سردار عثمان بزدار سے مکالمہ

سردار عثمان بزدار سے ملاقات میں مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ان کے جانے کی خبروں میں فی الحال کوئی صداقت نہیں ہے۔


[email protected]

ISLAMABAD: سردار عثمان بزدار سے بہت عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے ملتے ہی پوچھا کہ آپ کے جانے کی بہت خبریں ہیں۔ لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آپ سے استعفیٰ لے لیا گیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ بس آپ کو آخری تین ماہ کا نوٹس دے دیا گیا ہے۔

کہانی کیا ہے؟ کب جا رہے ہیں؟ اس پر وہ مسکرائے اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہنے لگے، مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب ایسی خبریں پھیلتی ہیں، کوئی تحقیق ہی نہیں کرتا۔ کسی نے مجھ سے رابطہ کرکے تصدیق تک نہیں کی۔

میرا سوال تھا کہ چلیں، اب میں نے پوچھ لیا ہے تو حقیقت بتا دیں۔ پھر وہ بولے کہ آج تک مجھے کسی نے کبھی مستعفی ہونے کے لیے نہیں کہا نہ کسی کو اپنا استعفی دے رکھا ہے۔ آج تک کبھی کسی محفل، کسی اجلاس میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ البتہ افواہیں ضرور پھیلتی رہتی ہیں، تین ماہ کے نوٹس کی بھی ساری کہانی فرضی ہے۔

ویسے تین ماہ کے نوٹس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر عمران خان کہیں تو میں فوری استعفیٰ دے دوں۔ تین ماہ کے انتظار کی کیا ضرورت ہے۔ عمران خان میرا لیڈر وہ مجھے اشارہ بھی کرے گا تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ ان کا موقف ہے کہ ان کے جانے کی باتیں ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے دن سے شروع ہوگئی تھیں۔ پہلے کہا گیا کہ وہ صرف تین ماہ کے لیے آئے ہیں۔ پھر ہر تین ماہ بعد کہا جاتا ہے کہ وہ اگلے تین ماہ میں چلے جائیں گے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پچھلے تین ماہ کی پیش گوئی کا کیا ہوا۔ یہ کوئی اچھی روش نہیں ہے۔ ایسی خبروں کی تردید اور وضاحت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے، بس اپنا کام کرنا چاہیے۔ وہ ایسی خبروں سے اپنا کام مزید بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو منفی لینے کے بجائے مثبت لیتے ہیں۔

میں نے سوال کیا کہ سننے میں آرہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ آپ کو پسند نہیں کرتی۔ وہ آپ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا جیسے استعفوں اور تین ماہ کے نوٹس والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، ایسے ہی ان خبروں اور تجزیوں میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ان سے اسٹبلشمنٹ کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں جہاں ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے وہاں مل کر کام کرتے ہیں۔ کورونا میں بھی ساتھ مل کر تعاون کیا ہے۔انھیں کبھی ایسے نہیں لگا کہ ان کو مجھ سے کوئی مسئلہ ہے۔ بلکہ بہت اچھی ورکنگ ریلشن شپ ہے۔ سردار عثمان بزدارپریقین ہیں کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔

وزیراعظم سے سیاسی ماحول اور سیاسی حکمت عملی پر بات ہوتی رہتی ہے۔ اسمبلیاں توڑنے کی بات اس تناظر میں ہے کہ اگر عوام کی خدمت کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی توعمران خان ماضی کے حکمرانوں کی طرح اقتدار سے نہیں چمٹے رہیں گے۔ وہ عوام کی خدمت کے لیے اقتدار میں آئے ہیں۔ اس لیے غریب عوام کی خدمت کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ویسے اسمبلیاں توڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں نے پوچھا، آپ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔ آپ عوام کی خدمت میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کہا، نہیں مجھے آج تک عوام کی خدمت میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئی ہے۔

میں نے کہا، ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ آپ کے کام میں اسلام آباد کی بہت مداخلت ہے۔ پنجاب کو اسلام آباد سے چلانے کی بہت کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا یہ تاثر بھی درست نہیں ہے۔ گیارہ کروڑ سے زائد کی آبادی کے صوبے کو اسلام آباد سے ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلایا جا سکتا۔

میں نے کہا آجکل منصوبوں کے افتتاح پر بہت زور ہے۔ آپ بھی منصوبوں کے افتتاح کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم بھی مسلسل پنجاب آرہے ہیں اور مختلف منصوبوں کے افتتاح کر رہے ہیں۔ ایسا تو آخری سال میں کیا جاتا ہے۔ جب ملک میں انتخابی مہم شروع ہو گئی ہو۔یہ انتخابی مہم لگ رہی ہے۔ افتتاح پر افتتاح اشارہ دے رہے ہیں کہیں نہ کہیں قبل ازوقت انتخابات کی سوچ موجود ہے۔ انھوں نے کہا یہ آپ کی سوچ ہو سکتی ہے۔ ہماری نہیں۔ ہمارے پاس تو ابھی بھی اتنے منصوبے موجود ہیں کہ وزیر اعظم کے پاس ان کے افتتاح کا وقت ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا جہانگیر ترین گروپ آپ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس میں تو آپ کی کابینہ کے ارکان بھی چلے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا نہیں ترین گروپ ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ان سے تحریک انصاف کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ تحریک انصاف کے سینئر لیڈر ہیں۔ ان سے ہمیں کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ جہاں تک ان کے گروپ کے ارکان کا تعلق ہے وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ میں نے کہا آپ اپوزیشن کے ارکان سے بہت ملاقاتیں کرتے ہیں۔ آپ اپوزیشن کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ کیا میں نے اپوزیشن کے کسی رکن کو پارٹی تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ کیا کسی کو پارٹی پالیسی سے بغاوت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ میرے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔سب کے جائز کام کرتے ہیں۔ اگر میں اپوزیشن کے ارکان کے کام کرتا ہوں تو یہ اچھی بات ہے یا بری بات۔ اعتراض کی بات تو تب ہے جب میں اپوزیشن کے ارکان کے کام نہ کروں۔ جیسے ماضی میںکیاجاتا رہا۔

سردار عثمان بزدار سے ملاقات میں مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ان کے جانے کی خبروں میں فی الحال کوئی صداقت نہیں ہے۔نہ انھوں نے مستعفی ہونے کی کوئی پیشکش کی ہے اور نہ ہی تین ماہ کے نوٹس میں کوئی حقیقت ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ عمران خان موجودہ سیاسی صورتحال میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پنجاب کے سیاسی معاملات سے چھیڑ چھاڑ تحریک انصاف کے لیے زہر قاتل بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے عثمان بزدار بہت محفوظ ہیں۔تاہم اس سارے منظر نامہ پر ان سے بات چیت بھی ضروری تھی۔ اس لیے لکھ دی ہے تا کہ ریکارڈ پر رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں