دورۂ سعودی عرب اتنا اہم کیوں ہے

یہ مفادات کی جنگ ہے، جس میں اپنے ملکی مفادات کا حصول ہی کامیاب سفارتکاری ہے


وقار کنول May 10, 2021
پاکستان اس دورے میں اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ملکوں کی تاریخ میں کچھ مستقل نہیں ہوتا۔ تعلقات اور مفادات چومکھی ہوتے ہیں، ایک کروٹ بدلنے پر معاملات کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ ایسے میں کامیاب خارجہ پالیسی وہ ہوتی ہے جو مستقل مزاج ہوتی ہے۔ جس میں چھوٹے چھوٹے واقعات عشروں پر مبنی تعلقات کےلیے حرف آخر نہیں ہوتے اور ممالک اپنے اپنے مفادات کےلیے طویل المدتی خارجہ پالیسی کو اہمیت دیتے ہیں، جس میں کم سے کم معاملات آخری حد تک جانے دیے جاتے ہیں۔ درمیان کا راستہ ہمیشہ کھلا چھوڑنا پڑتا ہے۔

یوں کہہ لیجئے کہ خارجہ پالیسی اور ریاستوں کے تعلقات میں کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا، کچھ مشترک نہیں ہوتا۔ یہ بس اپنے اپنے مفادات کے زیادہ سے زیادہ حصول کےلیے کی جانے والی سودے بازی ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل کشمیر ایشو کو لے کر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب اور او آئی سی کے کردار کو بری طرح لتاڑا تھا، جبکہ اس سے قبل ملائیشیا سہ ملکی کانفرنس میں وزیراعظم کی عدم شرکت بھی سعودی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ اس معاملے میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تاریخ میں پہلی بار اس بری طرح لڑکھڑائے کہ دونوں ملکوں کو وضاحتیں دینا پڑیں۔ جبکہ اس کے کچھ دنوں بعد پاکستان نے سعودی عرب کے قرض کا کچھ حصہ شیڈول سے ہٹ کر فوراً واپس کیا تو چہ میگوئیاں ہر طرف تھیں کہ اندرونِ خانہ سب اچھا نہیں ہے۔

اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو سعودی عرب کی یمن کی خانہ جنگی میں مداخلت اور یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی میں پاکستان نے براہ راست اپنی فوج بھیجنے سے معذرت کی۔ نتیجتاً سعودی عرب یمن جنگ میں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرسکا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اور سعودیہ کے تعلقات کچھ سال سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔

اگرچہ شہزادہ سلمان کا پاکستان کا دورہ ایک کامیاب سفارت کاری تھا، لیکن اس کے بعد پے درپے واقعات جن میں خلیجی ریاستوں کا سعودی ایما اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شہ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ہو یا سعودی فضائی حدود اسرائیل کےلیے کھولنے کا خاموش فیصلہ ہو، یہ سب واقعات پاکستان پر ایک خاموش دباؤ ڈال رہے تھے۔ کیونکہ اس سے قبل پاکستان کی آزادی و حریت فلسطین کی حمایت اسلامی کاز کے نام پر اور سعودی عرب کی بطور اسلامی ممالک کی سربراہی حیثیت کے تحت ہی تھی۔ بعد ازاں اسرائیل کی پے درپے سفارتی کامیابیاں، خاموش سعودی حمایت کا اعلان تھیں۔ تو پاکستان نے ایک اصولی مؤقف اپنایا اور دو ٹوک انداز میں قائداعظم کے فرمان کو دہراتے ہوئے اسرائیل کو تب تک تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا جب تک خطہ فلسطین میں دو ریاستوں کا قیام عمل میں نہیں آجاتا۔ پاکستان کا یہ اصولی مؤقف خود مسئلہ کشمیر کےلیے بھی اصولی اسٹینڈ تھا۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان سب واقعات کے پس منظر میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خاصے سردمہری کا شکار رہے ہیں۔

حالات تب بدلنا شروع ہوئے جب خلاف توقع ڈونلڈ ٹرمپ دوسری صدارتی مدت کےلیے الیکشن ہار گیا اور ڈیل آف دی سینچری اور اسرائیل کو دی جانے والی کھلم کھلا ڈھیل ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل تشخص سے میل نہیں کھاتی تھی (اگرچہ ڈیموکریٹ بھی اسرائیلی نواز پالیسیاں ہی رکھتے ہیں لیکن بہرحال وہ خود کو لبرل جمہوری اقدار کا محافظ بھی گردانتے ہیں۔ سو اس وجہ سے اسرائیل کا دارالخلافہ یروشلم بنانے کی اسرائیلی کوششیں ڈیموکریٹک دور میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں) لہٰذا جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد ایک تو اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی سپرنٹ ریس ختم ہوئی تو وہیں کہیں نہ کہیں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سفارتخانے میں سعودی ایما پر قتل بھی سعودی عرب کےلیے متوقع امریکی دباؤ کا ایک نکتہ بن سکتا ہے، بلکہ اس پر بائیڈن کے ایک دو بیان واضح کرچکے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے معاملات کو لے کر امریکی پالیسیاں اب بدل رہی ہیں۔

ایسے میں اچانک پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کا معاہدہ ہوجاتا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی فوراً ہوجاتا ہے۔ سعودی عرب کا اس میں ممکنہ کردار بھی سامنے آتا ہے جبکہ کشمیر ایشو پر سعودی عرب کی مسلسل خاموشی اگرچہ مستقل رہتی ہے لیکن پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں اچانک پیشرفت اور اس میں ممکنہ سعودی مفاد سمجھ میں آرہا تھا۔

ایران کے ساتھ ڈیموکریٹس کا جوہری توانائی کا معاہدہ دوبارہ سے مذاکرات کا ڈرامہ بھی سعودی تشویش کی ایک ممکنہ وجہ ہوسکتا ہے۔ اس دوران ایران اور چین کا تجارتی معاہدہ اور چین کی ایران میں بڑی سرمایہ کاری بھی ایران کو خطے میں ایک اہم مقام دلوا چکی ہے۔

گوادر پورٹ، سی پیک اور افغانستان سے امریکی انخلا میں غیر معمولی تیزی خطے کے حالات کو مسلسل بدل چکی ہے۔ ایسے میں ایک مضبوط افغانستان اور طالبان کی ممکنہ پاور شیئرنگ بھی خطے میں پاکستان کو ایک اہم کردار عطا کر رہی ہے۔ جس میں سعودی عرب نے سفارتی طور پر نریندر مودی کو سب سے بڑا صدارتی ایوارڈ دینے کے علاوہ کوئی تیر نہیں مارا ہے۔ اگرچہ اندرونی طور پر ولی عہد سلمان بن سعود نے کئی ایک اصلاحات نافذ ضرور کی ہیں جو بدلتے سعودی سماج کےلیے ایک گہرا ریلیف ہے لیکن اس سے سعودی عرب کی پریشانیاں کم نہیں ہوتیں اور ایسے میں پاکستان جیسے دیرینہ اسلامی بھائی حلیف سے تعلقات میں سردمہری سراسر سعودی عرب کےلیے نقصان کا سودا تھی، جس کو واپس معمول پر لانا اور سعودی شہنشاہیت کا ممکنہ دفاع اور بقا سعودی عرب کے فرمانرواؤں کےلیے ایک اہم اور مستقل سر دردی ہے، جس میں پاکستان کا کردار اور طاقت کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔

لہٰذا وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کا موجودہ سعودی عرب دورہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں پاکستان اپنے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے، جیسی سفارتی کامیابیاں پاکستان اور روس کے معاملے میں سامنے آئی ہیں۔ یہ مفادات کی جنگ ہے، جس میں اپنے ملکی مفادات کا حصول ہی کامیاب سفارتکاری ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں