کیا لوگ تھے
مارول پرانے رومیوں کی طرح حب الوطنی کا جذبہ رکھتا تھا اس نے کیمر ج میں ڈین بی کے ساتھ تعلیم پائی تھی۔۔۔
KARACHI:
مارول پرانے رومیوں کی طرح حب الوطنی کا جذبہ رکھتا تھا اس نے کیمر ج میں ڈین بی کے ساتھ تعلیم پائی تھی جو آگے چل کر شاہ چارلس دوم کا مشیر بنا مارول پہلے تو بادشاہ کا حامی تھا لیکن جب شاہ چارلس دوم کی بدعنوانیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور ملک میں بدامنی، رشوت ستانی اور ظلم کا بازار گرم ہوا تو مارول نے نہایت بیباکی سے بادشا ہ اور اس کے اہل دربار پر سخت تنقیدیں کیں اور ہجویں شایع کیں اس کی تحریر یں جب بادشا ہ کی نظر سے گذریں تو بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح اسے اس رویے سے باز رکھے دھمکیاں، خوشامد، لا لچ، دولت اور حسن کے جال یہ سب اس پر اثر ڈالنے میں ناکام ثابت ہوئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ما رول پر حسن، دولت، رشوت، خوف، مصائب غرض کسی چیز کا جادو نہیں چل سکتا تھا آخر کار مارول کا پرانا ہم جماعت لارڈ ڈین بی ایک دن ملنے کے بہانے اس کے گھر آیا اور اسے ساتھ ملا لینے کی غرض سے جاتے وقت اس کے ہاتھ میں ایک ہزار پو نڈ کا چیک دے کر چلنے لگا۔ مارول نے اس سے ایک منٹ ٹھہرنے کی التجا کی اور فورا ً اپنے خد مت گار کو بلا کر پوچھا کل شام تم نے کیا پکایا تھا نو کر نے جواب دیا کہ جناب کو تو معلوم ہی ہے کل شام میں نے آپ کے لیے گوشت پکایا تھا۔ مارول نے پھر سوال کیا کہ آج شام کے لیے کیا بندو بست کیا ہے نو کر نے کہا کہ آپ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آج شام کے لیے کل والے گوشت میں سے بچائی ہوئی ہڈیاں بھون لی جائیں پھر مارول لارڈ ڈرین بی سے مخا طب ہو کر بولا حضور نے سن لیا میرے گھر میں شام کے کھانے کا سامان موجود ہے آپ کا چیک آپ کو مبارک ہو حکومت کو چاہیے کہ اپنے مطلب کے آدمی کہیں اور تلاش کرے میں حکومت کا آلہ کار نہیں ہوں۔
مارول نے مرتے دم تک شرافت کا ثبو ت دیا اور وہ ایماندار جیا اور ایمانداری کی حالت میں مرا اس کی قبر پر آج بھی یہ الفا ظ کندہ ہیں ''یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے نیک آدمی محبت کرتے تھے برے آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسر ی ممکن نہ تھی۔'' سر رابرٹ والپول کے دور وزرات میں پلیٹنی حزب مخالف کا لیڈر تھا دارالعلوم میں تقریر کرتے ہوئے اس نے ایک لاطینی فقرہ ادا کیا سررابرٹ والپول نے اس فقرے میں غلطی بتائی اور یہ شرط کی کہ اگر فقرہ صحیح ہو تو میں ایک گِنی دو نگا شرط قبول کی گئی اور لاطینی کتابوں سے رجوع کر نے پر معلوم ہوا کہ پلیٹنی کا فقرہ صحیح تھا، وزیر اعظم نے شرط کے مطابق ایک گنی میز پر رکھ د ی۔ پلیٹنی نے اسے اٹھاتے ہوئے دارالعلوم کے ارکان سے کہا کہ صاحبو گواہ رہنا کہ یہ سر کاری خزانے کا پہلا سکہ ہے جسے میں لے رہا ہوں یہ سکہ آج تک برٹش میوزیم میں پلیٹنی کی گنی کے نام سے محفو ظ ہے۔ عظیم شاعر گو لڈ اسمتھ جب تک جیا غریب ہی رہا اور مرتے دم تک بھی غربت اور قرض اس کے رفیق تھے۔ تاہم دنیا کی دولت اسے خریدنے سے قاصر رہی اس نے کبھی حکومت کا آلہ کار بننا گوارا نہ کیا۔ ذلیل سیاسی نظموں اور صحافت سے اسے ہمیشہ عار رہا۔ سررابرٹ والپو ل کے دو ر وزارت میں پانچ لاکھ روپے سالانہ کی خفیہ رقم سیاسی پروپیگنڈے کے لیے مخصو ص تھی۔ ادیبو ں اور شاعروں کو حکومت کے کارناموں کی تعریفیں لکھنے کے لیے باقاعد ہ وظیفے ملتے تھے حکومت نے یہ طے کیا کہ گولڈ اسمتھ کو اپنا آلہ کار بنا کر مضامین اور نظمیں لکھوائی جائیں۔ چنانچہ لارڈ سینڈو چ کی طرف سے ڈاکٹر اسکاٹ کو مامو ر کیا گیا کہ وہ گولڈ اسمتھ کو اس کام پر راغب کر ے ڈا کٹر اسکاٹ اس سے جا کر ملا لیکن ناکام واپس آیا اسکا ٹ کے الفا ظ ہیں ''میں نے اسے بر ے حال میں دیکھا اور اپنا منصب اسے بتا کر یہ واضح کیا کہ اگر وہ حکومت کا کام کرے گا تو اسے نہایت معقول معاوضہ دیا جائے گا لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ اس نے مجھے یہ عجیب و غریب جواب دیا کہ میں حکومت کی طرف داری کیے بغیر اپنی ضرورت کے لائق کما سکتا ہوں مجھے حکومتی رشوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ''
سقراط کی ساری زندگی غربت میں گزری۔ ارسطا ئیدس کو اس کی غیر متزلزل ایمانداری کی بنا پر ''انصاف پسند '' کا خطاب ملا۔ یونان کے ایک شہر میں جب بھگدڑ مچی تو تمام شہر ی اپنا اپنا قیمتی سامان لے کر بھا گے لیکن بپاس نے اپنا رتی بھر سامان نہ اٹھایا۔ اس کے دوستوں نے تعجب کا اظہار کیا تو جواب ملا کہ آپ کی حیرت بے محل ہے میرا تمام خزانہ (جوہر ذاتی ) میرے ساتھ ہے ۔ اگر ہم اپنی ملکی تاریخ میں ڈھو نڈنے بیٹھیں تو ہمیں گنتی کے چند ہی رہنما ملیں گے جنہوں نے رشوت ، دھمکی، لا لچ، خو ف ، حسن، مصائب کی پروا نہ کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اور ساتھ ساتھ اپنے آپ، اپنے منصب، اپنے ملک، اپنے عوام سے بھی ایمانداری و وفا داری برتی، ورنہ آج ہم دور دور نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ رشوت ، کمیشن، حسن، کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ عہدوں، منصبوں، پرمٹوں، کمیشن پر سب کی رال اس طر ح بہہ رہی ہے جیسے نلکے کو کھو ل دینے کے بعد پانی بہتا ہے۔ ہر عہد ے ہر ادارے میں کرپشن، بے ایما نی، لوٹ مار کی بے مثال اور انمول داستانیں ہر ٹیبل کے اوپر نیچے بکھری پڑی ہیں ہمارے ہاں جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ ہے وہ اتنا ہی بڑا بد عنوان ہے۔ دنیا میں بے ایمانی سمیت تمام برائیوں و خرابیوں کی ایک حد ہے اگر آپ کو کہیں ہر حد پار ہوتی ہوئی ملے۔ تو سمجھ لیں کہ وہ پاکستان ہے آپ کو ایسی بانجھ زمین اور قوم کہیں اور نہیں ملے گی۔ جہاں، نیک، شریف، ایماندار با اختیار لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہوں کہ انھیں شمار کر کے آپ کو شرم آ جائے سر ندامت سے اٹھ نہ سکے آپ اپنی نظروں میں اتنے گر جائیں کہ پھر کبھی دوبارہ کھڑا نہ ہو سکیں ۔
کوئی بھی معاشر ہ افراد کی اخلاقی اقدار کی وجہ سے اچھا برا بنتا ہے جیسی کسی سماج یا معاشرے کی شکل و صورت ہو گی ویسے ہی اس کے خیالات، نظرئیے اور عقائد ہوں گے جیسا رہن سہن ہو گا ویسی ہی سو چ ہو گی ایک مرتبہ آئن اسٹائن نے کہا تھا ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے اس نے خود جواب دیا اگر کائنات حادثہ ہے تو ہم بھی حادثہ ہیں لیکن اگر کائنا ت کے کوئی معنی ہیں تو ہم میں بھی معنیٰ ہیں۔ زندگی کا مقصد صرف لوٹ مار کرپشن یا دولت کا ذخیرہ کر لینا نہیں ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہونا چاہیے۔ یزد نے کہا تھا آدم کے بیٹو اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوار نہ کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے بھی اپنا گو شت خود نہیں چباتے، جب کہ ایمرسن نے کہا ہے کسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شما ری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود نہ غلے کی افراط اور دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک کسی قسم کے انسان پیدا کرتا ہے۔ انسان تمام جانوروں میں واحد جانور ہے جو کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے کہ فرق کو سمجھتا ہے۔ جو معاشرہ اخلاق سے عاری ہوتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے یاد رہے تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلا قی ناکامیاں تھیں، لالچ، خو ف، دبا ؤ، یہ تین چیزیں اخلاقیات پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ کر دیتی ہیں جیت کے لیے نہیں بلکہ جیتنے کے لیے زندہ رہا جا ئے۔ بد قسمتی سے ہمارے صاحب اختیار صرف جیت کے لیے زندہ ہیں۔ ہمارے صاحب اختیاروں کی قبر کے کتبے پر یہ لکھا ہونا چاہیے کہ ''یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے آدمی محبت کرتے تھے اور نیک آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی۔''
مارول پرانے رومیوں کی طرح حب الوطنی کا جذبہ رکھتا تھا اس نے کیمر ج میں ڈین بی کے ساتھ تعلیم پائی تھی جو آگے چل کر شاہ چارلس دوم کا مشیر بنا مارول پہلے تو بادشاہ کا حامی تھا لیکن جب شاہ چارلس دوم کی بدعنوانیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور ملک میں بدامنی، رشوت ستانی اور ظلم کا بازار گرم ہوا تو مارول نے نہایت بیباکی سے بادشا ہ اور اس کے اہل دربار پر سخت تنقیدیں کیں اور ہجویں شایع کیں اس کی تحریر یں جب بادشا ہ کی نظر سے گذریں تو بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح اسے اس رویے سے باز رکھے دھمکیاں، خوشامد، لا لچ، دولت اور حسن کے جال یہ سب اس پر اثر ڈالنے میں ناکام ثابت ہوئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ما رول پر حسن، دولت، رشوت، خوف، مصائب غرض کسی چیز کا جادو نہیں چل سکتا تھا آخر کار مارول کا پرانا ہم جماعت لارڈ ڈین بی ایک دن ملنے کے بہانے اس کے گھر آیا اور اسے ساتھ ملا لینے کی غرض سے جاتے وقت اس کے ہاتھ میں ایک ہزار پو نڈ کا چیک دے کر چلنے لگا۔ مارول نے اس سے ایک منٹ ٹھہرنے کی التجا کی اور فورا ً اپنے خد مت گار کو بلا کر پوچھا کل شام تم نے کیا پکایا تھا نو کر نے جواب دیا کہ جناب کو تو معلوم ہی ہے کل شام میں نے آپ کے لیے گوشت پکایا تھا۔ مارول نے پھر سوال کیا کہ آج شام کے لیے کیا بندو بست کیا ہے نو کر نے کہا کہ آپ پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ آج شام کے لیے کل والے گوشت میں سے بچائی ہوئی ہڈیاں بھون لی جائیں پھر مارول لارڈ ڈرین بی سے مخا طب ہو کر بولا حضور نے سن لیا میرے گھر میں شام کے کھانے کا سامان موجود ہے آپ کا چیک آپ کو مبارک ہو حکومت کو چاہیے کہ اپنے مطلب کے آدمی کہیں اور تلاش کرے میں حکومت کا آلہ کار نہیں ہوں۔
مارول نے مرتے دم تک شرافت کا ثبو ت دیا اور وہ ایماندار جیا اور ایمانداری کی حالت میں مرا اس کی قبر پر آج بھی یہ الفا ظ کندہ ہیں ''یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے نیک آدمی محبت کرتے تھے برے آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسر ی ممکن نہ تھی۔'' سر رابرٹ والپول کے دور وزرات میں پلیٹنی حزب مخالف کا لیڈر تھا دارالعلوم میں تقریر کرتے ہوئے اس نے ایک لاطینی فقرہ ادا کیا سررابرٹ والپول نے اس فقرے میں غلطی بتائی اور یہ شرط کی کہ اگر فقرہ صحیح ہو تو میں ایک گِنی دو نگا شرط قبول کی گئی اور لاطینی کتابوں سے رجوع کر نے پر معلوم ہوا کہ پلیٹنی کا فقرہ صحیح تھا، وزیر اعظم نے شرط کے مطابق ایک گنی میز پر رکھ د ی۔ پلیٹنی نے اسے اٹھاتے ہوئے دارالعلوم کے ارکان سے کہا کہ صاحبو گواہ رہنا کہ یہ سر کاری خزانے کا پہلا سکہ ہے جسے میں لے رہا ہوں یہ سکہ آج تک برٹش میوزیم میں پلیٹنی کی گنی کے نام سے محفو ظ ہے۔ عظیم شاعر گو لڈ اسمتھ جب تک جیا غریب ہی رہا اور مرتے دم تک بھی غربت اور قرض اس کے رفیق تھے۔ تاہم دنیا کی دولت اسے خریدنے سے قاصر رہی اس نے کبھی حکومت کا آلہ کار بننا گوارا نہ کیا۔ ذلیل سیاسی نظموں اور صحافت سے اسے ہمیشہ عار رہا۔ سررابرٹ والپو ل کے دو ر وزارت میں پانچ لاکھ روپے سالانہ کی خفیہ رقم سیاسی پروپیگنڈے کے لیے مخصو ص تھی۔ ادیبو ں اور شاعروں کو حکومت کے کارناموں کی تعریفیں لکھنے کے لیے باقاعد ہ وظیفے ملتے تھے حکومت نے یہ طے کیا کہ گولڈ اسمتھ کو اپنا آلہ کار بنا کر مضامین اور نظمیں لکھوائی جائیں۔ چنانچہ لارڈ سینڈو چ کی طرف سے ڈاکٹر اسکاٹ کو مامو ر کیا گیا کہ وہ گولڈ اسمتھ کو اس کام پر راغب کر ے ڈا کٹر اسکاٹ اس سے جا کر ملا لیکن ناکام واپس آیا اسکا ٹ کے الفا ظ ہیں ''میں نے اسے بر ے حال میں دیکھا اور اپنا منصب اسے بتا کر یہ واضح کیا کہ اگر وہ حکومت کا کام کرے گا تو اسے نہایت معقول معاوضہ دیا جائے گا لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ اس نے مجھے یہ عجیب و غریب جواب دیا کہ میں حکومت کی طرف داری کیے بغیر اپنی ضرورت کے لائق کما سکتا ہوں مجھے حکومتی رشوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ''
سقراط کی ساری زندگی غربت میں گزری۔ ارسطا ئیدس کو اس کی غیر متزلزل ایمانداری کی بنا پر ''انصاف پسند '' کا خطاب ملا۔ یونان کے ایک شہر میں جب بھگدڑ مچی تو تمام شہر ی اپنا اپنا قیمتی سامان لے کر بھا گے لیکن بپاس نے اپنا رتی بھر سامان نہ اٹھایا۔ اس کے دوستوں نے تعجب کا اظہار کیا تو جواب ملا کہ آپ کی حیرت بے محل ہے میرا تمام خزانہ (جوہر ذاتی ) میرے ساتھ ہے ۔ اگر ہم اپنی ملکی تاریخ میں ڈھو نڈنے بیٹھیں تو ہمیں گنتی کے چند ہی رہنما ملیں گے جنہوں نے رشوت ، دھمکی، لا لچ، خو ف ، حسن، مصائب کی پروا نہ کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اور ساتھ ساتھ اپنے آپ، اپنے منصب، اپنے ملک، اپنے عوام سے بھی ایمانداری و وفا داری برتی، ورنہ آج ہم دور دور نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ رشوت ، کمیشن، حسن، کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ عہدوں، منصبوں، پرمٹوں، کمیشن پر سب کی رال اس طر ح بہہ رہی ہے جیسے نلکے کو کھو ل دینے کے بعد پانی بہتا ہے۔ ہر عہد ے ہر ادارے میں کرپشن، بے ایما نی، لوٹ مار کی بے مثال اور انمول داستانیں ہر ٹیبل کے اوپر نیچے بکھری پڑی ہیں ہمارے ہاں جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ ہے وہ اتنا ہی بڑا بد عنوان ہے۔ دنیا میں بے ایمانی سمیت تمام برائیوں و خرابیوں کی ایک حد ہے اگر آپ کو کہیں ہر حد پار ہوتی ہوئی ملے۔ تو سمجھ لیں کہ وہ پاکستان ہے آپ کو ایسی بانجھ زمین اور قوم کہیں اور نہیں ملے گی۔ جہاں، نیک، شریف، ایماندار با اختیار لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہوں کہ انھیں شمار کر کے آپ کو شرم آ جائے سر ندامت سے اٹھ نہ سکے آپ اپنی نظروں میں اتنے گر جائیں کہ پھر کبھی دوبارہ کھڑا نہ ہو سکیں ۔
کوئی بھی معاشر ہ افراد کی اخلاقی اقدار کی وجہ سے اچھا برا بنتا ہے جیسی کسی سماج یا معاشرے کی شکل و صورت ہو گی ویسے ہی اس کے خیالات، نظرئیے اور عقائد ہوں گے جیسا رہن سہن ہو گا ویسی ہی سو چ ہو گی ایک مرتبہ آئن اسٹائن نے کہا تھا ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے اس نے خود جواب دیا اگر کائنات حادثہ ہے تو ہم بھی حادثہ ہیں لیکن اگر کائنا ت کے کوئی معنی ہیں تو ہم میں بھی معنیٰ ہیں۔ زندگی کا مقصد صرف لوٹ مار کرپشن یا دولت کا ذخیرہ کر لینا نہیں ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہونا چاہیے۔ یزد نے کہا تھا آدم کے بیٹو اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوار نہ کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے بھی اپنا گو شت خود نہیں چباتے، جب کہ ایمرسن نے کہا ہے کسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شما ری کے اعداد ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کا وجود نہ غلے کی افراط اور دولت کی کثرت بلکہ اس کا صحیح معیار صرف یہ ہے کہ وہ ملک کسی قسم کے انسان پیدا کرتا ہے۔ انسان تمام جانوروں میں واحد جانور ہے جو کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے کہ فرق کو سمجھتا ہے۔ جو معاشرہ اخلاق سے عاری ہوتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے یاد رہے تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلا قی ناکامیاں تھیں، لالچ، خو ف، دبا ؤ، یہ تین چیزیں اخلاقیات پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ کر دیتی ہیں جیت کے لیے نہیں بلکہ جیتنے کے لیے زندہ رہا جا ئے۔ بد قسمتی سے ہمارے صاحب اختیار صرف جیت کے لیے زندہ ہیں۔ ہمارے صاحب اختیاروں کی قبر کے کتبے پر یہ لکھا ہونا چاہیے کہ ''یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے آدمی محبت کرتے تھے اور نیک آدمی ڈرتے تھے اور جس کی ہمسری ممکن نہ تھی۔''