انصاف کی فراہمی کیلئے پولیس اور محکمہ پراسیکیوشن میں باہمی تعاون بڑھانا ہوگا
روزنامہ ایکسپریس کے زیر اہتمام فورم میں ماہرین قانون کا اظہار خیال
NEW DELHI:
مشہور کہاوت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں۔
مظلوم کو ظلم سے نجات اور انصاف کی فراہمی کیلئے پولیس اور عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے کے بعد عام آدمی کو انصاف کی فراہمی ہمیشہ ایک خواب کی طرح رہی۔ محکمہ پولیس میں پائی جانے والی کرپشن، روایتی سست روی، جرائم کو روکنے میں عدم دلچسپی اور سست عدالتی نظام کے باعث مظلوم انصاف کے حصول کیلئے برسوں تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگاتا ہے پھر بھی اس کیلئے انصاف ایک خواب ہی رہتا ہے، اگر کئی سالوں تک تھانوں، کچہریوں اور وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگا کر خوار ہونے کے بعد مظلوم کی داد رسی ہو بھی جائے تو بھی پورا انصاف شاذ ہی ملتا ہے۔ دوسری طرف با اختیار افراد کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ بھی سالوں جرم بے گناہی کی سزا بھگتنے کیلئے جیلوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں، پولیس کی طرف سے کیس کا چالان عدالت میں ہی پیش نہیں کیا جاتا اور بے گناہ ''مجرم'' رہائی کے انتظار میں گھڑیاں گنتا رہتا ہے۔
ہر نئی آنے والی حکومت نے عام آدمی کو اس کے گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے بلند وبانگ دعوے تو کئے مگر آج تک وہ دعوے سچ ثابت نہ ہو سکے۔ سابق دور حکومت میں پنجاب حکومت نے جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے پراسیکیوشن کا محکمہ بنایا جس کا مقصد عوام کو جلد انصاف کی فراہمی اور بے گناہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا تھا۔ موجودہ حکومت نے اپنے پچھلے پانچ سالہ دور میں اس ڈیپارٹمنٹ میں چند تبدیلیاں بھی کیں۔ اس سب کے باوجود کیا عام آدمی کو انصاف اس کے گھر کی دہلیز پر اور فوری ملنا شروع ہوگیا یا حالات جوں کے توں رہے؟ یہ جاننے کیلئے ایکسپریس فورم کے تحت ایک مکالمے کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی رانا مقبول احمد، چیف پراسیکیوٹر اینٹی ٹیررازم کورٹس چوہدری جہانگیر، ماہر قانون ربیعہ باجوہ، پیپلز پارٹی کے رہنماء و ماہر قانون بیرسٹر عامر حسن اور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے نائب صدر غلام سرور نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
رانا مقبول احمد (معاون خصوصی وزیراعلی پنجاب برائے پراسیکیوشن)
سال 2013ء میں مجموعی طور پر عدالتوں کی طرف سے 64438 کیسز کے فیصلے ہوئے جن میں سے58504 میں مجرمان کو سزا ہوئی جبکہ5934 کیسز میں ملزمان بری ہوئے ہیں یعنی مقدمات میں سزاؤں کا تناسب 91 فیصد رہا، اہم مقدمات میں پراسکیوٹرز میں عزم پیدا کر رہے ہیں تاکہ وہ زیادہ بہتر کام کرسکیں۔ حکومت دہشت گردی کے خلاف پوری تندہی سے کا م کر رہی ہے اور سال 2013کے پہلے گیارہ ماہ میں 518 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی، 383 کو عمر قید جبکہ 684 کو سات سال سے زائد سزا سنائی گئی اور 500 سے زائد کیسوں میں اپیلیں کی گئی ہیں اس طرح عدالتوں سے جوملزمان بری ہوئے ہیں ہم ان کے خلاف بڑی عدالتوں میں اپیلوں میں گئے ہیں۔ پراسیکیوشن کے عمل کو مضبوط کرنے کیلئے ہم دوسرے ممالک سے بھی رہنمائی لے رہے ہیں خاص طور پر جرمن ترقیاتی ادارہ جی آئی زیڈ نے تربیت کیلئے گرانٹ دی ہے، اس کے علاوہ برٹش اداروں سے بھی مدد لے رہے ہیں۔
پراسیکیوشن بہت اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن خوش آئند بات ہے کہ مسائل حل کرنے کیلئے سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ لوگ رل رہے ہیں ان کو انصاف نہیں مل رہا جبکہ ہمارا مشن لوگوں کو انصاف مہیا کرنا ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک ایسا عزم پیدا کیا جائے کہ پولیس اور پراسیکیوٹر ایمانداری سے کام کریں یہ سلوگن ہم نے بنایا تھا کہ انصاف سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے لوگ انصاف کیلئے دھکے کھا رہے ہیں اور یہ اسی صورت میں مل سکتا ہے جب مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کے خلاف ٹکرا جائیں۔ پراسیکیوشن اور پولیس کے درمیان ایک ایس او پی ہوا ہے جس کے تحت محکمہ پراسیکیوشن کو پولیس کو گائیڈ کرنا چاہیے حکومت کی طرف سے ہدایات ہیں کہ انویسٹی گیشن سے پہلے مداخلت کرنا ہے پارٹیوں کو لڑنے سے روکنا ہے، بدمعاشوں کو بدمعاشی سے روکنا ہے، رسہ گیروں کا راستہ روکنا ہے اس حوالہ سے تمام قوانین موجود ہیں اصل بات ایمانداری سے عمل درآمد کرانے کی ہے۔ پراسیکیوٹر پولیس کے ساتھ کھڑا ہو تو رسہ گیروں کیخلاف سخت ایکشن ہو سکتا ہے ہم فوکس کر رہے ہیں کہ کرائم کو کوپہلے روکا جائے تاکہ اربوں روپے کے فنڈز کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
محکمہ پراسیکیوشن کو مضبوط بنانے کیلئے 1969ء کی حمود الرحمن لاء کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کی ضرورت ہے اس کے مطابق ڈسٹرکٹ لیول پر پراسیکیوٹر کا گریڈ ڈسٹرکٹ جج کے برابر ہونا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ جج گریڈ21 کا ہوتا ہے جبکہ وہاں پر ہمارا نمائندہ گریڈ سترہ یا اٹھارہ کا ہوتا ہے ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ صرف یہ تمام نہ سہی ڈسٹرکٹ میں صرف ایک پراسیکیوٹر کا عہدہ گریڈ اکیس کا کردیا جائے اس کے علاوہ ان کی رہائش اورٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا جائے۔ وزیراعلی پنجاب دہشت گردی کی روک تھام کیلئے بڑی محنت سے اقدامات کر رہے ہیں۔ دہشت گردی تمام سوسائٹی کیلئے خطرہ ہے اس کے خاتمہ کیلئے نیا محکمہ بنایا گیا اور تین ارب کی لاگت سے فرانزک لیبارٹری قائم کی گئی تاکہ سائنٹیفک طریقہ سے انویسٹی گیشن ہوسکے اور پہلے مرحلہ میں تحقیقات مضبوط ہوں اور وہی کیسزعدالتوں میں لائے جائیں جن پر بحث ہوسکے اس عمل سے جعلی مقدمات کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔
پراسیکیوشن اور پولیس کے مابین ایک معاہدہ کے تحت 34 نکاتی مشترکہ ایجنڈا بنایا گیا ہے اگر اس پر ایمانداری سے عمل کیا جائے تو گناہ گار بچ نہیں سکے گا اور بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی۔ علاقہ کے ایس ایچ او کو بہت سارے کیسز کے بارے میں پتہ ہوتا ہے اگر وہ ایمانداری کرے اور درست لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے تو بہت سارے معاملات حل ہوسکتے ہیں۔ مایوسی کی صورتحال کے باوجود واہ کینٹ میںدہشت گردی کے مجرم حمیداللہ کو 69 بار سزائے موت، جی ایچ کیو حملہ کیس میں ڈاکٹر عثمان کو 32 مرتبہ سزائے موت اور مزارعوں پر حملوں میں ملوث عمر بہرام کو پانچ مرتبہ سزائے موت سنائی گئی ہے اس کے علاوہ سرگودھا میں پانچ لوگوں کو پکڑا ہے دوران تفتیش امریکن قونصل خانہ کے لوگ روزانہ آتے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں دس دس سال قید کی سزا ہوئی ہے ہم سمجھتے ہیں ابھی بھی پراسیکیوشن تسلی بخش نہیں ہے ابھی اس حوالہ سے بہت کام کرنا باقی ہے۔
تمام تر خراب حالات کے باوجود ایجنسیوں نے ان مجرموں کو سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کیخلاف میڈیا ،سول سوسائٹی، وکلاء ججز سب اکٹھے ہوجائیں، معاشرہ ان کے خلاف جہاد کرے یہ ریاست کیخلاف جرم ہے اس کو ہر صورت روکنا ہوگا تو پھر ہی معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہے اور ملک خوشحالی کی طرف جا سکتا ہے۔ 155 پولیس آرڈر کے دہشت گردی قوانین میں چیزیں بدل گئی ہیں، ریمانڈ 90 دن کا ہو گیا ہے، ٹرائل پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ سات روز میں مکمل کیا جائے۔ پراسیکیوشن افسران کی ٹریننگ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
چوہنگ ٹریننگ سنٹر میں لوکل اور غیر ملکی ماہرین سے ان کی تربیت کی جا رہی ہے اور 8 افسران کو بیرون ملک تربیت کیلئے بھجوایا گیا ہے جس سے ان کی صلاحیت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ پولیس افسران کو ہر ماہ ایک تھانے کی مانیٹرنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں پر ہونیوالی بے قاعدگیاں ختم ہوسکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے ویژن کے مطابق محکمہ پراسیکیوشن عوام کو انصاف کی فراہمی کیلئے دن رات موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ مجرمان کو کیفرکردار تک پہنچانا پراسیکیوٹرز کی اولین ذمہ داری ہے جسے ادا کرتے رہیں گے۔ پراسیکیوٹرز کی کاوشوں کے باعث محکمہ پراسیکیوشن پر عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ بہترین کارکردگی کیلئے بہترین اشخاص کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ پراسیکیوشن کے افسران قابل اور محنتی ہیں اس لیے عوام کو انصاف مل رہا ہے۔ جن مقدمات میں مجرمان کو سزا ہوئی ان سزاؤں پر جلد از جلد عمل ہونا چاہیے۔ فوری انصاف کی فراہمی کے مقاصد حاصل کرنے میں اعلیٰ کارکردگی کے حامل افسران کو نقد انعامات اور تعریفی اسناد دیں گے۔
انسداد دہشتگردی عدالت میں زیرسماعت کیسزمیں لاء افسران کو فوری سماعت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزیراعلی کے ویژن کے مطابق پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو جدید خطوط پر استوار کرکے ایساخود کار نظام وضع کیا جا رہا ہے جس کے تحت مقدمات کی تیاری، سماعت کے مراحل اور عدالتی فیصلوں کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر اعدادوشمار جمع کئے جائیں گے جن کا تجزیہ کرکے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔ پولیس پراسیکیوٹر کی مدد کے بغیر چالان میں تفتیشی خامیوں کو دور نہیں کرسکتی اور مکمل حقائق کی عدم دستیابی کی صورت میں پراسیکیوٹر بھی عدالت میں مقدمے کو بطریق احسن نہیں لڑ سکتا۔ اسی مقصد کے لئے قانون پولیس کو پابند کرتا ہے کہ مقدمہ درج ہونے سے چالان جمع ہونے تک تمام تر حقائق پراسیکیوٹر کو فراہم کریں۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر جب تفتیشی افسران کو ابتدائی سطح پر پراسیکیوٹر کی راہنمائی فراہم ہو توتکنیکی سقم سے پاک مقدمے کی تیاری ممکن ہے۔
قانون کی حکمرانی، جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پراسیکیوشن ایکٹ 2006 پر اس کی روح کے مطابق عمل ضروری ہے اور پولیس پراسیکیوشن تعاون سے ہی یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ پراسیکیوٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی بھی سنگین جرم کی واردات ہونے کے پہلے دن سے پولیس افسران کے ہمراہ رہیں تاکہ باہمی قانونی مشاورت سے ایف آئی آر کے اندراج اور وقوعہ کے بارے میں دیگر قانونی پہلوؤں کا خیال رکھنے کے علاوہ ضروری شہادتیں بھی محفوظ ہوسکیں جن کی مدد سے چالان کی نقائص سے پاک تیاری اور کیس کی موثر پیروی کر کے اصل ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے۔ مشکوک اور شرپسند عناصر کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے اور انہیں پر امن رہنے کے لیے عدالت سے پابند کروایا جائے۔
چوہدری جہانگیر (چیف پراسیکیوٹر اینٹی ٹیرر ازم کورٹس)
پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ 2007ء میں بنایا گیا مگر اس وقت اس کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی کیونکہ ابتداء میں اس میں سیاسی بھرتیاں کی گئی تھیں، مگر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے پراسیکیوٹرز کو 2010ء میں فارغ کر دیا گیا اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر نئی بھرتیاں کی گئیں اس لئے اب کہا جاسکتا ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ نے 2010ء کے بعد صحیح کام شروع کیا۔ اس وقت یہ محکمہ تمام کریمنل معاملات دیکھ رہا اور جرائم کے حوالے سے تمام کیسز دیکھنا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔ پچھلی حکومت میں جب رانا مقبول سیکرٹری قانون تھے اس وقت پولیس اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں لائزن قائم کیا گیا تاکہ پراسیکیوٹرز تفتیش میں پولیس افسران کو حقائق تک پہنچنے اور تفتیش کرنے میں رہنمائی کرسکیں۔ اس ڈیپارٹمنٹ کے قیام سے پہلے جھوٹی ایف آئی آر کا اندراج عام تھا اس کا مقصد غلط ایف آئی آر کے اندراج سے عوام کو نجات دلانا تھا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کے قیام سے ہمارا مقصدیہ تھا کہ کوئی بے گناہ پکڑا نہ جائے اور کوئی گناہ گار بچ نہ پائے۔
پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام کے بعد ہماری کوشش تھی کی عوام اور عدالتی نظام میں اپنی جگہ بنانا تاکہ عام آدمی کو سہولت دی جاسکے وہ جگہ ہم نے بنالی ہے اور اب ہماری خصوصی توجہ دہشت گردی کے معاملات کی طرف ہے جس میں ہم پولیس کی معاونت کر رہے ہیں تاکہ تفتیش کا عمل اچھے طریقے سے آگے بڑھے اور عدالت کو بھی دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں آسانی رہے۔ ہم اس سلسلے میں عدالت کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ عدالتیں سزائیں دے دیتی ہیں مگر ان پر عملدرآمد بھی ہونا چاہئے جو کہ پوری طرح نہیں ہو رہا۔ اس وقت 500 لوگ ہیں جن کو سزائے موت ہو چکی ہے مگر اس سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگر مجرموں کو سزائیں ہوں گی مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوگا تو معاشرے میں اچھا پیغام نہیں جائے گا اور جرائم نہیں رکیں گے۔ جرائم کی روک تھام کیلئے سزاؤں پر فوری عملدرآمد ضروری ہے۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی یہ کوشش جاری ہے کہ غلط ایف آئی آر کے اندراج کو روکا جائے اور ملزمو ںکو جلد سزائیں دلائی جائیں۔
ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ (ماہر قانون)
ہمارے ہاں عدالتی نظام پر بہت تنقید بھی ہوتی ہے مگر اس میں اچھی بات یہ ہے کہ ہم بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کے پاس تفتیش اور جرائم کو روکنے کیلئے پورے وسائل اور سازو سامان بھی نہیں ہے۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا پولیس کے ساتھ ایک لائزن تو بنا ہے مگر ابھی تک یہ تسلی بخش نہیں ہے میرے خیال میں پراسیکیوشن کا پولیس پر ایک چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے جیسے بہت سے ممالک میں ہوتا ہے۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ تفتیش میں پولیس کی معاونت کرتا ہے بلکہ اس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے وہ تفتیش بھی کر سکے اس میں چین کی مثال دوں گی کہ وہاں اس طرح کا طریقہ کار رائج ہے۔ پولیس کی تفتیش کے لئے مناسب سازو سامان اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کی تفتیش میں بہت سی خامیاں ہوتی ہیں اور ان خامیوں کی وجہ سے ہی عدالت میں بھی اچھا رزلٹ نہیں ملتا اور مجرموں کو سزائیں نہیں ہو پاتیں۔
اس میں بہتری کیلئے ضروری ہے کہ تفتیش کے حوالے سے پولیس کی باقاعدہ تربیت کی جائے بلکہ میری تجویز ہے کہ جو بہن بھائی پراسیکیوشن سے تعلق رکھتے ہیں ان کی بھی ریفریشر کورسز کے ذریعے ٹریننگ کرکے ان کی کارکردگی بہتر کی جائے تاکہ وہ تفتیش کے معاملے میں اور خاص کر اس کے قانونی نکات پر پولیس کی رہنمائی کرسکیں۔ اب یہ جو پراسکیوشن ایکٹ آیا ہے میں اس کی تعریف کروں گی کیونکہ بہتری کی طرف یہ ایک قدم ہے اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ ہوا کہ پولیس پر ایک چیک آیا اور عدالتوں کی بہتر انداز میں رہنمائی ہونے لگی۔ جیسے مثال کے طور پر جب کسی کیس میں چالان پیش ہوتا ہے تو پراسکیوٹر پہلے اس کو چیک کرتے ہیں اور بعد میں عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر میں یہ سمجھتی ہوں کہ چالان پیش کرنے کے بعد ہیں پراسیکیوٹر کا کردار نہیں ہونا چاہئے بلکہ تفتیش میں بھی اس کا کردار ہو کیونکہ پولیس غلط قسم کے ثبوت اکٹھے کرکے لے آتی ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور پراسکیوٹر ان کو چیک کرتا رہتا ہے اور صرف چیک کرنے سے اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
دوسرا کئی دفعہ دیکھا ہے کہ پراسیکیوٹرز میں بھی مسائل نظر آتے ہیں کئی جگہ کمٹمنٹ کی کمی نظر آتی ہے اور کہیں ان سے بھی کوتاہی ہو جاتی ہے جس طرح جب گواہ عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو پراسیکیوٹر ان کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں ہوتے اور اچھے طریقے سے ان کو ٹریٹ نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے ثبوت اچھے طریقے سے سامنے نہیں آتے۔ یہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی بہت بہتر نہیں ہو سکی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ جو بہت ہائی پروفائل کیسز ہیں ان میں پولیس اور پراسیکیوشن کا قریبی رابطہ ہونا چاہئے بلکہ اس حوالے سے ان کی میٹنگز بھی ہونی چاہئیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی رہنمائی کرسکیں۔ تفتیش کے عمل میں بہتری کیلئے سائیٹفک طریقہ تفتیش کو جتنا ترقی دیں گے اس سے تفتیش کے نتائج میں اتنی ہی بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ ناقص تفتیش پر جو ایکشن ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا۔
عدالتوں کو اس طرف دھیان دینا چاہئے اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ چالان پیش کرنے میں جو بلا وجہ کی تاخیر ہوتی وہ کیوں ہوتی ہے اس کی روک تھام کیلئے اقدام کریں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی ایک کانفرنس کے دوران یہ کہا تھا کہ 40 فیصد کیسز ایسے ہیں جن کے چالان عدالتوں میں پیش ہی نہیں کئے جاتے اس طرف بھی عدالتوں کو دھیان دینا چاہئے تاکہ انصاف کی فراہم میں ان کا کردار نظر آئے اور جہاں پولیس غلط کرے وہ اس حوالے سے ان سے پوچھ گچھ کریں اور قانون اور خاص کر قوانین کے مطابق ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اس طرح ہم انصاف کی فراہمی کے طریقہ کار کو بہتر کرسکتے ہیں۔ جرمن تنظیم جی آئی زیڈ نے پچھلے دور میں پراسکیوشن کے معاملات بہتر کرنے کیلے فنڈنگ کی جو اس کی بجائے عمارتوں کی تعمیر پر خرچ کئے گئے ہمیں بھی چاہیے کہ جس کام کیلئے فنڈنگ ہو اس کو اسی پرخرچ کرنا چاہیے۔
بیرسٹر عامر حسن (رہنماء پیپلزپارٹی و ماہر قانون)
جیسا کہ چیف پراسیکیوٹر چوہدری جہانگیر نے کہا کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر بھرتیاں جو کہ ایک اچھا اقدام ہے، اب میں انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس میں کچھ چیزوں کا اضافہ کرنا چاہوں گا ۔ ایک یہ کہ جو انہوں نے کہا کہ پولیس اور پراسیکیوشن میں ایک لائزن پیدا کیا گیا ہے تو یہ بہت ضروری تھا، پہلے ہم پراسیکیوشن سروس کو دیکھتے تھے تو اس میں کرپشن کا ایک بازار گرم تھا، اس سے پہلے جو پراسیکیوشن موجود تھی اس میں کیس کی سماعت کے دوران پبلک پراسیکیوٹر کی عدالت میں موجودگی بھی نہیں ہوتی تھی اور کرپشن کی دوسری وجہ اس لئے سمجھی جاتی تھی کہ تنخواہیں بہت کم تھیں، اب تنخواہیں بھی بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہیں مگر میرا نہیں خیال کہ کرپشن میں کچھ کمی آئی ہے۔ ذاتی طور پر میرا جتنا بھی تجربہ ہے اس میں یہی ہے کہ کرپشن بڑھی ہے۔
ایک اور چیز جو چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کا نصب العین یہ ہے کہ بے گناہ پکڑا نہ جائے اور گناہ گار بچ نہ پائے مگر میرے خیال میں ہم لوگ ابھی اس سے بہت دور ہیں کیونکہ پولیس اور پراسیکیوشن میں لائزن کو بڑھانا پڑے گا۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جب پولیس چالان میں کسی ملزم پر جو الزامات لگاتی ہے اس میں اتنے زیادہ نقائص ہوتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ دونوں کے مابین یہ لائزن بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے اسے بہت مضبوط کرنا پڑے گا اور تفتیش میں پولیس کے کردار کو کم کرکے پراسیکیوشن کے کردار کو بڑھانا پڑے گا کیونکہ پراسیکیوٹر بہتر جانتا ہے کہ کس کیس میں کونسی فرد جرم لگنی چاہئے۔
اس کے علاوہ دو اور چیزیں ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے ایک یہ سیکشن 173 سی آر بی سی ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی کیس کا چالان 14 دن کے اندر اندر پیش کیا جائے اور اگر 14 دن میں چالان پیش نہ ہو سکے تو مزید 3 دن میں ان ٹیرم چالان پیش کیا جائے یعنی ٹوٹل 17 دن بنتے ہیں لیکن آج تک کوئی چالان 14 دن یا ان ٹیرم پیریڈ میں پیش نہیں کیا گیا، اگر کہیں ایسا ہوا ہو تو یہ پنجاب میں بہت بڑا ریکارڈ ہوگا۔ یہ 173 سی آر بی سی کی واضح خلاف ورزی ہے جسے روکنے کو یقینی بنانا چاہئے کیونکہ جب چالان پیش نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو جیل میں ہوتے ہیں ان کی ضمانت نہیں ہو پاتی اور بے گناہ لمبے عرصے تک جیلوں میں رہتے ہیں جو کہ ایک طرح سے انصا ف کا خون ہے۔
دوسری اہم بات جو کہ میں تجویز کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ قیدی جب جیلوںسے لاکر عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ٹرک میں ہی بیٹھے رہتے ہیں جبکہ ان کے وارنٹ کے اوپر مجسٹریٹ نے صرف سائن کرنے ہوتے ہیں اور سائن کرنے کے بعد قیدی ٹرک میں بیٹھے بیٹھے ہی واپس چلے جاتے ہیں اس کام کیلئے حکومت کے کروڑوں انہیں لانے لے جانے کیلئے خرچ ہوتے ہیں اور لاکھوں اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں، اگر پراسیکیوشن کی طرف سے اس میں تھوڑی ترمیم کر لی جائے، قیدیوں کو عدالت لانے کی بجائے کوئی مجسٹریٹ یا جج جیل کے اندر جا کر ان کے وارنٹ پر سائن کر دے تو کروڑوں روپے کی بچت بھی ہو جائے گی اور لاکھوں ملازمین جو اس ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں وہ بھی کسی اور کام میں ڈیوٹی دے سکیں گے، اس سب کے علاوہ قیدیوں کی سکیورٹی کا مسئلہ بھی رہتا ہے، کئی قیدی اسی دوران مارے گئے اور کئی فرار کے واقعات بھی ہوئے، اس لئے اگر اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو خزانے پر بوجھ بھی کم ہوگا اور ملازمین امن و امن قائم کرنے کیلئے ڈیوٹی دے سکیں گے۔
غلام سرور (نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار)
ہمارے ہاں تفتیشی افسر کا جو کردار ہے وہ یہ ہے کہ اس نے پراسیکیوشن اور مدعی دونوں طرف سے ثبوت اکٹھا کرنے ہوتے ہیں مگر ہم نے یہاں پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر کے کردار کو تھوڑا سا تبدیل کردیا ہے۔ جب ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ تفتیشی افسر اس ایف آئی آر کے متعلق ایسے ثبوت اکٹھے کرے گا جس سے ملزم بچ نہ پائے اور پھر ٹرائیل کیلئے وہ ثبوت عدالت میں پیش کر دے گا اور پراسیکیوٹر انہی ثبوتوں کو بااعتماد ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کرے گا اور عدالت کو تجویز دے گا کہ انہی ثبوتوں پر بھروسہ کرکے کیس کا فیصلہ کیا جائے۔
یہاں پہلی چیز جو تفتیشی افسر کے حوالے سے ہے کہ اس کا کردار یہ نہیں ہے کہ وہ صرف ملزم کے خلاف ہی ثبوت اکٹھے کرے بلکہ ملزم کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ اپنی حمایت میں کوئی ثبوت پیش کرتا ہے تو اس کو قبول کیا جائے، اسی طرح دوسری طرف سے مدعی کو اپنے مؤقف کی تائید میں کوئی چیز دینا چاہتا ہے تو وہ بھی دے سکتا ہے مگر یہاں تفتیشی افسر نے اپنا کردار خود خراب کر لیا ہے وہ کہتا ہے کہ وہ وہی چیزیں اکٹھی کرے گا جوالزم دہندہ کی حمایت میں جاتی ہوں۔ کئی دفعہ یہ کوششیں کی گئیں کہ تفتیشی افسر اپنا کردار بہتر کرے، حکومت نے بھی اس حوالے سے کافی کوششیں کیں اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ڈائریکٹ انسپکٹر بھرتی کئے کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ رینکرز بہتر تفتیش نہیں کرتے لیکن ہم اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور ہمارے سینئر بتاتے ہیں کہ تفتیشی افسر جو بلنڈر 20 سال پہلے کرتا تھا آج بھی وہی بلنڈر کرتا ہے۔
تفتیشی افسر کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اب یہ شارٹ کٹ ڈھونڈا گیا کہ پراسیکیوشن اس کی مدد کرے حالانکہ پراسیکیوشن کا کردار یہ نہیں ہے کہ الزام دہندہ کا الزام ہر صورت میں عدالت کے سامنے پیش کرنا ہے بلکہ اس کا کام عدالت کی معاونت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ تفتیشی افسر تو اپنی کی گئی تفتیش کا دفاع کرے گا اور عدالت میں اس کے خلاف نہیں بولے گا۔ پراسیکیوٹر کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر تفتیش کمزور ہے تو اس کی خامیوں کی نشاندہی کرے، عدالت کے اندر تفتیش کے حوالے سے تفتیشی افسر ذمہ دار نہیں ہونا چاہئے۔ پراسیکیوٹر کو چاہئے کہ وہ اپنی سطح پر تفتیش کی سکروٹنی کرے اور دیکھے کہ جو کیس اس کے سامنے پیش ہوا ہے وہ عدالت میں پیش کرنے کے قابل بھی ہے یہ کہ اس میں تفتیش کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اس کے پاس اختیار ہونا چاہئے کہ تاکہ وہ ایسا کرسکے اس سے عدالتوں پر بے جا بوجھ کم ہو سکے گا۔
ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ پراسیکیوٹر کیس کی مکمل تیاری کرکے عدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے مگر اب صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے اور پراسیکیوٹر اب ماضی کی نسبت کیس کی بہتر تیاری کرکے عدالت میں پیش ہوتے ہیں اس میں ابھی مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے اور لائی بھی جا سکتی ہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ تفتیشی افسراور پراسیکیوٹر مل کر کام کریں اس سے عدالتی کارروائی میں بھی بہتری آئے گی۔ ایک سب سے اہم چیز یہ ہے کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ جتنا بھی اچھا ہو جب تک تفتیشی افسر کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی تو معاملات میں بہتری نہیں آسکتی ، یہاں تفتیشی افسر تفتیش کی ضمنی لکھنے کے بعد اس کی کاپی محافظ برانچ میں جمع نہیں کراتا حالانکہ اسے اس کا پابند ہونا چاہئے مگر وہ کاپی محافظ برانچ میں جمع نہیں کراتا اور ضمنی میں روزانہ اپنی مرضی سے ردوبدل کرتا رہتا ہے اس سے کرپشن بھی بڑھتی ہے اور انصاف کی فراہمی میں بھی تاخیر ہوتی ہے اس لئے تفتیشی کو سختی سے اس چیز کا پابند کیا جائے کہ وہ ضمنی لکھنے کے بعد اس کی کاپی اسی روز محافظ برانچ میں جمع کرائے۔
مشہور کہاوت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں۔
مظلوم کو ظلم سے نجات اور انصاف کی فراہمی کیلئے پولیس اور عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے۔ مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے کے بعد عام آدمی کو انصاف کی فراہمی ہمیشہ ایک خواب کی طرح رہی۔ محکمہ پولیس میں پائی جانے والی کرپشن، روایتی سست روی، جرائم کو روکنے میں عدم دلچسپی اور سست عدالتی نظام کے باعث مظلوم انصاف کے حصول کیلئے برسوں تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگاتا ہے پھر بھی اس کیلئے انصاف ایک خواب ہی رہتا ہے، اگر کئی سالوں تک تھانوں، کچہریوں اور وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگا کر خوار ہونے کے بعد مظلوم کی داد رسی ہو بھی جائے تو بھی پورا انصاف شاذ ہی ملتا ہے۔ دوسری طرف با اختیار افراد کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ بھی سالوں جرم بے گناہی کی سزا بھگتنے کیلئے جیلوں میں پڑے سڑتے رہتے ہیں، پولیس کی طرف سے کیس کا چالان عدالت میں ہی پیش نہیں کیا جاتا اور بے گناہ ''مجرم'' رہائی کے انتظار میں گھڑیاں گنتا رہتا ہے۔
ہر نئی آنے والی حکومت نے عام آدمی کو اس کے گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی کے بلند وبانگ دعوے تو کئے مگر آج تک وہ دعوے سچ ثابت نہ ہو سکے۔ سابق دور حکومت میں پنجاب حکومت نے جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے پراسیکیوشن کا محکمہ بنایا جس کا مقصد عوام کو جلد انصاف کی فراہمی اور بے گناہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا تھا۔ موجودہ حکومت نے اپنے پچھلے پانچ سالہ دور میں اس ڈیپارٹمنٹ میں چند تبدیلیاں بھی کیں۔ اس سب کے باوجود کیا عام آدمی کو انصاف اس کے گھر کی دہلیز پر اور فوری ملنا شروع ہوگیا یا حالات جوں کے توں رہے؟ یہ جاننے کیلئے ایکسپریس فورم کے تحت ایک مکالمے کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی رانا مقبول احمد، چیف پراسیکیوٹر اینٹی ٹیررازم کورٹس چوہدری جہانگیر، ماہر قانون ربیعہ باجوہ، پیپلز پارٹی کے رہنماء و ماہر قانون بیرسٹر عامر حسن اور ہائیکورٹ بار ایسوسی کے نائب صدر غلام سرور نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
رانا مقبول احمد (معاون خصوصی وزیراعلی پنجاب برائے پراسیکیوشن)
سال 2013ء میں مجموعی طور پر عدالتوں کی طرف سے 64438 کیسز کے فیصلے ہوئے جن میں سے58504 میں مجرمان کو سزا ہوئی جبکہ5934 کیسز میں ملزمان بری ہوئے ہیں یعنی مقدمات میں سزاؤں کا تناسب 91 فیصد رہا، اہم مقدمات میں پراسکیوٹرز میں عزم پیدا کر رہے ہیں تاکہ وہ زیادہ بہتر کام کرسکیں۔ حکومت دہشت گردی کے خلاف پوری تندہی سے کا م کر رہی ہے اور سال 2013کے پہلے گیارہ ماہ میں 518 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی، 383 کو عمر قید جبکہ 684 کو سات سال سے زائد سزا سنائی گئی اور 500 سے زائد کیسوں میں اپیلیں کی گئی ہیں اس طرح عدالتوں سے جوملزمان بری ہوئے ہیں ہم ان کے خلاف بڑی عدالتوں میں اپیلوں میں گئے ہیں۔ پراسیکیوشن کے عمل کو مضبوط کرنے کیلئے ہم دوسرے ممالک سے بھی رہنمائی لے رہے ہیں خاص طور پر جرمن ترقیاتی ادارہ جی آئی زیڈ نے تربیت کیلئے گرانٹ دی ہے، اس کے علاوہ برٹش اداروں سے بھی مدد لے رہے ہیں۔
پراسیکیوشن بہت اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن خوش آئند بات ہے کہ مسائل حل کرنے کیلئے سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ لوگ رل رہے ہیں ان کو انصاف نہیں مل رہا جبکہ ہمارا مشن لوگوں کو انصاف مہیا کرنا ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک ایسا عزم پیدا کیا جائے کہ پولیس اور پراسیکیوٹر ایمانداری سے کام کریں یہ سلوگن ہم نے بنایا تھا کہ انصاف سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے لوگ انصاف کیلئے دھکے کھا رہے ہیں اور یہ اسی صورت میں مل سکتا ہے جب مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کے خلاف ٹکرا جائیں۔ پراسیکیوشن اور پولیس کے درمیان ایک ایس او پی ہوا ہے جس کے تحت محکمہ پراسیکیوشن کو پولیس کو گائیڈ کرنا چاہیے حکومت کی طرف سے ہدایات ہیں کہ انویسٹی گیشن سے پہلے مداخلت کرنا ہے پارٹیوں کو لڑنے سے روکنا ہے، بدمعاشوں کو بدمعاشی سے روکنا ہے، رسہ گیروں کا راستہ روکنا ہے اس حوالہ سے تمام قوانین موجود ہیں اصل بات ایمانداری سے عمل درآمد کرانے کی ہے۔ پراسیکیوٹر پولیس کے ساتھ کھڑا ہو تو رسہ گیروں کیخلاف سخت ایکشن ہو سکتا ہے ہم فوکس کر رہے ہیں کہ کرائم کو کوپہلے روکا جائے تاکہ اربوں روپے کے فنڈز کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
محکمہ پراسیکیوشن کو مضبوط بنانے کیلئے 1969ء کی حمود الرحمن لاء کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کی ضرورت ہے اس کے مطابق ڈسٹرکٹ لیول پر پراسیکیوٹر کا گریڈ ڈسٹرکٹ جج کے برابر ہونا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ جج گریڈ21 کا ہوتا ہے جبکہ وہاں پر ہمارا نمائندہ گریڈ سترہ یا اٹھارہ کا ہوتا ہے ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ صرف یہ تمام نہ سہی ڈسٹرکٹ میں صرف ایک پراسیکیوٹر کا عہدہ گریڈ اکیس کا کردیا جائے اس کے علاوہ ان کی رہائش اورٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا جائے۔ وزیراعلی پنجاب دہشت گردی کی روک تھام کیلئے بڑی محنت سے اقدامات کر رہے ہیں۔ دہشت گردی تمام سوسائٹی کیلئے خطرہ ہے اس کے خاتمہ کیلئے نیا محکمہ بنایا گیا اور تین ارب کی لاگت سے فرانزک لیبارٹری قائم کی گئی تاکہ سائنٹیفک طریقہ سے انویسٹی گیشن ہوسکے اور پہلے مرحلہ میں تحقیقات مضبوط ہوں اور وہی کیسزعدالتوں میں لائے جائیں جن پر بحث ہوسکے اس عمل سے جعلی مقدمات کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔
پراسیکیوشن اور پولیس کے مابین ایک معاہدہ کے تحت 34 نکاتی مشترکہ ایجنڈا بنایا گیا ہے اگر اس پر ایمانداری سے عمل کیا جائے تو گناہ گار بچ نہیں سکے گا اور بے گناہ کو سزا نہیں ہوگی۔ علاقہ کے ایس ایچ او کو بہت سارے کیسز کے بارے میں پتہ ہوتا ہے اگر وہ ایمانداری کرے اور درست لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے تو بہت سارے معاملات حل ہوسکتے ہیں۔ مایوسی کی صورتحال کے باوجود واہ کینٹ میںدہشت گردی کے مجرم حمیداللہ کو 69 بار سزائے موت، جی ایچ کیو حملہ کیس میں ڈاکٹر عثمان کو 32 مرتبہ سزائے موت اور مزارعوں پر حملوں میں ملوث عمر بہرام کو پانچ مرتبہ سزائے موت سنائی گئی ہے اس کے علاوہ سرگودھا میں پانچ لوگوں کو پکڑا ہے دوران تفتیش امریکن قونصل خانہ کے لوگ روزانہ آتے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں دس دس سال قید کی سزا ہوئی ہے ہم سمجھتے ہیں ابھی بھی پراسیکیوشن تسلی بخش نہیں ہے ابھی اس حوالہ سے بہت کام کرنا باقی ہے۔
تمام تر خراب حالات کے باوجود ایجنسیوں نے ان مجرموں کو سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کیخلاف میڈیا ،سول سوسائٹی، وکلاء ججز سب اکٹھے ہوجائیں، معاشرہ ان کے خلاف جہاد کرے یہ ریاست کیخلاف جرم ہے اس کو ہر صورت روکنا ہوگا تو پھر ہی معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہے اور ملک خوشحالی کی طرف جا سکتا ہے۔ 155 پولیس آرڈر کے دہشت گردی قوانین میں چیزیں بدل گئی ہیں، ریمانڈ 90 دن کا ہو گیا ہے، ٹرائل پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ سات روز میں مکمل کیا جائے۔ پراسیکیوشن افسران کی ٹریننگ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
چوہنگ ٹریننگ سنٹر میں لوکل اور غیر ملکی ماہرین سے ان کی تربیت کی جا رہی ہے اور 8 افسران کو بیرون ملک تربیت کیلئے بھجوایا گیا ہے جس سے ان کی صلاحیت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ پولیس افسران کو ہر ماہ ایک تھانے کی مانیٹرنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں پر ہونیوالی بے قاعدگیاں ختم ہوسکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے ویژن کے مطابق محکمہ پراسیکیوشن عوام کو انصاف کی فراہمی کیلئے دن رات موثر کردار ادا کر رہا ہے۔ مجرمان کو کیفرکردار تک پہنچانا پراسیکیوٹرز کی اولین ذمہ داری ہے جسے ادا کرتے رہیں گے۔ پراسیکیوٹرز کی کاوشوں کے باعث محکمہ پراسیکیوشن پر عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ بہترین کارکردگی کیلئے بہترین اشخاص کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ پراسیکیوشن کے افسران قابل اور محنتی ہیں اس لیے عوام کو انصاف مل رہا ہے۔ جن مقدمات میں مجرمان کو سزا ہوئی ان سزاؤں پر جلد از جلد عمل ہونا چاہیے۔ فوری انصاف کی فراہمی کے مقاصد حاصل کرنے میں اعلیٰ کارکردگی کے حامل افسران کو نقد انعامات اور تعریفی اسناد دیں گے۔
انسداد دہشتگردی عدالت میں زیرسماعت کیسزمیں لاء افسران کو فوری سماعت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزیراعلی کے ویژن کے مطابق پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو جدید خطوط پر استوار کرکے ایساخود کار نظام وضع کیا جا رہا ہے جس کے تحت مقدمات کی تیاری، سماعت کے مراحل اور عدالتی فیصلوں کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر اعدادوشمار جمع کئے جائیں گے جن کا تجزیہ کرکے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔ پولیس پراسیکیوٹر کی مدد کے بغیر چالان میں تفتیشی خامیوں کو دور نہیں کرسکتی اور مکمل حقائق کی عدم دستیابی کی صورت میں پراسیکیوٹر بھی عدالت میں مقدمے کو بطریق احسن نہیں لڑ سکتا۔ اسی مقصد کے لئے قانون پولیس کو پابند کرتا ہے کہ مقدمہ درج ہونے سے چالان جمع ہونے تک تمام تر حقائق پراسیکیوٹر کو فراہم کریں۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر جب تفتیشی افسران کو ابتدائی سطح پر پراسیکیوٹر کی راہنمائی فراہم ہو توتکنیکی سقم سے پاک مقدمے کی تیاری ممکن ہے۔
قانون کی حکمرانی، جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پراسیکیوشن ایکٹ 2006 پر اس کی روح کے مطابق عمل ضروری ہے اور پولیس پراسیکیوشن تعاون سے ہی یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ پراسیکیوٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی بھی سنگین جرم کی واردات ہونے کے پہلے دن سے پولیس افسران کے ہمراہ رہیں تاکہ باہمی قانونی مشاورت سے ایف آئی آر کے اندراج اور وقوعہ کے بارے میں دیگر قانونی پہلوؤں کا خیال رکھنے کے علاوہ ضروری شہادتیں بھی محفوظ ہوسکیں جن کی مدد سے چالان کی نقائص سے پاک تیاری اور کیس کی موثر پیروی کر کے اصل ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے۔ مشکوک اور شرپسند عناصر کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے اور انہیں پر امن رہنے کے لیے عدالت سے پابند کروایا جائے۔
چوہدری جہانگیر (چیف پراسیکیوٹر اینٹی ٹیرر ازم کورٹس)
پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ 2007ء میں بنایا گیا مگر اس وقت اس کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی کیونکہ ابتداء میں اس میں سیاسی بھرتیاں کی گئی تھیں، مگر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے پراسیکیوٹرز کو 2010ء میں فارغ کر دیا گیا اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر نئی بھرتیاں کی گئیں اس لئے اب کہا جاسکتا ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ نے 2010ء کے بعد صحیح کام شروع کیا۔ اس وقت یہ محکمہ تمام کریمنل معاملات دیکھ رہا اور جرائم کے حوالے سے تمام کیسز دیکھنا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔ پچھلی حکومت میں جب رانا مقبول سیکرٹری قانون تھے اس وقت پولیس اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں لائزن قائم کیا گیا تاکہ پراسیکیوٹرز تفتیش میں پولیس افسران کو حقائق تک پہنچنے اور تفتیش کرنے میں رہنمائی کرسکیں۔ اس ڈیپارٹمنٹ کے قیام سے پہلے جھوٹی ایف آئی آر کا اندراج عام تھا اس کا مقصد غلط ایف آئی آر کے اندراج سے عوام کو نجات دلانا تھا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کے قیام سے ہمارا مقصدیہ تھا کہ کوئی بے گناہ پکڑا نہ جائے اور کوئی گناہ گار بچ نہ پائے۔
پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام کے بعد ہماری کوشش تھی کی عوام اور عدالتی نظام میں اپنی جگہ بنانا تاکہ عام آدمی کو سہولت دی جاسکے وہ جگہ ہم نے بنالی ہے اور اب ہماری خصوصی توجہ دہشت گردی کے معاملات کی طرف ہے جس میں ہم پولیس کی معاونت کر رہے ہیں تاکہ تفتیش کا عمل اچھے طریقے سے آگے بڑھے اور عدالت کو بھی دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں آسانی رہے۔ ہم اس سلسلے میں عدالت کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔ عدالتیں سزائیں دے دیتی ہیں مگر ان پر عملدرآمد بھی ہونا چاہئے جو کہ پوری طرح نہیں ہو رہا۔ اس وقت 500 لوگ ہیں جن کو سزائے موت ہو چکی ہے مگر اس سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگر مجرموں کو سزائیں ہوں گی مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوگا تو معاشرے میں اچھا پیغام نہیں جائے گا اور جرائم نہیں رکیں گے۔ جرائم کی روک تھام کیلئے سزاؤں پر فوری عملدرآمد ضروری ہے۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی یہ کوشش جاری ہے کہ غلط ایف آئی آر کے اندراج کو روکا جائے اور ملزمو ںکو جلد سزائیں دلائی جائیں۔
ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ (ماہر قانون)
ہمارے ہاں عدالتی نظام پر بہت تنقید بھی ہوتی ہے مگر اس میں اچھی بات یہ ہے کہ ہم بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کے پاس تفتیش اور جرائم کو روکنے کیلئے پورے وسائل اور سازو سامان بھی نہیں ہے۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا پولیس کے ساتھ ایک لائزن تو بنا ہے مگر ابھی تک یہ تسلی بخش نہیں ہے میرے خیال میں پراسیکیوشن کا پولیس پر ایک چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے جیسے بہت سے ممالک میں ہوتا ہے۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ تفتیش میں پولیس کی معاونت کرتا ہے بلکہ اس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے وہ تفتیش بھی کر سکے اس میں چین کی مثال دوں گی کہ وہاں اس طرح کا طریقہ کار رائج ہے۔ پولیس کی تفتیش کے لئے مناسب سازو سامان اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کی تفتیش میں بہت سی خامیاں ہوتی ہیں اور ان خامیوں کی وجہ سے ہی عدالت میں بھی اچھا رزلٹ نہیں ملتا اور مجرموں کو سزائیں نہیں ہو پاتیں۔
اس میں بہتری کیلئے ضروری ہے کہ تفتیش کے حوالے سے پولیس کی باقاعدہ تربیت کی جائے بلکہ میری تجویز ہے کہ جو بہن بھائی پراسیکیوشن سے تعلق رکھتے ہیں ان کی بھی ریفریشر کورسز کے ذریعے ٹریننگ کرکے ان کی کارکردگی بہتر کی جائے تاکہ وہ تفتیش کے معاملے میں اور خاص کر اس کے قانونی نکات پر پولیس کی رہنمائی کرسکیں۔ اب یہ جو پراسکیوشن ایکٹ آیا ہے میں اس کی تعریف کروں گی کیونکہ بہتری کی طرف یہ ایک قدم ہے اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ ہوا کہ پولیس پر ایک چیک آیا اور عدالتوں کی بہتر انداز میں رہنمائی ہونے لگی۔ جیسے مثال کے طور پر جب کسی کیس میں چالان پیش ہوتا ہے تو پراسکیوٹر پہلے اس کو چیک کرتے ہیں اور بعد میں عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر میں یہ سمجھتی ہوں کہ چالان پیش کرنے کے بعد ہیں پراسیکیوٹر کا کردار نہیں ہونا چاہئے بلکہ تفتیش میں بھی اس کا کردار ہو کیونکہ پولیس غلط قسم کے ثبوت اکٹھے کرکے لے آتی ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور پراسکیوٹر ان کو چیک کرتا رہتا ہے اور صرف چیک کرنے سے اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
دوسرا کئی دفعہ دیکھا ہے کہ پراسیکیوٹرز میں بھی مسائل نظر آتے ہیں کئی جگہ کمٹمنٹ کی کمی نظر آتی ہے اور کہیں ان سے بھی کوتاہی ہو جاتی ہے جس طرح جب گواہ عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو پراسیکیوٹر ان کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں ہوتے اور اچھے طریقے سے ان کو ٹریٹ نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے ثبوت اچھے طریقے سے سامنے نہیں آتے۔ یہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ابھی تک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی بہت بہتر نہیں ہو سکی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ جو بہت ہائی پروفائل کیسز ہیں ان میں پولیس اور پراسیکیوشن کا قریبی رابطہ ہونا چاہئے بلکہ اس حوالے سے ان کی میٹنگز بھی ہونی چاہئیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی رہنمائی کرسکیں۔ تفتیش کے عمل میں بہتری کیلئے سائیٹفک طریقہ تفتیش کو جتنا ترقی دیں گے اس سے تفتیش کے نتائج میں اتنی ہی بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ ناقص تفتیش پر جو ایکشن ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا۔
عدالتوں کو اس طرف دھیان دینا چاہئے اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ چالان پیش کرنے میں جو بلا وجہ کی تاخیر ہوتی وہ کیوں ہوتی ہے اس کی روک تھام کیلئے اقدام کریں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی ایک کانفرنس کے دوران یہ کہا تھا کہ 40 فیصد کیسز ایسے ہیں جن کے چالان عدالتوں میں پیش ہی نہیں کئے جاتے اس طرف بھی عدالتوں کو دھیان دینا چاہئے تاکہ انصاف کی فراہم میں ان کا کردار نظر آئے اور جہاں پولیس غلط کرے وہ اس حوالے سے ان سے پوچھ گچھ کریں اور قانون اور خاص کر قوانین کے مطابق ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اس طرح ہم انصاف کی فراہمی کے طریقہ کار کو بہتر کرسکتے ہیں۔ جرمن تنظیم جی آئی زیڈ نے پچھلے دور میں پراسکیوشن کے معاملات بہتر کرنے کیلے فنڈنگ کی جو اس کی بجائے عمارتوں کی تعمیر پر خرچ کئے گئے ہمیں بھی چاہیے کہ جس کام کیلئے فنڈنگ ہو اس کو اسی پرخرچ کرنا چاہیے۔
بیرسٹر عامر حسن (رہنماء پیپلزپارٹی و ماہر قانون)
جیسا کہ چیف پراسیکیوٹر چوہدری جہانگیر نے کہا کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر بھرتیاں جو کہ ایک اچھا اقدام ہے، اب میں انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس میں کچھ چیزوں کا اضافہ کرنا چاہوں گا ۔ ایک یہ کہ جو انہوں نے کہا کہ پولیس اور پراسیکیوشن میں ایک لائزن پیدا کیا گیا ہے تو یہ بہت ضروری تھا، پہلے ہم پراسیکیوشن سروس کو دیکھتے تھے تو اس میں کرپشن کا ایک بازار گرم تھا، اس سے پہلے جو پراسیکیوشن موجود تھی اس میں کیس کی سماعت کے دوران پبلک پراسیکیوٹر کی عدالت میں موجودگی بھی نہیں ہوتی تھی اور کرپشن کی دوسری وجہ اس لئے سمجھی جاتی تھی کہ تنخواہیں بہت کم تھیں، اب تنخواہیں بھی بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہیں مگر میرا نہیں خیال کہ کرپشن میں کچھ کمی آئی ہے۔ ذاتی طور پر میرا جتنا بھی تجربہ ہے اس میں یہی ہے کہ کرپشن بڑھی ہے۔
ایک اور چیز جو چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کا نصب العین یہ ہے کہ بے گناہ پکڑا نہ جائے اور گناہ گار بچ نہ پائے مگر میرے خیال میں ہم لوگ ابھی اس سے بہت دور ہیں کیونکہ پولیس اور پراسیکیوشن میں لائزن کو بڑھانا پڑے گا۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جب پولیس چالان میں کسی ملزم پر جو الزامات لگاتی ہے اس میں اتنے زیادہ نقائص ہوتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ دونوں کے مابین یہ لائزن بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے اسے بہت مضبوط کرنا پڑے گا اور تفتیش میں پولیس کے کردار کو کم کرکے پراسیکیوشن کے کردار کو بڑھانا پڑے گا کیونکہ پراسیکیوٹر بہتر جانتا ہے کہ کس کیس میں کونسی فرد جرم لگنی چاہئے۔
اس کے علاوہ دو اور چیزیں ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے ایک یہ سیکشن 173 سی آر بی سی ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی کیس کا چالان 14 دن کے اندر اندر پیش کیا جائے اور اگر 14 دن میں چالان پیش نہ ہو سکے تو مزید 3 دن میں ان ٹیرم چالان پیش کیا جائے یعنی ٹوٹل 17 دن بنتے ہیں لیکن آج تک کوئی چالان 14 دن یا ان ٹیرم پیریڈ میں پیش نہیں کیا گیا، اگر کہیں ایسا ہوا ہو تو یہ پنجاب میں بہت بڑا ریکارڈ ہوگا۔ یہ 173 سی آر بی سی کی واضح خلاف ورزی ہے جسے روکنے کو یقینی بنانا چاہئے کیونکہ جب چالان پیش نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو جیل میں ہوتے ہیں ان کی ضمانت نہیں ہو پاتی اور بے گناہ لمبے عرصے تک جیلوں میں رہتے ہیں جو کہ ایک طرح سے انصا ف کا خون ہے۔
دوسری اہم بات جو کہ میں تجویز کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ قیدی جب جیلوںسے لاکر عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ٹرک میں ہی بیٹھے رہتے ہیں جبکہ ان کے وارنٹ کے اوپر مجسٹریٹ نے صرف سائن کرنے ہوتے ہیں اور سائن کرنے کے بعد قیدی ٹرک میں بیٹھے بیٹھے ہی واپس چلے جاتے ہیں اس کام کیلئے حکومت کے کروڑوں انہیں لانے لے جانے کیلئے خرچ ہوتے ہیں اور لاکھوں اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں، اگر پراسیکیوشن کی طرف سے اس میں تھوڑی ترمیم کر لی جائے، قیدیوں کو عدالت لانے کی بجائے کوئی مجسٹریٹ یا جج جیل کے اندر جا کر ان کے وارنٹ پر سائن کر دے تو کروڑوں روپے کی بچت بھی ہو جائے گی اور لاکھوں ملازمین جو اس ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں وہ بھی کسی اور کام میں ڈیوٹی دے سکیں گے، اس سب کے علاوہ قیدیوں کی سکیورٹی کا مسئلہ بھی رہتا ہے، کئی قیدی اسی دوران مارے گئے اور کئی فرار کے واقعات بھی ہوئے، اس لئے اگر اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو خزانے پر بوجھ بھی کم ہوگا اور ملازمین امن و امن قائم کرنے کیلئے ڈیوٹی دے سکیں گے۔
غلام سرور (نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار)
ہمارے ہاں تفتیشی افسر کا جو کردار ہے وہ یہ ہے کہ اس نے پراسیکیوشن اور مدعی دونوں طرف سے ثبوت اکٹھا کرنے ہوتے ہیں مگر ہم نے یہاں پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر کے کردار کو تھوڑا سا تبدیل کردیا ہے۔ جب ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ تفتیشی افسر اس ایف آئی آر کے متعلق ایسے ثبوت اکٹھے کرے گا جس سے ملزم بچ نہ پائے اور پھر ٹرائیل کیلئے وہ ثبوت عدالت میں پیش کر دے گا اور پراسیکیوٹر انہی ثبوتوں کو بااعتماد ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کرے گا اور عدالت کو تجویز دے گا کہ انہی ثبوتوں پر بھروسہ کرکے کیس کا فیصلہ کیا جائے۔
یہاں پہلی چیز جو تفتیشی افسر کے حوالے سے ہے کہ اس کا کردار یہ نہیں ہے کہ وہ صرف ملزم کے خلاف ہی ثبوت اکٹھے کرے بلکہ ملزم کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ اپنی حمایت میں کوئی ثبوت پیش کرتا ہے تو اس کو قبول کیا جائے، اسی طرح دوسری طرف سے مدعی کو اپنے مؤقف کی تائید میں کوئی چیز دینا چاہتا ہے تو وہ بھی دے سکتا ہے مگر یہاں تفتیشی افسر نے اپنا کردار خود خراب کر لیا ہے وہ کہتا ہے کہ وہ وہی چیزیں اکٹھی کرے گا جوالزم دہندہ کی حمایت میں جاتی ہوں۔ کئی دفعہ یہ کوششیں کی گئیں کہ تفتیشی افسر اپنا کردار بہتر کرے، حکومت نے بھی اس حوالے سے کافی کوششیں کیں اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ڈائریکٹ انسپکٹر بھرتی کئے کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ رینکرز بہتر تفتیش نہیں کرتے لیکن ہم اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور ہمارے سینئر بتاتے ہیں کہ تفتیشی افسر جو بلنڈر 20 سال پہلے کرتا تھا آج بھی وہی بلنڈر کرتا ہے۔
تفتیشی افسر کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اب یہ شارٹ کٹ ڈھونڈا گیا کہ پراسیکیوشن اس کی مدد کرے حالانکہ پراسیکیوشن کا کردار یہ نہیں ہے کہ الزام دہندہ کا الزام ہر صورت میں عدالت کے سامنے پیش کرنا ہے بلکہ اس کا کام عدالت کی معاونت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ تفتیشی افسر تو اپنی کی گئی تفتیش کا دفاع کرے گا اور عدالت میں اس کے خلاف نہیں بولے گا۔ پراسیکیوٹر کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر تفتیش کمزور ہے تو اس کی خامیوں کی نشاندہی کرے، عدالت کے اندر تفتیش کے حوالے سے تفتیشی افسر ذمہ دار نہیں ہونا چاہئے۔ پراسیکیوٹر کو چاہئے کہ وہ اپنی سطح پر تفتیش کی سکروٹنی کرے اور دیکھے کہ جو کیس اس کے سامنے پیش ہوا ہے وہ عدالت میں پیش کرنے کے قابل بھی ہے یہ کہ اس میں تفتیش کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اس کے پاس اختیار ہونا چاہئے کہ تاکہ وہ ایسا کرسکے اس سے عدالتوں پر بے جا بوجھ کم ہو سکے گا۔
ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ پراسیکیوٹر کیس کی مکمل تیاری کرکے عدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے مگر اب صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے اور پراسیکیوٹر اب ماضی کی نسبت کیس کی بہتر تیاری کرکے عدالت میں پیش ہوتے ہیں اس میں ابھی مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے اور لائی بھی جا سکتی ہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ تفتیشی افسراور پراسیکیوٹر مل کر کام کریں اس سے عدالتی کارروائی میں بھی بہتری آئے گی۔ ایک سب سے اہم چیز یہ ہے کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ جتنا بھی اچھا ہو جب تک تفتیشی افسر کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی تو معاملات میں بہتری نہیں آسکتی ، یہاں تفتیشی افسر تفتیش کی ضمنی لکھنے کے بعد اس کی کاپی محافظ برانچ میں جمع نہیں کراتا حالانکہ اسے اس کا پابند ہونا چاہئے مگر وہ کاپی محافظ برانچ میں جمع نہیں کراتا اور ضمنی میں روزانہ اپنی مرضی سے ردوبدل کرتا رہتا ہے اس سے کرپشن بھی بڑھتی ہے اور انصاف کی فراہمی میں بھی تاخیر ہوتی ہے اس لئے تفتیشی کو سختی سے اس چیز کا پابند کیا جائے کہ وہ ضمنی لکھنے کے بعد اس کی کاپی اسی روز محافظ برانچ میں جمع کرائے۔