بلکہ اونٹنی کی رسی باندھو اور پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔(الایمان للبیہقی)

معلوم ہوا کہ احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ توکل کے حصول کا سبب ہے۔

ہاتھوں کو بار بار دھوئیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اسے چاہیے کہ پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ اچھی طرح دھو لے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کا ہاتھ رات کو کسی نامناسب مقام پر لگ گیا ہو۔(صحیح مسلم)

حدیث مبارک میں احتیاطاً ہاتھوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے اگر ڈاکٹرز بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی تدبیر کے طور پر ہاتھوں کو دھونے کا کہیں تو یہ حکم شریعت کے خلاف نہیں بلکہ موافق ہے۔

ماسک استعمال کریں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چھینکتے تو اس وقت اپنے چہرے کو ہاتھوں یا کپڑے سے ڈھانپ لیتے اور جہاں تک ممکن ہوتا اپنی آواز کو پست رکھتے۔ (جامع الترمذی)

وبائی مرض سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال کرنا احتیاطی تدبیر ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ جب چھینک آئے تو ہاتھ / کپڑا / ٹشو وغیرہ سے منہ کو ڈھانپنا چاہیے۔

مسواک کا اہتمام کریں

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے۔ (سنن النسائی)

مشائخ کرام نے مسواک کے ستر فوائد لکھے ہیں، بہت ساری بیماریوں سے شفاء کا ذریعہ ہے بالخصوص سانس اور پھیپھڑوں کی بیماری سے چونکہ کورونا پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اس لیے اس سے بچنے کے لیے مسواک کا استعمال کرنا مفید ہے۔ اسی طرح اس کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسواک کرنے والے کی موت کا معاملہ آسان ہوتا ہے۔

صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چپکے سے صدقہ کرنا رب تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور علانیہ صدقہ کرنا بری موت سے بچاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی)

کرونا ایک وبائی مرض ہے اس لیے اس سے بچنے کے لیے صدقہ و خیرات کا اہتمام کرنا چاہیے۔

توبہ و استغفار کا اہتمام کریں

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص استغفار کی عادت بنا لے اللہ تعالیٰ اسے ہر تنگی و پریشانی سے نکلنے کا راستہ دے دیتے ہیں اور ہر رنج و غم سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کو ایسی ایسی جگہوں سے(حلال اور وسعت والا)رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ (سنن ابن ماجۃ)

کرونا کی وجہ سے انسانیت تنگی و پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا ہے۔ اس کا حل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے اپنے گناہوں سے معافی مانگنے کو قرار دیا ہے۔

غذا، دوا اور دعا

غذا میں شہد اور کلونجی کا استعمال کریں، نیم گرم پانی میں لیموں نچوڑ کر اسے استعمال کریں اور جو چیز ڈاکٹر تجویز کریںوہ بھی استعمال کریں۔ دوا کا استعمال کریں۔ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق چلیں اور دعا کا اہتمام کریں، چند دعائیں یہ ہیں:

1:اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَیِّئِ الأَسْقَامِ۔

2:بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔

3:أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔

مریض کو دیکھ کر یہ دعا مانگیں

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا

بلا تفریق ایک دوسرے کی مدد کریں

دین، مذہب اور مسلک سے بالاتر ہو کر آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں، خیرخواہی کریں، ہمدردی سے پیش آئیں۔ اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے اس وقت ہم سب بحیثیت انسان اس موذی وبا کا شکار ہیں۔اس موقع پر مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کے بغیر انسانیت کی مدد کریں۔

ریاست اور ریاستی اداروںسے تعاون کریں

احتیاطی تدابیر کے لیے ریاست اور ریاستی اداروں کا مکمل ساتھ دیں، ایسے موقع پر مخالفت کر کے اُن کے لیے مسائل کھڑے نہ کریں۔ شرعی معاملات میں اہل حق علماء کی بات مانیں اور انتظامی معاملات میں ریاستی اداروں کی بات مانیں۔ جس طرح شرعی امور میں اہل حق علماء پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی بات ماننا ضروری ہے اسی طرح انتظامی امور میں حکومت کی بات ماننا ضروری ہے۔

مساجد اور مدارس کو آباد رکھیں

حکومتی طے کردہ ایس او پیز کے مطابق مساجد اور مدارس کو ویران ہونے سے بچائیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم انسان ہیں، انسان ہونے کے ناتے ہمیں انسانیت کی خدمت کرنی چاہیے اور مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں اسلام کے تقاضوں پر پورا اترنا چاہیے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں۔ رجوع الی اللہ کرتے ہوئے تعلیمات اسلامیہ پر عمل کریں۔ حکمت و تدبر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مصائب و مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔ کم ہمتی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ اللہ ہم سب کورمضان المبارک اور خصوصاً لیلۃ القدر کی برکت سے اس موذی وباء سے نجات عطا فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں