ماں کو دکھی مت کریں
کئی سال سے ہونے والی دہشت گردی نے ہر طرف ایک عجیب سی اداسی اور وحشت پھیلا دی ہے۔
OSLO:
کئی سال سے ہونے والی دہشت گردی نے ہر طرف ایک عجیب سی اداسی اور وحشت پھیلا دی ہے۔ معاشرتی زندگی پر جمود سا طاری ہو جاتا ہے۔ امن و امان کے مختلف مسائل کی وجہ سے شہری اپنے علاقوں میں خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے دل ڈرے سہمے سے ہیں۔ یہ دکھی ماؤں کا دیس کہلانے لگا ہے۔ اس دیس کی ماں جوان بچوں کی لاشیں وصول کرتے اب تھک چکی ہے۔ جن جسموں کو بچپن میں پیار سے تھامتی تھی وہ زخموں سے چور گھر آتے ہیں تو ماؤں کے دل ماتم کدے بن جاتے ہیں۔ جن معاشروں کی مائیں خوفزدہ ہوں تو وہاں خوشحالی روٹھ جاتی ہے۔ انگریزی کے شاعر ولیم بلیک کا کہنا ہے کہ ''یہ کائنات زخمی خرگوش کی کراہ پر تھرا اٹھتی ہے'' ماں تو پھر ماں ہے۔
ماں کی چیخ زمین کا کلیجہ شق کردیتی ہے۔ اس کی آہ و زاری آسمانوں کو مضطرب کر دیتی ہے۔ آج کے معاشرے میں سب سے دکھی ماں ہے۔ اس کا چہرہ اندیشوں سے زرد ملے گا، ماں کے وجود کی ٹھنڈک کو وقت اور حالات جھلسا دیں تو یہ پوری زندگی جھلسنے لگتی ہے۔
روز کسی نہ کسی ماں کی گود اجڑتی ہے۔ ماں کی دردناک چیخیں خدا کو چونکا دیتی ہیں، جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب دے کر زمین پر محبت و مسیحائی کے لیے بھیجا تھا مگر انسان نے لڑائی جھگڑے و تضادات کو اپنا وتیرہ بنا لیا۔ جنگوں میں سب سے زیادہ تکلیف عورت اٹھاتی ہے۔ جس کے خواب و خوشیاں غیر منطقی لڑائی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ سیالکوٹ کے منیب کی ماں ہو یا فرحان کی ماں، سب کے دکھ مشترکہ ہیں۔ وہ تمام لوگ جو دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور وہ لوگ جو بم دھماکوں میں بچ گئے مگر زندہ درگور ہیں۔ یا وہ لوگ جو گمشدہ ہیں۔ مگر ان کے گھر کے دروازوں پر ماں انتظار کی شمع جلائے بیٹھی ہے۔ اس کا دل بے یقینی کے بھنور میں ڈوب کر ابھرتا ہے۔ دنیا میں ہر چیز کا نعم البدل موجود ہے مگر ماں کی منتظر آنکھوں اور محبت بھرے دل جیسا اثر کہیں نہیں ملے گا۔
ماں کا کوئی مذہب کوئی قومیت نہیں ہوتی۔ مائیں محبت کی پیامبر ہیں۔ یہ محبت زندگی کے تضادات کو توازن میں لے کر آتی ہے۔ ماں کبھی نفرت نہیں سکھاتی، وہ منفی رویوں پر سراپا احتجاج بن جاتی ہے یہ بھی ایک ماں کی تربیت تھی کہ کس طرح اعتزاز حسن نے اپنی جان پر کھیل کر اسکول کے بہت سارے بچوں کی جانیں بچا کر کئی ماؤں کی گود کو اجڑنے سے بچا لیا۔ بالکل اسی طرح اس ملک میں بہت سے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے اپنی جان پر کھیل کر کئی گھروں کو بکھرنے سے بچا لیا۔
کراچی کے حالات کئی سال سے خراب چل رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2013ء میں گزشتہ سال کی نسبت خودکش حملوں میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کراچی کے حالات طویل عرصے سے ایک ڈگر پر چل رہے ہیں۔ بدامنی کے مہیب سائے شہر کی خوشیوں کو نقب لگا چکے ہیں۔ جہاں آبادی کے پھیلاؤ میں ہوا کی سانسیں بھی رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ مسائل کی بھرمار ہے ہر طرف مگر حل کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ذہن اس قدر منتشر ہیں کہ سوچ کی سمت کا تعین نہیں کرپاتے۔ حل پانے کے لیے منفی رویوں سے نجات حاصل کرنی ہو گی۔ جو مثبت انداز فکر اپناتے ہوئے بدلے جا سکتے ہیں۔
ماں اپنی ذات کی نفی کر کے اولاد کو سکھ فراہم کرتی ہے۔ ذات کی نفی زندگی کو اثبات میں بدل دیتی ہے۔ ''میں'' اگر ''تم'' میں سمٹ جائے تو سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ رابطے سوچ کی قربت سے بنتے ہیں۔ قربت جو معاشرتی رویوں سے مفقود ہو چکی ہے۔ جس کا قحط شک کو جنم دیتا ہے۔ شک، قیاس آرائی کا جنم ہے۔ جو انتشار سے پھوٹ نکلتا ہے۔ زمین پر بارش برستی ہے تو ہریالی ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ مگر انسان مختلف ہیں وہ اپنے اندر محبت کو جذب نہیں کر پاتے۔ وہ ذہن کے تضادات میں احساس کو بھول جاتے ہیں۔ وصول کر کے لوٹانے کا سلیقہ فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ماں کے فکر سے دوری بے اطمنانی کو جنم دیتی ہے۔
ماں لوری دیتی ہے تو اس کے لفظوں کی مٹھاس روح میں اتر جاتی ہے۔ لوری کے بولوں میں نفرت، تشدد یا دنیا کے کسی تضاد کا تذکرہ نہیں ملتا۔ وہ بول محبت کی ٹھنڈک اور نیک تمناؤں پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ ان لفظوں کے توسط سے بچے کو محبت کا درس دیتی ہے۔ ماں جانتی ہے کہ جو محبت وہ بچے کو سکھا رہی ہے، وہی آگے چل کر زندگی میں اس کی حفاظت کرے گی۔ محبت ایک ڈھال ہے۔ حفاظتی حصار ہے جب کہ نفرت قیاس آرائی کا جنم ہے۔ بے یقینی انسان کو مار ڈالتی ہے۔ سانسوں کے تسلسل کا نام زندگی نہیں ہے۔ یہ دکھی ماؤں کا دیس ہے۔ ماں کی آنکھوں میں محبت کی روشنی کی جگہ خوف بھرا ہے۔ ان کے زرد چہرے دور کی بے رحمی کے گواہ ہیں۔ جن معاشروں میں سچ و جھوٹ کی تفریق مٹ جاتی ہے وہاں غمزدہ مائیں سینہ کوبی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ روز اس ملک سے کئی بچے اغوا ہوتے ہیں۔ یہ بچے گلیوں، محلوں اور اسپتالوں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ آج تک اس گھناؤنے کاروبار کے خلاف کوئی بھی ٹھوس قانون ترتیب نہیں دیا گیا۔ ان بچوں کی یاد میں روتی بلکتی مائیں اس گہرے غم کو سینے سے لگائے زندگی کی تمام تر خوشیوں سے منہ موڑ لیتی ہیں۔ میں نے آج تک ماؤں کو چیختے، چلاتے اور تڑپتے دیکھا ہے۔ اپنی بیٹیوں کے پامال جسموں سے لپٹ کر روتی ہیں تو آسمان میں بھی شگاف پڑنے لگتے ہیں۔ ان دریدہ جسموں کو آنسوؤں کی چادر سے ڈھانپتی ہیں۔ بیٹیاں ان کے سامنے بار بار جیتی اور مرتی ہیں، تو مائیں بھی طبعی زندگی کے خاتمے سے پہلے ہی اپنے جسموں میں بجھ جاتی ہیں۔
اندرون سندھ قبائلی جھگڑوں میں بے تحاشا لوگ مارے جاتے ہیں۔ بہت ہی معمولی باتوں پر یہ جھگڑے شروع ہوتے ہیں اور پورے خاندان کو نگل جاتے ہیں۔ ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں فقط عورتیں نوحہ کناں ہیں جب کہ تمام مرد اس غیر منطقی جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔ ماں کی آنکھوں سے صحرا کا منظر چھلکتا ہے۔ ان کی آنکھیں خشک ہو چکی ہیں اور ان کی تڑپ دیکھی نہیں جاتی۔ ایک گھر سے چار جوان بیٹوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھے تھے۔ اس دن ماں قوت گویائی سے محروم ہو گئی۔ اب اشاروں میں بات کرتی ہے۔ کئی دنوں تک اس علاقے میں سناٹا چھایا رہا۔ ستارے بھی اپنی روشنی سے خفا ہو چلے تھے۔ لیکن دوسرے روز سورج ویسے ہی طلوع ہوا، جیسے روز ہوا کرتا تھا۔ لوگ نہ جانے کس قیامت کی بات کرتے ہیں یہاں تو کئی قیامتیں روز آ کر گزر جاتی ہیں۔ماں اور دریا ایک سے لگتے ہیں۔ دکھ کا دریا جو ماں کی آنکھوں سے جھلکتا ہے۔ محبت کی لہریں جو اس کے دل کے قریب بہتی ہیں۔ یہ محبت کا دریا کبھی ختم نہیں ہوتا اگر اولاد سکھ نہ بھی دے۔
میں نے کئی ماؤں کے خیالات سنے ہیں۔ جن کی مختلف سیاسی وابستگیاں ہیں جو مختلف انداز فکر کی حامل ہیں، مگر ایک انداز سے سوچتی ہیں وہ تفریق کے خانے میں بٹی ہوئی سوچ کو یکجا دیکھنے کی خواہشمند ہیں۔
یہ تمام مائیں امن چاہتی ہیں۔