قیامت اور کیا ہوگی
کورونا کی صورتحال کے پیش نظر نئے سرے سے انسانیت کو بچانے کےلیے عالمی سطح پر ایک حکمت عملی بنانی ہوگی
دسمبر 2019 سے تاحال دنیا کورونا کا خوفناک تجربہ کر رہی ہے۔ اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق پوری دنیا میں 15 کروڑ سے زائد انسان متاثر ہوچکے ہیں، جبکہ 30 لاکھ سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔
کورونا نے امیر غریب کے فرق کو ختم کردیا ہے اور دنیا کو بتادیا ہے کہ محض پیسوں اور طاقت کے بل بوتے پر طاقتور نہیں بنا جاسکتا۔ کیونکہ ایک ذات اوپر موجود ہے، جس کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ برابری کے اس اصول کو سمجھانے کےلیے کورونا کی وبا نے بغیر کسی تخصیص کے تمام انسانوں کو متاثر کیا۔ دنیا کے امیر ترین اور غریب ترین ممالک، زیادہ آبادی اور کم آبادی والے ممالک بھی کورونا سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اور ان کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کورونا سے اب تک 215 سے زائد ممالک بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کورونا کی تیسری لہر سے ایک مرتبہ پھر خوفناک حد تک اموات ہورہی ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 140 ممالک کے 20 لاکھ بچوں کو کورونا سے خطرہ لاحق ہے۔
کورونا کی تیسری لہر نے جہاں انڈیا میں تباہی مچائی، وہاں ہمارے ہاں بھی تشویشناک حد تک کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ کورونا کی ویکسین تیار ہوچکی ہے لیکن عام اور غریب عوام تک یہ کب پہنچے گی؟ اس کا جواب دینا فی الحال مشکل ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انڈیا نے تادم تحریر 10 کروڑ عوام کو ویکسین فراہم کی ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ تعداد دس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ کورونا سے وفات پانے والوں کو جس طریقے سے دفنایا اور جلایا جارہا ہے، اس سے انسان کی اوقات کا پتا چل گیا ہے۔
ایک طرف تو کورونا اپنی تباہ کاریوں میں مصروف ہے، لوگ مر رہے ہیں، ماحول میں تبدیلی آچکی ہے اور ایشیا کے لوگ رواں سال مئی میں بھی گرمی کی اس شدت کو محسوس نہیں کررہے جو اس خطے کا خاصا ہوا کرتی تھی۔ دوسری طرف شاید انسانوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور شاید وہ کورونا کو قدرت کا انتقام نہیں سمجھ رہا، اسی لیے کمزور ملکوں پر چڑھائی بھی کی جارہی ہے، انسانوں کو غلام بنا کر بھی رکھا جارہا ہے۔ کچھ ملکوں میں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ غذا کے ذخیروں کو اپنے لیے جمع کیا جارہا ہے۔ ملکوں میں کورونا کی تباہ کاریوں کے باوجود انتخابات، جلسے جلوس اور میلے ٹھیلے بھی ہورہے ہیں، جس کا خمیازہ اب عوام بھگت رہے ہیں۔ کیونکہ ان ممالک میں کورونا بے قابو ہوچکا ہے۔
دنیا اس کا بنیادی حل کورونا کی ایس او پیز پر عملدرآمد کو قرار دیتی ہے۔ دنیا کورونا کی ایس او پیز کو زندگی کا لازم قرار دینے لگی ہے اور ہمارے ملک میں بھی کورونا کی اسٹینڈرڈ ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کےلیے باقاعدہ طور پر فوج کو طلب کرلیا گیا ہے، جس کی وجہ سے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ملک ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی طرف جارہا ہے، جس سے غریب طبقہ پریشان ہوگیا ہے کہ وہ کس طرح گزارا کرے گا؟ کیونکہ کورونا کی پہلی لہر کے لاک ڈاؤن نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
اس وقت مخیر حضرات کی طرف سے غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کا رجحان بھی سامنے آیا، لیکن موجودہ حالات میں جیسے ہر کسی کو اپنی اپنی فکر پڑگئی ہے۔ اس لیے امداد دینے کا سلسلہ تقریباً موقوف ہوچکا ہے۔ ایسے میں غریب عوام کےلیے پریشانی بڑھ چکی ہے، کیونکہ ملازمت کا حصول ناممکن ہوگیا ہے، دیہاڑی ملنا محال ہے، مہنگائی کا عفریت لوگوں کی جان لینے کے درپے ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مانتے ہوئے یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کا عندیہ دے دیا ہے، جوکہ پہلے سے مرے ہوؤں کو مارنے کے مترادف ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ملک میں 11 فیصد سے زیادہ عوام ایک دوسرے سے ادھار مانگ کر گزارا کررہی ہے۔ انسانوں کے رویے سخت ہوچکے ہیں اور خدمت کے جذبے میں کمی ہے۔
کورونا کی وجہ سے ملک میں بہت سے سیکٹر، جیسے این جی اوز، تعلیمی، کاروباری، دیہاڑی دار اور پرائیویٹ ملازمت کرنے والا طبقہ بری طرح متاثر ہوا، کیونکہ ان سفید پوش لوگوں کو اپنے کام کے علاوہ اور کوئی ہنر چونکہ آتا نہیں تھا، اس لیے وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ملک میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کی وجہ سے کاروباری طبقہ خاصا پریشان ہے، کیونکہ وہ نقصان میں جارہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ملازموں کی تعداد میں بھی کمی کردی ہے، جس سے بے روزگاروں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
معلوم نہیں کہ کورونا کا اختتام کب ہوگا؟ کیونکہ طبی ماہرین تو یہ بتا رہے ہیں کہ دنیا کو اب کورونا کے ساتھ ہی جینا پڑے گا اور ان احتیاطی تدابیر کو ہمیشہ کا ساتھ بنانا ہوگا، کیونکہ اس کےلیے احتیاط زیادہ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔ ہر حکومت اپنے عوام کو ویکسین لگانے کی ترغیب دے رہی ہے اور اس ضمن میں لوگوں کے ابہام کو دور کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس صورتحال میں عوام کی یہ بھاری ذمے داری ہے کہ وہ کورونا سے بچاؤ کےلیے نہ صرف اپنے آپ بلکہ اپنے خاندان اور اپنے معاشرے کو محفوظ بنائے۔
آپ نے سوشل میڈیا کی مختلف ویڈیوز میں ملاحظہ کیا ہوگا کہ کورونا کے متاثرین سے کس طرح کا برتاؤ کیا جارہا ہے؟ کس طرح انہیں ان کے خاندانوں اور معاشرے سے الگ کیا جارہا ہے؟ کس طرح انہیں لاوارثوں کی طرح اجتماعی طور پر دفن کیا جارہا ہے؟ اور کس طرح انہیں اجتماعی طور پر جلایا جارہا ہے؟ کیا یہ قیامت نہیں ہے؟ قیامت اور کیا ہوگی؟ یہ دنیا بھر کے انسانوں کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔
میں کوئی ناصح بننے کی کوشش نہیں کررہا، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس صورتحال میں دنیا بھر کے انسانوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انہیں کورونا کی صورتحال کے پیش نظر نئے سرے سے انسانیت کو بچانے کےلیے عالمی سطح پر ایک حکمت عملی بنانی ہوگی۔ دنیا کو اس وقت اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک پیج پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ اس ضمن میں انہیں ہر قسم کی تفریق کو ختم کرنا ہوگا۔ انہیں اپنے فائدوں اور نمبر ون کی دوڑ سے بالاتر ہوکر سوچنا پڑے گا۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کورونا کی ویکسین دنیا کے ہر انسان تک پہنچانی ہے اور انسانوں کو بچانے کےلیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ کسی کو اس بات سے قطعی خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے دشمن ملک میں تو کورونا کی صورتحال زیادہ خراب ہے اور وہ محفوظ ہیں یا ہمارے ہاں کم ہے۔ کورونا سے لڑائی کسی ایک قوم، کسی ایک ملک، کسی ایک نسل یا کسی ایک مذہب کی نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی پورے عالم کے انسانوں کی ہے اور اس لڑائی کو دنیا تب ہی جیت پائے گی جب دنیا ایک ہی طریقے سے سوچے گی، ایک ہی صف میں کھڑی ہوگی اور ان کا محاذ ایک ہی ہوگا۔
یہ وقت ہے جب دنیا کو اپنے سارے مسائل ایک طرف رکھ کر صرف انسانیت کو بچانے کےلیے جدوجہد کرنی ہے اور اس عز م کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی کی ضرورتوں کو دیکھنا ہے۔ وہ پڑوسی ہمارے گھر کے ساتھ رہنے والا، ہمارے معاشرے کا عام انسان، ہمارے پڑوسی ملک میں رہنے والا عام انسان ہو۔ اس سوچ کے ساتھ ہی ہم دنیا کو بچانے کےلیے کوشش کرسکتے ہیں۔ اسے ہم اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہر مذہب نے ہی انسانیت کو بچانے کی ترغیب دی ہے۔ اور اگر ہم اسے انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو تب بھی دنیا کو انسانوں کو بچانے کےلیے ایسا کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ انسان ہوں گے تو دنیا کا وجود برقرار رہے گا اور اگر دنیا سے انسان ہی ختم ہوگئے تو پھر تو قیامت ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کورونا نے امیر غریب کے فرق کو ختم کردیا ہے اور دنیا کو بتادیا ہے کہ محض پیسوں اور طاقت کے بل بوتے پر طاقتور نہیں بنا جاسکتا۔ کیونکہ ایک ذات اوپر موجود ہے، جس کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ برابری کے اس اصول کو سمجھانے کےلیے کورونا کی وبا نے بغیر کسی تخصیص کے تمام انسانوں کو متاثر کیا۔ دنیا کے امیر ترین اور غریب ترین ممالک، زیادہ آبادی اور کم آبادی والے ممالک بھی کورونا سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اور ان کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کورونا سے اب تک 215 سے زائد ممالک بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کورونا کی تیسری لہر سے ایک مرتبہ پھر خوفناک حد تک اموات ہورہی ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 140 ممالک کے 20 لاکھ بچوں کو کورونا سے خطرہ لاحق ہے۔
کورونا کی تیسری لہر نے جہاں انڈیا میں تباہی مچائی، وہاں ہمارے ہاں بھی تشویشناک حد تک کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ کورونا کی ویکسین تیار ہوچکی ہے لیکن عام اور غریب عوام تک یہ کب پہنچے گی؟ اس کا جواب دینا فی الحال مشکل ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انڈیا نے تادم تحریر 10 کروڑ عوام کو ویکسین فراہم کی ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ تعداد دس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ کورونا سے وفات پانے والوں کو جس طریقے سے دفنایا اور جلایا جارہا ہے، اس سے انسان کی اوقات کا پتا چل گیا ہے۔
ایک طرف تو کورونا اپنی تباہ کاریوں میں مصروف ہے، لوگ مر رہے ہیں، ماحول میں تبدیلی آچکی ہے اور ایشیا کے لوگ رواں سال مئی میں بھی گرمی کی اس شدت کو محسوس نہیں کررہے جو اس خطے کا خاصا ہوا کرتی تھی۔ دوسری طرف شاید انسانوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور شاید وہ کورونا کو قدرت کا انتقام نہیں سمجھ رہا، اسی لیے کمزور ملکوں پر چڑھائی بھی کی جارہی ہے، انسانوں کو غلام بنا کر بھی رکھا جارہا ہے۔ کچھ ملکوں میں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔ غذا کے ذخیروں کو اپنے لیے جمع کیا جارہا ہے۔ ملکوں میں کورونا کی تباہ کاریوں کے باوجود انتخابات، جلسے جلوس اور میلے ٹھیلے بھی ہورہے ہیں، جس کا خمیازہ اب عوام بھگت رہے ہیں۔ کیونکہ ان ممالک میں کورونا بے قابو ہوچکا ہے۔
دنیا اس کا بنیادی حل کورونا کی ایس او پیز پر عملدرآمد کو قرار دیتی ہے۔ دنیا کورونا کی ایس او پیز کو زندگی کا لازم قرار دینے لگی ہے اور ہمارے ملک میں بھی کورونا کی اسٹینڈرڈ ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کےلیے باقاعدہ طور پر فوج کو طلب کرلیا گیا ہے، جس کی وجہ سے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ملک ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی طرف جارہا ہے، جس سے غریب طبقہ پریشان ہوگیا ہے کہ وہ کس طرح گزارا کرے گا؟ کیونکہ کورونا کی پہلی لہر کے لاک ڈاؤن نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
اس وقت مخیر حضرات کی طرف سے غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کا رجحان بھی سامنے آیا، لیکن موجودہ حالات میں جیسے ہر کسی کو اپنی اپنی فکر پڑگئی ہے۔ اس لیے امداد دینے کا سلسلہ تقریباً موقوف ہوچکا ہے۔ ایسے میں غریب عوام کےلیے پریشانی بڑھ چکی ہے، کیونکہ ملازمت کا حصول ناممکن ہوگیا ہے، دیہاڑی ملنا محال ہے، مہنگائی کا عفریت لوگوں کی جان لینے کے درپے ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مانتے ہوئے یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کا عندیہ دے دیا ہے، جوکہ پہلے سے مرے ہوؤں کو مارنے کے مترادف ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ملک میں 11 فیصد سے زیادہ عوام ایک دوسرے سے ادھار مانگ کر گزارا کررہی ہے۔ انسانوں کے رویے سخت ہوچکے ہیں اور خدمت کے جذبے میں کمی ہے۔
کورونا کی وجہ سے ملک میں بہت سے سیکٹر، جیسے این جی اوز، تعلیمی، کاروباری، دیہاڑی دار اور پرائیویٹ ملازمت کرنے والا طبقہ بری طرح متاثر ہوا، کیونکہ ان سفید پوش لوگوں کو اپنے کام کے علاوہ اور کوئی ہنر چونکہ آتا نہیں تھا، اس لیے وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ملک میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کی وجہ سے کاروباری طبقہ خاصا پریشان ہے، کیونکہ وہ نقصان میں جارہے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ملازموں کی تعداد میں بھی کمی کردی ہے، جس سے بے روزگاروں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
معلوم نہیں کہ کورونا کا اختتام کب ہوگا؟ کیونکہ طبی ماہرین تو یہ بتا رہے ہیں کہ دنیا کو اب کورونا کے ساتھ ہی جینا پڑے گا اور ان احتیاطی تدابیر کو ہمیشہ کا ساتھ بنانا ہوگا، کیونکہ اس کےلیے احتیاط زیادہ سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔ ہر حکومت اپنے عوام کو ویکسین لگانے کی ترغیب دے رہی ہے اور اس ضمن میں لوگوں کے ابہام کو دور کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس صورتحال میں عوام کی یہ بھاری ذمے داری ہے کہ وہ کورونا سے بچاؤ کےلیے نہ صرف اپنے آپ بلکہ اپنے خاندان اور اپنے معاشرے کو محفوظ بنائے۔
آپ نے سوشل میڈیا کی مختلف ویڈیوز میں ملاحظہ کیا ہوگا کہ کورونا کے متاثرین سے کس طرح کا برتاؤ کیا جارہا ہے؟ کس طرح انہیں ان کے خاندانوں اور معاشرے سے الگ کیا جارہا ہے؟ کس طرح انہیں لاوارثوں کی طرح اجتماعی طور پر دفن کیا جارہا ہے؟ اور کس طرح انہیں اجتماعی طور پر جلایا جارہا ہے؟ کیا یہ قیامت نہیں ہے؟ قیامت اور کیا ہوگی؟ یہ دنیا بھر کے انسانوں کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔
میں کوئی ناصح بننے کی کوشش نہیں کررہا، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس صورتحال میں دنیا بھر کے انسانوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انہیں کورونا کی صورتحال کے پیش نظر نئے سرے سے انسانیت کو بچانے کےلیے عالمی سطح پر ایک حکمت عملی بنانی ہوگی۔ دنیا کو اس وقت اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک پیج پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ اس ضمن میں انہیں ہر قسم کی تفریق کو ختم کرنا ہوگا۔ انہیں اپنے فائدوں اور نمبر ون کی دوڑ سے بالاتر ہوکر سوچنا پڑے گا۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کورونا کی ویکسین دنیا کے ہر انسان تک پہنچانی ہے اور انسانوں کو بچانے کےلیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ کسی کو اس بات سے قطعی خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے دشمن ملک میں تو کورونا کی صورتحال زیادہ خراب ہے اور وہ محفوظ ہیں یا ہمارے ہاں کم ہے۔ کورونا سے لڑائی کسی ایک قوم، کسی ایک ملک، کسی ایک نسل یا کسی ایک مذہب کی نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی پورے عالم کے انسانوں کی ہے اور اس لڑائی کو دنیا تب ہی جیت پائے گی جب دنیا ایک ہی طریقے سے سوچے گی، ایک ہی صف میں کھڑی ہوگی اور ان کا محاذ ایک ہی ہوگا۔
یہ وقت ہے جب دنیا کو اپنے سارے مسائل ایک طرف رکھ کر صرف انسانیت کو بچانے کےلیے جدوجہد کرنی ہے اور اس عز م کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی کی ضرورتوں کو دیکھنا ہے۔ وہ پڑوسی ہمارے گھر کے ساتھ رہنے والا، ہمارے معاشرے کا عام انسان، ہمارے پڑوسی ملک میں رہنے والا عام انسان ہو۔ اس سوچ کے ساتھ ہی ہم دنیا کو بچانے کےلیے کوشش کرسکتے ہیں۔ اسے ہم اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہر مذہب نے ہی انسانیت کو بچانے کی ترغیب دی ہے۔ اور اگر ہم اسے انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو تب بھی دنیا کو انسانوں کو بچانے کےلیے ایسا کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ انسان ہوں گے تو دنیا کا وجود برقرار رہے گا اور اگر دنیا سے انسان ہی ختم ہوگئے تو پھر تو قیامت ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔