پاک امریکا تعلقاتایک جائزہ
پاکستان اور امریکا کے تعلقات پہلے دن ہی سے تنقید وتوصیف اورمختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کی زد میں رہے ہیں۔
ISLAMABAD:
پاکستان اور امریکا کے تعلقات پہلے دن ہی سے تنقید وتوصیف اورمختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کی زد میں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے آج تک امریکا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر لکھی جانے والی بیشتر تحاریر میں پاک امریکا تعلقات کا تذکرہ لازمی طور پر ہوتا ہے۔خاص طور پر امریکی صدور،وزراء اورسفارتکاروںکی تحریرکردہ سوانح میں اس موضوع پر ایک آدھ باب ضرور ہوتا ہے۔اس کا بنیادی سبب گزشتہ 66 برسوں کے دوران پاک امریکا تعلقات میں آنے والامدوجذرہے۔چند ماہ قبل امریکا میں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی کی اس موضوع پر کتاب "Magnificent Delusions" منظر عام پر آچکی ہے،جس میں پاک امریکا تعلقات کے نشیب وفراز پرکھل کر بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجراور1980ء کی دہائی میں پاکستان میں امریکا کے سفیر رہنے والے رابرٹ اوکلے کے مضامین اور تبصرے بھی وقتاً فوقتاً شایع ہوتے رہتے ہیں۔ جن سے ان دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ان کے نقطہ نظر میں پائے جانے والے فرق کا پتہ چلتا ہے۔
اس ہفتے سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی نئی کتابDuty:Memoirs of a Secretary at War منظر عام پر آنے والی ہے،جو 2006 سے 2011ء کے دوران اس عہدے پر رہے۔ اس کتاب کے کچھ اقتباسات گزشتہ ہفتے کچھ امریکی اخبارات کے علاوہ قومی اخبارات میں بھی شایع ہوئے ہیں۔ ان اقتباسات کو پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اس کتاب کا اصل محور افغانستان، پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔جب کہ انھوں نے حسبِ توقع ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیاہے اور وہ اسباب بیان کیے ہیں، جن کی وجہ سے امریکی حکام نے اس اہم مسئلے پر پاکستان کو اعتماد میں لینے سے گریز کیا۔معاملہ صرف ایبٹ آباد آپریشن تک ہی محدود نہیں ہے،بلکہ امریکا اب کسی بھی اہم معاملے میں پاکستان کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھتا۔امریکیوں کے علاوہ دنیا کے بعض دیگر سفارتکار اور تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ سمیت بیشتر عالمی امور میں دہری پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔لہٰذا رابرٹ گیٹس نے اپنی کتاب میں جو نکات اٹھائے ہیں اور پاک امریکاتعلقات پر پائے جانے والے جن تحفظات کا تذکرہ کیا ہے، وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ خرابیِ بسیار کہاں اور کیوںہے اور اس صورتحال سے نکلنے کی کیاسبیل ہوسکتی ہے؟
معاملات اور مسائل کا اگر غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی منصوبہ سازدہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں شروع ہی سے تذبذب کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض سیاسی جماعتوں نے اپنے مخصوص سیاسی مفادات کی خاطر اس اہم اور سنگین مسئلے پر قوم کو تقسیم کردیا ہے۔جس کی وجہ سے عسکریت پسند جتھوں کے خلاف کوئی واضح اور ٹھوس کارروائی نہیں ہوپا رہی۔ اس طرز عمل کا دو طرفہ نقصان ہورہاہے۔ ایک طرف شدت پسند عناصر کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور انھوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے پورے پاکستان کو مقتل بنا دیا ہے۔جب کہ دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بری طرح متاثر ہوا ہے۔مگرکوئی بھی سیاسی جماعت یا منصوبہ ساز ملک کو ان مشکلات سے نکالنے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
اب اس تناظر میں پاک امریکا تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ64برسوں کے دوران ہماری حکومتوں نے امریکا کے ساتھ جوبھی معاہدے کیے ان پر کبھی عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی۔جس کی وجہ سے ان معاہدوں اور پاک امریکا تعلقات کے بارے میں مختلف حلقے مختلف رائے رکھتے ہیں۔پاکستان میں امریکا کی عالمی استعماریت کے خلاف روزِ اول ہی سے مخالفانہ جذبات پائے جاتے ہیں۔چونکہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکامخالفت میں صرف بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حلقے متحرک ہواکرتے تھے،اس لیے سرکاری حلقوں اور ذرایع ابلاغ میں اس مخالفت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور نہ ہی پالیسی سازی پراس مخالفت کے اثرات مرتب ہوتے تھے۔ لیکن9/11کے بعدجب امریکی پالیسیوںمیں واضح تبدیلیاں رونماء ہونا شروع ہوئیں،تو ان پالیسیوں کے براہ راست اثرات دائیں بازو کی ان جماعتوں پر پڑنا شروع ہوئے جو ایک مدت تک امریکی سرپرستی سے فیضیاب ہوتی رہی تھیں۔آج امریکا کے خلاف معاندانہ مہم میں وہی جماعتیں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔لیکن عوامی سطح پر امریکا مخالفانہ جذبات کو ہوا دینے میں ایڈونچرازم کے خواہشمند میڈیا نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حالانکہ وہ قوتیں جو افغانستان کے معاملے پر امریکا کو اسلام دشمن اور غاصب قرار دے کر عوام کو اس کے خلاف جہاد پر اکساتی رہی ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان66برسوں کے دوران تعلقات میں جو نشیب وفراز آتے رہے ہیں،ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان Perceptionکافرق شروع ہی سے نمایاں رہا ہے۔ امریکا نے کبھی پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔سرد جنگ کے زمانے میں اس نے پاکستان کے جغرافیائی اور تزویراتی محل وقوع کو سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کیا۔ اب اس خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔اس سلسلے میں سابق سفارت کار رابرٹ اوکلے کا یہ بیان قابل غور ہے کہ ''ہم نے جب بھی پاکستان سے کوئی کام لیا،اس کا پورا اور بروقت معاوضہ ادا کیا۔ڈپلومیسی میں مخلصانہ دوستی نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔'' اس کے علاوہ رابرٹ اوکلے سمیت کئی امریکی سفارت کار اور اہم سرکاری اہلکار پاکستان کی حکومتوں پر یہ الزام بھی عائدکرتے رہے ہیں کہ مختلف بین الاقوامی معاملات میں پاکستان نے ہمیشہ امریکا کو ڈبل کراس کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستان کی جانب سے اس الزام کا کبھی ٹھوس اور منطقی استدلال کے ساتھ جواب سامنے نہیں آیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یا تو پاکستانی منصوبہ سازوں نے امریکا کے موقف کوسمجھنے کی کوشش نہیں کی یا پھر دانستہ اسے نظر اندازکرنا چاہتے ہیں۔
اس بات میں دو رائے نہیںکہ سرد جنگ کے آغاز کے وقت امریکا بھارت کو اپنا حلیف بنانے کا خواہش مند تھا، مگر پنڈت جواہر لعل نہروکی جانب سے سرد مہری کے رویے نے اسے پاکستان کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کیا۔ اس کے برعکس پاکستانی حکام روزِ اول ہی سے امریکا سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں 1949 میںجب روسی سربراہِ مملکت جوزف اسٹالن پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دیتے ہیں، توبادلِ ناخواستہ امریکی صدر ہنری ٹرومین بھی اپنے ملک کے دورے کی دعوت دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔لیکن پاکستانی اسٹبلشمنٹ جوامریکا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی،اسے موقع مل گیا اور اس نے روسی دعوت نامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے مئی 1950ء میں وزیر اعظم کوامریکا کے دورہ پر بھیج دیا۔لیکن جب لیاقت علی خان اپنے سیاسی ویژن کو بروئے کار لاتے ہوئے روس کے دورے پر روانہ ہونے کے لیے راولپنڈی پہنچتے ہیں، تو انھیں قتل کردیا جاتا ہے۔اس طرز عمل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستانی بیوروکریسی میں موجود ایک طاقتور لابی امریکا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے کتنی بے چین تھی۔
آج پاکستان جس صورتحال سے دوچار ہے، اس کے تناظر میں امریکا کے ساتھ مخاصمت کسی فائدے کے بجائے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔اس سلسلے میں ہمیں چند باتیں ذہن میں رکھنا ہوںگی۔اول، امریکا افغانستان سے مکمل طورپر نہیں جارہا،بلکہ اس کی کچھ فوجیں دسمبر 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں گی، جو مقامی فوج کی جدید خطوط پر تربیت کریں گی۔ امریکانے اس حوالے سے8ارب ڈالر کا ایک منصوبہ بھی تیار کرلیا ہے، جس میں4ارب امریکا خود دے گا اور بقیہ 4 ارب یورپی یونین اداکرے گی۔دوئم، اب افغانستان میں جو بھی حکومت بنے ہوگی، وہ انتخابات کے ذریعے ہی اقتدار میں آئے گی،خواہ انتخابات غیر شفاف ہی کیوں نہ ہوں۔اس لیے طالبان کے اقتدار میں آنے کا امکان تقریباً ختم ہوچکاہے۔سوئم،اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خود پاکستان کو اٹھانا پڑے گا۔ اس لیے پاکستان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ امریکا کے ساتھ مخاصمت اور عناد کے بجائے بہتراور پراعتماد تعلقات قائم کو ترجیح دی جائے،تاکہ آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والے بحران سے بچنے کی کسی قدر سبیل ہوسکے۔