یروشلم کے بارودی حالات
لیلتہ القدر اسرائیلی پولیس اور مسجدِ اقصی میں عبادت کے خواہش مند ہزاروں فلسطینوں کے درمیان جھڑپوں میں بیت گئی۔
BEIJING:
کیسے ممکن ہے کہ رمضان کا مہینہ ہو اور بیت المقدس(یروشلم)سے تشدد کی اطلاعات نہ آئیں۔ اس بار بھی لیلتہ القدر اسرائیلی پولیس اور مسجدِ اقصی میں عبادت کے خواہش مند ہزاروں فلسطینوں کے درمیان جھڑپوں میں بیت گئی۔
گزشتہ دس روز سے ہونے والے ہنگاموں میں پانچ سو سے زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔زیادہ تر جواں سال ہیں مگر ان میں پندرہ برس سے کم عمر کے انتیس بچے بھی شامل ہیں۔ جو سیکڑوں فلسطینی گرفتار ہوئے ہیں ان میں بھی کم ازکم دس بچے ہیں۔زخمیوں کو اٹھانے والی ایمبولینسوں کو بھی اسرائیلی پولیس نے بار بار روکا اور طبی امداد دینے والے ایک عارضی کلینک کو بھی نقصان پہنچایا۔
ہنگامے اتنے شدید ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کو بھی تشویشی نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں اسرائیلی اہل کاروں پر زور دیا گیا ہے کہ '' وہ مشرقی یروشلم کے رہائشیوں سے نرمی اور عزت سے پیش آئیں ''۔
تازہ جھگڑا تب شروع ہوا جب یروشلم کی ایک ضلع عدالت نے گزشتہ ماہ حکم صادر کیا کہ مشرقی یروشلم کے قدیم محلے شیخ جراح میں تقریباً ستر برس سے آباد چھ فلسطینی پناہ گزین کنبے یکم مئی تک گھر خالی کر دیں تاکہ ان میں یہودی آبادکاروں کو بسایا جا سکے۔سات دیگر خاندانوں کو گھر خالی کرنے کے لیے یکم اگست تک مہلت دی گئی ہے۔اس حکم پر عمل درآمد کے نتیجے میں سترہ بچوں سمیت اٹھاون فلسطینی چھت سے محروم ہو جائیں گے۔
یہ سب اچانک نہیں ہوا۔بلکہ انیس سو تہتر میں وزیرِ اعظم گولڈا مائر کی کابینہ کے اس فیصلے کے مطابق ہے جس کے تحت مقبوضہ یروشلم میں نوے فیصد عرب آبادی کو مرحلہ وار بے دخل کر کے شہر میں آبادی کا تناسب ستر تیس کرنا ہے۔یعنی ستر فیصد یہودی اور تیس فیصد فلسطینی عرب۔
فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت سمجھتے ہیں جب کہ اسرائیل پورے یروشلم کا دعویدار ہے۔چنانچہ انیس سو سڑسٹھ میں فوجی قبضے کے بعد سے یروشلم کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے اب تک دو لاکھ یہودی بسائے جا چکے ہیں۔ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینوں کو طرح طرح کے قانونی حیلوں کے ذریعے باہر دھکیلا جا چکا ہے اور شہر میں ان کے دوبارہ بسنے پر قانونی پابندی ہے۔
گزشتہ برس مشرقی یروشلم میں یہودیوں کے لیے مزید ساڑھے چار ہزار نئے گھر تعمیر کیے گئے۔ اسی عرصے میں پرانے شہر میں ایک سو پانچ گھروں سمیت ایک سو ستر فلسطینی املاک منہدم کی گئیں۔یوں مزید تین سو پچاسی فلسطینی بے گھر ہو گئے۔
اپریل کے وسط میں نئی بے دخلی کا ماحول بنانے کے لیے کٹر قوم پرست یہودی گروہوں نے پرانے شہر میں گشت شروع کر دیا اور پولیس کی موجودگی میں فلسطینی باشندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ خوف و ہراس کی فضا میں اگلے مرحلے کی راہ ہموار ہو سکے۔
یکم مئی کو اسرائیلی پولیس کے پہرے میں شیخ جراح محلے کے چھ گھروں سے فلسطینی خاندانوں کو باہر نکال کر ان کا سامان پھینک دیا گیا اور ان گھروں کو ان یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا جو گزشتہ برس امریکا سے یہاں مستقل آباد ہونے کی نئیت سے پہنچے ہیں۔جب ایک فلسطینی لڑکی اپنے ہی گھر میں گھسنے والے یہودی آباد کار پر چیخی کہ ''تمہیں کیا حق ہے ہمارے باہر نکالنے کا''۔اس آبادکار نے جواب دیا '' اگر میں قبضہ نہ کرتا تو کوئی اور کر لیتا ''۔
اگرچہ بین الاقوامی قوانین کے تحت فوج کے زیرِانتظام مقبوضہ علاقوں میں قابض طاقت کا عدالتی نظام لاگو نہیں ہو سکتا۔مگر اسرائیل پر سات خون معاف ہیں۔ سپریم کورٹ تک یہ اصول تسلیم کر چکی ہے کہ یروشلم مقبؤصہ علاقہ نہیں بلکہ اسرائیل کا قانونی حصہ ہے لہذا یہاں بھی ریاستی قوانین کی عمل داری ہو گی۔
گزشتہ ماہ کی ستائیس تاریخ کو انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ہیومین رائٹس واچ نے اسرائیل کی مرحلہ وار نسل کش پالیسیوں پر پہلی بار دو سو تیرہ صفحات کی ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی۔رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پچھلے تہتر برس میں اسرائیل اپنی سلامتی کے نام پر جتنی بھی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ان کا تعلق سلامتی سے کم اور نسل پرستانہ طرزِ عمل اپنا کر ایک پوری قوم کا محاصرہ کر کے بے دخل کرنے کی کوششوں سے زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ پالیسی چار ستونوں پر کھڑی ہے۔کردار کشی ، سیاسی و سماجی علیحدگی ، مسلسل دباؤ اور بے دخلی۔
اس پالیسی کی کامیابی کے لیے کثیر سمتی اقدامات مسلسل ہیں۔یعنی زمینی حقائق بدلنے کے لیے آباد کاری کا عمل تیز تر کیا جائے۔پرانی آبادی کو قانون کی آڑ میں گھروں سے بے دخل کیا جائے۔زرعی اراضی کو ہر قانونی حیلے بہانے سے ہڑپ کیا جائے۔فلسطینی عربوں کو نئے تعمیراتی پرمٹ قطعاً جاری نہ کیے جائیں۔ان کے روزگار کو پوری طرح کنٹرول کیا جائے۔چیک پوسٹوں پر ذلت آمیز سلوک کے ذریعے عدم تحفظ و بے یقینی کی کیفیت میں رکھا جائے۔ جب ان پالیسیوں کے خلاف احتجاجی ردِعمل ہو تو بلا امتیاز تشدد ، گرفتاریوں ، ٹارچر اور ہلاکتوں کے ذریعے دبا دیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پالیسیوں کا تعلق اسرائیل کی جغرافیائی سیکیورٹی کی جائز ضروریات سے کم اور انسانی حقوق کی باضابطہ پامالی سے زیادہ ہے۔کسی بھی سیکیورٹی نظریے کی آڑ میں بنیادی حقوق پامال نہیں کیے جا سکتے۔اسرائیل ان پالیسیوں کے سبب ایک اپارتھائیڈ ریاست کی تعریف پر لگ بھگ پورا اترتا ہے۔
ہیومین رائٹس واچ کی اس کھلی رپورٹ پر امریکا نے حسبِ ِ توقع بس یہ کہا کہ '' فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے''۔مگر رپورٹ اتنی سنسنی خیز تھی کہ بی بی سی اور برطانوی اخبار گارڈین کے علاوہ امریکی چینل سی این این، اخبار نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ بھی اس کے تذکرے پر مجبور ہو گئے۔حالانکہ امریکی میڈیا بالخصوص اسرائیل پر تنقیدی آرا نشر یا شایع کرنے سے متعلق محتاط روی برتتا ہے۔
مگر سب سے زیادہ حیرت کینیڈا کے رویے پر ہے۔کینیڈا کی شہرت یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات کو نہ صرف روایتی سنجیدگی سے لیتا ہے بلکہ باضابطہ رائے بھی دیتا ہے۔چین میں شن جیانگ کے مسلمانوں کا معاملہ ہو ، کہ شام میں انسانی حقوق کی ابتری یا سعودی عرب میں انسانی حقوق کارکنوں کی حراست یا برما میں فوجی آمریت کا عوام پر تشدد یا مودی حکومت کے خلاف بھارتی کسانوں کی تحریک۔ وزیرِ اعظم جسٹسن ٹروڈو اور ان کے وزیرِ خارجہ مارک گارنو دل کی بات کھلم کھلا کہنے سے کبھی نہیں چوکتے۔
مگر اسرائیل کے بارے میں ہیومین رائٹس واچ کی بارودی رپورٹ شایع ہونے کے بعد سے سرکار چپ ہے۔ سوائے دی کینیڈین پریس وائر اور اخبار دی گلوب اینڈ میل پورے میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے۔اگر کینیڈا جیسا ملک بھی آنکھ ملانے پر تیار نہیں تو اس سے اسرائیلی لابی کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حتی کہ نرم گوشہ رکھنے والے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی یروشلم میں فلسطینوں کی بے دخلی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم ( او آئی سی )کچھ کرے۔حالانکہ او آئی سی تو اس قابل بھی نہیں کہ اپنے پاؤں کی پٹی ہی بدل سکے۔ اس پس منظر میں کینیڈا اور یورپی یونین کا رویہ دلچسپ اور معنی خیز ہے۔امریکا نے ہیومین رائٹس واچ کے اس تجزیے کو مسترد کر دیا ہے کہ اسرائیل ایک نسل پرست اپارتھائیڈ ریاست کی تعریف کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔حیرت ہے کہ جرمنی نے بھی اس رپورٹ کے بارے میں کم و بیش وہی موقف اختیار کیا ہے جو امریکا کا ہے۔وما علینا البلاغ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
کیسے ممکن ہے کہ رمضان کا مہینہ ہو اور بیت المقدس(یروشلم)سے تشدد کی اطلاعات نہ آئیں۔ اس بار بھی لیلتہ القدر اسرائیلی پولیس اور مسجدِ اقصی میں عبادت کے خواہش مند ہزاروں فلسطینوں کے درمیان جھڑپوں میں بیت گئی۔
گزشتہ دس روز سے ہونے والے ہنگاموں میں پانچ سو سے زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔زیادہ تر جواں سال ہیں مگر ان میں پندرہ برس سے کم عمر کے انتیس بچے بھی شامل ہیں۔ جو سیکڑوں فلسطینی گرفتار ہوئے ہیں ان میں بھی کم ازکم دس بچے ہیں۔زخمیوں کو اٹھانے والی ایمبولینسوں کو بھی اسرائیلی پولیس نے بار بار روکا اور طبی امداد دینے والے ایک عارضی کلینک کو بھی نقصان پہنچایا۔
ہنگامے اتنے شدید ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کو بھی تشویشی نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں اسرائیلی اہل کاروں پر زور دیا گیا ہے کہ '' وہ مشرقی یروشلم کے رہائشیوں سے نرمی اور عزت سے پیش آئیں ''۔
تازہ جھگڑا تب شروع ہوا جب یروشلم کی ایک ضلع عدالت نے گزشتہ ماہ حکم صادر کیا کہ مشرقی یروشلم کے قدیم محلے شیخ جراح میں تقریباً ستر برس سے آباد چھ فلسطینی پناہ گزین کنبے یکم مئی تک گھر خالی کر دیں تاکہ ان میں یہودی آبادکاروں کو بسایا جا سکے۔سات دیگر خاندانوں کو گھر خالی کرنے کے لیے یکم اگست تک مہلت دی گئی ہے۔اس حکم پر عمل درآمد کے نتیجے میں سترہ بچوں سمیت اٹھاون فلسطینی چھت سے محروم ہو جائیں گے۔
یہ سب اچانک نہیں ہوا۔بلکہ انیس سو تہتر میں وزیرِ اعظم گولڈا مائر کی کابینہ کے اس فیصلے کے مطابق ہے جس کے تحت مقبوضہ یروشلم میں نوے فیصد عرب آبادی کو مرحلہ وار بے دخل کر کے شہر میں آبادی کا تناسب ستر تیس کرنا ہے۔یعنی ستر فیصد یہودی اور تیس فیصد فلسطینی عرب۔
فلسطینی مشرقی یروشلم کو مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت سمجھتے ہیں جب کہ اسرائیل پورے یروشلم کا دعویدار ہے۔چنانچہ انیس سو سڑسٹھ میں فوجی قبضے کے بعد سے یروشلم کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے اب تک دو لاکھ یہودی بسائے جا چکے ہیں۔ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینوں کو طرح طرح کے قانونی حیلوں کے ذریعے باہر دھکیلا جا چکا ہے اور شہر میں ان کے دوبارہ بسنے پر قانونی پابندی ہے۔
گزشتہ برس مشرقی یروشلم میں یہودیوں کے لیے مزید ساڑھے چار ہزار نئے گھر تعمیر کیے گئے۔ اسی عرصے میں پرانے شہر میں ایک سو پانچ گھروں سمیت ایک سو ستر فلسطینی املاک منہدم کی گئیں۔یوں مزید تین سو پچاسی فلسطینی بے گھر ہو گئے۔
اپریل کے وسط میں نئی بے دخلی کا ماحول بنانے کے لیے کٹر قوم پرست یہودی گروہوں نے پرانے شہر میں گشت شروع کر دیا اور پولیس کی موجودگی میں فلسطینی باشندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تاکہ خوف و ہراس کی فضا میں اگلے مرحلے کی راہ ہموار ہو سکے۔
یکم مئی کو اسرائیلی پولیس کے پہرے میں شیخ جراح محلے کے چھ گھروں سے فلسطینی خاندانوں کو باہر نکال کر ان کا سامان پھینک دیا گیا اور ان گھروں کو ان یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا جو گزشتہ برس امریکا سے یہاں مستقل آباد ہونے کی نئیت سے پہنچے ہیں۔جب ایک فلسطینی لڑکی اپنے ہی گھر میں گھسنے والے یہودی آباد کار پر چیخی کہ ''تمہیں کیا حق ہے ہمارے باہر نکالنے کا''۔اس آبادکار نے جواب دیا '' اگر میں قبضہ نہ کرتا تو کوئی اور کر لیتا ''۔
اگرچہ بین الاقوامی قوانین کے تحت فوج کے زیرِانتظام مقبوضہ علاقوں میں قابض طاقت کا عدالتی نظام لاگو نہیں ہو سکتا۔مگر اسرائیل پر سات خون معاف ہیں۔ سپریم کورٹ تک یہ اصول تسلیم کر چکی ہے کہ یروشلم مقبؤصہ علاقہ نہیں بلکہ اسرائیل کا قانونی حصہ ہے لہذا یہاں بھی ریاستی قوانین کی عمل داری ہو گی۔
گزشتہ ماہ کی ستائیس تاریخ کو انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ہیومین رائٹس واچ نے اسرائیل کی مرحلہ وار نسل کش پالیسیوں پر پہلی بار دو سو تیرہ صفحات کی ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی۔رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پچھلے تہتر برس میں اسرائیل اپنی سلامتی کے نام پر جتنی بھی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ان کا تعلق سلامتی سے کم اور نسل پرستانہ طرزِ عمل اپنا کر ایک پوری قوم کا محاصرہ کر کے بے دخل کرنے کی کوششوں سے زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ پالیسی چار ستونوں پر کھڑی ہے۔کردار کشی ، سیاسی و سماجی علیحدگی ، مسلسل دباؤ اور بے دخلی۔
اس پالیسی کی کامیابی کے لیے کثیر سمتی اقدامات مسلسل ہیں۔یعنی زمینی حقائق بدلنے کے لیے آباد کاری کا عمل تیز تر کیا جائے۔پرانی آبادی کو قانون کی آڑ میں گھروں سے بے دخل کیا جائے۔زرعی اراضی کو ہر قانونی حیلے بہانے سے ہڑپ کیا جائے۔فلسطینی عربوں کو نئے تعمیراتی پرمٹ قطعاً جاری نہ کیے جائیں۔ان کے روزگار کو پوری طرح کنٹرول کیا جائے۔چیک پوسٹوں پر ذلت آمیز سلوک کے ذریعے عدم تحفظ و بے یقینی کی کیفیت میں رکھا جائے۔ جب ان پالیسیوں کے خلاف احتجاجی ردِعمل ہو تو بلا امتیاز تشدد ، گرفتاریوں ، ٹارچر اور ہلاکتوں کے ذریعے دبا دیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پالیسیوں کا تعلق اسرائیل کی جغرافیائی سیکیورٹی کی جائز ضروریات سے کم اور انسانی حقوق کی باضابطہ پامالی سے زیادہ ہے۔کسی بھی سیکیورٹی نظریے کی آڑ میں بنیادی حقوق پامال نہیں کیے جا سکتے۔اسرائیل ان پالیسیوں کے سبب ایک اپارتھائیڈ ریاست کی تعریف پر لگ بھگ پورا اترتا ہے۔
ہیومین رائٹس واچ کی اس کھلی رپورٹ پر امریکا نے حسبِ ِ توقع بس یہ کہا کہ '' فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے''۔مگر رپورٹ اتنی سنسنی خیز تھی کہ بی بی سی اور برطانوی اخبار گارڈین کے علاوہ امریکی چینل سی این این، اخبار نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ بھی اس کے تذکرے پر مجبور ہو گئے۔حالانکہ امریکی میڈیا بالخصوص اسرائیل پر تنقیدی آرا نشر یا شایع کرنے سے متعلق محتاط روی برتتا ہے۔
مگر سب سے زیادہ حیرت کینیڈا کے رویے پر ہے۔کینیڈا کی شہرت یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات کو نہ صرف روایتی سنجیدگی سے لیتا ہے بلکہ باضابطہ رائے بھی دیتا ہے۔چین میں شن جیانگ کے مسلمانوں کا معاملہ ہو ، کہ شام میں انسانی حقوق کی ابتری یا سعودی عرب میں انسانی حقوق کارکنوں کی حراست یا برما میں فوجی آمریت کا عوام پر تشدد یا مودی حکومت کے خلاف بھارتی کسانوں کی تحریک۔ وزیرِ اعظم جسٹسن ٹروڈو اور ان کے وزیرِ خارجہ مارک گارنو دل کی بات کھلم کھلا کہنے سے کبھی نہیں چوکتے۔
مگر اسرائیل کے بارے میں ہیومین رائٹس واچ کی بارودی رپورٹ شایع ہونے کے بعد سے سرکار چپ ہے۔ سوائے دی کینیڈین پریس وائر اور اخبار دی گلوب اینڈ میل پورے میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے۔اگر کینیڈا جیسا ملک بھی آنکھ ملانے پر تیار نہیں تو اس سے اسرائیلی لابی کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حتی کہ نرم گوشہ رکھنے والے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی یروشلم میں فلسطینوں کی بے دخلی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم ( او آئی سی )کچھ کرے۔حالانکہ او آئی سی تو اس قابل بھی نہیں کہ اپنے پاؤں کی پٹی ہی بدل سکے۔ اس پس منظر میں کینیڈا اور یورپی یونین کا رویہ دلچسپ اور معنی خیز ہے۔امریکا نے ہیومین رائٹس واچ کے اس تجزیے کو مسترد کر دیا ہے کہ اسرائیل ایک نسل پرست اپارتھائیڈ ریاست کی تعریف کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔حیرت ہے کہ جرمنی نے بھی اس رپورٹ کے بارے میں کم و بیش وہی موقف اختیار کیا ہے جو امریکا کا ہے۔وما علینا البلاغ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)