تعلیم کا شہید

ہنگو کے اعتزاز حسن نے اپنے اسکول کے ایک ہزار طالب علموں کی جان بچانے کی خاطر خودکش بمبار کو۔۔۔

tauceeph@gmail.com

ہنگو کے اعتزاز حسن نے اپنے اسکول کے ایک ہزار طالب علموں کی جان بچانے کی خاطر خودکش بمبار کو للکارا تو اس نے خود کو اڑا دیا جس کے نتیجے میں اعتزاز حسن شہید ہوا اور ہزاروں طالب علموں کی جان بچا کر امر ہوگیا۔ کراچی کے پولیس افسر چوہدری اسلم طالبان کے خلاف متحرک تھے۔ ان پر گزشتہ چند برسوں کے دوران 5دفعہ حملے ہوئے۔ ایک حملہ ان کے ڈیفنس کے گھر پر بھی ہوا مگر ان کا عزم مستحکم رہا۔ چوہدری اسلم جمعرات کی شام لیاری ایکسپریس وے پر خودکش حملہ آور کے دھماکے میں شہید ہوگئے۔ 15 سالہ اعتزاز حسن جو نویں جماعت کا طالب علم تھا صبح اپنے اسکول جا رہا تھا۔ اس وقت اسکول میں اسمبلی شروع ہوچکی تھی۔ اعتزاز نے ایک نوجوان کو اسکول کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا۔ یہ شخص اجنبی تھا۔ اعتزاز کو خطرہ محسوس ہوا اس لیے اس نے اجنبی کو آواز دے کر پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے ؟مگر وہ شخص اسکول کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ اعتزاز نے ایک پتھر پھینک کر ماراجس سے دھماکہ ہوگیا اور ایک ہزار طالب علموں اور اساتذہ کی جانیں بچ گئیں لیکن اعتزاز جامِ شہادت نوش کرگیا۔

گزشتہ صدی میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی جدید تعلیمی نظام ان کا سب سے بڑا نشانہ رہا ہے۔ طالبان حکومت کے دور میں خواتین سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا گیا تھا انھیںگھروں میں مقیدکردیا گیا تھا۔ جب نائن الیون کی دہشت گردی کے واقعے کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان پر قبضہ کیا تو طالبان نے مزاحمت شروع کردی۔ یہ مزاحمت صرف امریکی افواج کے خلاف نہیں تھی بلکہ اسکولوں، کالجوں اور خاص طور پر خواتین کے تعلیمی اداروں کے خلاف بھی تھی۔پاکستان میں بھی پشتونوں کی اکثریت کے علاقوں میں خاص طور پر تعلیمی اداروں کو تباہ کیا گیا۔جب طالبان نے پاکستان کے زیرِاہتمام قبائلی علاقوں اور پختون خواہ میں اپنی سرگرمیاں تیز کیں تو اساتذہ کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور متعدد تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو تہس نہس کردیا گیا۔ جب ملا فضل اﷲ کی قیادت میں سوات میں طالبان نے بالادستی حاصل کی تو پھر سے ان کا پہلا نشانہ تعلیمی ادارے ہی بنے۔ ملالہ یوسف زئی اس وقت اسکول کی طالبہ تھی۔ ان کا اسکول جانابند ہوگیا۔ ملالہ نے گھر ہی پر اپنی تعلیم جاری رکھی۔

یوں ان کے خیالات بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ پر نشر ہونے لگے جس کی وجہ سے دنیا کو سوات میں طالبان کی حکومت کے تعلیم دشمن اقدامات کا پتہ چلا۔ یہی جرم ملالہ کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان نے قبائلی علاقوں اور خیبرپختون خوا میں ہزار سے زائد اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا۔ پشاور کے انگلش میڈیم اسکولوں کے طالب علموں کی بسوں کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا۔ یوں متعدد بچے محض اس لیے شہید کردیے گئے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے اسکول گئے تھے۔ جب سوات کی دختر ملالہ کی ڈائری عام ہوئی تو دائیں بازو کے دانش وروں نے ملالہ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہ دانش ور یہ دلیل دینے لگے کہ طالبان سوات میں ان تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں جن پر فوج کا قبضہ ہے اور ان عمارتوں سے ان پر گولے برسائے جاتے ہیں۔ یہ بات رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے تھی۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جب ملالہ پر اسکول جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تو دائیں بازو کے رجعت پسندوں نے شور مچانا شروع کیا تھا کہ یہ امریکی سازش ہے اور ملالہ کو ہیرو بنایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب اعتزاز حسن کس سازش کی بناء پر شہید ہوئے؟ منور حسن، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان خاموش ہیں۔ اگر گزشتہ صدی کی آخری 3 دھائیوں کی صورتحال کا عرق ریزی سے جائزہ لیا جائے تو بہت سی باتوں کا جواب ملتا ہے۔


ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے دراصل عوامی حکومت کی ترقی کی پالیسی سے خوفزدہ ہیں۔ ڈاکٹر نجیب کی حکومت جدید تعلیمی نظام کو پورے افغانستان میں پھیلا رہی تھی۔ اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھانے کے لیے منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ اسی طرح زرعی معیشت کو صنعتی دور میں تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ بچار جاری تھا۔ نور محمد تراکئی نے اقتدار میں آنے کے بعد غلاموں کی تجارت اور سود خوروں پر پابندی لگادی تھی۔ حقیقی زرعی اصلاحات کر کے بے زمین کسانوں کو زمین دینے کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ سوویت یونین اور مشرقی یورپی ممالک نوجوانوں کو وظائف دے کر اپنے ملکوں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کررہے تھے۔ اگر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کی یہ اصلاحات کامیاب ہوجاتیں تو مظلوم طبقات ، خواتین، اقلیتوں اور نوجوانوں کی زندگیاں تبدیل ہوجاتیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بناء پر ایک نیا افغانستان معرضِ وجود میں آتا۔ افغان وار لارڈز کے لیے اور مولویوں کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ بنا۔ امریکی پالیسی ساز ادارے یہ سمجھتے تھے کہ اگر افغانستان ترقی کے دور میں آگے نکل گیا تو اس کے اثرات خطے کے تمام ممالک پر پڑیں گے لہٰذا امریکی سی آئی اے نے مذہب کو بنیاد بنا کر جنونیوں کو جمع کرنا شروع کیا۔

انھیں افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے کام پر لگا دیا گیا۔ بعض مسلمان ممالک نے افغانستان کا تشخص تبدیل ہونے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ امریکا نے ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں توکامیابی حاصل کرلی مگر رجعت پسند ذہن کو مضبوط کرکے ترقی کے عمل کو روک دیا۔ یہ معاملہ صرف افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ پاکستان اس سے براہِ راست متاثر ہوا۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں طالبان نے کراچی میں کارروائیاں شروع کردیں۔ چوہدری اسلم ان پولیس افسروں میں شامل ہیں جنہوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ چوہدری اسلم نے فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے معاملے پر سخت پالیسی اختیار کی تو بعض فرقوں کے انتہاپسند ان کے خلاف ہوگئے۔ ان انتہاپسند مذہبی عناصر نے اپنے فرقے کے نوجوانوں کو گمراہ کیا اور انھوں نے چوہدری اسلم کی معطلی کا مطالبہ شروع کر دیا ۔ یہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ ان کے انتہاپسند رہنما ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو کراچی کو فرقہ وارانہ جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ چوہدری اسلم کی شہادت سے ثابت ہوا کہ انتہاپسند جنونی بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کچھ عناصر ان انتہاپسندوں کی مدد کررہے ہیں۔ دوسری طرف کراچی میں 3 ماہ سے جاری آپریشن کے باوجود اسلحے کی فراہمی پر کوئی قدغن نہیں لگ سکی ہے۔

جب تک کراچی میں اسلحے کی فراہمی جاری رہے گی دہشت گردی کی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔ وفاقی حکومت کو سندھ میں اسلحے کی فراہمی کو روکنے کے لیے حقیقی اور مؤثر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ کراچی میں اسلحہ قبائلی علاقوں سے آتا ہے۔ یہ پنجاب اور بلوچستان سے گزرتا ہوا کراچی تک پہنچتا ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ سمندر کے راستے سے بھی اسلحہ کراچی میں دہشت گردوں کو فراہم کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں نے مل کر مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پولیس کی تحقیقات کے مطابق چوہدری اسلم کو شہید کرنے والے نوجوان کے والد کا کراچی میں مدرسہ ہے۔ یہ مدرسہ اس علاقے میں ہے جہاں طالبان قابض ہیں۔ لہٰذا مدرسوں سے دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے اور علاقے میں قانون کی عملداری ضروری ہے۔ اعتزاز حسن کو سینیٹ نے خراجِ عقیدت پیش کیا، وزیرِ اعظم نے اعلیٰ سول ایوارڈ کا اعلان کیا ،فوج کے سربراہ نے تعزیتی پیغام پہنچایا اور فوج کے دستے نے شہید کی قبر کو سلامی دی مگر پختون خوا کی تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت غائب رہی۔ اعتزاز صرف تعلیم کے ہی شہید نہیں انھیں ہر سطح پر خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ رجعت پسند جدید تعلیمی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اعتزاز اور چوہدری اسلم کی شہادت پر عوام کا ردعمل امید کی کرن ہے۔ عوام دہشت گردوں کے سامنے متحد ہیں۔ چوہدری اسلم پولیس کے عزم کا مظہر ہیں۔ لہٰذا اس مسئلے کا حل بات چیت نہیں مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہی ہے۔اعتزاز حسن نے جدید تعلیم کے لیے جو قربانی دی وہ سدا یاد رہے گی۔
Load Next Story